Part :1

30 2 2
                                    

دل میں خوشبو ہے تری ،تجھ کو بھلاتا کیسے
نہیں جو یاد تیری خود کو رُلاتا کیسے
میں نے چاہا تو بہت تجھ کو مگر پا نہ سکا
وفا کی راہ پر میں ساتھ نبھاتا کیسے

آج نہ جانے کیوں وہ اسے بیحد یاد آرہی تھی ۔یادوں کے سمندر میں غرق چلتے ہوئےبے ساختہ ہی اس کے قدم اس فلاور شاپ کے سامنے رک گئےجہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا تھا۔
آج سے ٹھیک دو سال قبل۔۔۔
اسی تاریخ۔۔۔۔
اسی دن۔۔۔۔
ان کی کہانی کی ابتداء ۔۔۔
ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔۔۔!
یادوں کے در وا ہوتے چلے گئے۔۔۔اور ساتھ ہی اس کے چہرے پرچھائے دکھ و کرب کے آثاربھی گہرے ہوتے چلے گئے۔۔۔۔۔

حصان ملک کا اپنا کوئی فیملی بیک گراؤنڈ نہیں تھا۔وہ خود اکلوتے تھے۔ماں باپ کے انتقال کے بعد بالکل ہی تنہا ہوگئے تھے ۔بس جعفر نثار ہی تھے جو ان کےپڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ بچپن کے دوست بھی تھے۔والد اپنے پیچھے وسیع و عریض جائداد ان کیلئے چھوڑ گئے تھے۔ جعفر نثار کی فیملی بھی محدود ہی تھی۔کچھ عرصہ قبل ہی والدین ایک سال کے وقفے سے ملک عدم سدھار چکے تھے۔اپنے سے چھوٹی دو بہنوں تسکین اور تقدیس کی شادی کی ذمہ داری اب انہی کے کندھوں پر تھی۔
حصان ملک کی جائداد کی لالچ میں کئی دور پار کے رشتہ داروں نے ان سے اپنی لڑکیوں کی شادی کروانی چاہی مگر انھوں نے صاف انکار کردیا اور اپنے لیے جعفر نثار کی بہن تسکین کا انتخاب کیا جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوب سیرت بھی تھی۔شادی کے دو سال بعد ہی خدا نے انھیں چاند سے بیٹے سے نوازا جس کا نام انھوں نے بڑی محبت سے عدیم رکھا۔اس عرصےمیں جعفر نثار کی شادی تسکین کی کلاس فیلو تمیمہ سےاور تقدیس کی ان کے دور کے کزن صدیق احمد سے ہوچکی تھی۔شادی کے پہلے ہی سال جعفر نثار کے یہاں پریشے کی ولادت ہوئی اور چند مہینوں کے وقفے سے تقدیس کے یہاں پری پیکر روحہ شانزے نے قدم رنجہ فرمائے۔ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا۔

مگر تقدیر کو نہ جانے کیا منظور تھا کہ اچانک ہی صدیق احمد کی ایک روڈ ایکسیدنٹ میں ڈیتھ ہوگئی۔سب کی خوشیوں پر جیسے اوس پڑگئی۔
کچھ عرصہ قبل جہاں خوشیوں کی چہکار تھی اب وہاں صفِ ماتم چھائی ہوئی تھی۔ صدیق احمد کے دنیا سے منہ موڑتے ہی سسرال والوں نے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی اور مجبوراََتقدیس اپنی نومولود بیٹی سمیت بھائی کی دہلیز پر آبیٹھی۔جعفر نثار نے کھلے دل سے اپنی بہن کو خوش آمدید کہامگر تمیمہ سے بیوہ نند اور ایک یتیم بچی کی ذمہ دار ی برداشت نہ ہوسکی اور وہ جعفر نثار کے سمجھانے کے باوجود جب بھی موقع ملتا اپنے طنز کے نشتروں سے ان کا دل چھلنی کرتی رہی۔بھاوج کے رویے سے دل برداشتہ ہوکر تقدیس نے بالکل چپ سادھ لی اور اپنے آپ کو گھر کے کاموں میں مشغول کردیا۔

تسکین سے برداشت نہ ہوا تو بہن اور بھانجی کو اپنے گھر لے آئی۔مگر کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ حصان ملک کو اپنا بزنس ملک سے باہر منتقل کرنا پڑا۔کچھ عرصہ تنہا رہنے کے بعد بیوی اور بیٹے کو بھی وہیں بلوا لیا۔انھوں نے تقدیس سے بھی ساتھ آنے پر اصرار کیا مگر اس نے معذرت کے ساتھ منع کردیا اور دوبارہ بھائی کے گھر لوٹ آئی۔جعفر نثار نے ان کی دوسری شادی پر زور دیا مگر وہ اپنی پیاری بیٹی کو بے سہارا نہیں کرنا چاہتی تھی لہٰذا صاف انکار کردیا اور ان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ایک چلڈرنس اسکو ل میں جاب کرنے لگی۔

Raah E Wafa 💕Where stories live. Discover now