دل کاحوصلہ

27 1 4
                                    

"زندگی کتنی آگے چلی گئی ہے ؟" اسنے لیپ ٹاپ کو بند کرتے ہوئے سوچا اور پھر ایک کے بعد ایک سوچوں کے دریچے کھلتے چلے گئے۔
"یار اب بس بھی کرو گانا گانا۔یہ فزکس کے نومیریکل دیکھو"۔شمسہ نے اسکے آگے نوٹ بک کی تو وہ بولی
" تم لوگ تھکتی نہیں ہو اتنی بور فزکس کو پڑھ پڑھ کے۔"اسنے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا تبھی ماریہ ہنستے ہوئے بولی
"مجبوری ہے یار۔پڑھیں گے نہیں تو اماں ہماری شادی کر دیں گیں۔"تبھی رملہ کتاب بند کرتے ہوئے بولی
" میرا دل کرتا کہ میں ایک عددمنگنی تو کرہی لو۔"اسکے حسرت سے کہنے پر ماریہ نے ہنستے ہوئے کہا
"ویسے ایک بات بتاو۔تمہیں منگنی کرنے کا اتنا شوق کیوں ہے ؟"
تبھی وہ پرجوش ہوتے ہوئے بولی
" مجھے ناں سینٹر آف دی ایٹریکشن ہونا بہت پسند ہے۔"تبھی شمسہ نے حیرت سے کہا
"تو؟ اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان شادی کر لے ؟"تو وہ مزے سے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی
"ہاں ناں۔دیکھو منگنی والے دن سب تمہیں دیکھیں گے ۔تمہاری تعریف کریں گے۔کتنااچھا لگے گا ناں۔"تو شمسہ نے سر جھٹکتے ہوئے کہا
"یار اس فضول بات کو تم اپنے دماغ سے نکالو۔ایسے انسان کوئی سینٹر آف دی ایٹریکشن نہیں بنتا۔"شمسہ نے دوبارہ کتاب کھولتے ہوئے تجزیہ کیا اور پھر بولی
"اب تم لوگ ان فضول باتوں کو چھوڑو۔نومیریکل سولو کرو۔ورنہ میم نے کل عزت کردینی ہے۔"اسکی بات پر رملہ نے بھی منہ بناتے ہوئے اپنی توجہ کتاب کی طرف مبذول کرلی۔
۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔
"یار چلو چلتے ہیں۔"واسع نے اپنے برابر بیٹھے طلحہ سے کہا تو وہ بے زاریت سے سامنے کھڑے عزیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
"وہ فلرٹ کا پروفیسر آجائے تو پھر چلتے ہیں۔"یہ کہہ کر اسنے عزیر کو آواز دی
"آجاو یار"۔تبھی اسنےاشارے سے آتا ہوں کہہ کر کال بند کی ۔اور کچھ لمحوں کے بعد وہ انکے پاس ٹیبل پر آبیٹھا۔
"کیا ہوا بھائ؟"وہ طلحہ کے برابر میں بیٹھتے ہوئے بولا
تبھی اسکی نظر کیفے میں آنے والی دو لڑکیوں پر پڑی جن میں سے ایک کچھ گھبرائی ہوئی تھی اور دوسری اسے کچھ بول رہی تھی۔اسنے انہی دیکھتے ہی ہونٹوں سے سیٹی بجائی ۔
اسکی اس حرکت پر دونوں لڑکیوں نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر تیزی سے کونے والی ٹیبل پر جا بیٹھیں۔
ابھی وہ انکو دیکھ ہی رہا تھا کہ طلحہ نے اسکی گردن پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا
"بس کر دے یار۔تو تھکتا نہیں ہے فلرٹ کر کر کے؟"تبھی وہ سنجیدگی سے بولا
" میں نے اپنی زندگی کے دومقصد بنائے ہوئے ہیں۔ایک بہت سارے پیسے جمع کرنا اور دوسرا بہت ساری لڑکیوں کو پٹانا"۔کہہ کر اسنے اپنے موبائل پر آنے والے میسج کو دیکھا اور پھر ریپلائے کرنے لگا ۔جبکہ وہ دونوں حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔تبھی واسع نے حیرت کے جھٹکے سے باہر آتے ہوئے طنزا کہا
"بھائی اتنے حسین اور اہم مقصد بنانے کی کیا ضرورت تھی؟تم یہ عام سا مقصد بھی بنا سکتے تھے کہ تم ایک اچھے بینکر یا انجینئر بنو۔"تبھی وہ عاجزی سے بولا
"نہیں بھئی یہ کام میں نے اور لوگوں پر چھوڑ دئیے ہیں۔اگر یہ بھی میں نے کر لیا تو پھر تم لوگ کیا کرو گے ؟"کہہ کر اسنے اپنے موبائل پر آنے والی کال کو دیکھا۔
اس سے پہلے کہ وہ کال ریسیو کرتا برابر میں بیٹھے طلحہ نے آنے والی کال کو ریجیکٹ کیا اور پھر کہا
"یار جس حساب سے تم ہر وقت موبائل کان سے لگائے رکھتے ہوناں تو اس حساب سے تجھے کان کا کینسر ہو جانا ہے۔"تبھی واسع نے حیرت سے کہا
" تجھے سچ میں بے زاریت نہیں ہوتی رنگ برنگی لڑکیوں سے باتیں کر کے ؟"تو وہ ہنستے ہوئے بولا
"بھائی میرے دیکھو جب رنگ برنگی لڑکیوں سے روز بات ہو تو تو بے زاری کیسی ؟بے زاری تو تب ہو ناں جب ایک ہی نمونی سے روز باتیں کرو۔"اسنے کہہ کر ایک آنکھ دبائی اور پھر چٹ پر کچھ لکھ کرطلحہ کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا
"چل برنس روڈ چلتے ہیں۔وہاں سے کچھ کھاتے ہیں۔"اسکی بات سن کر واسع اور طلحہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔اور تینوں ساتھ چلتے جب کونے والی ٹیبل کے پاس سے گزرے تو اسنے چٹ کو ان دو لڑکیوں کی ٹیبل پر پھینکا اور پھر اسی رفتار سے چلتا کیفے سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔
"رمشا مت کرو ایسا "۔علیزے نے اسے چٹ کھول کر موبائل پر نمبر لکھتے دیکھا تو اسے ٹوکتے ہوئےبولی
"چپ کرو تم ایک تو تم ڈرتی ہی رہتی ہو۔"اسنے کہہ کر دوبارہ سے نمبر نوٹ کرنا شروع کیا تو وہ خاموشی سے بیٹھی اسے تکتی رہ گئی۔
کچھ دیر کے بعد جب وہ نمبر نوٹ کر کے فارغ ہوئی تو اسنے سامنے بیٹھی گھبرائی ہوئی علیزے کو دیکھا جو اب ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔
"ریلیکس کرو یار۔کیوں پریشان رہتی ہو اتنی ؟"رمشا نے اسکے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ چونک سی گئی اور پھر بولی
"تم نمبر ناں نوٹ کرتی رمشا"۔اسکی بات سن کر وہ مسکراتے ہوئے بولی
"تم کیوں پریشان ہو جاتی ہو زرا زراسی بات پر۔تم ایسی تو نہیں تھی۔"
"نہیں پر میں نے کبھی کسی کا نمبر نوٹ نہیں کیا"تو رمشا سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی
"نہیں میرا مطلب ہے ایسے گھبرانا ،پریشان رہنا ہر چیز کے بارے میں سوچنا ،کوئی کام شروع کرتے ہوئے پریشان ہو جانا،ہر بات میں اپنی غلطی ڈھونڈناتم ایسی تو نہیں تھی علیزے"۔وہ اسکی بات سن کر اپنے ہاتھوں کو گھورتے ہوئے بولی
"ہاں لیکن وقت بدل دیتا ہے انسا ن کو اور میں بھی بدل گئی ہو۔وہ علیزے تو مر گئی رمشا جسکی باتیں تم کر رہی ہو۔اب جو علیزے ہے اسے تو میں خود بھی نہیں پہچانتی۔"اسنے کہہ کر پھر ایک نگاہ دروازے پر ڈالی۔رمشا کچھ لمحے افسردگی سے اسے دیکھتی رہی اور پھر ٹاپک تبدیل کرتے ہوئے کہا
"چلو میں کچھ کھانے کو لیکر آتی ہو۔تم یہیں بیٹھنا۔"وہ اسے تاکید کرتی وہاں سے چلی گئی۔جبکہ وہ خاموشی سے اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔
"تم آرہی ہو کہ نہیں رملہ ؟" رمشا نے ابکی بار غصے سے کہا تو اسنے موبائل کو ایک کان سے ہٹاکر دوسرے پر لگایا اور پھر بولی
"آرہی ہوں ناں ۔ایک تو تم شور کرنے لگتی ہو۔۔"تو رمشانے جلدی سے کہا
"بس بہن جلدی آو۔میں انتظار کر رہی ہوں۔"
"ہاں ہاں تم کال بند کرو ۔آتی ہوں۔"کہہ کر اسنے کال بند کی اور پھر وحید کو آواز دی۔
"وحید مجھے رمشا کے گھر تک لے جاو"۔
"مجھے نہیں لیکر جانا۔"وحید نے اسکے برابر میں بیٹھتے ہوئے آہستہ سے کہا تو وہ کشن اسکے سر پر مارتے ہوئے بولی
"انسانوں کی طرح لیکر جا رہے ہو یا بابا کو بولو ؟"اسکی بات پر وہ کچھ لمحے اسے گھورتا رہا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
"آپ سے اللہ مجھے بلیک کرنے کا الگ سے حساب لے گا۔لکھ لیں اسے"۔تو وہ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"چلو بھی اب"اسنے وحید کو چھیڑتے ہوئے کہا تو وہ منہ بناتا اسے لیکر چل دیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔****۔۔۔۔۔
"تم جاو۔میں آجاونگی۔"اسنے رمشا کے گھر کے سامنے بائیک سے اترتے ہوئے کہا تو وحید سر ہلاکر چلا گیا۔جبکہ وہ سر جھٹکتے ہوئے رملہ کے گھر کے دروازے کی طرف بڑھی۔اور بیل پر ہاتھ رکھ دیا۔
لیکن جب کسی نے دروازہ ناں کھولا تو اسنے تپتے ہوئے دوسری دفعہ پھر بیل بجائی اور ابکی بار تب تک ہاتھ نہیں ہٹایا جب تک دروازہ کھل ناں گیا ہو۔
جیسے ہی دروازہ کھلا وہ اپنی دھن میں اندر کی طرف بڑھی ہی تھی کہ اسے آواز آئی
"آپ ہر کسی کے یہاں ایسے ہی بیل بجاتی ہیں ؟ یا یہ خاص عنایت صرف ہمارے ہی گھر کے لئے تھی ؟"اسنے گردن موڑ کر دروازہ کھولنے والے شخص کو دیکھا اور پھر گردن سیدھی کرتے ہوئے بولی
"پہلی بات تو یہ کہ مجھے باہر کھڑے ہونا پسند نہیں ۔اور دوسری بات یہ کہ آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے یہ سوال پوچھنے والے ؟"اسنے بغیر کسی لحاظ کے سامنے والے کو جواب دیا ۔جواب سن کر وہ ایک لمحے کے لئے شاکڈ ہوا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ان دونوں کو رمشا کی آواز سنائی دی۔
"اللہ رملہ کی بچی ! کب آئی تم ؟ ہاں ؟ رمشا اسکی طرف بڑھتے ہوئے بولی لیکن پھر رملہ کے چہرے پر غصے کے تاثرات دیکھ کر بولی
"تم غصہ میں کیوں ہو ؟"تبھی اسنے ساتھ کھڑے رافع کو دیکھا تو اچھنبے سے بولی
"آپ تو جا رہے تھے ناں ؟پھر گئے نہیں ؟"تبھی وہ ہونٹ بھینچتے ہوئے بولا
"ہاں جارہا تھا لیکن پھر کالی بلی راستہ کاٹ گئی۔"اسکی بات سن کر رملہ نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ رمشا بولی
"اللہ آپ بھی ان سب باتوں پر یقین کرتے ہیں ؟چھوڑیں ان سب باتوں کو۔اور جائیں اپنے کام سے۔"یہ کہہ وہ رملہ کی طرف مڑی اور کہا
"تم آو میرے ساتھ ۔"یہ کہہہ کر وہ اسے لئے اپنے کمرے کی طرف چلدی۔
۔،۔۔۔***۔۔۔۔۔۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: May 20 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

دل کا حوصلہWhere stories live. Discover now