خط اسلئے تو نہیں لکھتے کہ اسکا جواب آئے گا غالب وہ ٹھہرے ہیں ہمارے رفیق اک عمر کبھی تو انہیں بھی خیال آئے گا شوخی طبیعت کی گرمی لہجے کی میری امیدوں کو کبھی نہ زوال آئے گا اب کے آئی ہے بہار تو انہیں آنا ہو گا اب بھی نہ آئیں تو ان کا خیال آئے گا سوالوں پہ سوال جسکا نہ کوئی جواب جواب نہ ہو گا تو پھر سے سوال آئے گا میں جو دعاؤں کے چراغ جلائے بیٹھی ہوں امید سے ہوں کہ اب روزِ حساب آئے گا آپ خوش رہیں آباد رہیں شاد رہیں دعا ہے عینی کی آپ کو نہ ملال آئے گا دل شکستہ ہو بھی جاؤں میں رو کے سو بھی جاؤں کب سے آتا ہے اور اب بھی آپ کا ہی خواب آئے گا