اس کہانی کو آگے لے جانے کیلئے آپ کے قیمتی ووٹ درکار ہیں. شکریہ!
–––––––––––––––––––––––––––––––––––––––وہ پارک میں داخل ہو کر لوگوں کا جائزہ لینے لگا. کچھ وقت کیلئے ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد وہ ایک خالی بینچ پر جا بیھٹا. اُس نے اپنا موبائیل فون نکالا اور انٹرنیٹ کونیکٹ کر دیا. پراکسی، لوکیشن وغیرہ چینج کرکے اُس نے تسلّی کرلی کہ وہ اب سیف ہے. فیس بک کے ایک فیج پر جا کر اُس نے اس کے ان بکس میں ایک میسج شروع کردیا. میسج میں اُس نے کچھ ایسا لکھا کہ وہ مطمئن نظر آنے لگا اور ہلکی سی مُسکراہٹ بھی اُس کے ہونٹوں پر نمودار ہوگئی. میسج سینڈ کرنے کے بعد اُس نے موبائیل فون کو اپنے اصل حالت پر لایا. وہ کھڑا ہوگیا اور اپنے جینز کے جیب میں ہاتھ ڈال کر اُس نے سگریٹ نکالی اور آگ لگا کر اس کے کش لینے لگا. وہ اس وقت اپنے آپ کو اس ملک کا ایک حکمران سمجھنے لگا تھا.
اندھیرہ ہونے والا تھا اسی لئے وہ حراماں حراماں اپنے گھر کے طرف لوٹ گیا. گھر میں داخل ہوکر وہ کچن کی طرف چلا گیا. اُس کی ماں روٹیاں پکا رہی تھی. اُس نے وہی بھیٹ کر اپنے لئے سالن نکالا اور گرم گرم روٹیاں کھانے لگا. جب وہ خوب کھا چکا تو اُس نے اپنے ماں کے دوپٹے سے ہاتھ صاف کئے جس پر ماں نے اُسے دو چار گالیوں سے نوازہ اور وہ مُسکراتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا. تھوڑے دیر کیلئے وہ بیڈ پر پڑا رہا، چھت کو گورتے ہوئے وہ کچھ سوچنے لگا اور پھر اُٹھ کر لیپ ٹاپ کھول لیا. پھر سے اُس نے سیفٹی کی وہی ترکیب کی اور وہی خفیہ فیس بک اکاونٹ کھول لیا. لیکن اس بار اُسے میسج موصول ہو گیا تھا. وہ بھڑبھڑاتے ہوئے وہ میسج پڑنے لگا؛
”تم جو کوئی بھی ہو اپنے آپ کو بہت شانہ سمجھتے ہو! اور تمھارہ تعلق اُس ایجنسی سے نہیں ہے کہ جس کے بل بوتے پر تم ہمیں ڈرا سکو. ہم یہ مشن جاری رکھیں گے اور ہر حال میں رکھیں گے چاہے ہمیں تم جیسے بے وقوفوں کو گولی کیوں نا مرنا پڑھے. ہم سے دور رہو کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ تمھارے ماں باپ اپنے جوان بیٹے کا غم برداشت کرلیں. اسی لئے اپنے کام سے کام رکھو.“
اُس نے مسکرا کر اور پھر سنجیدہ ہو کر ایک غلیظ گالی نکالی اور ریپلے لکھنا شروع کیا. اپنا میسج پورا کرنے کے بعد اُس نے اس پر ایک سرسری سی نظر دوڑائی اور سینڈ کے بٹن پر کلک کر دیا.
کافی انتظار کے بعد اُسے کوئی جوابی میسج موصول نہیں ہوا. اُس نے کوئی انگریزی فلم لگا کر دیکھنا شروع کیا. رات بہت گزر چکی تھی جب فلم ختم ہوئی. وہ پھر سے فیس بک پر گیا اور اُس کے امید کے مطابق جوابی میسج آگیا تھا؛
”چلو کل ملتے ہیں“.
بجائے ڈرنے کے وہ تھوڑا سا مُسکرایا اور خود سے مخاطب ہونے والے لہجے میں بولا؛
”ملتے ہیں نا!!“.
اب رات کے اس پہر اُسے نیند نے تنگ کرنا شروع کیا. وہ جلدی جلدی باتھ روم گیا اور واپس آکر لیپ ٹاپ ایک طرف رکھ کر بیڈ پر سو گیا.
موبائیل پر کال آ رہی تھی. اُس نے بند آنکھوں سے اِدھر اُدھر ہاتھ مارنا شروع کیا. آخر اُسے کامیابی مل گئی اور موبائیل اُس کے ہاتھ میں آگیا. اُس نے کان سے موبائیل لگایا؛
”ھیلو!“. دوسری طرف سے کسی نے اُس کو گندی گالی نکالی اور پوچھا؛ ”ابھی تک سو رہے ہو کمینے؟ چل باہر نکل“.
وہ ہڑبھڑا کر بیڈ پر بیٹھ گیا اور بولا؛ ”ابھی آیا“.
وہ بھاگتا ہوا باہر گلی میں آیا. دیکھا تو اُس کا جگری یار جواد شانوں سے بیگ لٹھکائے ہوئے، بائیک پر بیھٹا تھا اور بولا؛ ”یار یاسر! تو ابھی تک سو رہا تھا؟ چل جلدی سے تیار ہو کر آجا. کلاس میں ابھی ٹائم باقی ہے“.
وہ کچھ کہے بغیر دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوگیا. جلدی جلدی تیار ہو کر یاسر نے ناشتہ کئے بغیر باہر نکل آیا. ماں نے اُسے کئی آوازیں دیں مگر اُس نے کوئی توجہ نہیں دی.
دوست کے ساتھ بائیک پر بیھٹا اور وہ دونوں پوری سپیڈ کے ساتھ روانہ ہوگئے.
راستے میں اُن دونوں کے درمیان کوئی خاص بات نہیں ہوئی. وہ دونوں کلاس لینے کیلئے وقت پر پہنچھے تھے. جب کلاس ختم ہوئی تو وہ دونوں کینٹین کی طرف آگئے. چائے سموسہ کھاتے ہوئے جواد نے بولنا شروع کیا.
”یار تم آج کل اتنے سست ہوگئے ہو کہ اگر میں فون نہیں کروں تو تُو سارا دن سوتا رہے گا؟“.
”کیا کروں یار“ یاسر نے کہا ” خود کو خفیہ ایجنسی کا ممبر ظاہر کرنے کیلئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے. راتوں کو جاگنا پڑھتا ہے اور دن میں آنکھوں کو چار کرنا پڑھتا. کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے میں واقعی میں ایجنٹ ہوں“.
”تم یہ سب بے وقوفیاں چھوڑ دو“ جواد نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا ”یہ کوئی فلم نہیں ہے. یہ زندگی ہے. کہی پھنس جاؤگے اور پھر وہاں پر کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا“.
”تمھیں کیا پتا“ یاسر نے قہقہہ بلند کیا ”جب میں اُن کو میسج کرکے ڈراتا ہوں تو مجھے اُن کے جوابی میسج لکھنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ خوف سے اُن کے ہاتھ کس طرح کانپ رہیں ہیں اور اُن کا دل کس قدر دھڑک رہا ہوتا ہے. بس یہی دو باتیں اب میرا نشہ بن گیا ہے. مجھے یہ سخت لطف دیتا ہے. ویسے بھی یہ لوگ اس ملک کے خلاف بکواس لکھ رہے ہوتے ہیں. ہر وقت کچھ نہ کچھ بک رہے ہوتے ہیں. میں تو پھر بھی ٹھیک ہی کر رہا ہوں کہ اُن کو ڈرایا کرتا ہوں اور کئی لوگ تو یہ سب چھوڑ چکے ہیں اور وہ بھی میرے اس نشے کی وجہ سے.“
”کچھ بھی کرو“ یاسر نے سنجیدگی سے کہا ”بس اپنے ساتھ مجھے نہ پھنسا لینا“.
یاسر نے غرور بھرا قہقہا لگایا اور وہ دونوں معمول کی باتیں کرنے لگے.
یاسر کا تعلق مڈل کلاس فیملی سے تھا. اُس کے باپ کا دوکان تھا جسے یاسر کا بڑا بھائی اور باپ سنبھالتے تھے. یاسر کی ایک بہن تھی جسکی شادی ہوگئی تھی اور ماں گھر کا سب کام اکیلے کرتی تھی. یاسر یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور اپنے جنریشن کی طرح وہ بھی انٹرنیٹ، موبائیل اور لیپ ٹاپ کا بہت شوقین تھا. اُس کا سب سے بڑا مشغلہ یہی تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر خود کو خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ ظاہر کرتا اور لوگوں کو ڈراتا تھا. یہ اُن لوگوں کو ڈراتا تھا جو لوگ سوشل میڈیا پر ملک کے خلاف بات کرتے، فوج کے خلاف بولتے، اسلام کو اس ملک سے ختم کرنے کی بات کرتے. اس ملک میں یہ ایک خاص طبقہ تھا جس میں دن بدن اضافہ ہوتا اور یاسر اُن سے لڑتا رہتا اور آخر کار جیت یاسر کی ہوتی. اسے یہ ڈر بھی تھا کہ اگر واقعی میں خفیہ ایجنسی کو پتہ چل جائے تو اس کا کیا حشر کرینگیں لیکن وہ اس پر مطمئن ہو جاتا کہ وہ تو نیک کام کررہا ہے. دوسری طرف وہ یہ محسوس کرتا اور سوچتا کہ میں اکیلا ہوں جو ان سب کی پٹھائی کرتا ہوں لیکن پھر یاسر یہ سوچ کر خود کو دلاسہ دیتا کہ میرے جیسے بے شمار لڑکے ہونگے لیکن میری طرح وہ بھی چُپ کر کام چلا رہے ہوں گے. ایک سال پورا ہونے کو تھا کہ یاسر یہ کام چلا رہا تھا. ابھی تک اُسے کئی کامیابیاں نصیب ہوئی تھی. کسی نے بھی اُسے کچھ نہیں کہا تھا اور نہ ہی کبھی اصل ایجنسی کو پتہ چلا تھا. مگر شائد یہ اُس کا وہم تھا.
YOU ARE READING
ڈر - حصّہ اوّل
Mystery / Thrillerیہ کہانی اُن کی ہے جو اس ملک کو بے انتہا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غداروں کو اور مسلمانان پاکستان کے خلاف بولنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔