12:30 am. Saturday. 24th Feb.2018.
"آخری شام"
بہت سے دوسرے سرکش نوجوانوں کی طرح میں بھی اپنی ہی دھن میں مگن رہنے والا ایک آوارہ اور بگڑا ہوا شخص تھا۔ کسی اور کی تو دور اپنے والدین کی بھی کسی نصیحت کو سننے کا روادار نہ تھا۔ ابا زمیندار تھے۔ جب تک ان کا سایہ سر پہ سلامت تھا، زندگی خوشحال تھی۔ ان کے اس جہانِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد بھی مجھے اپنی ذمہ داریوں کا رتی بھر احساس نہ ہوا۔ چند ماہ تو باپ کی جمع پونجی اڑاتے گزر گئے۔ پھر میں نے باہر جانے کی رٹ لگا دی مگر صرف ایک رکاوٹ تھی۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ میں نے بھی اماں سے کہہ دیا کہ جہاں سے مرضی لا کر دیں۔ وہ بھی بہت سادہ تھیں۔ فٹ سے اپنا زیور لا کر میری ہتھیلی پہ رکھ دیا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ میں نے ان کے پیار اور خلوص کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہو۔ ہاں مگر قیمت پہلی بار لگائی تھی اور وہ بھی پورے تین لاکھ روپے۔ پھر کچھ روز بعد میں دوبئی چلا گیا۔ سات سال وہاں رہا۔ خوب عیاشی کی۔ ایک امیرزادی سے شادی بھی کر لی اور دو بچے بھی ہو گئے مگر اس طویل عرصے میں مجھے ایک بار بھی غلطی سے بھی یاد نہ آیا کہ میں اپنے پیچھے ایک بیوہ ماں کو بے آسرا چھوڑ کر اس دیار غیر میں آیا ہوں۔ سات سال بعد وطن واپس لوٹا تو شہر میں قیام کیا۔ پھر ایک دن بیوی بچوں کو گاؤں لے گیا فور سیک آف انجوائمنٹ۔ شام کو گاؤں پہنچ کر سیدھا اپنے گھر گیا۔ گھر تو وہی تھا مگر وہاں اماں مالکن کے بجائے ایک کام والی کے روپ میں موجود تھیں۔ کام والی کے بدن پہ بھی شاید پورے کپڑے ہوتے ہیں مگر وہ اس دن بھی اسی چادر کو لپیٹے ہوئے تھیں جو میرے دوبئی جانے والے دن ان کے کندھوں پہ تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب وہ جگہ جگہ سے پھٹی اور گرد سے اٹی پڑی تھی۔ باقی کپڑوں کا حال بھی دیکھنے لائق نہیں تھا۔ پہلے تو میں پہچان ہی نہ پایا کہ یہ میری اماں ہیں۔ میری جدائی کے سات سال ان کے چہرے پہ رقم تھے۔ انہیں اس اجڑی حالت میں دیکھ کر اپنی تیس سالہ زندگی میں پہلی بار مجھے کسی پہ ترس آیا تھا اور وہ بھی اپنی ماں پر۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے میری بیٹی بول پڑی۔
"بابا شی لکس نیسٹی۔"
میں اسے یہ بھی نہ کہہ پایا کہ یہ تمہارے باپ کی غلاظت ہے جو وہ اتنے سالوں سے اوڑھے پھر رہی ہیں۔ اماں اپنے کام میں اتنی مگن تھیں کہ مجھے دیکھ نہ پائیں مگر جیسے ہی ان کی نظر مجھ پہ پڑی وہ وہیں گر پڑیں۔ میں بھاگ کر ان کے پاس گیا اور ان کا سر اپنی گود میں رکھ کر دیوانہ وار انہیں چومنے لگا۔
"اماں آنکھیں کھولیں۔ اماں۔ اماں مجھے معاف کر دیں۔ اماں۔۔۔"
زندگی میں پہلی بار اماں نے میری بات کا جواب نہیں دیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا جسم نیلا پڑ گیا۔ مجھ سے جدائی کے بعد وہ ایک چلتی پھرتی لاش تھیں لیکن وصل کا زہر ان کی جان لے گیا۔ وہ ان کی زندگی اور میرے نیک بخت کی آخری شام تھی۔- حناء طارق بٹ
VOUS LISEZ
"آخری شام" از "حناء بٹ"
Nouvelles"اپنی تیس سالہ زندگی میں پہلی بار مجھے کسی پہ ترس آیا تھا اور وہ بھی اپنی ماں پر۔" - آخری شام از حناء بٹ