سگنل پر گاڑی رکی تو صائمہ کی نظر آج پھر اس عورت پر پڑی وہ تقریبا ایک ماہ سے روز اس عورت کو سگنل پر ایک گاڑی سے دوسری اور دوسری سے تیسری تک دھتکار سنتے دیکھتی تھی۔ صائمہ کو شروع میں خود بھی اس سے بڑی کراہیت محسوس ہوتی تھی مگر اب روز اس کو ہر ایک سے دھتکار سنتے دیکھ کر صائمہ کو اس پر غصہ آنے لگا تھا۔ وہ بلکل صحیح سلامت تھی اچھی خاصی صحت مند جسامت کی مالک پھٹے پرانے کپڑے پہنے چہرے پر بیچارگی اور مظلومیت کی چادر اوڑھے وہ ہر ایک سے اپنی مشکلات بیان کرتے ہوئے سوال کرتی لیکن صائمہ ہمیشہ جب اسکو اپنی گاڑی کے قریب آتا دیکھتی تو فورا سے گاڑی کے شیشے اوپر چڑھا لیتی وہ عورت اس کا دروازہ دو سے تین دفعہ بجاتی اور پھر اگلی گاڑی کی طرف چلی جاتی۔ یہ کام کرنے والی وہاں صرف وہ اکیلی نہیں تھی اس جیسی دو اور عورتیں بھی وہاں تھیں۔ ایک دن اچانک ہی صائمہ کی نظر گرین بیلٹ پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ دو سے چار عورتیں وہاں اپنے کٹورے لیے بیٹھی ایک دوسرے سے گپیں ہانک رہیں تھیں انکے بے ہنگم قہقہے کہیں سے بھی انکی بے چارگی کو بیان نہیں کر رہے تھے بلکہ انکو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اپنی اس ذلت آمیز زندگی سے بڑی خوش اور مطمئن ہیں اور ہوتی بھی کیوں نہ جب انسان کو ہاتھ پیر چلائے بغیر مفت کی روٹیاں ملتی رہیں تو ضمیر خود بخود پرسکون نیند سو جاتا ہے۔
وہ انہی سوچو میں غرق تھی کہ سگنل کی روشن ہوئی ہری بتی کو دیکھ کر اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ لے کھا لے آج کسی نے اپنے پیارے کا ختم کرایا تھا میٹھے چاول بانٹے تھے بڑے مزے دار ہیں۔" حلیمہ نے اپنی بیٹی نجمہ کے آگے شاپر میں بند ہوئے چاول رکھتے ہوئے کہا اور خود بھی آکے اس کے ساتھ چار پائی میں دھنس گئی کیونکہ اسی چار پائی میں اس کا چار سالہ بیٹا کامران سویا ہوا تھا۔
" ہائے اماں چاول تو سچی میں بڑے مزے دار ہیں میں تو رب سوہنے سے دعا کرتی ہوں کہ ان بڑے گھر والوں کا کوئی نہ کوئی مرتا رہے ہمیں مزے کے چاول تو ملتے رہیں گے نا۔" نجمہ نے بڑے ندیدے انداز میں ہاتھوں سے چاول کھاتے ہوئے کہا تو اسکی بات سن کر ایک لمحے کے لیے حلیمہ دھل سی گئی۔
" ارے او میری جھلی دھی رب سونے سے ایسی دعا نہیں کرتے تجھے کھانا ہی کھانا ہے نا تو لوگ شادیوں کا بچا ہوا بھی تو بانٹ جاتے ہیں نا؟" حلیمہ کو اپنی سات سالہ بیٹی کی بات اچھی نہ لگی تو وہ اسے سمجھانے لگی۔
"او چھوڑ اماں یہ وڈی وڈی کوٹھیوں والے ہم غریبوں کو صرف اپنے دکھ میں یاد کرتے ہیں ورنہ خوشی میں کہاں کا صدقہ اور کہاں کی خیرات۔" نجمہ بڑی رغبت سے کھانا کھاتے ہوئے ساتھ ہی میں اپنی ماں کو بھی لاجواب کر رہی تھی۔ اسکی باتیں حلیمہ کو حیران کیے دے رہی تھیں کہ ناجانے کب وہ اتنی سمجھدار ہو گئی۔ مگر اسنے اسکی باتوں پر زیادہ غور نہ کیا اور چار پائی سے اٹھتی ہوئی زمین پر بیچھی ہوئی چیٹائی پر لیٹ گئی کیونکہ محض صرف دو ہی گھنٹے وہ سکون سے سو پاتی تھی اسکے بعد اسکا شوہر آجاتا اور پھر ساری رات ڈی وی ڈی پر فلمیں دیکھنے کے ساتھ ساتھ کھانستے ہوئے اپنی ماں سے گپیں ہانکتا رہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
راہِ عمل ہے زندگی
Short Storyیہ افسانہ ہے ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت پر ہمارے اردگر ہر جگہ نظر آنے والے بھیک مانگنے والوں کی کہانی. ایک بھیک مانگنے والی عورت کی کہانی جس نے اپنی آنے والی نسلوں کو اس گناہ سے بچا لیا.