زندگی کیا واقعی وقت کو دہراتی ہے ؟میں نے کیا صفا کے ساتھ اتنا برا کیا؟ کیا میں یہ ہی desrve کرتا ہوں ؟ سوچوں کی منطق حیدر کی دماغ میں گاڑی کی طرح چل رہی تھیں مگر بلقیس بی بلکل ٹھیک کھا کرتی تھی شاید کے بیٹا تم اپنی جوانی میں تم اپنی اولاد کا مستقبل بنا رہے ہوتے ہو وقت اپنا ادھار نہیں رکھتا اسے چکانا ہی پڑتا ہے پھر چاہے کتنے معصوم لوگو اسکی زد میں لپٹ جایئں گاڑی کو ڈرائیو کرتے ہوۓ حیدر دماغی طور پر کہیں اور تھا اسے دادی ماں کی باتیں یاد آرہی تھیں جو دادی اسے اکثر کہا کرتی تھیں جب وہ لڑکی ذات کو کھلونے کے سوا کچھ نہیں سمجھتا تھا دلوں سے کھیلنا اور پھر اس سے لطف لینا حیدر کو مزہ دیتا تھا زارا ؛ حنا ؛ الوینا ؛ کتنی لڑکیاں کتنی معصوم محبتوں سے دل لگی کی شادی کے نام پر ہتھے سے اکھڑ جانا شادی میں اس سے کرونگا جس کو کسی مرد نے دیکھا نہ ہو . تم بس enjoy کرو بےبی یہ دن بس اچھا وقت گزارنے کے لئے ہوتے ہیں شادی کے لئے نہیں اور اسے سامنے کھڑی لڑکی کے جذبات کی انكے آنسوؤں کی پرواہ تک نہیں ہوتی تھی مگر آج 45 سالہ حیدر کو اپنی معصوم بیٹی ردا میں ہر لڑکی کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا تھا ۔ جس کی بارات عین شادی والے دن لوٹ گئی صرف اس لئے کے ردا کا جہیز کم لگا تھا اور حیدر لاچار باپ تھا بارات کی واپسی اک لڑکی کے لئے سارے دروازے بند کردیتی ہے کمرے میں قید ردا کی سیسكیياں حیدر سے چھپ تو نہیں سکتی تھیں۔ میری گناہ کی سزا میری معصوم بیٹی کو مل رہی ہے حیدر دکھ کی اتھاہ گہرائی میں ڈوب جاتا وقت خود کو دہرا رہا تھا ۔ وقت کا طمانچہ اتنی زور سے لگا تھا کے حیدر کی روح تک کانپ گئی حیدر جائے نماز پر بیٹھا خدا کے سامنے روتا گڑگڑاتا مگر دل کو سکوں میسر نہ ہوتا بیٹا یہ تیرے رب کا معاملہ نہیں یہ تیرے بندے کا معاملہ ہے جب تک بندہ معاف نہیں کرتا رب بھی معاف نہیں کرتا بلقیس با نو غم سے نڈھال حیدر کو کہتی در در بھٹکتا حیدر ان انسانوں کو تلاش کرتا جن کے جسموں کو کھلونا سمجھتا تھا جنکے جذبات کو ڈرامہ سمجھ کر مكهی کے پر کی طرح اڑا دیتا تھا مگر حیدر کی تلاش کا سفر کب ختم ہوگا؟ اک سوچ یہ بس اڑ کر رہ گئی
1 part