باب 2

32 2 0
                                    

"امی آپ منع کر دے اس رشتے کو پلیز "حور ماں کے پاس بیٹھی پچھلے آدھے گھنٹے سے ماں کو منانے کی کوشش کر رہی تھی
"بلکل نہیں پہلے تمہاری  پڑھائی کی وجہ سے میں نے اتنے اچھے اچھے رشتے موڑے ہے اب کی بار بلکل ایسا نہیں ہو گا یہ رشتہ تمہارے ابا کو بھی بہت پسند آیا ہے۔"

"یہ کیا بات ہوئی جب میں ایک بار کہہ چکی ہوں کے مجھے یہاں شادی نہیں کرنی تو کیا مسئلہ ہے آپکا"وہ تڑخ کے بولی
"

میرے  سے بدتمیزی مت کرو حور میں نے ایک بار کہہ دیا سو کہہ دیا اب ایسا نہیں ہو گا"وہ تنبیہہ کرتے ہوئے بولی تھی
"امی پلیز بس آپ اس رشتے کو انکار کر دیں پھر جہاں آپ کہے گی وعدہ کرتی ہوں وہی کروں گی شادی۔" اسکی بات پہ زرین بیگم نے نفی میں سر ہلایا تو وہ پیر پٹختی ہوئی لاونج سے باہر نکل گئی۔
                                      ~~~~~~
صحن میں موجود چھت کو جاتی سیڑھیوں پہ سر گھٹنوں میں دیئے وہ بیٹھی اب اس مصیبت سے جان چھڑانے کی ترکیب سوچ رہی تھی۔ آج ساحر ارحم سے ملنے جانے والا تھا  اور اگر اس نے اپنی بہن کے لیے ارحم کو پسند کر لیا تو یقینا اس شادی کو ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ کچھ لمحے یونہی اپنا سر جھکائے بیٹھی حور کو  اس وقت سویرا کی کمی شدت سے محسوس ہوئی تھی۔وہ فورا فون پہ کال ملاتے ہوئے اب چھت کا رخ کر گئی تھی۔تیسری کال پہ فون ریسیو کیا گیا تھا۔
"ہیلو سویرا"
"ہاں حور کیسی ہو تم "
"میں بلکل ٹھیک نہیں ہو یار تمہیں پتا ہے کل کس کا رشتہ آیا تھا"
"نہیں  مجھے نہیں پتہ میں اس وقت کچن میں تھی ہاں مگر ماموں کو وہ لڑکا بہت پسند آیا ہے تمہارے لیے "وہ آخری جملہ مسکرا کر بولی تھی جس پہ حور کا دل چاہا وہ رو دے۔
"وہ ارحم ہے سویرا" اس نے مردہ ہوتی آواز میں کہا
"کون ارحم حوریاں،ایک  منٹ  وہ ہسپتال والا "وہ کچھ یاد کرتے  ہوئے بولی
"ہاں وہی ارحم "اب کی بار حور کے ساتھ ساتھ سویرا کے لبوں کی مسکراہٹ بھی سمٹی تھی حیرت سے آنکھیں پھٹنے کو تھی۔
"اب کیا ہو گا تمہیں تو اس سے نفرت ہے۔"
"آج ساحر بھائی اس سے ملنے جا رہے ہیں اگر ایک بار وہ شخص انہیں پسند آ گیا تو پھر اس شادی کو ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا سویرا"وہ پریشانی سے پوری چھت چھت پہ ٹہلرہی تھی۔
"تم فکر مت کرو یار  میں ابھی کچن میں جا رہی ہوں راشدہ آنٹی بلا رہی ہے بعد میں بات کروں گی۔"
"ہممم اوکے "وہ چلتے چلتے اب آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی۔
                                 ~~~~~~~
آج ساحر کو اپنے دفتر سے چھٹی تھی وہ  بھورے قمیض شلوار میں ملبوس ایک سادہ مگر خوبصورت اور وجیہہ  جوان تھا اسکو یوں تیار دیکھ کر حورین کو اپنے بھائی پہ جی بھر کے پیار آیا تھا وہ ہاتھ میں کھیرے کا ٹکڑا پکڑے کھاتے ہوئے  اسے مصنوعی حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
"واہ بھائی آج تو آپ بجلیاں گرانے کے موڈ میں لگ رہے ہیں"
"ہاں "وہ مسکرایا اور شال کو کندھے پہ درست کرتا ہوا بولا
"اچھا دھیان سے جائیے گا ورنہ آج آپ دو چار لڑکیوں کو مار ڈالے گے"ساحر اسکی بات پہ مبہم سا مسکرایا تھا۔
"اچھا بھائی میرا ایک کام کریں گے "اس نے آنکھوں میں امید لیے پوچھا
"کیا "وہ بائیک کی چابی اٹھائے اب لاونج سے باہر جا رہا تھا جب اسے حور نے بلایا تو وہ پلٹ کر اسکی جانب متوجہ ہوا
"واپسی پہ سویرا کو لیتے آئیے گا پلیز" وہ التجائیہ انداز میں بولی تو ساحر نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور گھر سے باہر کی جانب چل دیا۔
                                       ~~~~~~~~
مظہر کی خالہ کا بیٹا آج شام ایک بار پھر نازل ہونے والا تھا وہ کچن میں کھڑی کھانا بنا رہی تھی جب اسکی سوتیلی بہن ہمہ نے اسے جوس لانے کا کہا اور واپس چلی گئی۔
وہ سب کو جوس پیش کر رہی تھی جب اس نے مظہر کے خالہ زاد بھائی کو جوس پیش کیا تو اس نے جان بوجھ کر اسکے ہاتھ کو چھوا جس کی وجہ سے سویرا کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ کر زمین پہ گر گیا جس سے اس لڑکے کی شرٹ اور مظہر کا جوتا گندا ہو گیا تھا
"یہ کیا کیا ناس پیڑی  کبھی کوئی کام ڈھنگ سے بھی کر لیا کر"راشدہ بیگم غصے سے چیخی
"سوری آنٹی وہ میں "!
"کیا میں ،تم نے سارا میرا جوتا گندا کر دیا ہے اب اسے صاف کرو جلدی بے وقوف نہ ہو تو "مظہر غصے سے اس پر چیخ رہا تھا ہمہ اس لڑکے کو واشروم لے گئی تھی۔
"ججی بھائی" وہ کہتے ہی آگے بڑھی اور اپنے ڈوپٹے سے اسکی جوتی صاف کرنے لگی جب ہی داخلی دروازے سے اسے آواز سنائی دی تھی
"روکو، یہ کیا کر رہی ہو تم سویرا "وہ غصے سے اسکی جانب لپکا اور اس کا بازو تھامے زمین سے اٹھایا۔ سویرا اب حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"لو جی آ گیا میڈم کا نیا ہمدرد "راشدہ بیگم نخوت سے بولی تو سویرا نے جھٹ سے ان کو دیکھا۔
"چلو یہاں سے "وہ اسے وہاں سے اپنے ساتھ لیے باہر نکل آیا۔
وہ دونوں باہر صحن میں پہنچے تھے کہ سویرا نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔ اس کی اس دیدہ دلیری پہ ساحر کو جھٹکا لگا تھا۔ وہ اسے آنکھیں  پھاڑے دیکھ رہا تھا۔
"آپ ہوتے کون ہیں میرے اور میرے بھائی کے درمیان آنے والے کس حق سے آپ نے مجھے ہاتھ لگایا "وہ غصے اور تکلیف کے ملے جلے جذبات لیے کہہ رہی تھی اور ساحر کو لگا سویرا نے اسکے منہ پہ طماچہ مار دیا ہے۔
"تم اس شخص کو اپنا بھائی قرار دے رہی ہو جو بھائی کہلانے کا حقدار بھی نہیں "وہ غصے  لب بینچے  کہتا ہوا  اسکی جانب جھکا تو سویرا سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹی۔
"کیا ہو رہا ہے یہاں "ساحر کے عقب سے آواز آئی تھی اور سویرا کو لگا اسکے لب سل چکے ہیں اور سانس کہیں گم ہو گیا ہے۔وہ خوف کے مارے زرد ہو رہی تھی۔
"میں پوچھ رہا ہوں سویرا تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو" وہ سختی سے لب بینچے اسکی جانب بڑھے تو سویرا کی جگہ ساحر بول اٹھا۔
"وہ پھوپھا میں اسے لینے آیا تھا امی نے بلوایا ہے حور یاد کر رہی تھی۔"وہ ایک گہری نظر ڈری سہمی سویرا پہ ڈالتے ہوئے اب ساحر کی جانب متوجہ ہو گئے۔
"ہممممم ٹھیک ہے چلی جاو مگر یاد رہے شام سے پہلے  تم مجھے گھر  پر واپس ملو" انکی اجازت ملتے ہی ساحر پلٹ گیا تھا جبکہ سویرا نے اندر جاتے بابا کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھری۔
"میں باہر انتظار کر رہا ہوں "ساحر کہتے ہی باہر کی جانب بڑھ گیا جبکے سویرا اب اسکی پشت کو تک رہی تھی اگر اسے حور نے بلوایا تھا تو وہ انکار کیسے کر سکتی تھی۔
                                       ~~~~~~
وہ اپنے کام کو نمٹا کر گھر واپس لوٹ رہا تھا گاڑی پارکنگ سے نکال کر اس نے ابھی روٹ پہ ڈالی ہی تھی کے سامنے سے سیاہ چادر میں لپٹی لڑکی اسکی گاڑی سے ٹکرائی اور وہی زمین پہ بیٹھ گئی وہ فورا گاڑی سے باہر نکلا تھا۔
"بے وقوف انسان اندھے ہو  تم ہو جو بنا سامنے دیکھے گاڑی چلا رہے ہو"وہ ہنوز زمین پہ بیٹھی زمین سے دوائیاں اکھٹی کرتے ہوئے بولی
"اندھی تو تم ہو جو اس وقت سڑک کے بیچ" اسکے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کے وہ لڑکی زمین سے اب اٹھ کھڑی ہوئی تھی اسکی سمندر جیسی گہری نیلی آنکھوں میں اس وقت غصہ بھرا ہوا تھا اور بے دیھانی میں چادر بھی چہرے سے ہٹ گئی تھی۔ اس نے فوری طور پر اپنا چہرہ ڈھکا تھا اس سے پہلے وہ کچھ  کہنے کو اپنے لب کھولتی ایک دوسری لڑکی اسکی جانب دوڑتی ہوئی آئی تھی۔
"حور !" وہ کافی پریشان لگ رہی تھی۔ وہ لڑکا اب اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو بے چینی سے اسکی جانب لپکی تھی
"تم یہاں کھڑی ہو ان اندر امی وہ"
"کیا ہوا انہیں "وہ اب اندر جاتی ان دونوں لڑکیوں کو تک رہا تھا جو خاصی پریشان لگ رہی تھی۔ اس نے سر جھٹکا مگر وہ ان نیلی آنکھوں کو ہر گز منظر سے ہٹانے میں ناکام ہوا تھا۔
                                        ~~~~~~~
وہ دونوں گھر کے دروازے کے اس پار کھڑے تھے ساحر نے بائیک سائیڈ میں کھڑی کی اور اب غصے سے دروازہ پیٹ رہا تھا۔ سویرا ڈری سہمی ہوئی ایک طرف کھڑی تھی وہ تو اپنی ہمت پہ حیران تھی مگر وہ جانتی تھی کہ اب  راشدہ اس بات کی سو باتیں بنائے گی اور ابا کو بھی نا جانے کیا کیا کہے گی۔ کچھ بھی ہو جائے وہ اپنے کردار پہ کسی طرح کا الزام برداشت نہیں کر سکتی تھی بھلے اسکے لیے اسے کسی  سے  بھی کیوں نا لڑنا پڑے۔ اسے ابھی سے ابا کے ردعمل سے خوف آ رہا تھا۔ دروازہ کھلتے ہی زرین بیگم بول اٹھی
"بسمل اللہ آ گیا میرا بچہ "
"جی" وہ کہتا ہوا اندر داخل ہوا تو سویرا بھی اسکے پیچھے اندر کی جانب چل دی ممانی کو سلام کرتے ہی وہ لاونج میں بیٹھی حور کے پاس آ بیٹھی اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر حور اپنی پریشانی ایک لمحے میں بھول گئی تھی
"کیا ہوا ہے سویرا" اس نے ایک ہاتھ اسکے چہرے پہ رکھتے ہوئے محبت سے پوچھا۔محبت بھرا لمس پا کر سویرا کی آنکھیں ایک لمحے میں بھر گئی تھی۔ ایک وہی تھی جو اسکی ہر تکلیف کو بنا کہے سمجھ جاتی تھی وہ اس سے لپٹ کے رونے لگی تھی مگر حور نے اسے روکا نہیں وہ ہمیشہ یوں ہی اسے اسکا دل ہلکا کرنے دیتی تھی وہ جانتی تھی ضرور راشدہ یا گھر کے کسی فرد نے  پھر اس کا دل دکھایا ہو گا وہ اسکی کمر سہلانے لگی جو اب باقائدہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔
"اچھا بس اب" وہ اسے خود سے الگ کرتے ہوئے بولی تو سویرا اس سے دور ہوئی۔
"صاف کرو یہ آنسو اتنے سستےنہیں ہے جو ان جیسے لوگوں کے لیے بہائے جائے"اس نے اسے ڈپٹتے ہوئے کہا تو ساحر لاونج میں داخل ہوا جس کا چہرہ اس وقت لال بھبوکا بنا ہوا تھا یقینا وہ بھی غصے میں تھا مگر "کیوں کیا وہ "،ایک دم سے اچھلی "کیا اسے ارحم پسند نہیں آیا تھا  "وہ اسکی پشت تکتے ہوئے  اپنی سوچ پہ مسکرائی جو اب اپنے کمرے میں گھس گیا تھا۔
"ارے  انہیں کیا ہوا ہے" وہ اب سامنے سے آتی زرین بیگم سے پوچھ رہی تھی
"پتا نہیں کس سے لڑ کے آیا ہے"وہ پریشانی سے بولی تو حور کے لبوں پہ بلاجواز ہی مسکراہٹ  پھیل گئی۔
"تو کیوں ہنس رہی ہے چل جا سویرا کے لیے کچھ پینے کو لے کے آ "وہ کہتے ہوئے  اپنے  تختے پہ بیٹھ گئی۔
"جی" وہ کہتے ہی کچن کی جانب دوڑ  گئی۔ جبکہ سویرا ابھی تک گم سم سی وہی صوفے پہ بیٹھی ہوئی تھی۔
                                      ~~~~~~
وہ گھر لوٹ آیا تھا مگر وہ چاہ کر بھی ان نیلی آنکھوں کو بھلا نہیں پایا تھا کون تھی وہ لڑکی اس نے اسکا پورا چہرہ نہیں دیکھا تھا ہاں مگر وہ آنکھیں ،کتنی کشش تھی اس کی آنکھوں میں وہ سمندر جیسی گہری  آنکھیں غصے سے بھری ہوئی  تھی اس نے اسکے الفاظ کہاں سنے تھے وہ تو بس ان آنکھوں میں کھو گیا تھا ہاں مگر وہ الفاظ ہاں اس نے اس دوسری لڑکی کے الفاظ سنے تھے۔ اس نے زیرِ لب وہ الفاظ دہرائے "حور "اور پھر خود ہی مسکرا دیا۔ "تم کب سے اسیر ہو گئے ان چیزوں کے" پھر خود ہی اپنے آپ سے سوال بھی کر ڈالا مگر آج پہلی بار اسکے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ وہ اپنی ہی سوچوں کے بھنور میں الجھ کر رہ گیا تھا۔
                                       ~~~~~~
شام کے سائے ہر طرف لہرا رہے تھے حور کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ارحم کے الفاظ زہن میں گردش کرنے لگے تھے "ارحم کو جو چیز پسند آ جائے وہ بس ارحم آفندی کی ہوتی ہے میں پھر اس پہ کسی دوسرے کی نظر بھی گوارا نہیں کرتا مائنڈ اٹ"آج اسکی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا مگر ساحر تو صبح سے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلا تھا وہ اب گھر کی چھت پہ کھڑی اپنے پرندوں سے باتیں کر رہی تھی۔ وہ سر جھکائے اسکی ہر بات سن رہے تھے۔ بنا کوئی جنبش کئیے وہ اسکی بات  سن رہے تھے۔اسکی باتوں سے ان کو عشق تھا مگر آج حور اداس تھی اسی لیے وہ بھی اداس ہو گئے تھے۔
                                  ~~~~~~~~
ساحر غصے میں تھا وہ سچ کہتی تھی اسکا اس پہ کوئی حق نہیں تھا مگر کیا وہ اسے اپنا بھائی بھی نہیں مانتی تھی جبکہ ساحر نے حور اور سویرا میں کبھی فرق نہیں کیا تھا۔ وہ بستر پہ لیٹا اپنی سوچوں میں مگن تھا جب اس کے فون نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا جس پہ نمرا کالنگ جگمگا رہا تھا اس نے فون کان سے لگاتے ہوئے ہنکارا بھرا
"ہنہہہ"
"تم کہاں ہو ساحر میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہی ہوں۔"وہ غصے سے بولی تھی
"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے نمرا"
"مگر تم نے مجھ سے آج ملنے کا وعدہ کیا تھا نہ"
"ہاں مجھے یاد ہے۔"
"تو  اب تمہیں کیا ہوا" وہ ساحر پہ تپی ہوئی تھی۔
"کچھ نہیں تم میرا انتظار کرو میں آ رہا ہوں" وہ اسے ناراض کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا تھا آخر وہ اسکی پسند تھی۔
"اوکے"وہ کہتے ہی فون بند کرتے ہوئے مسکرائی تھی۔  تم نمرہ جہانزیب کو انکار کرو یہ ہو ہی  نہیں سکتا" وہ  فخریہ انداز سے کہتے ادا سے بالوں کو جھٹکتے ہوئے ہوٹل کے اندر داخل ہوئی تھی۔
                                         ~~~~~~
سویرا رات کا کھانا بنانے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھی اپنا پسندیدہ شغل فرما رہی تھی اسے چاند سے عشق تھا اور چاند کو اس سے وہ جیسے اس کی کھڑکی سے روز اسے ہی ملنے آتا تھا۔چند لمحوں بعد قدموں کی آہٹ پہ وہ پلٹی تھی اسے دروازے کی دہلیز پہ کسی کے وجود کا احساس ہوا تو وہاں کھڑے اپنے باپ کو دیکھ کر سویرا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
"ارے بابا آپ کو  اگر کسی چیز کی ضرورت تھی تو مجھے بلا لیتے "
"نہیں میں تم سے کچھ بات کرنے آیا تھا سویرا۔"
"جی بابا کہیے" وہ دو بدو بولی
"تمہاری ماں چاہتی ہے اب تمہاری شادی کردی جائے۔
مگر بابا
مجھے لگتا ہے وہ ٹھیک کہہ رہی ہے دیکھو اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو تم بلا جھجک مجھے بتا سکتی ہو وہ اس سے لیا کہہ رہے تھے یہ ایک دم شادی کا معاملہ کہاں سے آیا وہ تو سمجھ رہیتھی بابا اس سے مظہر سے معافی مانگنے کا کہے گے اور وہ بنا ایک لمحہ ضائع کیے اس سے معافی بھی مانگ لے گی مگر یہ کیا وہ تو کچھ اور ہی بات کر رہے تھے۔آج سے پہلے تو انہوں نے کبھی بھی سویرا سے اسکی پسند نا پسند نہیں پوچھی تھی پھر آج کیوں۔ کیا راشدہ نے ان سے کہا تھا کہ وہ نہیںوہ ایسی نہیں ہے اسے اپنے باپ کو اس  بات کا یقین دلانا تھا مگر وہ تو اس پہ سارے دروازے بند کیے اس سے اسکی اجازت مانگ رہے تھے کیا وہ ان پہ بوجھ تھی۔ ہاں وہ ان پہ بوجھ ہی تھی۔جب فراز صاحب نے مسلسل سویرا کو خاموش دیکھا تو اسے ایک بار پھر سے مخاطب کیا۔
سویرا مجھے تمہارے جواب کا انتظار رہے گا
مگر بابا میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔
ایک نہ ایک دن تو یہ سب ہونا ہی ہے پھر ابھی کیوں نہیں وہ کہہ کر جا چکے تھے مگر سویرا کے قدموں تلے سے کسی نے زمین کھینچ لی تھی اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسکا سگا باپ ہے کیا ایسے ہوتے ہیں باپ۔ وہ سر ہاتھوں میں دیئے رونے لگی تھی۔ آج کی رات پھر آنسوؤں کےساتھ گزرنے والی تھی مگر آج آنسوؤں کی وجہ کسی کی دی گئی تکلیف نہیں بلکہ اپنے باپ کے الفاظ تھے۔ کتنے اچھے دن تھے وہ جب وہ گھنٹوں اپنے باپ کی گود میں بیٹھ کر اسے اپنی پسند ناپسند بتایا کرتی تھی اور وہ اسکی ہر خواہش بنا کسی تردید کے پوری کرتے تھے۔
                                   ~~~~~~~
ساحر اور نمرا دونوں ہوٹل میں بیٹھے تھے جب نمرا نے اسے مخاطب کیا۔
ساحر تمہارے پیرنٹس رشتہ کب لائے گے وہ بے چینی سے پوچھ رہی تھی
دیکھو نمرا ایک بار  حور کا رشتہ طے ہو جائے پھر میں گھر میں تمہارے بارے میں بات کروں گا
لک ساحر میرے ڈیڈ کے ایک بہت ہی اچھے دوست کے بیٹے کا پرپوزل آیا ہے اور اس بار اگر تم نے دیر کردی تو میں بابا کو منع نہیں کر پاوں گی۔
مگر نمرا تمہیں میرے لیے اس پرپوزل کو انکار کرنا پڑے گا
ہر گز نہیں اگرتم اپنے گھر والوں کو جلدی نہ لائے تو یاد رکھنا کہ تم نے نمرا جہانزیب کو کھو دیا۔
نمرا تم اچھے سے جانتی ہو کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور میں ہر گز نہیں ہونے دوں گا۔
تو جلدی مناو نہ اپنے گھر والوں کو۔
ہاں مگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس پرپوزل کو انکار کرو گی۔
اچھا اس بارے میں بعد میں بات ہوگی فلحال مجھے کچھ کھلاو بہت بھوک لگی ہے۔
ہممم ٹھہرو اس نے فورا ایک بہرے کو اشارے سے اپنے پاس بلایا تھا جبکہ نمرا اب فون میں مگن ہو چکی تھی۔       
                                       ~~~~~~~
ارحم ہوسپٹل سے نکل گیا تھا بے چینی اس قدر بڑھ گئی تھی اب اس سے ایک لمحہ بھی انتظار نہیں ہو رہا تھا۔وہ پہلی فرصت میں اپنی بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے گھر کے لیے نکل گیا تھا۔ آج حور کے گھر والوں نے اپنا جواب دینا تھا دن کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اسکی پریشانی بھی بڑھ رہی تھی مگر اس بات کا تہیہ تو وہ تین سال پہلے ہی کر چکا تھا جب وہ ان نیلی آنکھوں کا اسیر ہوا تھا  کہ وہ حور کہ علاوہ کسی سے شادی نہیں کرے گا۔ بائیک اپنی ازلی سپیڈ پہ چلاتے ہوئے وہ اسکی یادوں میں ہی کہیں کھو گیا تھا۔دیھمی مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں  کو چھوا تھا۔
                                  ~~~~~~~
دن کے بارہ بجے کے قریب وہ دونوں ہسپتال کے کیفیٹیریا میں بیٹھی چائے پی رہی تھی ہسپتال معمول کے مطابق بھرا ہوا تھا ہر طرف لوگ اپنے اپنے مریضوں کی خاطر بھاگ دوڑ کر رہے تھے وہ دونوں بھی ابھی افشین کو سلا کر کچھ کھانے کے لیے یہاں آئی تھی۔ تب ہی کوئی شخص ان کے قریب پڑی  خالی کرسی پہ براجمان ہوا۔پہلے اسے سویرا اور پھر حور نے دیکھا تھا۔
"ہیلو مس اندھی کیسی ہو"۔ اسکے دیکھنے پہ وہ بلا جھجک بولا 
اوہ ہیلو مسٹر بے وقوف تمیز سے" اسکے نام لینے کے انداز سے ارحم محفوظ ہوا تھا یعنی وہ اسے پہچانتی تھی مگر حور نے آج بھی چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔
"حور تم انہیں جانتی ہو" سویرا نے سرگوشی کی
"ہاں یہ ہی وہ رات والا بے وقوف" حور نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
"آپ لوگ یہاں کسی پیشنٹ کے ساتھ ہیں "اس نے نیا سوال داغا
"جی" حور کی جگہ سویرا نے جواب دیا تھا۔
"اوہ اچھا پیشنٹ آپ کا کیا لگتا ہے" اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو حور اسکی اس قدر دلچسپی سے جنجھلائی وہ بلا جواز ہی اتنا فرینک ہو رہا تھا۔
"کیوں ہم آپ کو کیوں بتائے اور سوالات تو ایسے کر رہے ہو جیسے یہاں کے ڈاکٹر ہو-" وہ تنککے بولی۔
"وہ بھائی میری امی ایڈمٹ ہے یہاں"سویرا نے مختصر سا جواب دیا۔
"ہممممم" ارحم نے حور کو بغور دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا جو اب دوسری جانب لوگوں کو دیکھنے میں مصروف تھی۔
"اچھا چلیں ہوپ سو وہ جلد صحتیاب ہو جائے" وہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"آمین "سویرا  اس کی بات پہ مسکرائی تھی۔جبکہ وہ حور پہ ایک  بھرپور نظر ڈالتا ہوا کیفیٹیریا سے باہر نکل گیا۔

                                        ~~~~~~

وصلِ یار Where stories live. Discover now