زندگی کیا ہے (Chap 1)

278 5 0
                                    


جس نے جو دیکھا
اُس کے لئے ویسی ہی زندگی۔ ہر کسی کے لئے اپنا وجود 'میں' اور باقی سب 'دنیا'۔
خاکی انسان ہر لحاظ سے اپنے دِل کی پیروی کرتا ہے۔ یہ جیسا محسوس کرتا ہے، اور جیسی کیفیت اِس دل کی ہوگی، وہی جھلک انسان کے مزاج میں، اُس کی باتوں میں اور اُس کے فیصلوں میں دِکھے گی

اورجذبات!!! جذبات کی جگہ انسان کی زندگی میں بہت معنی رکھتی ہے۔ یہ جذبات ہی ہیں جو کہ انسان کو یا تو بنا دیتے ہیں یا اجاڑ دیتے ہیں۔ اور اِن جذبات میں دو چار ایسے اہم پہلو جن کو اگر تو انسان اپنے قابو میں کر لے، تو کامیابی مقدر بن جاتی ہے، اور اگر یہ جذبات انسان کو اپنے قابو میں کر لیں تو ویرانیاں نصیب۔ زندگی میں پیش آنے والے جذبات میں سب سے اہم ایک غصہ اور دوسری چیز پیار۔ ان دو چیزوں کو اگر انسان سمبھال لے، اِن کو مثبت راہ میں استعمال کرنا سیکھ جائے تو اُس بندے کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔ دل اکثر دماغ پہ غلبہ پا جاتا ہے۔ بھوکے انسان کا دل صرف یہی چاہے گا کہ وہ کھانا کھا لے۔ اور اگر خالی پیٹ کے ساتھ اُس کی جیب بھی خالی ہوئی، تو اُس کا من کسی اور چیز کی خواہش نہیں کرے گا۔ وہ بس کھانا مانگے گا، اور وہ چڑچڑاپن تب تک اُس کو اپنی گرفت میں جھکڑے رکھے گا جب تک اُس کو پیٹ بھر کھانا نہ مل جائے۔ وہ یہی سوچے گا کہ کیسی بدنصیبی ہے۔ ایک کھانے تک کے پیسے نہیں، اور اگر اگلے پل اُس کو پیٹ بھر اچھا کھانا نصیب ہو جائے، تو کھانا کھا لینے کے بعد اُس شخص کی کیفیت کچھ اور ہوگی۔
ایسے ہزاروں ہی معاملات ہیں۔ اگر اپنی منت پوری، اگر اپنے خواب تعبیروں کی دہلیز پہ جا پہنچے ہیں تو چاہے ملک میں جنگ کا ماحول ہی کیوں نہ ہو، وہ شخص تسکین سے لبریز ہوگا۔ اُس کا دل پر سکون ہوگا۔ اور اگر دوسری طرف انسان مایوسیوں اور پریشانیوں میں پھنسا پڑا ہے، تو چاہے ہر سو عید اور تہواروں کا سماں ہی کیوں نہ ہو، یہ سب اُس شخص کے لئے بے معنی ہے۔ وہ بھیڑ میں بھی تنہا ہوگا۔ اور یہ بس کہنے کی ہی بات نہیں، لوگ ہوتے ہیں تنہا۔
※***************************************※

کراچی (پاکستان) میں ایک پولیس انسپکٹر "ارسم ریاض" اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اپنے نام کی طرح مضبوط اور بہادر۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار یہ شہر اُس کے نام سے اچھی طرح واقف تھا۔ اُس نے کافی اینکاؤنٹرز بھی کئے تھے۔ لیکن اُس کے ہاتھ کسی بے گناہ کے خون سے رنگے نہیں تھے۔ حالات بدتر تو تھے، اور وہ اِس سب میں اپنا فرض جس ایمانداری سے نبھا سکتا تھا۔ وہ یہ سب کر رہا تھا۔ اپنی پہنچ کے مطابق وہ اپنا فرض سر انجام دے رہا تھا۔

"تمہیں کہا تھا کہ سیڑھیاں مت چرحا کرو" ارسم فون پہ اپنی بیوی ریشما سے بات کر رہا تھا۔ ریشما پریگننٹ تھی۔ اسی لئے ارسم اُس کو اپنا خیال رکھنے کا کہہ رہا تھا۔
"جی بس آئندہ نہیں جاؤنگی اوپر رومز میں"۔  ریشما نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے شوہر کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
"اچھا ماں جی کہاں ہیں"
"جی وہ نماز پڑھ رہی ہیں__ آپکا پوچھ رہی تھیں، آپ نے انہیں کہا تھا کہ آج ہوسپٹل لے کر جائینگے"
"ہاں میں بس فارغ ہوتے ہی نکل آؤنگا__ وہ پرسوں والے مرڈر کیس کی انویسٹی گیشن میں لگے ہیں"
"چلیں آپ فری ہوتے بتا دیجئے گا، میں امی جان کو بتا دونگی"

زندگی کیا ہےWhere stories live. Discover now