علی گڑھ کے معروف شاعرشمیم بستوی رمضان کے مہینے میں بازار سے لوٹ رہے تھے‘ہاتھ میں تھیلی تھی‘ تھیلی میں کوئی سامان تھا‘شمیم صاحب خراماں خراماں چلے آرہے تھے‘ رمضان کا مہینہ تھا‘ گرمی کا موسم تھا‘ راستے میں ایک پہچان والے مل گئے‘ انہوں نے پوچھا:حضرت کیا لے کر جا رہے ہیں؟انہوں نے جھٹ سے جواب دیا‘ایسی چیز جس کے کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا! وہ صاحب بہت حیران ہوئے‘ انہوں نے شمیم صاحب سے استفسار کیا‘ایسی چیزوں کا علم مولانا لوگ اپنے پاس ہی چھپا کر رکھتے ہیں‘ہم اگر ایسی
چیزوں کا پوچھیں تو جواب گول کر دیا جاتا ہے اور ہمیں کہا جاتا ہے کچھ بھی کھاو¿‘ روزہ ٹوٹ جائے گا۔آخر ہمیں بھی تو پتہ چلے‘حضرت آپ مجھے بتائیں کہ تھیلی میں کیا ہے؟میں آپ کو ایسے نہیں جانے دو ں گا۔شاعر صاحب نے اسی وقت تھیلی کھول کر دکھائی تو ان صاحب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا‘ اس تھیلی میں ” جوتے“ رکھے تھے۔