ہلکے ہلکے سرد موسم کے آغاز کی ایک اور کِھلکھلاتی سی صبح اپنی باہیں پھیلائے اس سفید پوش ماہ گل سی لڑکی کو خود میں سمیٹنے کے لیے بازو کھولے ہوئے تھی، اسکا سفید ململ کا لہراتا ہوا آنچل ناجانے زمین پر لگے کتنے گلابوں اور پھولوں کی قسمت روشن کر رہا تھا۔ پیروں میں پہنی وہ حد درجہ نازک چپل اور ان میں نکھرتے سے وہ پاوں جن پر گویا روئی کا سا گماں تھا، اور وہ بہت ہی دلکش سی سفید نگینوں سے بنی پائیل تو بس انتہا کا سحر باندھ چکی تھی۔
چاروں طرف گھنگھناتی لمبی سفید فراک کے کنارے، اور گلے میں لہراتا وہ سرخ لیس والا آنچل تو مسکراتا جا رہا تھا۔پشت تک آتے لمبے گھنے کناروں سے گھنگھریالے بال بھی اپنی ہی من مستیوں میں مگن تھے۔ وہ راہداری عبور کرتی ہوئی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ ائیریا کی جانب مڑی، سب کی نظریں جیسے اس حسین مگر بہت ہی حیا والی لڑکی کی جانب اٹھیں اور پھر جھک گئیں۔
سب گویا نظریں ہٹائے اپنے کاموں میں دیکھائی دیے۔ہر کوئی اسکا حسن زیادہ دیر سہہ بھی کب پاتا تھا، اور پھر وہ سامنے آچکی تھی۔ چہرے پر نہ ختم ہونے والی خوبصورتی سجائے ، ہر آرٹیفیشل حسن سے عاری وہ ہلکے گلابی ہونٹوں والی، گہرے کاجل سے بھری سبز یاقوتی آنکھیں اور ان میں حیا کی فراوانی لیے۔
کہ اگر پلکیں جھکا دیتی تو اندھیرا چھا جاتا، اور اگر وہی پلکیں اٹھ جائیں تو ناجانے کتنے ہی دل والے کام سے فارغ ہوتے دیکھائی دیں۔ ہاتھ میں چند فائلز اور کندھے پر ہلکا سا بیگ لٹکائے، بالوں کو ایک کان کے پیچھے کرتی ہوئی اب وہ آرٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب مڑ گئی۔
"کفر ہے۔۔۔۔۔جذوہ یہ کفر ہے، تُو جانتی ہے نا وہ لوگوں کے چہرے بناتا ہے۔۔اور کل کو دیکھنا اسے ان سب میں جان ڈالنے کا کہا جائے گا۔۔۔۔ آئیندہ تو اس کے سائے سے بھی دور رہے گی، تُو سن رہی ہے ناں"
کانوں میں گونجتی ایک خفا سی عمر رسیدہ برہم آواز نے یک لخت جذوہ کے رواں قدم مدہم سے کیے تھے، تھم گئی وہ بہار جیسی 'جذوہ مبین' "خدارا مجھے مت منع کریں گل جان ، جذوہ اسکے سائے کی اسیر ہے"
پھر ایک اور ہاری سی اسکی اپنی آواز کان کے آس پاس سنائی دی، اس چہرے کی خوبصورتی میں اس لازوال اداسی نے جیسے بے پناہ اضافہ کیا تھا۔
"تُو باز کیوں نہیں آتی۔۔۔۔۔ وہ ایک سر پھرا مصور ہے، تُو کیوں اپنی آخرت خراب کرتی ہے جذوہ۔۔۔۔ وہ تو بھٹکا ہوا ہے، تجھے بھی بھٹکا رہا ہے۔ اور جو یہ تیرے کمرے میں اسکی بنائی خرافات ہیں ناں، انکو تو میں اب آگ لگاتی ہوں۔۔۔۔ "
چلتے چلتے اس ماہ گل نے اپنے دل کو تھاما تھا، ہاتھ بے اختیار دل پر سہلاتی ہوئی اس صباحت گلبدن کی نظریں سامنے بنے بہت بڑے آرٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب اٹھی تھیں۔
"گل جان بھی ناں، میری زندگی بھر کے اثاثے کو پل بھر میں خرافات کہہ دیتی ہیں۔ کوئی کیوں نہیں سمجھتا کہ یہ شعلہ تو بس اس ٹھنڈے پانی جیسے "آمن شاہ"کا طلب گار ہے"
دل پر ہنوز وارفتگی سے ہاتھ دھرے جیسے وہ سچ میں کسی کا چہرہ تصور میں ابھار کر سوچتی بولی تھی۔۔۔ آواز میں ٹھہراو اور دھیمہ پن تو اسکے نام سے بہت الٹ تھا، لیکن وہ واقعی ایک شعلہ ہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ایک بجھتا ہوا مدد کا طلب گار سا شعلہ۔ قدم پھر سے روانی لیے ڈیپارٹمنٹ کی رہداری تک سرکتے چلے گئے۔وہ ایک بہت بڑا ہال تھا، جہاں کم و بیش پچاس تک آرٹ سٹوڈنس تھے جو پورے انہماک سے مصوری کی کلاس لینے میں مصروف تھے۔ وہ ائیریا سامنے سے مکمل گلاس سے بنایا گیا تھا تاکہ باہر سے بھی تمام آنے جانے والے اس حسین اور رنگین دنیا کا نظارہ کر سکیں۔
"نہیں جذوہ۔۔۔۔ ابھی تیری نظروں میں وہ تاب کہاں کہ تُو اسے یک دم دیکھ سکے، جانتی تو ہے اپنے کمبخت دل کو۔ پہلے کہیں چھپ تو لے۔۔۔۔۔ کوئی ایسا کونا جہاں صرف وہ تجھے دیکھائی دے، نہ کہ تو اُسے"
ڈیپارٹمنٹ سے کچھ فاصلے پر کھڑی وہ بلکل پاگلوں کے جیسے خود کو تلقین کرتی مسکرائی، وہ اس وجود کی شیدائی تھی۔
"وہ آج کیسا دیکھائی دے رہا ہوگا، کیا اس نے آج بھی سیاہ رنگ پہنا ہوگا۔۔۔۔ نہیں، کیوں نہیں وہ اس کالے رنگ کو بخش دیتا آخر۔۔۔۔۔۔ کتنا ظالم ہے ناں، اُف جذوہ تمہارا کیا بنے گا؟"
خود کو ملامت کرتی، خود سے باتیں کرتی ہوئی جذوہ نے دیوار کا سہارا لیا اور اپنی مقررہ جگہ تک پہنچی۔ آرٹ ڈیپارٹمنٹ کے باہر لگے بے شمار گلاب اور موتیے کے پھولوں کے ساتھ کھڑی جذوہ بھی تو موتیے کا پھول دیکھائی دیتی تھی، اسکی نظریں جھکی ہوئی تھیں، کیونکہ نظروں کے سامنے ہی کوئی تھا، پشت کیے کینوس پر جھکا ہوا کوئی۔ سیاہ لباس میں ملبوس، خوبصورتی سے سلجائے بال اور سفید سرخی مائیل دیکھائی دیتی گردن، جذوہ کی آنکھیں مدھم لے میں کھلتی چلی گئیں۔
"آہ۔۔۔۔ تم آج پھر پشت کیے کھڑے ہو، "
امیر آمن سکندر شاہ" دیکھو ناں، جذوہ آئی ہے" بے چینی سے اپنے دل کو تھامے کھڑی وہ دور ہی سے اسے سرگوشی میں اپنے آنے کا پتا دے رہی تھی جیسے وہ بلکل اسکے کان کے پاس کھڑا ہو، پر ان کے بیچ تو کئی فاصلوں میں لپٹی دوری حائل تھی۔
"آمن۔۔۔۔۔رخ پھیر لو"
وہ اسے پھر سے بے تابی کے سنگ سرگوشی میں مشورہ دے رہی تھی، اور یہ اتفاق تھا یا کچھ اور کہ جذوہ کی نظریں تھم سی گئیں۔ وہ رخ پھیرے اب ہاتھ میں سکیچنگ پینسل کو ہلکے سے گمائے اپنی کلاس کی جانب رخ پھیرے کھڑا تھا۔خوبصورت سا تیس کے لگ بھگ لگتا الجھا مصور، ھائے کیا آنکھیں تھیں۔۔بھلے جہاں مرضی دیکھ رہی ہوں، یوں لگتا اب بس ہم پر پڑھ کر بے حال کر جائیں گی۔ ہلکی ہلکی بڑھی بظاہر سیاہ مگر ہلکی بھوری جھلک دیتی داڑھی اور ایک گھنبیر پراسرار سی مسکراہٹ لیے وہ چہرہ، بال پیچھے سے تو سلجھے مگر سامنے سے دیکھنے پر کچھ نہ کچھ الجھاو لیے۔ جیسے وہ بار بار ہاتھ پھیرنے کا عادی ہو شاید۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھی قامت اور ایک ادا رکھنے والا پرکشش اور ایک باوقار مرد
"امیر آمن سکندر شاہ"
اس یونیورسٹی کا سب سے بڑا سکیچر ماسٹر، اس شہر کا سب سے شہرت یافتہ مصور۔ جس کے بنے فن پارے اور کئی طرح کی پینٹنگز خریدنے والے کئی کئی لائنوں تک میں لگنے کو آمادہ تھے، جذوہ کا دل یک دم یوں ڈھرکا جیسے کہیں آگ لگنے کا آلارم بج اٹھا ہو۔
"جذوہ تمہاری اسیر ہے آمن، خدارا اسے رہائی دے دو"
پھر وہ آنکھیں یک دم شفاف موتیوں سے بھر گئیں، اور وہ قدم اتنی تیزی لیے مڑی جیسے اس وقت وہ واقعی ایک بھڑکتا شعلہ تھی۔ آمن کی بے ساختہ نظر سامنے پھولوں کی جانب اٹھی جہاں اسے ایک نظروں سے گم ہوتے آنچل کا کنارہ دیکھائی دیا تھا۔کچھ پل آمن سکندر کی نظریں جیسے وہیں جمی رہیں۔وہ واقعی ایک دلکش سا روپ رکھتا تھا، کہ دیکھنے والا پہلی نظر میں اسکی ان پراسرار آنکھوں کا شیدائی ہو جاتا۔ کیا تھا اس "آمن شاہ" میں، ناقابل بیان حد کو چھوتی ہوئی سنجیدگی نے جیسے آمن کے چہرے کا طواف کیا،پھر وہ دوبارہ مڑا اور سکیچنگ کٹ سے ایک دوسری پینسل اٹھائے دوبارہ کینوس پر جھک گیا۔ ''' ☆☆☆☆☆☆☆ '''