عشق کا رنگ کالاہے!
کیونکہ اللہ کے غلاف کا رنگ کالا ہے۔ ایک ایسا رنگ جو کسی دوسرے رنگ میں نہیں رنگتالیکن دوسروں کو اپنے رنگ میں ضرور رنگ لیتا ہے۔کالا رنگ سکون کی علامت ہے اسی لیے اللہ نے آسمان کو بھی روز کچھ گھنٹے کالی چادر اوڑھنے کے لیے دے دی تا کہ اس کی کائنات اس چادر کے سکون میں آرام کر لے۔ لیکن اللہ کے کچھ سرکش بندے آسمان کی سیاہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسروں کا آرام تباہ کرنے کے لیے نکل پڑے تھے۔
شہر کے ایک امیر ترین آدمی کی کوٹھی کے گرد ایک چار دیواری بنی ہوئی تھی۔ جہاں تین نقاب پوش لڑکے عقب والی دیوار کے پاس کھڑے تھے۔ پہلے سربراہ ایک دیوار پر چڑھ کے دوسری طرف کودا اور اس نے میاؤں کی آواز نکال کے سب ٹھیک ہونے کا اشارہ دیا۔ وہ دونوں بھی باری باری دیوار پر چڑھے اور احتیاط سے ایسے نیچے چھلانگ لگائی جس سے آواز کم سے کم پیدا ہو۔ دبے قدموں وہ آگے بڑھنے لگے اور اندرونی دروازے کے پاس جا کے رک گئے۔ دو پیچھے ہی دیوار کے ساتھ لگ کے کھڑے ہو گئے۔ اورسربراہ جیب سے کوئی باریک سے چیز نکال کربہت مہارت سے دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ جیسے ہی کلک کی آواز آئی اس نے گردن موڑ کے آگے والے کی طرف دیکھ کر آنکھوں سے باہر والے گیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ سر ہلا کے وہاں سے چلاگیا۔ اس کا کام گیٹ کے باہر کی طرف بیٹھے ہوئے چوکیدار کو بیہوشی کا انجیکشن لگا کے آنا تھا۔ باقی دو نوں نے مل کے سب سے پہلے مین سرکٹ ڈھونڈ کے بجلی کا کنیکشن ختم کیا اور پھر انہوں نے اتنی ہی خاموشی سے بنا کسی کو نقصان پہنچائے بس بیہوشی کے انجیکشن لگا کے تجوری سے ساری رقم نکالی۔ وہ بس کوئی ایک دو لاکھ کی رقم تھی انہیں افسوس ہوا۔ لیکن غلطی ان کی اپنی ہی تھی اب کہاں لوگ گھروں میں ساری رقم رکھتے ہیں اب تو ہر کسی کا بینک اکاؤنٹ بنا ہوتا ہے۔ اسی پر اکتفا کرتے ہوئے بنا کوئی نشان چھوڑے وہ اسی طرح پچھلی دیوار سے کود کے وہاں سے کافی فاصلے پر کھڑی اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کے فرار ہو گئے۔
اپنے ٹھکانے پر پہنچ کے جب ان کے سربراہ نے لوٹی ہوئی رقم نکال کر اوپر اچھالتے ہوئے اپنا نقاب اتارا تو وہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ شہر کی عزت دار اور مشہور شخصیت چوہدری زیان مصطفی کا بیٹا ”صارم“ تھا۔ وہ نوٹ کسی معمولی چیز کی طرح اس کے قدموں میں گرنے لگے تھے۔ انہی نوٹوں پر قدم رکھتا وہ آگے بڑھ گیااسے فی الحال اپنے اس کامیاب ایڈوینچر نے خوش کر دیا تھا۔ اس کے دونوں ساتھی بھوکوں کی طرح زمین سے وہ نوٹ چننے لگے۔
٭……٭……٭
روشنیوں میں نہائے اس بڑے سے ہال میں گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے ان کے دوست
بے تابی سے اس حسن جاناں کی جھلک دیکھنے کے لیے ایک ایک منٹ گن کے گزار رہے تھے،سوائے علی کے جو بار بار اپنے دوستوں سے الجھ رہے تھے کہ وہ انہیں کس جگہ پر لے آئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ ان سے اپنا بازو چھڑوا کے وہاں سے اٹھ کے جاتے، اچانک چھا جانے والے اندھیرے نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ عین اسی لمحے ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ایک آواز گونجی۔
”حضور دل تھام کر بیٹھ جائیے، اپنے حسن کی بجلیاں گرانے کے لیے پہلی دفعہ اس محفل میں دلربا تشریف لا رہی ہیں۔“
ایک مترنم ہنسی کی آواز نے ان کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ گھنگھروؤں کی چھن چھن نے ایک دھن چھیڑ دی۔ جسے سنتے ہی سب اپنی جگہ پر دل تھام کے بیٹھ گئے۔ جیسے ہی وہ آواز رکی سارا ہال موم بتیوں کی مدھم روشنیوں سے جگمگا اُٹھا۔ تب انہوں نے دیکھا کہ ان کے بالکل سامنے ایک لڑکی سفید فراک پہنے دوپٹے سے اپنے آدھے چہرے کو ڈھانپ کے یوں بیٹھی تھی کہ اس کے بس سرخ ہونٹ دکھائی دے رہے تھے۔ اچانک اس نے اپنا دوپٹہ پیچھے گرا دیا۔ انہیں ایسے لگا جیسے چاند زمین پر اتر آیا ہو۔ وہ اسے دیکھنے میں محو تھے جب اس پری پیکر نے اپنی نظریں اُٹھا کے ان کی طرف دیکھا، انہیں یوں لگا جیسے کائنات کی ہر چیز یہیں رک گئی ہو۔ ابھی تو کہانی شروع ہوئی تھی کہ اس کے لبوں نے فضا میں اپنا جادو بکھیرنا شروع کر دیا۔
ان آنکھوں کی مستی کے
مستانے ہزاروں ہیں
مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ
افسانے ہزاروں ہیں
ا ن آنکھوں کی مستی کے
اتنی سریلی آواز انہوں نے آج تک نہیں سنی تھی۔ فضا میں بانسری اور وائلن کی دھن گونجنے لگی۔ شائستگی سے خم کھاتی ہوئی ہتھیلیوں کی پر اعتمادجنبش کے ساتھ اس نوجوان رقاصہ نے اپنے پیروں کو رقص گاہ کے فرش پر کچھ یوں دھرا جیسے وہ ہر طرح کے جبر اور تعصب کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو۔ اور وہ ظالم سب دیوانوں کو چھوڑ کر آج صرف انہیں اپنی نظروں کے حصار میں لیے ہوئے گھائل کرتی جا رہی تھی۔
اک تم ہی نہیں تنہا
الفت میں میری رسوا
اس شہر میں تم جیسے
دیوانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں کی مستی کے
مستانے ہزارو ں ہیں
وہ آگ جیسی نہیں تھی جو سب کچھ جلا دیتی، وہ میٹھے پانی کی چھاگل تھی جس نے ان کے اندر لگی ہر آگ کو شانت کر ڈالا تھا۔اس کی آواز کے سامنے تو بڑے بڑے گلوکار بھی مات کھاتے نظر آتے تھے۔
اک صرف ہمی مے کو
اک صرف ہمی،
اک صرف ہمی مے کو
آنکھوں سے پلاتے ہیں
کہنے کو تو دنیا میں
میخانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں کی مستی کے
مستانے ہزاروں ہیں
جیسے ہی اس نے اپنا رقص مکمل کیا وہ ان کے قدموں میں آ گری۔ جھٹکے سے اپنا سر اٹھا کے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ اٹھا کے ماتھے تک لے جاتے ہوئے انہیں یوں دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو۔”کیوں حضور؟ پھر آپ بھی ہو گئے نا گھائل؟“ اس کی نظروں کا مفہوم پڑھتے ہوئے وہاں بیٹھے پہلی دفعہ ان کے لبوں پر مسکراہٹ مچل گئی۔
٭……٭……٭
شہر سے کچھ فاصلے پربننے والے ایک ٹاؤن میں کہیں کہیں پر تعمیرات کا کام شروع تھا۔ وہیں ایک زیرتعمیر گھر میں ایک کمرہ کسی آفس کی طرح سیٹ کیا گیا تھا۔ لیکن وہ کوئی عام کمرہ نہیں تھا۔ وہ ایک بڑا سا ساؤنڈ پروف میٹنگ روم تھا۔جس کے درمیان میں ایک لمبے سے شیشے کے میز کے گرد صوفہ نما کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔یہ کوئی رات کے چار بجے کا وقت ہے۔ اسی میٹنگ روم میں سربراہی کرسی پر بیٹھے شخص کی پشت دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی چوڑی پشت سے ہی اس کی پرسنالٹی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا ہوا ہے جہاں وہ پچھلے چار گھنٹوں سے بیٹھا مسلسل کام کر رہا ہے۔ اس کے سامنے میز پر دائیں طرف ایک ایش ٹرے رکھی ہوئی ہے جہاں سگریٹوں کے چھوٹے چھوٹے جلے ہوئے ٹکڑے موجود ہیں اور ساتھ میں برینڈڈ سگریٹ مارلبوروکی ڈبی موجود ہے جس سے بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ ایک عادی سگریٹ نوش ہے۔ چار گھنٹے گزرنے کے بعد بالآخر اسے تھکن کا احساس ہو ہی گیا تھا۔ لیپ ٹاپ سے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کے سر کے پیچھے لے جا کر اس نے ذرا کی ذرا آنکھیں بند کرتے ایک بھرپورانگڑائی لی۔
بس اسی وقت اس کی بند آنکھوں کے اندر کسی موم کی گڑیا جیسی تصویر لہرائی تھی۔ جس نے اس کے دل کو گدگدایا تھا۔ ایسے جیسے تصویر آنکھوں میں نہیں دل میں ہو۔جو دھیرے دھیرے دھڑکتی ہوئی، سطح دل پر ابھرتی ہوئی۔ اس سے پوچھے بنا اس کے لب چھونے لگی ہو۔
اس نے یوں پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور اپنے ہاتھ نیچے گرالیے جیسے کوئی سچ میں اس کے لبوں کو چھونے لگا ہو۔ اس کی اس حرکت پر اس میٹنگ ہال کی فضا کھلکھلائی تھی۔کیونکہ اس کے ماتھے پر واضح پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے تھے۔ جنہیں صاف کرنے کے لیے اس نے بائیں طرف رکھے ٹشو باکس میں سے اکٹھے دو تین ٹشو نکال کر اپنا پسینہ صاف کیا۔ اس جیسا انسان جو بڑے سے بڑے دشمن سے بھی نہیں ڈرتا تھا اس کو یہ چھوٹا سا خیال گد گد ا دیتا تھا، ڈرا دیتا تھا۔ یوں لگا جیسے فضا کی ہنسی کی آواز اسے بھی سنائی دے گئی ہے۔ اس کے بائیں گال پر مسکراہٹ ابھری تھی اس مسکراہٹ سے وہاں ایک بھنور بنا تھا۔ اس بھنور میں نجانے کتنوں کا دل ڈوبا تھا۔ ”یار“ کہتے ہوئے اس نے لیپ ٹاپ کی سکرین گرا دی۔ اب کہاں اس سے کوئی کام ہونا تھا۔ وہ جب بھی آتی تھی اسی طرح اس کی ہر چیز پر قابض ہو جاتی تھی۔ پھر وہ کسی کام کا نہیں رہتا تھا۔ وہ کرسی سے اٹھ گیا کرسی کی پشت پر رکھا اپنا کوٹ اٹھا کے اس میں سے موبائل نکالا۔ جہاں چار بج کر تیس منٹ ہو رہے تھے۔ نماز کا وقت ہونے والا تھا۔ موبائل دوبارہ جیب میں رکھتے بائیں بازو پر کوٹ رکھتے اپنی کرسی کے پیچھے والی دیوار کی طرف قدم اٹھانے لگا۔ دس قدم اٹھا کے وہ رک گیا۔ دیوار پر ایک جگہ پر اس نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر رکھی وہاں اس کے ہاتھ کے نشان پر سبز روشنی ابھری اور وہ دیوار دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ وہاں ایک دروازہ دکھائی دینے لگا جس کے ایک طرف گنتی کا ایک بورڈ بنا ہوا تھا اس نے وہاں کچھ نمبر ملائے اور وہ دروازہ بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس کے اندر داخل ہونے پر پیچھے دیوار اور دروازہ خودبخود بند ہو گئے۔ وہ ہال سے بڑاایک خوبصورت کمرہ تھا جہاں بستر سے لے کر فریج تک ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ وہ اٹیچڈ غسل خانے میں گیا وضو کیا، واپس آ کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا جائے نماز اٹھایا اور پھر بیڈ اور صوفے کے درمیان موجود خالی جگہ پر بچھا کے نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔ فرض کی ادائیگی کے بعد جب اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اس کا دل اللہ کے حضور اپنی دعائیں پیش کرنے لگا۔
”اے اللہ! تو جانتا ہے میری طاقت تیری ہی عطا کی ہوئی ہے۔ تو جانتا ہے تیرے کرم اور ساتھ کی وجہ سے کامیابی میرے قدم چومتی آئی ہے۔ مجھے صرف تجھ پر ہی بھروسہ ہے بس تو کبھی میرا ساتھ نہ چھوڑنا۔ بس مجھے اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرنے والا نہ بنانا۔“
ابھی آمین کہہ کے منہ پر ہاتھ پھیرے ہی تھی جب اس کے موبائل پر میسج ٹون بجی۔ وہ جانتا تھا کس کا میسج ہو سکتا ہے۔ اس لیے جائے نماز اٹھا کے تہہ کر کے رکھتے ہوئے جب موبائل کی سکرین روشن کی وہاں شیرو کے نام سے یہ میسج جگمگا رہا تھا۔
”اگر ناشتے کے وقت آپ مجھے ناشتے کی میز پر نہ ملے تو اس گھر کے دروازے آپ پر ہمیشہ کے لیے بند کر دئیے جائیں گے۔“
کوئی جواب دیے بغیر وہ کوٹ پہنتے ہوئے وہاں سے نکلنے کی تیاری کرنے لگا۔
٭……٭……٭
علی نے جب سے دلربا کو دیکھا تھا اس کے دل میں اسے مزید دیکھنے کی خواہش سر اٹھانے لگی تھی۔وہ تو پہلی نظر میں ہی اپنے حسن سے اسے گھائل کر چکی تھی۔اب اس سے مزید صبر نہیں ہو رہا تھا اس لیے وہ اپنے دوست ناظم کے پاس چلے آئے جو وہاں اکثر جاتا رہتا تھا اور وہی باقی دوستوں کے ساتھ انہیں وہاں لے کے گیا
تھا۔
”یار۔۔ مجھے وہ لڑکی چاہیے۔“ناظم نے اپنے سامنے بیٹھے علی کو چونک کے دیکھا اور پھر مسکرا دیا۔
”تو گویا تم بھی اس کے دیوانے ہو چکے ہو۔ لیکن میرے یار صرف تم ہی نہیں سارا شہر ہی اس کا دیوانہ ہے۔“وہ خفگی سے اسے دیکھ کے کہنے لگا۔
”یہ میری بات کا جواب نہیں ہے۔“وہ اسے خفا ہوتے دیکھ کے تفصیل سے بتانے لگا۔
”یار جہاں تک میری معلومات ہیں وہ لڑکی ایسی نہیں ہے۔ اس کی کوئی مجبوری اسے وہاں تک لے آئی۔ اس کا حسن دیکھ کے زیبا بائی بھی
دنگ رہ گئیں۔نہ صرف یہ بلکہ وہ ایک بہترین رقاصہ بھی تھی۔ اس لیے اس نے زیبا بائی کے سامنے ایک شرط رکھی کہ وہ یہاں رہے گی اور صرف رقص کیا کرے گی۔لیکن اپنی عزت کا سودا نہیں کرے گی۔اس کا رقص دیکھنے کے بعد زیبا بائی نے اس کی شرط منظور کر لی۔“ اس کی بات سن کے وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
”عزت کا سودا کرنا کون چاہتا ہے۔ اگر اس سے نکاح کر لوں۔“ناظم اس کی بات سن کے ہنستے ہوئے کہنے لگا۔
”بہت سارے لوگ یہی آفر کر چکے ہیں۔ ایک تو زیبا بائی کو اس کی وجہ سے بہت فائدہ ہو رہا ہے دوسرا دلربا خود بھی وہاں سے جانا نہیں چاہتی۔ کہتی ہے کہ میں جانتی ہوں یہاں آنے والے لوگوں کی اصلیت نکاح کرنے کے بعد میرا وہی حساب ہو گا دو دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔“
یہ سن کر علی سوچ میں پڑ گیا۔ وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ اس دن سے اس کے سوا اسے کچھ اور سجھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اسے کسی بھی طرح حاصل کرنا چاہتا تھا چاہے اس کی جتنی مرضی قیمت چکانی پڑے۔
٭……٭……٭
ایک چھوٹے سے گھر کے ٹی وی لاونج کا منظر ہے جہاں تین افراد بیٹھ کرسینڈوچ اور جوس کا ناشتہ کرنے میں مصروف ہیں۔ایک کی عمر تقریباً تیس بتیس سال کے لگ بھگ ہے۔ اس نے نیلے ٹراؤزر پر سفیدراؤنڈ نیک ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے۔اس کے ماتھے پر بکھرے گیلے بال اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ ابھی ابھی شاور لیا گیا ہے۔یہ سارنگ ہے
اس گھر کا سربراہ اور شہر کا مشہور جانا پہچانا ”پڑھا لکھا غنڈہ“۔
دوسرا اس سے پانچ سال چھوٹا ہے جس نے کالے ٹراؤزرکے ساتھ براؤن وی نیک ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے۔یہ سیف ہے عرف سیفی۔ اپنی پڑھائی کے ساتھ کھانا پکانے سے لے کر گھر کی صفائی تک وہی کرتا آیاہے۔یوں سمجھ لیں کہ سیفی اس گھر کی ماں ہے۔ اور تیسرے کی عمر بارہ تیرہ سال تک ہو گی جو ایک صحت مند بچہ ہے اور ابھی تک اپنے ڈھیلے ڈھالے کرتے کے ساتھ گرے رنگ کی ہی شارٹس پہنے ہوئے ہے جو کہ اس کا نائیٹ ڈریس ہے۔یہ سعد ہے عرف سعدی،عرف موٹا بینگن۔ سامنے والی دیوار پر لگی ایل سی ڈی پرآہستہ آواز میں خبریں چل رہی ہیں۔ ان تینوں کے درمیان چھائی خاموشی سے سعدی کی زبان میں کھجلی ہونے لگی تھی۔ کچھ دیر تو وہ برداشت کرتا رہا لیکن پھر بول ہی پڑا۔
”قسم سے سارنگ بھائی آپ اگر دس منٹ بھی لیٹ ہو جاتے نا تو آج تو سیف بھائی نے اس گھر کے دروازے ہمیشہ کے لیے آپ پر بند کر دینے تھے۔“سیفی جو سارنگ کو بغور دیکھ رہا تھا اس کی بات پر جھلاتے ہوئے بولا۔
”تمہیں تمیز نہیں ہے؟ جب دو بڑے بات کر رہے ہوں تو چھوٹے بیچ میں نہیں بولتے۔“ سعدی نے کندھے اچکا کے کہا۔
”بڑے بات کب کر رہے تھے؟ ہونہہ!“ آخر میں ہونہہ سارنگ کے انداز میں کن اکھیوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ سینڈوچ کا آخری پیس منہ میں رکھتے سارنگ نے اپنی ہنسی چھپانے کے لیے سر ہلکا سا نیچے جھکا لیا۔
”کر نہیں رہے تھے لیکن کرنے تو لگے تھے ناموٹے بینگن۔“سیفی نے آنکھیں
نکال کے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ موٹا بینگن کہے جانے پر منہ بناتے ہوئے
سارنگ کی طرف شکایتی نظروں سے دیکھ کر بولا۔
”بھائی دیکھ لو۔“مصنوعی غصے سے سیفی کو تنبیہہ کرنے کے لیے پکارا۔
”سیفی۔“وہی بگڑے زاویوں کے ساتھ کہنے لگا۔
”میں نے کب کچھ کہا ہے؟ یہ اپنا جوس کا گلاس لے کے اندر آبی کے پاس جاؤ۔وہ اکیلی ڈر جائے گی۔“ وہ فرمانبردار بچوں کی طرح گلاس اٹھا کے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد سارنگ نے سیفی سے پوچھا۔
”اس نے آج سکول نہیں جانا تھا؟“وہ گلاس سے جوس کا آخری گھونٹ پی کر میز پر رکھتے ہوئے بولا۔
”نہیں۔ مہینے کی آخری تاریخ ہے اس لیے چھٹی ہے۔“اثبات میں سر ہلاتے ٹشوباکس سے ٹشو نکال کے ہاتھ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
”اور تمہارے انٹرویو کا رزلٹ کب تک آئے گا؟“
”امید ہے ایک مہینے تک آ جائے گا۔میرے رزلٹ کی چھوڑیں آپ مجھے ایک بات بتائیں۔“
”پوچھو۔“
”آپ وکالت کیوں نہیں شروع کرتے؟“
”میرا دل نہیں کرتا۔“
”اگر دل نہیں کرنا تھا تو پھر وکالت کی ڈگری کیوں لی تھی؟ جب کرنی ہی غنڈہ گردی تھی تو پھر اس ڈگری کے پیچھے اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟“
”میں عام غنڈہ نہیں بننا چاہتا تھا اس لیے کوئی نہ کوئی ڈگری پاس رکھنا چاہتا تھا تا کہ مجھ میں اور باقی غنڈوں میں فرق رہے۔“
سیف اچھی طرح جانتا تھا کہ وکالت کرنا اس کا خواب تھا،لیکن اپنے خواب کو پسِ پشت اس نے صرف اپنے زندگی کے ایک سب سے بڑے مقصدکے لیے ڈالا ہوا تھا۔ جب تک و ہ مقصد حاصل نہیں ہو گا تب تک وہ اپنے بارے میں نہیں سوچے گا۔ وہ اس کے مزید سوالوں سے بچنے کے لیے اٹھتے ہوئے بولا۔
”میں آفس کے بعد گھر نہیں آؤں گا ہو سکتا ہے رات کو بھی دیر سے آؤں۔ ولی کے ساتھ کہیں جانا ہے ضروری کام ہے۔ اس لیے میرا انتظار نہ کرنا اور سو جانا۔“
بنا اس کے جواب کا انتظار کیے وہ اپنے کمرے میں تیار ہونے چلا گیا۔سیفی وہیں بیٹھا سوچنے لگا کہ یہ انسان کب سدھرے گا وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اسے ولی کے ساتھ کون سے ضروری کام ہوتے ہیں۔ اپنی جان کو ہر وقت خطرے میں ڈال کے آزاد گھومتا رہتا ہے۔ انہی سوچوں میں کڑھتا ہوا وہ برتن اٹھانے لگا۔
٭……٭……٭
سورج ڈھلنے کی تیاری میں تھا۔ وہ دیوار پر اس طرح بیٹھی تھی کہ ایک ٹانگ اٹھا کر اس نے دیوار پر رکھی تھی جبکہ دوسری ٹانگ نیچے لٹک رہی تھی۔ ایک ہاتھ ٹھوڑی پر رکھے وہ ڈوبتے سورج کو تک رہی تھی۔اس کے لمبے سنہری بال اس کی کمر پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں میں جیسے سارے جہاں کی اداسی اتر آئی تھی۔جیسے ہی سیڑھیوں پر کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی اور اس نے گردن موڑ کے آنے والے کی سمت دیکھا اور اسے دیکھتے ہی محبت کی ساری خوش رنگ تتلیاں اس کی آنکھوں میں سمٹ آئیں۔ آخری سیڑھی پھلانگتا وہ شخص یہ دیکھ کر دل و جان سے اس کی مسکراہٹ پر فدا ہو گیا۔ وہ اس کے قریب آ کے کچھ فاصلے پر دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کے دیوار سے ٹیک لگا کے کھڑا ہو گیا اور نظریں اس حسینہ کے چہرے پر ٹکا دیں۔ اس کی نظروں میں دیکھتے دیکھتے دلربا کی سریلی آواز فضا میں گونجنے لگی۔
جدھر ہے تو۔۔۔ادھر ہے عشق
جاوداں ہے۔۔۔امر ہے عشق
تیرا جلوہ۔۔۔ سرِ منزل
سرِ منزل ۔۔۔ سفر ہیعشق
خدا جانے کہ تیرے ہجر میں
دلدار ۔۔۔ می رقصم
سرِ خانہ ۔۔۔ سرِ محفل
سرِ بازار ۔۔۔ می رقصم
وہ خاموش ہوئی تو یوں لگا جیسے ساری کائنات ہی خاموش ہو گئی ہے۔ کئی دن سے وہ زیبا بائی کے ترلے منتیں کر رہا تھا کہ وہ بس ایک دفعہ اس سے ملنے دیں۔ اس کا پیغام اندر دلربا کو پہنچا دیا جاتا لیکن وہ ملنے سے انکار کر دیتی۔ لیکن آج اس نے زیبا بائی سے خود کہا کہ وہ علی کو پیغام بجھوا دیں کہ وہ دلربا سے مل سکتا ہے۔ دلربا کو یقین نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی آ جائے گا۔ علی نے اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تو سمجھا تھا کہ اس عشق کے سفر میں صرف میں اکیلا ہی جل رہا ہوں۔ مجھے خبر نہیں تھی کہ آگ دونوں طرف برابر کی لگی ہوئی ہے۔“
اس کی بات سن کے وہ دھیرے سے مسکرا دی اور شانِ بے نیازی سے پوچھا۔
”فرمائیے! آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟“ علی نے بغیر کسی لگی لپٹی کے کہا۔
”عشق کر بیٹھا ہوں آپ سے۔ شادی کرنا چاہتا ہوں۔“نظریں اس کی طرف سے ہٹا کے مغرب کی طرف چھا جانے والے عنابی رنگ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا یہ شادی آپ کے والدین کی رضامندی سے ہو گی؟“علی نے پورے یقین سے کہا۔
”جی ہاں۔ ابھی میں آپ کی رضامندی جاننا چاہتا تھا تا کہ پھر اپنے والدین سے بات کر سکوں۔“
”آپ اپنے والدین سے بات کر لیجئیے۔ میں عشق کے اس سفر میں آپ کے قدم سے قدم ملا کے چلنے کے لیے تیار ہیں۔“
سورج کے فلک کے پار اترتے ہی آسمان اپنے اوپر سیاہ چادر اوڑھنے کی تیاری
کرنے لگا۔ وہ بھی چھلانگ لگا کے دیوار سے نیچے اترنے لگی جب علی نے فوراً آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ اس کے سامنے پھیلا دیا۔ مسکراتے ہوئے اس نے ایک نظر اس کے ہاتھ کو دیکھا اور پھر بنا کچھ سوچے اس کا ہاتھ تھام کے اتر گئی۔ آسمان پر نمودار ہوتے چاند نے دیکھا کہ ان دونوں کے چہروں پر بہت خوبصورت مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔
٭……٭……٭
YOU ARE READING
سارنگ
Romanceسارنگ جو کہ ایک معاشرتی و رومانی ناول ہے۔ یہ ناول سارنگ نامی شخص کی پراسرار شخصیت کے گرد گھومتا ہے۔ جو کہ ایک ہی وقت میں کئی کردار نبھا رہا ہے۔ جن سے محبت کرتا ہے ان کے لیے اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے اور جو اس سے جڑے لوگوں کو نقصان پہنچانے کی کوش...