کل رات بیگم سے َشدید جھڑپ میں پسپائ اختیار کرنے کے بعد (ھمیشہ کی طرح) میں نے سوچا کیوں نہ آج کی اس پسپائ کا بدلہ جرمنی سے لیا جاے اور اس خیال کے آتے ہی میں نہانے کے لیے حمام میں گھس گیا-
میں نے ابھی شاور آن ہی کیا تھا کہ میری نظر ایک بڑی ہی جاندار مکڑی پہ پڑی- اب آپ یہ سوچتے ہونگے کہ اس مکڑی کا مونث ہونا کیسے ثابت ہوا، تو اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ کہانی میری ہے تو کردار بھی میری مرضی سے ہونگے، دوسرا ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں، اب یہ فیصلہ آپ خود کر لیں کہ آپ میں سے کون نیام ہے اور تلوار کس کے پاس-
مکڑی اسقدر جاندار تھی کہ میں اسکی دھشت میں آگیا- خوف ایسا ہوا کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ کسی بھی لمحے یہ مکڑی مجھے کھا جاے گی-
اپنی یہ حالت دیکھ کہ مجھے وہ فلم یاد آگئ"لاءف آف پائ"، کیا خوبصورت فلم تھی- اس میں بھی اسی طرح دو مرکزی کردار تھے ، ایک (معصوم) لڑکا اور دوسرا وہشی شیر- اور ان کا تعلق بھی تقریباّ وہی تھا جو میرا اس مکڑی کے ساتھ- دونوں ایک ہی صورت حال سے دوچار تھے جہان authority کا define کرنا بہت ضروری تھا کہ کون اس صورت حال کو lead کرے گا، کون اس کشتی کا ملاح ہوگا، دونوں کا مسلہ یہ تھا ک کچھ معاشرتی تبدیلیوں کی وجہ سے وہ ایک جگہ جمع ھو گےء تھے، دونوں ایک دوسرے کو صرف سطحی طور پر جانتے ہیں، یا یوں کہ لیں کہ معاشرے نے جتنا انکو ایک دوسرے ک بارے میں بتایا ہے بس اتنی واقفیت ہے-
ہمارے معشرے میں شادی کا بندھن بھی ملتا جلتا کچھ اسی طرح ہے شاید، دونوں کو اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں دوسرا انکی انفرادیت کھا نہ جاے- ایک اور مشابہت یہ بھی ہے کہ دونوں ایک ایسی جگہ موجود ہیں جہاں سے باہر بھاگنے کا مطلب بھی خودکشی ہے- تو انکو اسی صورت حال میں رہتے ہوے ایک خاص وقت گزارنا ہے، اپنی authority بھی define کرنا ہے اور boundaries بھی طے کرنی ہیں-
ویسے یہاں بھی یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہانی میں سے میاں کون ہے اور بیوی کون، تو میں یہ فیصلہ بھی آپ پہ چھوڑتا ہوں۔ آپ کے معاملے میں جو خود کو شیر سمجھتا ہے وہ دوسرے کو معصوم بچہ سمجھ لے۔ میرے معاملے میں تو میں معصوم بچہ ہوں۔
اس کے علاوہ کچھ اور کردار بھی موجود ہیں جن کو آپ عام معاشرے سے تشبیح دے سکتے ہیں مثلا ساس، نند، سالیاں اور جو بھی آپ کے ارد گرد موجود ہوں۔ ان کرداروں کو سمجھنے کے لیے لوگ براے مھربانی فلم ضرور دیکھیں۔
بہرحال ان سب باتوں سے جو بات مجھے سمجھ آی (گو کے یہ بات بلکل بھی important نہیں ہے لیکن پھر بھی بتا دیتا ہوں) وہ یہ تھی کہ جو وقت ابتدا میں اپنی اپنی حدیں سمجھنے اور سمجھانے کا ہوتا ہے وہ قطع آسان نہیں ہوتا اور اس مشکل سے بھاگ جانا خود ایک خودکشی ہےاور صبر وہ واحد ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم یہ مشکل وقت گزار سکتے ہیں۔
بات میری اور مکڑی کی ہو رہی تھی۔ میں ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا ک دیوار پہ کھڑی مکڑی پانی کی وجہ سے نیچے زمین کی طرف آگیء، اور یہ دیکھتے ہی میرے ذہن میں تیمور لنگ والی مثال آگیء۔ جس میں وہ ایک جنگ میں ہارنے کے بعد ایک دریا کے پاس بیٹھا تھا اور یس نے چیٹیوں کو دیکھا کہ وہ بار بار اوپر چڑھنے کی کوشش کرتی ہیں مگر کامیاب نہی ہو پاتیں۔ میں نے سوچا تیمور لنگ کس قدر کمینہ آدمی تھا کہ دیکھ رہا ہے کہ کسی کو یسکی مدد کی ضرورت ہے اور پھر بھی انکی مدد نہیں کر رہا۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے جھٹ سے مکڑی کو ٹانگ سے پکڑا اور اوپر صاف جگہ رکھ دیا۔ And guess what وہ اگلے ہی لمحے وہاں سے کود کر واپس اسی جگہ آگیء جہاں سے میں نے یسے اٹھایا تھا۔ اور میں سوچتا ہی رہ گیا کہ یہ کس قسم کی عورت اوہ میرا مطلب مکڑی ہے کہ میں اسکی مدد کر رہا ہوں اور اسکو میری مدد نہیں چاہیے۔ یہاں ایک اور بات سمجھ اگیء، ہم سب ہیرو تو ہیں مگر صرف اپنی زندگی کے، دوسرے کی زندگی کا ہیرو وہ خود ہے۔ ہم اپنے ہمسفر کے مشکل وقت میں اسکے ساتھ کھڑے تو ہوسکتے ہیں مگر اپنی مشکل کو وہ خود ہی حل کر سکتا ہے، ہم صرف باتیں کر سکتے ہیں۔
میں جیسے ہی اس مکڑی کے خوف سے باہر آیا تو میں نے محسوس کیا کہ میں نے ان سوچوں میں کھو کر بہت سا پانی ضایع کر دیا ہے، جو کہ میری ملکیت نہیں بلکہ معاشرے کی امانت ہے۔ اس سے ایک اور بات سمجھ آیء کہ اگر ہمیں کوءی تجربہ کرنا ہے تو ہمیں اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اس تجربے میں کہیں کسی اور کا نقصان تو نہیں کر رہے۔
بلآخر میں اور مکڑی ہںسی خوشی رہنے لگے۔
YOU ARE READING
مکڑی اور میں
Humorok! I dont have urdu keyboard now. and i dont want to say anything as well...... move your ass and see for yourself :)