تمناؤں سے آگے ویران زندگی ہی رہ گئ ہے اب یاد اور بس یاد ہی رہ گئ ہے جو کبھی شوخی تھی مزاج میں یا تھی کبھی خوش مزاج میں وہ بات ہاں وہ بات کہیں پیچھے رہ گئ ہے اب یاد اور بس یاد ہی رہ گئ ہے انہیں دیکھے بغیر گزارہ نہ ہوتا تھا حسین منظر کا نظارہ نہ ہوتا تھا آواز سے ان کی ہر چیز کا پتا لگا لیتے تھے ان کا دکھ کبھی گوارہ نہ ہوتا تھا وہ حس کہیں دور ہی رہ گئ ہے اب یاد اور بس یاد ہی رہ گئ ہے انہیں بتانا بہت خوش اور بہت خوش ہیں ہم انہیں کبھی نہ بتانا کھا گیا ہے ہمیں اندر سے یہ غم اب یاد اور بس یاد ہی رہ گئ ہے ہاں اب بس یہ فریاد ہی رہ گئ ہے..... ( از قلم کلثوم اعظم)