Part 2

50 2 0
                                    

''آآآپ۔۔۔!"اسے دیکھ کر وہ تو اچھل ہی پڑی،جیسے چارسوچالیس وولٹ کے تار نے چھو لیا ہو۔وہ اس کی گھبرائی حالت پر جی بھر کر محظوظ ہوا۔
''تم میرا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک چلے آئے۔۔۔!؟"ایک راہ چلتے اجنبی کو یوں اپنے سامنے دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے۔وائے رے قسمت کہ گھر میں کوئی تھا بھی نہیں ۔امی اسکول،پری یونیورسٹی،اور ماموں جان آفس جاچکے تھے۔لے دے کے ایک مامی جی تھیں جو اس بھری دوپہر میں گرمی سے بچنے کی خاطر اپنے ائیر کنڈشنر روم میں استراحت فرما رہی تھیں۔اور نیند کی اتنی پکی تھیں کہ قیامت آکر گزر جائے مگر وہ اپنے وقت سے پہلے نہ جاگتیں۔
"ایں !میں بھلا کیوں تمہارا پیچھا کروں گا؟"وہ حیران ہوا۔
"تو پھر میرے گھر میں کیا کررہے ہو؟."
"محترمہ !یہ تو مجھے پوچھنا چاہیئے کہ آپ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہی ہیں ؟کہیں آپ میرا پیچھا کرتی تو یہاں نہیں آگئیں؟"وہ الٹا اسے ہی مشکوک نظروں سے گھورنے لگا حالانکہ یہ اندازہ تو لگا ہی لیا تھا کہ ہو نہ ہو وہ اسی گھر کی مکین ہے۔
"وہاٹ نانسیس!میرے گھر میں آکر مجھ سے ہی کہہ رہے ہو !نکلو یہاں سے ورنہ۔۔۔"وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی ہوئی اسے دھمکانے لگی۔
"ورنہ کیا؟"اس نے معصومیت سے پوچھا۔
"ورنہ۔۔۔"وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی جیسے اپنے بچاؤ کا سامان ڈھونڈ رہی ہو۔
"ورنہ میں اس واز سے تمہارا سر پھاڑ دوں گی۔"کچھ اور نہیں ملا تو اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا واز اٹھا دیا جسے ابھی کچھ دیر پہلے ہی تر و تازہ پھولوں سے زینت بخشی تھی۔
"اوہ!"وہ بے ساختہ ہی ہنسنے لگا۔جبکہ وہ اسے خشمگیں نگاہوں سے گھور رہی تھی۔
"آپ کو لگتا ہے آپ مجھ پر قاتلانہ حملہ کریں گی اور میں بت بنا آپ کی کاروائی ملاحظہ کروں گا۔۔۔؟ محترمہ میں تو عین موقع پر جھکائی دے جاؤں گا اور اس کے نتیجے میں یہ جو آپ کا خوبصورت سا واز ہے ناں۔۔۔، یہ دیوار سے ٹکرا کر ٹوٹ جائے گا سو نقصان آپ ہی کا ہوگا۔'' وہ تمسخرانہ انداز میں ہنسنے لگا۔
''ارے ،یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ،خواہ مخواہ میرا ہی قیمتی واز ٹوٹ جائے گا۔"وہ جیسے خود سے ہمکلام تھی۔
"ارے واہ میڈم! آپ کو آپ کے قیمتی واز کی فکر ہے اور مجھ جیتے جاگتے انسان کی نہیں جس کا آپ بڑی بے دردی سے سر پھاڑنے کا پلان بنا چکی ہیں؟"وہ اس کا جملہ سن کر برجستہ بولا۔
"ظاہر ہے میرا قیمتی واز ہے !اور رہی بات تمہارے سر کی تو وہ تمہارا مسئلہ ہےمجھے اس سے کیا!"وہ تیوریاں چڑھائے بڑی بے نیازی سے کہنے لگی۔
"محترمہ !یہ واز دوبارہ مل سکتا ہے مگر کسی کی جان نہیں۔"
"اگر تمہیں اپنی جان کی اتنی ہی فکر ہے تو اسے بچانے کی فکر کرو اور فوراََ یہاں سے نکلو ورنہ میں واقعی اپنے منصوبے پر عمل در آمد کروں گی۔"دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے واز تھامے وہ جارحانہ تیوروں سے دو قدم آگے بڑھی۔مگر وہ بھی ڈھیٹ ابن ڈھیٹ تھا بجائے اسے روکنے یا کچھ کہنے کے مسکراتا رہا۔
''کتنا بے شرم انسان ہے ،جانتا ہے کہ میں اس کا سر پھاڑ دوں گی پھر بھی پاگلوں کی طرح بتیسی دکھائے جارہا ہے!"وہ دل ہی دل میں جلتی کڑھتی مزید آگے بڑھی۔مگر اس کی حالت میں فرق نہیں آیا۔اب تو اس نے پکا ارادہ کرلیا کہ اس ڈھیٹ ابن ڈھیٹ کو مزہ چکھا کر ہی رہے گی۔
"روحہ۔۔۔!!!"اپنے کمزور دل کو ڈھٹ کرتی ہوئی ،وہ آنکھیں میچ کر اس پر وار کرنے کو ہی تھی کہ امی کی آواز پر چونک کر رک گئی۔پٹ سے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا تو ماں کو خشمگیں نگاہوں سے گھورتی پایا۔
"امی ! اچھا ہوا آپ آگئیں ۔یہ دیکھیں ۔۔۔یہ سڑک چھاپ فلاور شاپ سے میراپیچھا کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہے۔۔۔"ان کی گھورتی نگاہوں کی پرواہ کیئے بغیر وہ ان کی طرف لپکی اور ان کا بازو تھام کر جلدی جلدی حالات سے آگاہ کرنے لگی تھی ۔
"دماغ تو درست ہے تمہارا!جانتی ہو یہ کون ہے؟"انھوں نے جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے بازو چھڑایا ۔
"ہاں ،مطلب نہیں۔۔۔یہ وہی فلاور شاپ والا بندہ ہے جو خواہ مخواہ مجھ سے الجھ گیا تھا۔"وہ ماں کی غصہ ہوتی نگاہوں پر کچھ گھبرائے اور الجھے ہوئے لہجے میں بتانے لگی۔جبکہ وہ سامنے کھڑا ماں بیٹی کے مکالموں سے ایسا حظ اٹھا رہا تھا گویا لائیو شو چل رہا ہو۔تقدیس نے ایک خفگی بھری نظر بیٹی پر ڈالی اور اس کی طرف متوجہ ہوگئیں۔
"بیٹا !تم ٹھیک تو ہو؟"وہ فکر مندی سے پوچھنے لگیں۔
"ہاں آنٹی! اچھا ہوا آپ آگئیں ورنہ یہ محترمہ تو مجھ پر قاتلانہ حملہ کرچکی تھیں۔اگر آپ کو آنے میں تھوڑی بھی دیر ہوجاتی تو شاید میری روح اب تک عالم ارواح کی طرف پرواز کرچکی ہوتی۔"وہ کچھ شوق و شریر لہجے میں کہتا ہوا اسے دیکھنے لگا جو جذبذ سی کبھی ماں کو اور کبھی اس اجنبی کو دیکھ رہی تھی۔
"خدانخواستہ !کیسی ڈراؤنی باتیں کررہے ہو!اللہ تمہاری عمر میں مزید اضافہ کرے۔"تقدیس جلدی سے بولیں۔
"ارے آنٹی ،میں تو مذاق کررہا تھا۔اور ویسے بھی اگر آپ نہ آتیں پھر بھی ان محترمہ کا پلان میرے سامنے فیل ہی ہونا تھا۔"وہ جیسے اس کا تمسخر اڑانے لگا تھا۔
"امی !یہ کون ہے؟"ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو وہ جھنجلا کر پوچھ ہی بیٹھی۔
"بےوقوف لڑکی، یہ عدیم ہے ۔۔۔!"انھوں نے اس کی عقل کا ماتم کرتے ہوئے تعارف کروایا۔
"ع ۔عد ۔عدیم ۔۔۔بھائی۔۔"وہ تو اچھل ہی پڑی۔
"جی آپ کا خالہ زاد جسے آپ سڑک چھاپ سمجھ رہی تھیں۔"وہ شوخ بھرے لہجے میں بولا تو وہ زبان دانتوں تلے دبا کرجھٹ شرمندگی سے سر جھکا گئی۔
"اب اتنی عقل تو ہے نہیں کہ جھوٹے منہ معافی ہی مانگ لو۔"تقدیس بدستور اسے جھاڑ پلا رہی تھیں۔
"امی! مجھے کیا الہام ہوا تھا یہ کون ہے۔۔۔ جس طرح سے ی ڈائریکٹ گھر میں داخل ہوئے ہیں ، میرا ردِّعمل فطری تھا۔"وہ تلملا گئی۔
"کیوں تمہیں پتا نہیں تھا کہ یہ آنے والا ہے؟"تقدیس نے گھورا۔
"جی ہاں مجھے اطلاع ملی تھی کہ محترم کل تشریف لانے والے ہیں لیکن کل کی فلائیٹ آج ہی کیسے لینڈ کر گئی۔۔؟" اپنی توہین پر وہ جل کر بولی۔عدیم نے بے ساختہ اپنی ہنسی روکی تھی۔
''ہے ہے لڑکی زبان کو لگام دو ،یہ کوئی طریقہ ہے بڑوں سے بات کرنے کا۔!"
"تو بنا اطلاع و تعارف کے یوں گھر میں گھس آنے کا کون سا درست طریقہ ہے امّی؟" وہ دوبدو بولی۔
''روحہ چپ ہوجاؤ ورنہ آج ضرور میرے ہاتھوں پٹ جاؤ گی۔"تقدیس نے تنبیہی لہجے میں کہا۔
"امی ! آپ اپنی اکلوتی اور جوان بیٹی پر ہاتھ اٹھائیں گی وہ بھی اس بندے کی خاطر!!!"وہ غم و غصے سے عدیم کو گھورنے لگی جو اس کا تپا چہرہ دیکھ کر بدستور مسکرائے جارہا تھا۔
"تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے۔چلو بیٹا تم فریش ہوکر آجاؤ میں تب تک کھانے کا انتظام کرتی ہوں۔"وہ اس پر افسوس کرتی ہوئی اب عدیم سے مخاطب تھیں۔
"ارے نہیں آنٹی آپ خواہ مخواہ پریشان مت ہوئیے ،مجھے بالکل بھی بھوک نہیں ہے۔میں فی الحال آرام کرنا چاہوں گا ۔"وہ شائستگی سے بولا۔
"اوکے بیٹا ،جیسی تمہاری مرضی ۔میں تمہارے لیے فریش جوس بھیج دیتی ہوں۔"
"ہاں یہ چلے گا۔"وہ خوشدلی سے بولا ۔اس وقت اسے کولڈ ڈرنک کی سخت ضرورت محسوس ہورہی تھی۔
"میں روحہ کے ہاتھوں بھجوادیتی ہوں جوس بھی اور تمہارا سامان بھی۔" تقدیس نےمسکرا کر کہا۔
" امی، میں کیسے ۔۔۔؟!" قبل اس کے کہ وہ خود انکار کرتا روحہ جھٹ سے بول پڑی۔ اس کی حیرت سے کھلی بڑی بڑی آنکھوں کو دیکھ کر وہ مسکرا دیاجبکہ تقدیس اپنی فرمانبردار بیٹی کو یوں پہلی بار منہ پھٹ انداز میں بات کرتی دیکھ کر خشمگیں نگاہوں سے گھور ی جارہی تھیں۔
"تمہیں آج آخر ہو کیا گیا ہے ؟پہلے تو کبھی ایسے لب و لہجے میں بات نہ کی!"
"آنٹی لگتا ہے اس سخت گرمی نے ان کے اچھے خاصے دماغ پر افیکٹ کیا ہے۔"وہ شوخی سے کہتا پچھلا حساب بے باق کرگیا اور روحہ بس اسے گھور کر رہ گئی۔
"اب چلو گی بھی۔۔۔"تقدیس کے ٹوکنے پر وہ دانت پیس کر اسے گھورتی ہوئی واک آؤٹ کرگئی ۔ جبکہ عدیم مسکرا دیا۔

***

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Aug 12, 2023 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

Raah E Wafa 💕Where stories live. Discover now