رسم و رواج کی زنجیروں میں لپٹی وہ ایک سرکش و باغی لڑکی تھی۔ وہ انہی پہاڑوں کی طرح سخت تھی۔ انہی موسموں کی طرح اس کا مزاج بھی سرد تھا۔ وہ بھاگنا چاہتی تھی۔ وہ ان زنجیروں سے آزاد ہونا چاہتی تھی۔ وہ شہزادیوں سا حسن رکھتی تھی۔ اس کی بھوری آنکھیں بڑی گہرائی لیے ہوئے تھیں۔ وہ آنکھیں اتنی دل کش تھیں کہ ان میں اگر کوئی ایک بار بھی دیکھ لیتا تو خود کو ان کا اسیر ہونے سے روک نا پاتا تھا۔ اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔! وہ زندگی سے بے پرواہ لڑکا۔۔ جو نا محبت پر یقین رکھتا تھا نا عشق پر ایمان لاتا تھا۔ وہی سب سے پہلے ان بھوری آنکھوں کا اسیر ہوا تھا اور ایسا اسیر ہوا تھا کہ ان آنکھوں کی گہرائی میں اس کا پور پور ڈوب گیا تھا۔۔ وہ انہیں آنکھوں کے پیچھے عشق کا سفر طے کر گیا تھا۔۔ وہ اس لاحاصل عشق میں منزل کی چاہ کیے بغیر بہت آگے بڑھ گیا تھا۔۔ اتنا آگے کے اس کا یہ عشق مجازی اسے حقیقی عشق سے ملا گیا تھا۔۔All Rights Reserved