زخم کو ضد تھی مسیحائی سے
قسط نمبر 7
از میرب۔ میر علی بلوچ
-------------------------
برائے مہربانی بغیر اجازت کاپی پیسٹ کرنا منع ہے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جاے گا-------------------------تین دن پہلے وہ اجڑی حالت میں گھر پہنچی تھی
اور تین ہی دن سے کمرے میں بند تھی
رمیز صاحب میں کسی حد تک رکھ رکھاو تھا
یہ انہی کی کوشش تھی کہ گھر کے سب لوگ روز نا سہی لیکن دوسرے تیسرے دن لازمی ایک وقت کا کھانا اکھٹے کھاتے تھے
وہ بھی ایک عام سا دن تھا آج سب لوگ ناشتے پر اکھٹے ہوئے تھے
رمیز صاحب کو بختاور کی غیر موجودگی کافی سے زیادہ محسوس ہوئیبخت کو نہیں دیکھا کتنے دن سے کہاں ہوتی ہے
انہوں نے پاس بیٹھی صفیہ بیگم سے استفسار کیا جو صبح ہی صبح گہرے گلے اور بیک لیس تیز گلابی ساڑھی پہنے نفاست سے سینڈوچ کھا رہی تھیں
شاید اسکے پیپر شروع ہونے والے ہیں اسی لیے اسٹڈیز میں بزی ہوگی
آپکو تو پتا ہے میری بیٹی ہر سال ٹاپ کرتی ہے
صفیہ بیگم کا جواب جواب کم اور اطلاع زیادہ تھیرشیدہ بخت بیٹی کو بلا کر لاؤ
رمیز صاحب نے رخ موڑ کر نوکرانی کو آواز دی پھر صفیہ بیگم کی طرف متوجہ ہوگئےہاں یہ تو ہے آپکے نکمے بیٹوں سے کئی گناہ ذہین اور سمجھدار ہے میری بیٹی
بیگم صاحبہ
والدین اولاد کے بارے میں غرور اور اعتماد کے ساتھ بات کرتے اچھے لگتے ہیں
بیٹیوں کے معاملے میں لفظ شاید استعمال نہیں کیا جاتا
صفیہ بیگم کو خود سے زیادہ بیٹوں کو نکما کہنا برا لگا تھا جبھی تیز آواز میں بولیں
والدین میں دونوں فریق شامل ہوتے ہیں میں اچھی ماں نہیں آپ ہی اچھے باپ بن جائیں نا
ارے ہاہاہاہا
آپ تو ناراض ہوگئیںمیں تو بس اتنا کہہ رہا تھا بچے خاص طور پر بیٹیاں چکنی مٹی جیسی ہوتی ہیں ماں باپ بلکہ مائیں کسی کمہار کی طرح محبت اور توجہ کے چاک پر انہیں سنوارتی ہیں کبھی نرم ہاتھوں کی جنبش کبھی سخت رویوں کی تپش سے انکو پکا کر مبضوط بناتی ہیں
رمیز صاحب یہ آپکی پڑھی لکھی باتیں مجھ کم عقل کو کہاں سمجھ آئیں گی صفیہ بیگم نے انہیں بیچ میں ٹوک دیا
دونوں بیٹے بحث شروع ہوتے ہی کھسک گئے تھے
ویسے بھی آپ کا جی چاہے تو بچوں کو پکڑ کر قید کردیں
انکی بھی زندگی ہے کوئی پرائیویسی ہے جینے دیں بھئی
اب کمہاروں کے چاک کا زمانہ نہیں رہا نئے دور کے بچے خود کو ماں باپ سے زیادہ اچھا سنوار سکتے ہیں
ایسا نہیں ہوتا بیگم صاحبہگزر چکے موجودہ اور آنے والے ہر دور میں بچوں کو ماں باپ کی توجہ انکی محبت کی ضرورت رہے گی
اور ایک بات یاد رکھئیے گا
جیسے ناتجربہ کاری بے توجہی سے بنے برتن موسموں کی تبدیلی برداشت نہیں کرسکتے ہلکی سی ٹھوکر لگنے پر ٹوٹ جاتے ہیں
ٹھیک اسی طرح جن بیٹیوں کو ماؤں کی توجہ نہیں ملتی وہ بیٹیاں کھلونوں میں ڈھل جاتی ہیں
یہ تو آپ جانتی ہی ہوں گی
مسز رمیز کہ کھلونے یا کھیلنے کے لیے ہوتے یا ٹوٹنے کے لیے ٹکروں میں بٹے کلھونے تو شاید جڑ جاتے ہوں ٹوت کر کرچی کرچی ہوئی بیٹیاں سنبھل نہیں پاتیں