رانگ نمبر (Wrong Number) 🔞

91 0 2
                                    

رانگ نمبر
رمیض 25 سال کا ایک نوجوان لڑکا تھا۔ رنگ کا گورا اور جسامت کا فولادی تھا۔ کیوںکہ وہ کثرت بھی روزانہ کرتا۔ اپنی جان بنانے اور صحت کا خیال رکھنے کا اسے شوق بھی بہت تھا۔ اس نے خوب جان بنا رکھی تھی اور بہت سے برے کاموں سے وہ ہمیشہ دور رہتا تھا۔ کوئی بھی لڑکی اس کو دیکھ کر اس سے بات نا کرے ایسا کسی کتاب میں نہیں لکھا تھا۔
ایک رات وہ کثرت کرکے اپنے جم سے لوٹا کھانا کھایا اور سیدھا اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔ وہ آج کافی تھکا ہوا تھا اور اس کی آنکھ لگ گئی۔ رات قریب 12 بجے اسے ایک انجان نمبر سے کال ائی۔ اس نے تھوڑی سی انکھ کھولی اور انجان نمبر دیکھ کر کال کاٹ دی اور پھر سے الٹا لیٹ کر سوگیا۔ چند سیکنڈ بعد اسے پھر اسی ہی نمبر سے کال ائی۔ اس نے پھر نمبر دیکھا اور اب کی بار اس نے کال اٹھا لی سوچا ساید کوئی جاننے والا ہو اور اسے ایمرجنسی ہی نا ہو جو دوسری بار بھی کال کی ہے۔
رمیض: ہیلو!
رمیض کو ایک زنانہ اور دلکش آواز سنائی دیتی ہے۔
عورت: ہیلو! رمیض بات کر رہے ہو؟
رمیض: جی مگر آپ کون؟
عورت: کیسے ہو تم؟
رمیض: جی ٹھیک ہوں مگر آپ ہیں کون؟ اس وقت فون کیا ہے کیا بات ہے؟
عورت: ارے گھبرا کیوں رہے ہو؟ اتنے خوبصورت جوان ہو اور تگڑے بھی تو گھبرانا نہیں بنتا خاص طور پر ایک زنانہ آواز سن کر۔
رمیض: میڈم آپ نے جس وقت کال کی اور میرے بارے میں سب جانتی بھی ہیں اور مقصد بھی میں پتہ ڈرنے کی بات نہیں مگر انسان تھوڑا چوکنا تو ہو ہی جاتا ہے کے آخر کون ہے۔ گھبراتا اور ڈرتا میں کسی سے نہیں ہوں۔
عورت: اچھا جی خوبصورت جوان ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر بھی ہو۔ واہ کیا بات ہے؟
رمیض: اب آپ بتاو گی کے آپ کون ہو کس لیئے کال کی مجھے کیسے جانتی ہیں آپ یا میں کال بند کردوں؟ میں نیند خراب نہیں کرتا۔
عورت: ارے کال بند نا کرنا میں بتاتی ہوں۔ مگر وعدہ کرو کے میرے ساتھ بات کروگے۔
رمیض: اچھا ٹھیک ہے اپ بتائیں میں بات کرلوں گا آپ سے۔
عورت: میں تمہاری جم کے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہی تھی تو تم جم سے باہر آرہے تھے میں نے دیکھا تو تم پر نظر ٹک کر رہ گئی میں تھوڑی دیر تمہیں دیکھتی رہی سوچا تمہارا پیچھا کروں۔ مگر میرے پاس کچھ سامان تھا مجھے وہ گاڑی میں رکھنا تھا۔ تمہارا پیچھا کرنا مشکل تھا۔ اور تم بھی بنا وقت ضائع کیئے وہاں سے فوری چلے گئے۔ مجھے پل بھر کے لیئے ایسا لگا کے پتہ نہیں کتنا بڑا نقصان ہوگیا میں نے کچھ کھو دیا۔ تم اب جاچکے تھے میں نے سامان جلدی سے گاڑی میں رکھا۔ اور گاڑی کے باہر کھڑی ہوکر میں سوچنے لگی کے اب کیا کروں؟
رمیض: اچھا پھر؟
عورت: پھر میں نے سوچا تمہاری جم جایا جائے اور وہاں سے تمہارا پتہ لگایا جائے۔
رمیض: مممم اچھا پھر؟
عورت: پھر میں تمہاری جم میں جاکر سیدھا کاؤنٹر پر گئے اور وہاں سے جا کر جھوٹ بول کر تمہاری انفرمیشن لیں۔ انہوں نے مجھے تمہاری انفارمیشن دینے سے انکار کیا مگر میں نے بہت زیادہ ضد کی اور بڑے پیار سے ان سے بات کی کہ بہت ضروری ہے میں بس انفارمیشن ہی مانگ رہی ہوں مجھے محض ایک نمبر ہی چاہیے مجھے وہ مل جائے میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کے آپ کو آپ کے کلائنٹ سے کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
رمیض: اچھا پھر؟
عورت: جم کے کاؤنٹر پر موجود زاہد نام کے شخص نے مجھے بڑے اصرار کرنے پر تمہارا نمبر دے ہی دیا۔
رمیض: جم میں تو بہت سارے لوگ آتے جاتے ہیں مگر تم نے میرا نمبر ہی خاص کیسے ان سے لے لیا؟
عورت: انہوں نے تمہارا ہلیہ پوچھا اور میں نے تمہارا سارا ہلیا ان کو بتایا یا اور میرا خیال ہے پورے جم میں تمہارے جیسا لڑکا تو نہیں ہوگا اس لیے ہر ایک نظر تم پر ہے اور تم سب میں خاص ہو  اس بنیاد پر شاید کاونٹر پر بیٹھنے والے شخص نے فوری تمہیں پہچان لیا اور تمہارا نام اور نمبر مجھے دیا۔
رمیض: اچھا صحیح زاہد کی تو میں خوب واٹ لگاوں گا۔
عورت: ارے نہیں نہیں اسے پلیز کچھ مت کہنا اس بے چارے کے ساتھ میں نے جھوٹ بول کر دھوکا کیا تو اس نے مجھے نمبر دے دیا۔ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں قصور وار میں ہوں۔
رمیض: مگر آپ کو میرا نمبر کس لئے چاہیے تھا کیا کام ہے آپ کو مجھ سے؟
عورت: بس میں کیا کہوں تمہیں دیکھ کر مجھ سے رہا ہی نہیں گیا اور میں نہیں جانتی کہ میں نے اس طرح کی حرکت بھی کیوں کی تمھارا انفارمیشن اور نمبر لینا چاہا تمہارے بارے میں جاننا چاہا۔
رمیض: خیر کوئی تو وجہ ہو گی آپ مجھے بتائیں تو کیا بات کرنی ہے آپ کو کس مقصد سے آپ نے کال کی ہے مجھے؟
عورت: بس تم اچھے لگے تم سے بات کرنے کو دل کیا۔
رمیض: اچھا چلو ٹھیک ہے ہو گئی بات اب میں سو جاؤں؟
عورت: ارے کیا ہو گیا ہے ابھی تو تم سے بات شروع کی ہے اور تم جانے کا بول رہے ہو کیا زیادہ نیند آئی ہے؟
رمیض: میں نیند بہت پکا ہوں اور فضول میں اپنی نیند خراب نہیں کرتا صحت کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔
عورت: ارے واہ توتمہاری خوبصورتی اور جوانی اور فولادی جسامت کا راز یہ ہی ہے۔
رمیض: جی ہاں ایسا ہی سمجھ لیجئے۔ اور آپ بھی سو جائیں رات بہت ہوگئی ہے اپنی صحت کا خیال کیجئے۔
عورت: ارے میری چھوڑو ہم تو ویسے ہی برباد ہوئے پڑے ہیں۔
رمیض: کیا مطلب ہے سمجھا نہیں کیوں برباد ہو؟
عورت: مجھے لگتا ہے میں تمہیں سچ میں تنگ کر رہی ہو مجھے تو نیند نہیں آتی مگر تم میرے لیے اپنا وقت برباد مت کرو اور نیند بھی تمہاری میں نے خراب کی میں اس کے لئے معذرت چاہتی ہوں کبھی تمہارے پاس وقت ہوا تو تو پھر تمہیں اپنی داستان سناؤں گی۔
رمیض: نہیں ایسی کوئی بات نہیں مگر اب آپ نے جگا ہی لیا ہے اور میں نے کال اٹھا ہی لی ہے تو آپ مجھے اپنی بات بتا سکتے ہو کیوں پریشان ہوں کیا مسئلہ ہے کیسے برباد ہو؟
عورت: پکی بات ہے میں تمہیں بتا سکتی ہوں؟
رمیض: جی ہاں میں نے آپ کو کہہ دیا ہے کہ آپ اپنی بات مجھ سے شیئر کر سکتے ہو۔
عورت: اگر اس وقت میں تم سے کہوں کہ مجھے تم سے ملنا ہے تو کیا تم آؤ گے؟
رمیض: کیا کیا میں نے آپ کو کال پر اپنی پریشانی بتانے کے لئے کہا اور آپ مجھے کہہ رہی ہو کہ میں اس وقت آپ سے ملنے آؤں گا او کیا بات ہے آپ کی؟
عورت: میں سچ کہہ رہی ہوں شاید سامنے دیکھ کر یا بیٹھ کر اچھے سے بات سن سکو۔
رمیض: مجھے آپ کی بات کی سمجھ نہیں آئی ابھی آپ نے کال کی چند ہی منٹ میں آپ نے مجھے بتایا کہ آپ نے میری انفارمیشن کس طرح سے لیں آپ مجھے بالکل بھی نہیں جانتی اور نا میں آپ کو جانتا ہوں اور ایک انجان کال آنے پر ملنے کے لیے بھی راضی ہو جاؤں میری سمجھ سے باہر ہے۔
عورت: اچھا میری بات سنو نا میں تمہاری بات سمجھ رہی.is ہوتا ہے پہلی بار ایسے انجان کال آ جانے سے کوئی بھی ملنے نے یہاں آنے سے ہچکچائے۔ مگر میں کہوں گی کہ میرا اعتبار کرو کوئی ایسا مسئلہ نہیں نہیں اگر تم آؤ تو۔
رمیض: وہ تو ٹھیک ہے مطلب میں آکر کیا کروں گا کیا کرنا کیا ہے آپ کو؟
عورت: جس خوبصورت نوجوان کی آواز سن رہی ہوں چاہتی ہوں کے اسے دیکھ کر سوجاوں۔
رمیض: مجھے سب کچھ بہت عجیب لگ رہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں۔
عورت: یہ خواب نہیں حقیقت ہے اور پلیز میری بات مان لو آجاؤ۔ بس پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لوں گی تمہارا وقت۔
رمیض: آپ رہتی کہاں ہیں؟
عورت: میں اسی سوسائٹی کے بلاک نمبر ڈی میں۔
رمیض: اچھا اچھا ٹھیک ہے میں بی بلاک میں رہتا ہوں۔
عورت: تو قریب ہو تم آسانی ہوگی آنے میں آجاو نا۔
رمیض: یار سمجھ نہیں آرہی کیا کروں۔ خیر کہاں آنا ہے؟
عورت: ارے واہ تم مان گئے۔ میں یقین دلاتی ہوں کوئی خطرے یا مسئلے والی بات نہیں ہے۔
رمیض: اچھا ٹھیک ہے آپ کے بلاک میں کہاں کر کے آنا ہوگا مجھے۔
عورت: تم بلاک میں داخل ہوگے تو سٹریٹ نمبر چار میں آجانا۔ وہاں آکر گھر کا نمبر 412 دیکھ کر گیٹ کے سامنے رک کر فون کرنا میں باہر آجاوں گی۔
رمیض: ٹھیک ہے میں آرہا ہوں۔
عورت: میں انتظار کر رہی ہوں۔

رمیض جانے کی تیاری کرتا ہے جلدی سے نہا کر وہ صاف کپڑے پہن لیتا ہے اور پھر اپنی موٹر سائیکل نکال کر چل پڑتا ہے۔ وہاں وہاں پر میڈم صاحبہ پہلے ہی تیار ہوتی ہیں مگر وہ اپنے کپڑے بدل کر نیچے لال رنگ کی پینٹی اور خوبصورت برا کے ساتھ اوپر نائٹ ڈریس پہن لیتی ہے۔ اور پھر وہ رمیض کا انتظار کرنے لگ جاتی ہے۔ ابھی دس سے پندرہ منٹ گزرتے ہیں کے رمیض دروازے پر آکھڑا ہوتا ہے۔ رمیض گھر ڈھونڈ کر سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور میڈم کو کال ملاتا ہے۔ میڈم فون اٹھا لیتی ہے اور کہتی ہے ہاں اس دروازے سے اندر آجاو کھلا ہے۔ رمیض موٹر بائیک ایک طرف لگاتا ہے اور اندر چلا جاتا ہے۔ وہ میڈم کے ساتھ کال ہی پر موجود ہوتا ہے وہ اسے مین دروازے سے گھر کے اندر آنے کو کہتی ہے۔ رمیض ادھر ادھر غور کرتا ہے گھر کا لان نہایت خوبصورت ہوتا ہے۔ گھر بھی عالی شان اور وسیع رقبے پر پھیلا ہوتا ہے۔ رمیض کال پر ہی رہتے ہوئے اندر چلا جاتا ہے تو سامنے نگاہ کرتا ہے۔ بھورے بالوں میں لمبی سی جوان عورت لال رنگ کے گاون میں چلتی ہوئی آتی ہے۔
عورت: آو رمیض۔
رمیض دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کے یہ میڈم صاحبہ کس طرح کے لباس میں ملبوس ہیں اور بنا جسم کی پرواہ کیئے سامنے آگئی۔
رمیض: آپ اس طرح۔
عورت: ارے کوئی بات نہیں تم سے کیا شرمانا۔ آو بیٹھو بولو کیا لو گے ٹھنڈا یا گرم؟
رمیض: کچھ نہیں۔
عورت: اتنے پیارے ہو تم تو اور جوان بھی کچھ تو پینا ہی پڑے گا۔
رمیض: ارے نہیں کچھ نہیں میں بنا ٹائم کے کچھ نہیں کھاتا خیال رکھتا ہوں۔
عورت: اچھا چلو ٹھیک ہے۔
پھر میڈم اس کے پاس اکر بیٹھ جاتی ہے اور رمیض غور سے اس کے چمکتے خوبصورت جسم کو دیکھتا ہے اور اس کی نگاہیں بار بار میڈم کے گول بڑے بڑے مموں پر جاتی ہے جو لال رنگ کی برا میں 38 سائیز کے پھنسے پڑے ہوتے ہیں۔
عورت: اور سناو اتنی رات کو تنگ کرنے کے لیئے معذرت۔
رمیض: کیا بات کرنی تھی آپ کو؟
عورت: کر لیتے ہیں بات بھی۔ اب کیا کہانی سناوں۔ میں بہت پریشان ہوں اپنے بندے سے وہ باہر کے ملک کام میں مصروف رہتا ہے اور کبھی کبھا آتا ہے چند دن نہیں گزارتا اور پھر چلا جاتا ہے اور مجھت وقت نہیں دیتا۔ دیکھو میری طرف کیا کوئی مرد اتنی حسین بیوی کو چھوڑ کر بھلا پردیس میں اتنا وقت اکیلے گزار سکتا ہے۔ اس کو میری چاہت ہی نہیں ہوتی میرے دل میں بیت سے ارمان دبے رہ گئے۔ میں کیا کروں؟
رمیض: تو اس میں کیا کر سکتا ہوں؟
عورت: ہاں تم کیا کر سکتے ہو ٹھیک کہا۔
پھر عورت تھوڑا قریب آتی ہے اور رمیض کی تھائی پر ہاتھ رکھ دیتی ہے اور آہستہ آہستہ پھیرتی ہے۔
عورت: تم چاہو تو بہت کچھ کر سکتے ہو۔ میں تو دیکھتے ہی بس تمہیں دل دے بیٹھی سوچا تم ہی ہو جس کی مجھے ضرورت ہے۔ میں سالوں کی پیاسی ہوں تم ہی میری پیاس بھجا سکتے ہو۔
رمیض تھوڑا قطراتا ہے اور عورت سے تھوڑا پیچھے ہوکر بولتا ہے۔
رمیض: آپ کو یہ سب غلط لگا میں ایسا کچھ نہیں کر سکتا جو آپ چاہتی ہو۔
عورت: ارے تو یہ اتنی جان کس کام کی جب کسی عورت کے کام نہیں آسکتی۔
رمیض: اپنی بیوی کے لیئے بچا رکھی ہے شادی کے بعد ہی بیوی کا حق ادا ہوگا۔
عورت: ارے اس میں سے کچھ حق میرا بھی ادا کردو میں نے کب کہا کے بس میرے ہی ہوکر رہ جاو تم آزاد ہو۔ لیکن میری حسرت مٹا دو۔ مجھے وہ سکون دے دو جو میں اپنے بندے سے حاصل نہیں کر سکی۔
اور پھر وہ عورت رمیض پر جھپٹ پڑتی ہے۔ اور اس کے منہ کے قریب جاکر اس کے منہ میں منہ پھنسا لیتی ہے۔
وہ اس طرح سے رمیض کو چومنا اور چاٹنا شروع کرتی ہے کے رمیض اس سے الگ ہو ہی نہیں پاتا۔ اتنا جوان اور خوبصورت لڑکا آخر ایک حسین عورت کے جال میں پھنس ہی جاتا ہے۔ پھر رمیض بھی ٹھیک اسی طرح اسے کس کرنا شروع کردیتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو خوب چومتے اور چاٹتے ہیں۔ رمیض اچانک بولتا ہے۔
رمیض: میڈم کوئی آ تو نہیں جائے گا۔
عورت: ارے نہیں پاگل کوئی نہیں آئے گا اور میں میڈم نہیں مجھے روبینہ کہو۔
رمیض: اچھا تو آپ کا نام روبینہ ہے۔
روبینہ: ہاں۔۔۔ چل اب میرے جوان ادھر صوفے پر بیٹھ تجھے جنت دکھاوں۔
رمیض صوفے پر بیٹھ جاتا ہے اور روبینہ نیچے اپنے پاوں کے وزن پر بیٹھ جاتی ہے وہ اپنا گاون اتار دیتی ہے اور پھر بس برا میں ہوتی ہے۔ پھر وہ رمیض کی پینٹ اتارتی ہے اور اس کا لولا باہر نکال لیتی ہے۔
روبینہ: افففففف وااااہ یہ تو تمہاری طرح ہی بڑا تگڑا لوڑا ہے۔ تمہارے جسم پر شریانون کا جال ہے تو اس کے بھی کچھ کم نہیں اور آگ جیسا گرم ہے۔ کیا خوبصورت بناوٹی ٹوپی ہے۔ کیا لال رنگ کا لولا ہے جیسے خون بھرا ہو۔ خوب جان بنائی ہے تم نے۔
رمیض: اچھا جی تو پسند آیا آپ کو میرا لوڑا؟
روبینہ: ااافففف تو اور کیا کمال ہی ہے کسی عجوبے سے کم نہیں ہے۔ لاو اسے اس کی جگہ دوں اس کو اپنے حسین اور بڑے بڑے گول گول سفید پہاڑوں میں پھنساوں۔ یہ کہہ کر روبینہ رمیض کا بڑا سا لولا اپنے برا کے اندر پھنسا کر اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے دبا کر رگڑنا شروع کردیتی ہے اور لن کے مزے لیتی ہے اور لن کو اپنے مموں سے مزے دیتی ہے۔
رمیض گول گول گورے اور اتنے بڑے ممے دیکھ کر پاگل ہو جاتا ہے اور ان مموں کو ردمیان میں انکی سختی اور ملائمیت محسوس کرکے اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے۔ اور روبینہ بھی اسے اپنے منہ سے ہنستے ہوئے دیکھ کر مموں کا مزا دیتی ہے۔ وہ ساتھ ساتھ مزا دیتی ہے اور بڑی شیطانی ہنسی سے رمیض کو دیکھتی ہے۔ رمیض کی آنکھیں اس نشے میں سرخ ہوجاتی ہیں۔ چند منٹ ایسا ہی چلتا ہے۔ پھر روبینہ اپنی برا سے رمیض کے لن کو نکال کر جوش می۔ صوفے کے اوپر جھپٹ کر سیدھا رمیض کے منہ کے پاس جاکر اپنی پینٹی بنا اتارے اس کے منہ کے ساتھ پھدی لگا دیتی ہے۔
روبینہ: رمیض میری پھدی چاٹو پلیز مزہ آئے گا گیلی گیلی لال پھدی چاٹنے کا اس کا پانی پیو طاقت سے بھرپور گرم گرم مزے دار آہ بس چاٹنا اور دانت آرام سے مارنا۔
رمیض: ااااافففففف بہت گرم ہے اور مزے دار ہے سوچا نہیں تھا اففففففف مزے دار اسٹابری کا مزہ آرہا ہے۔ پھدی بہت خوشبو دار ہے اففففف۔
روبینہ: ہاں ہاں چاٹو اور چاٹو مزے لو ممممممم بہت مزہ آرہا ہے۔ میں ترس گئی تھی کسی مردانہ زبان کو جو میری پھدی کو سہلائے مجھے سکون آرہا ہے۔ جنت محسوس ہونے لگی ہے اففففف تمہاری تو زبان بھی مزے دار دانے دار ہے۔ ہائےےےےے میں مر جاوں سسسسسسسسس اففففففف اہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اووہ ہ ہ ہ ہ  ممممممم مزا ارہا ہے۔ چاٹو اور چاٹو زبان گھماو اور دانتوں میں میری پھدی کی جلد کو لے کر کھینچو اففففف۔۔۔۔ پانی نکل رہا ہے ہائے اف میں تو گئی آج کام سے اففف۔۔
رمیض کافی دیر تک روبینہ کی پھدی پر اپنی زبان کا جادو دکھاتا ہے۔ روبینہ کو رمیض کے پھدی چاٹنے کا انداز نہایت پسند آتا ہے۔ اور وہ تو بند آنکھوں سے اپنے ایک ہاتھ سے اپنی پینٹی کے پکڑے رمیض کو ہلا شیری دیتی ہے کے وہ اس کی پھدی کا تہس نہس کرکے چاٹتا ہی جائے۔ روبینہ تھوڑے جوش میں اکر اب رمیض کے منہ پر پھدی سے زور ڈال کر رگڑتی ہے۔ اور پھدی کا پانی بہہ بہہ کر رمیض کا سارا منہ بھگو دیتا ہے۔ رمیض بھی اپنی زبان پھدی کے سوراخ پر اور پھدی کے پر کھول کھول کر اندر کی طرف لگاتا ہے۔ اور اپنی زبان کی نوک سے جب وہ روبینہ کی پھدی کے دانے کو آہستہ سے دباتا ہے تو یہ عمل روبینہ کی جان ہی نکال دیتا ہے۔ روبینہ اب مکمل طور پر چدائی کے لیئے تیار ہوتی ہے۔
پھر روبینہ صوفے سے اتر کر زمین پر اپنا لال گاون بچھا کر اس کے اور ہی گھوڑی بن جاتی ہے۔
روبینہ: رمیض آو اب چودو مجھے۔
رمیض بھی بنا انتطار کیئے فوری صوفے سے اتر کر روبینہ کی گانڈ سے پکڑ کر اس کی پھدی میں لولا دالتا ہے اور زور زور سے جھٹکے دینا شروع کردیتا ہے۔
روبینہ: ہائے ہائے آرام سے میرے راجا جی افففففف بہت تگڑا لولا ہے افففففف انتہا کو پاگل کر رہا ہے۔ آج لگ رہا ہے کسی مرد کا ناگ میری پھدی میں پھنس پھنس کر جارہا ہے۔ اففففف میں کیا کروں اتنے موٹے اور بڑے لولے میں پھدی پھنسا بیٹھی اففففف توبہ ہائے یہ لولا ہائے میری پھدی گئی کام سے اب نہیں بچتی اففف توبہ کرتے جاو اب مزہ آرہا ہے کام رواں ہوگیا ہے۔ رمیض میری پھدی اچھی ہے نا؟ گیلی ہو رہی ہے نا؟
رمیض: ہاں بہت اچھی ہے ٹائٹ ہے اور گرم بھی اور دیکھو کیسے پانی نکل کر ٹپک ٹپک جا رہا ہے اففففف کیا مزے دار ہے۔
رمیض اپنے پورے جوش اور جزبے سے روبینہ کی پھدی چود رہا ہوتا ہے۔ اور روبینہ چیخیں مار مار کر پاگل ہوتی ہے اس کے درد سے آنسو بھی نکل پڑتے ہیں۔ کافی دیر چدائی کے بعد رمیض فارغ ہونے کر پہنچتا ہے۔ اور روبینہ اسے کہتی ہے کے مجھے سارا مال اپنے مموں پر چاہیئے پلیز ایک ایک قطرہ مجھے دینا۔ رمیض اپنی ساری کی ساری منی روبینہ کے گول گول بڑے سندر مموں پر گرا دیتا ہے۔
روبینہ رمیض کو لولا ہاتھ سے ہلا ہلا کر اس کی ساری منی اپنے مموں پر سجا لیتی ہے اور کچھ منی کو وہ ٹیسٹ بھی کرتی ہے۔
روبینہ: مزہ آگیا مجھے یہ مزہ ہر پل ہر دم چایئے۔
رمیض: ہاں اب تو میں بھی عاشق ہوگیا ہوں ہر پل مزا دوںگا اور لونگا۔
تو جناب یقین ہے کے پینٹی تو گیلی لازمی ہوئی ہوگی۔ کمنٹس میں ضرور بتایئے گا۔ 😋 

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Mar 17 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

 رانگ نمبر  (Wrong Number) 🔞Where stories live. Discover now