اندھیرا ۔۔۔۔اندھیرا۔۔۔۔۔۔ اس گہرے اندھیرے نے اپنے پہرے ہر جگہ ڈال رکھے تھے پر اسے خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ یہ اندھیرا تو شاید اس کے اندر بھی بہت پہلے پھیلنے لگا تھا۔
وہ ایک اندھیری سی جگہ تھی پر وہ وہاں اکیلی نہیں تھی۔ ہاتھ میں تلوار پکڑے اور کندھے پر تیر کمان لٹکائے وہ کسی سے لڑ رہی تھی۔ وہ پہلی بار کسی اصل دشمن سے لڑ رہی تھی، وہ خوف زدہ تھی۔ روشنی نہ ہونے کی وجہ سے سامنے والے کا چہرہ نہیں دِکھ رہا۔ اچانک سے آگ کا ایک گولہ اس کی طرف تیزی سے آتا ہے۔ وہ ڈر کے اپنی دونوں آنکھیں بند کر لیتی ہے اور تلوار چھوڑ کے اپنے دونوں ہاتھ سامنے کی طرف اٹھا لیتی ہے گویا اپنے منہ کو اس آگ سے بچانا چاہتی ہو۔ آگ کی تپش قریب سے قریب تر ہو رہی ہے اور اس کی دھڑکن تیز سے تیز تر۔ اسے بھاگ جانا چاہیے۔ وہ وہاں کھڑی ہی کیوں تھی۔ اس نے بھاگنا چاہا پر وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکی۔ اس کے پیر جیسے زمین سے نکلتی اَن دیکھی بیڑیوں نے جکڑ لیے تھے۔ اب بس، وہ خود کو بچا نہیں سکے گی۔ آگ نے اس کے آگے بڑھے ہاتھوں کو چھو لیا۔ اس نے آنکھیں مزید زور سے بند کر لیں۔۔۔۔ کیا وہ ایسے مر جائے گی؟۔۔۔۔۔ وہ انتظار کرتی رہی۔۔۔ بند آنکھوں اور دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اس آگ میں لپٹ جانے کا انتظار کرتی رہی۔۔۔ چند لمحے مزید گزرے۔۔۔۔ پر وہ آگ اس تک آئی ہی نہیں۔ اس نے آنکھیں کھولتے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہاں کوئی آگ نہیں تھی، جانے کہاں غائب ہو گئی تھی۔ بس سامنے وہ کھڑا تھا، سیاہ چغے میں اپنا چہرہ چھپائے چمکتی سنہری، حیرت زدہ آنکھوں سے وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اوہ وہ سنہری آنکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اونچے محلوں میں رہنے والے
کیا خواب بھی اونچے رکھتے ہیں؟کئی گھنٹوں کی برستی بارش اب رک چکی تھی اور آسمان دھنک کے رنگوں سے سجا ہوا تھا۔ اس آسمان کو چھوتے شاہی محل کے مینار دھند چھٹنے کی وجہ سے اب واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔ وہ محل شہری آبادی سے تھوڑا دور، اک چوٹی پر بنایا گیا تھا۔ محل کی پچھلی جانب گہرا گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا جو کچھ دور جا کر شہر کو بھی ایک طرف سے گھیرے ہوئے تھا۔ یہ شہر شاہی محل کی موجودگی کی وجہ سے 'سلطان نگر' کہلاتا تھا جو 'دید دھارا' سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ سلطان بدر کازم، جن کی عمر تقریباً ستر سال سے کچھ زیادہ ہو چکی تھی، پچھلے کئی سالوں سے دید دھارا پر حکومت کر رہے تھے۔ سلطان کی دو بیٹیاں تھیں، اِنارہ اور عازلہ۔ کوئی بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ہمیشہ اس بات کی فکر رہتی تھی کہ اس سلطنت کا اگلا سلطان کسے اور کیسے مقرر کیا جا سکے گا۔ ان تمام فکروں سے دور ہٹ کر دیکھیں تو سلطان بدر عوام کے لیے ایک اچھے سلطان ثابت ہوئے تھے۔ دید دھارا کوئی میلوں میل پھیلی ہوئی بڑی سلطنت تو نہ تھی، لیکن اس چھوٹے سے حصے کو انہوں نے امن و امان اور خوشحالی کا گہوارا بنا رکھا تھا۔ وہاں کے لوگ مل جل کر رہتے تھے، ایک دوسرے کے کام آتے، اچھے اخلاق سے پیش آتے تھے۔ چوری اور دھوکہ دہی کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے اور ہوتے بھی تو مجرم انصاف کی کڑیوں سے بچ نہ پاتے۔
سلطان نگر تجارت کے حوالے سے اک اہم شہر تھا۔ یہاں مختلف چیزوں کے لیے چار بڑے بازار لگتے تھے۔سب سے بڑے بازار کا نام پارس بازار ہے جو سلطان نگر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ بازار کی گلیوں میں چل کر دیکھیں تو ہر عمر کے مرد و خواتین دکانیں ڈالے بیٹھے ہیں۔ عورتوں کی زیادہ تر دکانیں بند کمرے کی مانند ہیں جس کے دونوں اطراف دروازے کھلتے ہیں۔ چند بچے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے بھے نظر آئیں گے۔
"نادر چاچا، سیب تو میٹھے لگ رہے ہیں۔ ایک سیب لے لوں کیا؟" ایک گورا سا بچہ مسکراتا ہوا سیب کے ٹھیلے کے سامنے کھڑا ٹھیلے والے سے پوچھ رہا ہے۔ ٹھیلے والا مسکرایا اور ایک چھوٹا سیب اٹھا کر اس بچے کو پکڑا دیا۔ "اگلی بار پیسے لے کر آنا ورنہ کوئی سیب نہیں ملے گا" اور بچہ سیب پکڑے، ہنستے ہوئے سر ہلاتا وہاں سے بھاگ گیا۔
تھوڑا دور دیکھو تو چند سپاہی ہاتھ میں تلوار تھامے کھڑے آنے جانے والے بندوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ چند مسافر چغے اوڑھے بازار سے چیزیں دیکھتے گزر رہے ہیں۔ بازار سے باہر نکلو تو دیکھو گے کہ چھوٹے بڑے گھر چاروں طرف موجود ہیں۔ گھروں کے بیچ سے ایک چوڑی سڑک شاہی محل کی طرف جاتی ہے۔ یہیں کی گلیوں میں سے ایک قدرے تنگ گلی میں دو چھوٹی عمر کی بچیاں ایک گھر کے دروازے کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی ہیں۔
"اور میں تو کل شہزادی عازلہ سے ملی تھی۔ کتنی پیاری ہیں وہ ماہم۔۔۔ میں کیا بتاؤں۔" ان میں تقریباً آٹھ سال کی بچی مزے سے بڑی بچی کو بتا رہی تھی۔
دوسری بچی نے اثبات میں سر ہلایا۔ "شہزادی عازلہ بہت خوبصورت بھی ہیں اور اچھی بھی۔" کہتے کہتے وہ ایک خیال آنے پر رکی، دوبارہ بولی "بڑی شہزادی تو کبھی محل سے نکلتی ہی نہیں ہیں" تھوڑا منہ بسورا۔
"وہ کیسی ہیں؟ آپ نے ان کو دیکھا ہے کبھی؟" چھوٹی بچی نے فوراً پلکیں جھپکتے دلچسپی سے پوچھا۔
بڑی بچی نے سر ہلایا "ہاں ایک بار دیکھا ہے شہزادی انارہ کو پر وہ شہزادی عازلہ کی طرح نہیں ہیں۔ شہزادی عازلہ کی طرح کوئی ہو بھی نہیں سکتا" ۔ اس گلی سے جتنا دور جاتے جاؤ آوازیں اتنی آہستہ ہوتی جاتی ہیں۔ اب شہر سے ہوتے ہوئے شاہی محل کی طرف چلتے ہیں۔
محل کے ایک حصے میں دور تلک پھیلے اس سبزہ زار میں وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے چلتی آ رہی تھی۔ اس کے پیچھے اس کی ایک کنیز بھی تھی۔ وہ پیروں تک آتی سفید اور سنہری فراک، ہاتھوں میں چند چوڑیاں اور پیروں میں ننھی سی پائل پہنے ہوئے تھی۔ گھنے بھورے بال کھول رکھے تھے جو اس کی کمر سے نیچے تک آتے تھے۔ سورج کی روشنی منعقص ہو کر اس پر پڑ رہی تھی اور ایسے میں وہ کسی آسمان سے اتری اپسرا سے کم نہیں لگتی تھی۔ وہ کم تھی بھی نہیں۔ قدرے گندمی رنگت مگر خوبصورت نقوش کی حامل وہ تیئیس سال کی شوخ و چنچل سی لڑکی تھی جس کے چہرے ہر ہمہ وقت مسکراہٹ رہتی اور آنکھیں شرارت سے چمکتی رہتی تھیں۔ چلتے چلتے ایک پھول کے پاس آ کر وہ جھکی اور مسکراتے ہوئے اس نئے کِھلے پھول کو دیکھنے لگی۔
"فائقہ! دیکھو تازہ پھول کِھلنے لگے ہیں۔ اور یہ گلابی رنگ کا گلاب۔۔۔۔ افف یہ کتنا پیارا ہے۔" وہ اپنے پیچھے کھڑی کنیز کو مخاطب کر کے بولی تھی۔ کنیز مسکرا دی۔ اسے معلوم تھا کہ شہزادی انارہ کو پھول بہت پسند تھے۔
"میں تھوڑی دیر یہیں بیٹھوں گی۔ لاؤ مجھے میری کتاب پکڑا دو۔" وہیں پھولوں کے پاس گھاس پر بیٹھتے اس نے کتاب پکڑنے کے لیے فائقہ کی طرف ہاتھ بڑھایا جو فائقہ نے فوراً اسے پکڑا دی۔ یہ تاریخ کی ایک کتاب تھی جو شہزادی انارہ یہاں آتے وقت کتب خانے سے پڑھنے کے لیے لے آئی تھی۔ اسے کتابیں پڑھنا پسند تھا اور مطالعے کے لیے ایسا خوبصورت ماحول میسر ہو تو کیا بات ہے۔ ابھی وہ چند صفحات ہی پڑھ پائی تھی جب اس کے ذہن میں وہی تصویر اپنا عکس بنانے لگی۔ ہاتھ میں تلوار پکڑے اور کندھے پر تیر کمان لٹکائے وہ کسی سے لڑ رہی ہے۔ اچانک سے آگ کا ایک گولہ اس کی طرف تیزی سے آتا ہے جس سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ سامنے کی طرف اٹھا لیتی ہے، بھاگنا چاہتی ہے پر بھاگ نہیں پاتی ۔۔۔۔ آگ نے اس کے ہاتھوں کو چھو لیا اور ۔۔۔ اور پھر وہ غائب ہو گئی۔ اس نے آنکھیں کھولیں، سیاہ چغہ اوڑھے کھڑا اک انسان، چمکتی سنہری آنکھیں، وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ ان تپتی نظروں سے اپنی نظریں چُراتے اس نے دائیں جانب دیکھا تو اب وہاں اندھیرا نہیں تھا بلکہ دور تک گھاس پھیلی تھی۔ حیرانی سے گردن گھما کر بائیں جانب دیکھا، ادھر وہی گلابی رنگ کا گلاب باقی کئی پھولوں کے ساتھ موجود تھا۔ فوراً سے اپنے سامنے اس نے ان سنہری آنکھوں والے کو تلاش کرنا چاہا۔ اب وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ اپنے ہاتھوں میں کتاب تھامے وہ اسی باغ میں بیٹھی تھی، پر دل اب تک دھڑک رہا تھا۔ ایسا ہی ایک منظر وہ خواب میں کچھ عرصہ پہلے دیکھ چکی تھی۔ تو کیا وہ اب جاگتی آنکھوں سے بھی خواب دیکھنے لگی تھی؟ اور آخر اس خواب کا مطلب کیا تھا؟ کیا یہ سب اِس وجہ سے تھا کہ وہ بہت زیادہ ہی کتابیں پڑھنے لگی تھی؟ اونہوں۔ انارہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کتاب بند کر دی۔ حالانکہ یہ کوئی کہانی کی کتاب تو نہ تھی۔ پریوں ، بھوتوں اور دیوتاؤں کی کہانیاں تو وہ پڑھتی بھی نہیں تھی۔ پھر یہ سب کیا تھا؟ انارہ کو کتاب بند کرتے ہوئے، گہری سوچ میں گم پا کر اس کی کنیز نے اسے پکارا تو وہ اس دنیا میں واپس آئی اور کنیز کو محل واپس چلنے کا کہنے لگی۔ فائقہ سپاہیوں کو سواری تیار کرنے کا کہنے کے لیے بھاگی تو شہزادی نے بُرا سا منہ بنا کر سر جھٹکا۔ وہ تو یہاں محل کے جھمیلوں سے دور تازا ہوا لینے آئی تھی پر دماغ مزید الجھ گیا تھا۔ واپسی کے راستے بھی وہ گم سم سی بیٹھی سوچتی رہی۔ آخر کیا زندگی تھی اس کی، وہ شہزادی تھی، اس کے پاس سب کچھ تھا۔ پر ایک چیز جو وہ شدت سے چاہتی تھی، اسے میسر نہیں تھی۔ اور وہ شے تھی آزادی۔ چاہے وہ محل سے باہر جانے کی آزادی ہو یا اپنی مرضی سے کوئی کام کرنے کی، وہ اپنے بابا اور شاہی قوانین کی پابند رہتی تھی۔ اب بھلا اس باغ تک آنے کے لیے اسے ڈھیروں ڈھیر سپاہیوں اور اس شاہی بگھی کی کیا ضرورت تھی۔ وہ پیدل بھی تو آ سکتی تھی ناں۔ (افف افف!) اس نے دوبارہ سے ان تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹکا اور باہر دیکھا۔ وہ محل کے اس حصے میں پہنچ چکے تھے جہاں دونوں شہزادیوں کی خواب گاہیں موجود تھیں۔ بگھی کے رکتے ہی وہ باہر نکلی اور تقریباً بھاگتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چک دی۔ کنیز فائقہ فوراً اس کے پیچھے لپکی۔ شہزادی انارہ اور شہزادی عازلہ کے کمروں کے دروازے ساتھ ساتھ تھے۔ اپنے کمرے کے دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے سوچا کہ کیوں نہ عازلہ صاحبہ کو تنگ کیا جائے۔ اسی نیک خیال کے پیش نظر پہلے تو اس نے اپنے پیچھے دور سے آتی فائقہ کو وہیں باہر رکنے کا اشارہ کیا اور دبے قدموں چلتے عازلہ کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ شہزادی عازلہ قد آور شیشے کے پاس بیٹھی اپنے لمبے بال سنوارنے میں مصروف تھی۔ اس کا رُخ یوں تھا کہ اسے انارہ کے اندر داخل ہونے کا پتہ نہ چلا۔ حیرت کی بات تھی کہ اس کی کنیزِ خاص نہ ہی کمرے میں موجود تھی اور نہ وہ باہر کہیں دکھائی دی تھی۔ انارہ کو تو بس موقع کا فائدہ اٹھانا تھا سو ایک نظر عازلہ پر ڈالی اور بھر شرارت بھری نظریں کمرے کی چیزوں پہ گھماتی سوچنے لگی کہ کیا شرارت کی جائے۔ اگلے ہی لمحے اس کی آنکھیں چمکیں۔ شہزادی عازلہ کو ڈرانا کتنا آسان کام تھا۔ اس نے اپنے چہرے پر پریشانی بھرے تاثرات اکٹھے کیے اور کمرے سے باہر نکلی اور چلائی "فائقہ۔۔۔ دیکھو وہ رہا۔۔۔۔ اس چوہے کو عازلہ کے کمرے میں۔۔۔" اپنا جملہ ادھورا چھوڑا اور پھر اندر کی طرف بھاگی"عازلہ وہ ادھر آ گیا۔۔۔ وہ چوہا ۔۔۔ اسے ہم ہمارے کمرے سے بھگا رہے تھے"۔عازلہ جو پہلے ہی چوہے کا نام سنتے ہی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی، اندر آتی انارہ کی بات سن کر اس نے زور کی چیخ ماری اور فوراً اپنے بیڈ پر چڑھ گئی۔ اس کے چہرے پر چھائی دہشت دیکھتے انارہ اپنی ہنسی روکے، وہی پریشان سا چہرہ بنائے ہوئے تھی۔
"انارہ، کسی کو بلاؤ ۔ تسلیم۔۔۔ ف۔۔۔۔ فائقہ۔۔۔۔ کوئی باہر ہے؟" بیچاری ڈری سہمی عازلہ نے خود ہی کنیزوں کو آوازیں لگانا شروع کر دیں۔ انارہ نے اپنی اداکاری جاری رکھتے ہوئے پریشانی سے دروازے کی طرف دیکھا اور "میں۔۔ میں بلاتی ہوں کسی کو۔۔۔ تم یہیں رہو" کہتی باہر کی طرف بھاگی اور کمرے سے کچھ فاصلے پر فائقہ کے پاس جا کھڑی ہو گئی۔ اب چونکہ ہنسی روکنے کی ضرورت نہ تھی تو وہ کُھل کے ہنسنے لگی۔ فائقہ، جو شہزادی عازلہ کی آوازیں سن کر حیران پریشان سی کھڑی تھی، شہزادی انارہ کو یوں ہنستے دیکھ کر سب سمجھ گئی اور اب شاکی نظروں سے انارہ کو دیکھ رہی تھی۔ "آپ کو معلوم ہے وہ ایسی چیزوں سے کتنا ڈرتی ہیں" ۔ انارہ نے چپ ہوتے سنجیدگی سے فائقہ کی بات سنی اور پھر دوبارہ مسکرانے لگی "معلوم ہے تبھی تو ڈرایا ہے۔ اچھا اب تم جاؤ اور کمرے میں تھوڑا اِدھر اُدھر دیکھ کر کہنا کہ نکل گیا چوہا باہر۔۔ اب جاؤ۔" فائقہ انہیں شاکی نظروں سے اسے دیکھتی عازلہ کے کمرے کی طرف بھاگی۔ چند لمحوں بعد عازلہ اس کے سامنے ناراض سی کھڑی تھی۔ یقیناً فائقہ نے اسے انارہ کی شرارت سے آگاہ کر دیا تھا۔
"کیوں کرتی ہیں آپ ہر وقت مذاق؟ نہیں اچھا لگتا ہمیں۔ اور آپ کو اچھے سے معلوم ہے کہ ہمیں ڈر لگتا ہے ان چوہے، مکڑیوں سے۔ پھر بھی انارہ۔۔۔۔ پھر بھی؟" وہ سخت غصے میں لگتی تھی۔ انارہ نے گہری سانس اندر کو کھینچی۔ شاید واقعی یہ مذاق زیادہ ہو گیا تھا۔
"اچھا چلو معاف کر دو بھئی۔ میں تو بس چاہتی ہوں کہ تم ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ڈرنا چھوڑ دو۔" وہ اپنی صفائی دینے لگی۔
"آپ کہنا چاہتی ہیں کہ آپ کی طرح ہو جاؤں میں؟" عازلہ جذباتی ہونے لگی تھی۔ اس کی نرم طبیعت پر تھوڑی سی بھی سخت بات بڑی ناگوار گزرتی تھی۔ انارہ نے سر جھٹکا اور ماحول خوش گوار کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
"ارے نہیں نہیں۔ تم میری طرح کیوں ہو گی۔" پھر ٹھہر کر دوبارہ شرارت سے بولی "میری طرح ہر کوئی تھوڑی ہو سکتا ہے۔" پر شاید عازلہ کو اس کی بات کچھ اچھی نہیں لگی تھی۔ اس کے ماتھے پر بل پڑ چکے تھے۔
"آپ کی طرح کوئی ہونا بھی نہیں چاہے گا۔" انارہ کا چہرہ لمحے بھے کو پھیکا پڑا اور پھر وہ دوبارہ مسکرا دی پر عازلہ اپنی بات مکمل کر کے اپنے کمرے میں واپس جا چکی تھی۔ اب وہاں صرف وہ اور فائقہ کھڑے تھے یا یوں کہنا چاہیے کہ دکھی سی انارہ اور شرمسار فائقہ وہیں کھڑے تھے۔ انارہ نے فائقہ کی طرف ایک ناراض سی نگاہ ڈالی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی، فائقہ بھی چہرہ جھکائے خاموشی سے اس کے پیچھے ہو لی۔ کمرے میں پہنچ کے وہ دھپ سے اپنے بستر پر گرنے والے انداز میں بیٹھی اور ہاتھ بڑھا کر فائقہ کے ہاتھ میں پکڑی کتاب کی طرف اشارہ کیا جو باغ سے واپسی پر انارہ نے اسے واپس پکڑا دی تھی اور اب تک اس کے ہاتھ میں ہی موجود تھی۔ فائقہ نے کتاب انارہ کی طرف بڑھا دی جو اسے فوراً کھول کر پڑھنے لگی۔
"معاف کر دیں شہزادی صاحبہ۔ میں ان کی پریشانی نہیں دیکھ سکی اور ان کو بتا دیا کہ یہ آپ کی شرارت ہے۔ میں، میں بلکل نہیں چاہتی۔۔۔۔" فائقہ کہے جا رہی تھی کہ انارہ نے چہرہ اٹھا کر س کی طرف دیکھا۔
"میں ناراض نہیں ہوں فائقہ ۔ مجھے واقعی عازلہ کے ساتھ ایسا مذاق نہیں کرنا چاہیے تھا۔" انارہ کا چہرہ، وہ تھوڑی دیر پہلے مسکراتے چہرے جیسا نہیں تھا۔ نہ ہی ان آنکھوں میں شرارتی سی کوئی چمک تھی۔ فائقہ کو افسوس ہوا۔
"پر۔۔۔ جو انہوں نے آپ کو کہا۔ آپ ان کی بات کو دل پر نہ لیں۔" فائقہ اب نرمی سے اسے سمجھا رہی تھی۔ انارہ نے کتاب دوبارہ بند کر کے اپنے پاس ہی رکھ لی۔
"تم جانتی ہو کہ میں لوگوں کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتی۔ لینے والی ہوتی تو میں،میں نہ رہتی فائقہ۔" وہ بھی آہستہ سے بولی۔
"پر آپ اداس ہیں." فائقہ نے اسرار کیا۔ انارہ نے سر جھٹکا۔
"دل کے باہر رہنے والوں سے آپ اپنے دل کو بچا سکتے ہیں، جو دل کے قریب ہوں ان سے نہیں۔ اور پھر جو جتنا دل کے قریب ہو، دل ان کی طرف سے اتنا ہی دُکھتا ہے۔" کہتے ہوئے وہ اٹھی اور کمرے کی پچھلی طرف محل کے باہر کھلتی کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ کھلی کھڑکی سے آتی ہوا سے اس کے بال اڑنے لگے تھے۔ فائقہ اب بھی شرمندہ تھی۔ انارہ دوبارہ بولنے لگی۔
"مجھے تو بس۔۔۔" اب وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی "بس کبھی کبھار بہت اکیلا پن محسوس ہوتا ہے۔ اور پھر اپنے اکیلے پن کو دور کرنے کے لیے میں سب کو تنگ کرنے لگتی ہوں۔" اب وہ ہنسی تھی پر کتنا ہی اچھا ہوتا اگر وہ صرف خوشی میں ہی ہنستی۔ وہ دونوں اپنی مختلف سوچوں میں گم تھیں جب باہر سے ایک سپاہی نے صدا لگائی " شہزادی انارہ، آپ کی تربیت کا وقت ہو چکا ہے، آپ کا انتظار کیا جا رہا ہے۔" کہہ کر وہ چپ ہو گیا مگر وہیں کھڑا رہا کیونکہ عموماً ناخوش انارہ کو خود ہی لے جانا پڑتا تھا۔ بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ قاصد پیغام پہنچائے اور انارہ خود ہی تربیت گاہ پہنچ جائے۔ انارہ کے بقول اسے وہ سب کام پسند نہیں تھے جو اس کی تربیت کے نام پر اس سے کروائے جاتے تھے۔ اب ایک سیدھی لکیر پر بغیر لڑکھڑائے چلنے میں اس کا کیا فائدہ تھا؟ اور نہ چل پانے پر کیا نقصان؟ مگر نہیں، شہزادی ہونے کے ناطے اسے یہ سیکھنا ہی تھا۔ ہاں البتہ آج شہزادی انارہ کوئی بھی نخرہ کیئے بغیر باہر نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ محل کا اک بڑا سا ہال نما کمرہ تھا جہاں انارہ اور عازلہ کو تربیت دی جاتی تھی۔ ریاست کی بہترین، ہنرمند عورتیں انہیں سکھانے کے لیے موجود تھیں۔ سلائی، کڑہائی اور کتابی علم تک تو ٹھیک تھا، یہ شاہی ڈھنگ میں ہنسنا، چلنا اور بات کرنا سیکھنا انارہ کو سخت ناپسند تھا۔ وہ عام لوگوں کی طرح رہنا اور بولنا چاہتی تھی، مگر وہی، شاہی قوانین اور رسوم و رواج۔ ان رسم و رواج سے زیادہ نفرت اسے تب اور زیادہ ہوتی تھی جب اسے کسی معقول بات یا کام سے منع کر دیا جاتا تھا۔ وہ تربیت گاہ میں عازلہ کے ساتھ کچھ فاصلے پر بیٹھی، منہ بسورتی اپنی سوچوں میں گم تھی اور وہاں سامنے ایک خاتون کھڑی جانے کیا باتیں انہیں بتا رہی تھیں۔
"تو آج ہم دوبارہ سے متوازن چال چلنے کی مشق کریں گے۔ شہزادی عازلہ، آپ ادھر آ کر یہ پھلوں کا ٹوکرا سر پر رکھیں گی۔ شہزادی انارہ۔۔۔" اپنا نام سننے پر بڑی شہزادی چونکیں تو عورت نے ٹھنڈی آہ بھری "آپ آج دوبارہ یہ رکابیاں ہی توازن سے سر پر رکھنے کی مشق کریں گی۔" خاتون نے ساتھ کھڑی کنیزوں کی طرف اشارہ کیا جن میں سے ایک پھلوں کا ٹوکرا اور دوسری کئی کنیزیں تین، چار رکابیاں اپنے ہاتھوں میں تھامے کھڑی تھیں۔ ان شیشے کی رکابیوں کو دیکھ کر اب ٹھنڈی آہ بھرنے کی باری انارہ کی تھی۔ شہزادی عازلہ اٹھ کر ٹوکرے کو اپنے سر پر جمانے کی کوشش کرنے لگی وہیں شہزادی انارہ نے ایک کنیز سے رکابیاں لیں، اپنا سر سیدھا کر کے رکابیاں رکھیں اور سانس روک لی۔ اب دھیرے دھیرے اس نے قدم بڑھانے شروع کیے، ایک۔۔۔۔ دو۔۔۔۔۔تیسرا قدم اٹھا اور چھناکے کی آواز سے انارہ کے سر پر دھری ساری رکابیوں نے خودکشی کر لی۔ ایک دم سے ایک کنیز آگے بڑھ کر فرش پر پھیلا کانچ سمیٹنے لگی جو شاید اس متوقع حادثے کے لیے پہلے سے تیار کھڑی تھی۔ انارہ نے بیچاروں کی طرح پہلے ٹوٹی ہوئی رکابیوں کو دیکھا اور پھر سر اٹھا کر باقی سب کو جو پہلے سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ خاتون نے ایک اور کنیز کو اشارہ کیا جس نے آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ میں پکڑی رکابیاں انارہ کی طرف بڑھائیں۔ انارہ نے خاموشی سے وہ رکابیاں اپنے سر پر رکھیں۔
"اب آپ اپنا سر سیدھا رکھیں گی۔" خاتون کہنے لگی "اب چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ پہلا قدم اٹھائیں۔" انارہ نے چھوٹا سا قدم آگے بڑھایا۔ سر تھوڑا سا ہلا۔
YOU ARE READING
آتش زدہ
Fantasy"آتش زدہ" ایک pure fantasy ہے جو بادشاہوں اور سلطانوں کے دور کی کہانی ہے. اس دور کی صحیح طور پر عکاسی کرنا بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے اور اس پر فینٹسی لکھنا، میرے لیے ایک چیلنج ہی ہے۔ میں بذات خود فینٹسی پڑھنا پسند کرتی ہوں پر اردو میں اس genre پر زیاد...