مفتی تنظیم عالم قاسمی*

4 0 0
                                    

مفتی تنظیم عالم قاسمی*

انسان کا مقصد زندگی

ایک عقلمند انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو اس کے کچھ مقاصد اور اغراض ہوتے ہیں ، جن کی تکمیل کے لیے وہ شب و روز جد و جہد کرتا ہے ، جانی ومالی قوت صرف کرتا ہے اور ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتا ہے ، اگر کچھ مسائل و مصائب درپیش ہوں تو انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتا ہے ؛ لیکن اپنے مقصد اور مشن سے قدم پیچھے نہیں ہٹاتا اور نہ ہی لا یعنی اوربیکار چیزوں میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے ، ایک انسان جب بلا مقصد کوئی کام نہیں کرتا تو کیا آپ نے اس وسیع و عریض کائنات میں کبھی غور کیا کہ یہ چمکتا ہوا چاند ، روشن سورج ، اونچے نیل گوں آسمان ، چوڑی چکلی زمین ، یہ ہرے بھرے درخت ، پھیلے ہوئے پہاڑ ، چرند و پرند ، تالاب اور سمندر اوربھی ان گنت چیزیں جن سے خدا نے کائنات کو سجایا اور بسایا ہے ، اس کا کیا مقصد اور غرض ہے ؟ کیا آپ نے کبھی اپنے وجود میں غور کیا کہ یہ حیرت انگیز جسمانی ساخت ، دماغ اور معدہ کا پیچیدہ نظام ، آنکھ ، کان ، ناک ، ہونٹ ، زبان اور دیگر اعضاء کی مناسب تخلیق کس نے اور کیوں کی ؟ کیا یہ سارا نظام یوں ہی وجود میں آگیا یا اس کا کچھ مقصد اور غرض ہے ؟

یہ اور اس طرح کے مختلف سوالات کے جواب کے لیے قرآن اور احادیث کی تصریحات پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ساری کائنات کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے نفع کے لیے بنایا ، اگر کسی میں ظاہری طور پر ضرر کا پہلو نظر آئے تو بھی یقین کرنا چاہئے کہ اس میں بھی انسان کا نفع پوشیدہ ہے ، ہماری عقل اس کے ادراک سے قاصر ہے ، بہر حال دنیا کی تمام چیزیں انسانی خدمت اور ان کی نفع رسانی کے لیے ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ، یعنی انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا اور اس کے مشمولات سے نفع اٹھائے اور اپنے رب کی بندگی و اطاعت کرے ، اپنی مرضی کو اسی کی مرضی کے تابع کرے اور اسی کو حاجت روا اورمشکل کشا سمجھے ، خدانے تخلیق انسانی کے اس مقصد کو اس طرح بیان کیا ہے :

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶ مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۝۵۷ اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُ۝۵۸ (الذاریات : ۵۶ -  ۵۸ )

’’ میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں ، میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ، اللہ تو خود ہی رزاق ہے ، بڑی قوت والا اور زبردست ‘‘

مذکورہ آیات میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے جو چیز مطلوب ہے وہ عبادت ہے ، عام انسانوں کی طرح کوئی ذاتی نفع یا خدمت مقصود نہیں ، جیساکہ دنیامیں دستور ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا آدمی اگر کوئی غلام خریدتا ہے تو اس کا مقصد اس کے ذریعے رزق حاصل کرنا ، اسے کسی کام میں مصروف رکھ کر اس کا عوض لینا یا اپنے کاموں میں مدد لینا ہوتاہے ، مگر اللہ تعالیٰ ان تخیلات سے پاک اور برتر ہے ، وہ کسی کا محتاج نہیں ، وہ رزق کا محتاج نہیں کہ وہ بندوں سے رزق کا مطالبہ کرے ، وہ اتنی زبردست قوت کا مالک ہے کہ وہ خود ساری مخلوقات کو رزق دیتا ہے ، ان کے مسائل کو حل کرتا ہے اور ان کی مرادیں پوری کرتا ہے ، ایسے زور آور اور قادر و توانا کو بندوں کی خدمت کی کیا حاجت ؛ اس لیے ان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت و عبودیت ہے کہ وہ اپنے رب کی شہنشاہی اور عظمت و کبریائی کا قولاً وفعلاً اعتراف کرکے اس کو سجدہ کرے اور اپنی ساری خواہشات اور قلبی ارمان کو اس کے تابع کردے ۔

Has llegado al final de las partes publicadas.

⏰ Última actualización: Feb 12, 2023 ⏰

¡Añade esta historia a tu biblioteca para recibir notificaciones sobre nuevas partes!

انسان کا مقصد زندگیDonde viven las historias. Descúbrelo ahora