کبھی روگ نہ لگانا پیار کاlast part

189 14 10
                                    

لاسٹ قسط
***************
وہ تھکے ہوئے قدموں سے ہسپتال آیا تھا۔۔ اپنی جان سے پیاری دوست یا پھر ایک طرفہ محبّت کہہ لیں وہ حد درجے پریشان تھا دل تھا کی ڈوبتا ہی جا رہا تھا۔۔ وہ دروازے کے اُس پار لیٹے وجود کو دیکھ سکتا تھا۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا دروازے کے پاس آیا اور مائشا کو دیکھنے لگا اسکو دیکھتے ہی کئی پل اُسکے سامنے ایک یاد بن کر لہرائے تھے۔۔ وہ دو مہینے پیچھے چلا گیا تھا۔۔۔ " ذیشان !! دیکھو تو یہ کتنا پیارا ہے..؟ مائشا نے اسکو آواز دی وہ جو ابھی ابھی باہر سے آ رہا تھا مائشا کی آواز پر لان کے جانب پلٹ کر دیکھا اُسنے، سامنے مائشا کو دیکھ کر اُسکے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی تھی۔۔۔ وہ چلتا ہوا اُس تک آیا تھا۔۔۔" کیا خوبصورت ہے؟؟" موسم !! ہاں وہ تو ہے " لیکن یہ پہلی بار تو نہیں ہو رہا جو تُم اتنا خوش ہو رہی ہو.. اُسنے ہنستے ہوئے مائشا سے کہا تھا۔۔۔ "جی یہ خوشی کی ہی بات ہے ، اللّٰہ تعالیٰ نے اتنا خوبصورت موسم صرف اپنے بندے کے لئے کیا ہے بھئی میں تو بہت خوش ہوں وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔کوئی اُسکے چہرے سے اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ لڑکی اپنے اندر اتنے دکھ لیے ہوئے ہے۔۔ وہ سب کے سامنے ایسے رہتی تھی ہے کوئی اُسکا چہرا نہیں پڑھ پاتا تھا۔۔ "ویسے ایک بات بتاؤ تُم اللّٰہ سے اتنا نزدیک کیسے ہوئی، وہ اب اُسکے چہرے کو بہت غور سے دیکھ کر بولا۔۔۔ مائشا نے اسکو دیکھا۔۔۔ اور بولی " ذیشان اللّٰہ وہ ہے جو اپنے بندے کا ساتھ نہیں چھوڑتا ہے لمحہ ہر پل ساتھ رہتا ہے ہر دن گزرتے کسی نہ کسی کو آپکا ذرائع بنا دیتا ہے جیسے آپکو بنا کر بھیجا تھا اللّٰہ نے ۔۔ وہ بولی تھی۔۔۔ ہممم وہ صرف اتنا ہی کر سکا کیونکہ اس لڑکی کی باتیں اُسکے دل اور دماغ دونوں کو ہلا کر رکھ دیتی تھی۔۔۔ اللّٰہ آپ اسکو جلدی صحتیابی عطا کر دیں امین !!! کبھی کبھی دعا اتنی جلدی پوری ہوتی ہے کہ انسان کو یقین کرنے میں وقت لگ جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی خواب ہو جو آنکھ کھولی اور ٹوٹ گیا۔۔۔ آپریٹ روم کا دروازہ کُھلا اندر سے ڈاکٹر باہر آئی ۔۔۔
Congratulations..
Both mother and baby are out of danger..
مبارک ہو .. ماں اور بچہ دونوں خطرے سے باہر ہیں
اسکو اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں ہوا تھا۔۔۔ وہ اسکو سن کر وہیں بیٹھتا چلا گیا۔۔۔ الحمدللہ الحمدللہ !!! بے شک اللّٰہ توں ہی ہے تعریف کے لائک !! تیرا جیسا کوئی نہیں کوئی بھی تو نہیں !!! وہ اپنی آنکھوں سے شکر کے آنسوں بہتا بولا ڈاکٹر کو بھی ایسے دوست پر اُس لڑکی پر رشک ہوا تھا۔۔۔ zm یعنی ذیشان مجتبٰی جو کبھی اللّٰہ کا نام بھی نہیں لینا پسند کرتا تھا آج وہ اللہ کی تعریف کرتے نہیں تھک رہا تھا۔۔۔ ذیشان مجتبٰی جہاں دشمنی میں جان لینی جانتا تھا، وہاں دوستی اور محبّت میں جان قربان کرنی جانتا تھا۔۔۔۔ اُسنے جلدی سے آنسوں پوچھے اور پھر ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوا۔
Can i meet them...?
"کیا میں ان سے مل سکتا ہوں؟
No !!
Now leave the mother and the two children alone until some tests are cleared and then we will shift them to a private room. Then you can meet them.
نہیں !!
"اب ماں اور دونوں بچوں کو اس وقت تک تنہا چھوڑ دو جب تک کہ کچھ ٹیسٹ کلیئر نہیں ہوجاتے ہیں اور پھر ہم انہیں نجی کمرے میں شفٹ کردیں گے۔ تب آپ ان سے مل سکتے ہیں۔
What?
"کیا؟؟؟
دو یعنی ٹونز بے بی ماشاللہ !!
وہ بہت خوش تھا اور ڈاکٹر اسکو دیکھ کر حیران" کیونکہ ایسے تو صرف باپ ہی خوش ہوتا تھا اپنے بچے کی پیدائش پر۔
" پھر یہ؟؟؟ ڈاکٹرز کے لئے یہ بہت حیرانی کی بات بھی تھی تو ایک طرف خوشی کا باعث بھی کیونکہ دنیا میں کہاں ایسے لوگ ملتے تھے جو کسی اور کی خوشی میں کوئی اور خوش ہو۔۔۔
"تھینک یو ڈاکٹر !!
وہ خوشی سے جھوم ہی اٹھا تھا۔۔ ڈاکٹرز مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی۔۔ اور وہ اللہ کہ شکر ادا کرنے اللہ کی بارگاہ میں چلا گیا تھا۔۔۔
جہاں آج منہال کو کھڑا ہونا تھا وہاں zm ( ذیشان مجتبٰی) کھڑا تھا اور ایک دوست ہونے کا فرض بخوبی سرانجام دے رہا تھا۔۔ اُسکے لیے وہ محبّت اُسکا عشق بعد میں تھی پہلے وہ اُسکے لیے ایک دوست تھی اور بہت عزیز بھی۔۔۔
"منہال !! میرے بچے عائشہ بیگم دروازے کو دیکھ دیکھ کر بہت رو رہی تھی۔۔ جہانگیر اپنی بہن کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا تھا صرفان اندر روم میں ہی تھا۔۔
"عائشہ میری جانِ !! اللہ پر یقین رکھو ہمارے منہال کو کچھ نہیں ہوگا انشاءاللہ !! جہانگیر نے اپنی بہن کو ہوسلا دیتے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔
"ب بھائی و وہ !!! عائشہ بیگم پھر سے رونے لگی۔۔ منہال کو آپریشن روم میں گئے ساڑھے تین گھنٹے گزر گئے تھے۔۔۔
اُسکے سر میں کافی چوٹیں آئی تھی دیا بازوں بہت جکھمی ہوا تھا جبکہ ایک کانچ کا ٹکڑا سینے کے اندر گھس گیا تھا۔۔۔
اب اُس کانچ کے ٹکڑے کو ہی نکالنے کے لئے آپریٹ کیا جا رہا تھا۔۔۔
"بھائی میرا بیٹا ٹھیک تو ہو جائے گا نہ ؟؟ عائشہ بیگم نے اپنے بھائی کی طرف دیکھ کر ایک اُمّید سے پوچھا۔۔ جہانگیر نے نظریں چرائی تھی اپنی بہن کے یوں اُمّید سے دیکھنے پر
"عائشہ ہم ڈاکٹرز صرف ایک ذرائع ہی ہے " انسانوں سے اُمّید نہیں لگاتے ،کیونکہ اُمّید کو پورا کرنا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا، اللّٰہ پر کامل یقین رکھو انشاءاللہ ہمارا منہال بہت جلد صحتیاب ہو جائے گا۔۔۔
"یہ چند لمحے کی کڑی آزمائش ہے ، اور اس آزمائش میں ہمیں اللہ پر یقین رکھنا ہے بسس ہمت مت ہارو ہمارا بیٹا ٹھیک ہوگا ۔۔
اس سے زیادہ جہانگیر اپنی بہن کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ وہ اپنی بیوی کو اشارہ کرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔
اور عائشہ بیگم پرائیر روم میں اپنے اللّٰہ سے اپنی بیٹے کی زندگی مانگنے چلی گئی ۔
بےشک وہ ہی تو ہے جو سب کی دعاؤں پر کن کہتا ہے۔۔۔
********************
ملک صاحب کو تین گھنٹے بعد ہوش آ گیا تھا۔۔ اب وہ خطرے سے باہر تھے سب نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا ۔ ملک صاحب کو پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔۔ سب ہی اب اُنکے پاس روم میں تھے عالیان انکا ہاتھ تھامیں بیٹھا تھا اور ملک صاحب دوائیوں کے زیر اثر سو رہے تھے۔۔۔ گھر کی ساری خواتین کو واپس حویلی بھیج دیا گیا تھا ۔۔ حسن شاہ ، شہزین ، عالیان اور دادا جان ہسپتال میں ہی تھے ۔۔ "بابا جان آپ بھی گھر چلے جائیں نہ بہت تھک گئے ہوگے ، حسن شاہ نے احسان صاحب سے کہا۔۔ " نہیں بیٹا میں آپ سب کے ساتھ ہی واپس حویلی جاؤنگا۔۔" اور پھر... !! وہ کچھ بولتے بولتے خاموش ہوئے تھے ۔۔"" ہمم ٹھیک ہے دادا جان آپ ہمارے ساتھ ہی چلنا شاہزین نے دادا جانِ کے ہاتھوں پر بوسہ دیتے کہا اور پھر حسن شاہ سے بولا۔۔۔ "تایا جان !! میں ابھی آیا وہ یہ بولتا روم سے نکل گیا تھا سب وہاں بیٹھے آگے کے حالات کے بارے میں سوچ رہے تھے۔۔۔۔ اب آگے کے حالات پتہ نہیں کون سی صورت اختیار کرنے والے تھے۔۔؟
********************
سلمان شاہ اپنے بیٹے کی ایکسیڈنٹ کی خبر سنتے ہی پہلی ایمرجنسی فلائٹ سے انڈیا آئے تھے۔۔ لاکھ ناراضگی صحیح لیکن تھی تو وہ اُنکی اولاد ہی۔۔ اور ماں باپ کتنا بھی اپنے بچے سے ناراض ہو لیں لیکن ایک سوئی چبھنے پر ہاتھوں پر مرہم بھی وہی لگاتے ہے۔۔ سلمان شاہ سیدھا ایئر پورٹ سے قریب رات کے دس بجے ہسپتال آئے تھے۔۔ وہ جلدی جلدی قدم بڑھاتے آ رہے تھے جب اُنکی ٹکّر ایک لڑکے سے ہوئی وہ لڑکا جو اپنی ہی دھن میں چلا جا رہا تھا اُسکے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل دور جا کر گر گئی تھی۔۔۔۔ سلمان شاہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولے۔۔ " س سوری بیٹا جلدی میں تھا ،جب وہ لڑکا اُنکی بات درمیان میں کاٹتے بولا انکل کوئی بات نہیں آپکی غلطی نہیں ہے میں ہی دیکھ کر نہیں چل رہا تھا۔۔ جب پیچھے سے کسی نے اسکو آواز دی "عالیان بیٹا !! عالیان .... سلمان شاہ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے اُس لڑکے کو دیکھنے لگے غور سے۔۔ عالیان نے پیچھے پلٹ کر دیکھا۔۔ اور کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔۔ "دادا جان آپ !! سلمان شاہ نے اُس لڑکے سے نظریں ہٹا کر سامنے کھڑے شخص کو دیکھنا چاہا تھا۔۔۔ " سر آپکو جہانگیر سر اپنے آفیس میں بلا رہے ہیں ، ایک بچے نے آ کر سلمان شاہ کو اطلاع دی تھی ، سلمان شاہ بھی دیکھنے کہ ارادہ ترک کرتے جہانگیر کے آفس کی طرف بڑھ گئے تھے۔۔۔
اور عالیان دادا جانِ کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔۔۔
" دادا جان آپ !! بابا کے پاس تھے پھر یہاں .؟؟ وہ کچھ کام کا بول کے احسان صاحب کو ملک شاہ کے پاس ہی چھوڑ کر آیا تھا۔۔۔ اسکو صرفان سے ملنا تھا۔۔ بہت دنوں بعد وہ لندن سے واپس آیا تھا ۔۔ پھر بابا کی طبیعت کے باعث وہ ہاسپٹل میں موجود ہوتے ہوئے بھی نہیں مل پایا تھا۔۔ اب جب ملک شاہ کے طبیعت ٹھیک تھی روح وہ صرفان سے ملنے اُسکے آفس کی طرف جا رہا تھا۔۔۔ جب اچانک ان انکل سے اُسکی ٹکّر ہوئی تھی ۔۔ اور پھر دادا جان کا انا۔۔" بیٹا کہاں جا رہے ہو؟ دادا جان نے اُس سے پوچھا۔۔ " وہ ینگ مین" میں صرفان سے ملنے جا رہا تھا۔۔" کیوں کوئی کام ہے کیا آپکو ؟ وہ بول کر اب پوچھ رہا تھا ۔" ہاں ! دراصل ، اچھا آپ جاؤ بعد میں بات کر لیتے ہیں دادا جان نے عالیان کو جانے کا کہا " جی !!! وہ یہ بولتا صرفان کے کیبن کی طرف بڑھ گیا تھا، جبکہ دادا جانِ ہاسپٹل کا جائزہ لینے لگے تھیں۔۔
*********************
وہ جب مسجد سے شکرانے کے نماز ادا کر کی واپس ہسپتال آیا تو اسکو جس روم میں مائشا تھی وہاں بہت بھگدڑ دکھائی دی ایسا للہ رہا تھا جیسے ڈاکٹر بہت جلدی میں ہو ، وہ جلدی سے وہاں پہنچا تھا۔۔ اور ایک نرس کو روکتے ہوئے بولا۔۔
"sister !!
"everything is fine..
وہ روم کی طرف اشارہ کرتے پریشانی سے پوچھ رہا تھا۔۔ سر اندر جو مریض ہے اُنکی ایک دم بہت حالت خراب ہو گئی ہے۔۔
وہ نرس بولتی جلدی سے اندر کے جانب بڑھ گئی تھی۔۔
اور وہ شیشے کے اُس پار مائشا کی بگڑتی حالت کو دیکھ کر ازحد پریشان ہو گیا تھا۔۔۔ وہ باہر کھڑا ہو کر اللّٰہ سے مسلسل دعا کر رہا تھا۔۔ اسکو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ابھی تو بلکل خطرے سے باہر تھی اُسکی ڈول ، پھر ایک دم ؟؟؟
تبھی دو ڈاکٹر باہر نکلے وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے ۔۔" ڈاکٹر محسن ان پیٹنٹ کی جو حالت ہے نہ مجھے نہیں لگتا ہم سے اب یہ کور ہو پائے گی۔۔
"آئی تھنک ہم نے بہت کوشش کر لی ہے۔۔ اب صرف ڈاکٹر صرفان ہی کچھ کر سکتے ہیں۔۔
ڈاکٹر سمعیہ نے ڈاکٹر محسن سے کہا تھا۔۔
"ہممم !! ڈاکٹر سمعیہ آپ صحیح بول رہی ہے، اب ہمیں ڈاکٹر صرفان کو بلانا ہی ہوگا۔۔
"لیکن ڈاکٹر صرفان !! وہ کچھ بولتی کہ نرس دوڑتی ہوئی اُنکے پاس آئی تھی "میم !! میم اُنکی حالت بہت خراب ہو رہی ہے۔
میم وہ پٹینٹ کسی کا نام مسلسل لے رہی ہے۔۔۔ کوئی منہال نامی شخص ہے شائد ؟ وہ نرس اندازہ لگاتی جلدی جلدی بولی تھی اور وہ دونوں ڈاکٹر اُس نرس کو ڈاکٹر صرفان کو بلا کر لانے کا بول کر ایک بار پھر اُس روم میں چلے گئے تھے ۔۔
ذیشان دور کھڑا یہ سب سن رہا تھا اور آج وہ اپنے اللّٰہ سے اُس لڑکی کی زندگی کے لیے دعا گو تھا۔۔۔
آج اسکو صحیح معنوں میں اپنی زندگی ڈوبتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ہی ایک نوجوان ڈاکٹر جلدی سے اُس نرس کے ساتھ آیا تھا اور دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔۔۔
ڈوبتی زندگی میری
سانسوں سے تیری جڑی ہے
کیا بتاؤں میں تُجھے
تُو ہو کر بھی کسی اور کی
لیکن میں پھر بھی تیرا رہا
خیالوں کا ایک شہر میرا
جس میں تُو ہے
دعاؤں کے ایک جہان میں
میں تیرا منتظر ہوں
تُجھ سے وابستہ ہے میری خوشی
تُو سلامت رہے تو میں خوش ہوں
مجیبہ چودھری

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا Complete ✅Where stories live. Discover now