زندگی کا ایک موڑ
از آمنہ شفیق
اپنے کمرے کی میز کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے میز سے قلم اٌٹھایا۔
"زندگی بھی انسان کو ہر موڑ پر کچھ نہ کچھ سکھاتی ہی رہتی ہے۔ آسمان پہ ہوتا ہے تو نیچے پٹخ دیتی ھے۔ زمین پہ ھوتا ہے تو آسمان کو چھونےکا راستہ دیکھاتی ہے۔" ایک کاغذ پہ اپنے دل سے نکلنی والی بات لکھ کہ اس نے دیوار سے چسپا کردیا۔ اس کاغذ کو دیکھتے ہوۓ اس کی آنکھوں سے آنسوں گرنے لگے ۔ اس نے فورآ آنکھیں بند کردیں ۔ اس کا وجود وہی تھا لیکن اس کا دماغ، سوچ کہی اور ۔ بند آنکھوں کے سامنے خوفناک منظر چل رہا تھا۔
"زارش زارش! اٹھ بھی جاؤ یار دیر ہو رہی ہے۔ " مریم اسے پچھلے پانچ منٹ سے آوازیں دے رہی تھی لیکن وہ گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔
"یونی بس کے آنے میں صرف دس منٹ رہ گۓ ہیں " ۔ وہ سامنے بیٹھی جوتے کے تسمے باند دہی تھی۔ زارِش جھٹکے سے اٹھی۔ "کیا صرف دس منٹ؟ پہلے کیوں نہیں اٹھایا ۔اف یار اتنی جلدی کیسے تیار ہونگی میں؟ اوہ گاڈ۔" تیار تو وہ ایسے ہوتی تھی جیسے ماڈلز رینمپ پہ جاتے ہوۓ ہوتی ہے۔ "آج میری چھٹی سمجھو" ۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ کمبل میں منہ چپھا کہ سو گئ۔
مریم "اف یہ لڑکی" کہتے ہوۓ دروازے کی طرف بڑھی اور تبھی کوئی سکارف کو پن لگاتا ہوا اندر داخل ہوا۔خوبصورت چہرہ،گہری بھوری آنکھیں۔ اور اب سکارف کے دوسرے حصے سے چہرہ کور کر رہی تھی ۔ "چلیں؟" بیگ پہنتے ہوۓ وہ مریم سے مخاطب ہوئی ۔ "ہاں چلو جلدی۔ یہ نہیں جائے گی" مریم نے بھی بیگ اٹھایا اور باہر نکل گئ۔
عصبہ جو چلیں کہتے ہی نکل گئ تھی واپس مریم کی طرف مڑی "طبیت ٹھیک ہے اس کی؟" دونوں کمرے کے باہر ہی رک چکے تھے۔ "اویں ڈرامے کر رہی ہے" ۔ عصبہ سر ہلاتے ہوۓآگے چل دی اور مریم بھی ساتھ ہولی۔
مریم ، زارِش اور عصبہ ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔ UK میں سکالر شپ پہ آۓ پاکستان کے ایک خوبصورت شہر اسلام آباد سے تینوں کا تعلق تھا۔ تینوں ایک ہی کالج سے آئیں تھیں ۔ مریم کے پاپا ڈاکٹر تھے اور انھوں نے ہی انکو یہاں بھجوانے کی ساری تیاری کی تھی۔ کیونکہ میڈیکل کے بعد تینوں نے ان کے ہسپتال میں ہی کام کرنا تھا۔ زارِش مریم کی خالہ زار بہن تھی اور والدین کی وفات کے بعد مریم کے والدین نے اسے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس طرح زارش حسن ، مریم خالد کے بہت قریب تھی اور دونوں میں بہت دوستی تھی۔
عصبہ خالد صاحب کے دوست اور ہمساۓ ناصر کی بیٹی تھی۔ اور ان کے لیےوہ مریم اور زارش جیسی ہی تھی۔ خالد صاحب نے اپنا ایک ہسپتال بنایا تھا اور جب مریم زارش نے میڈیکل کا انتخاب کیا تو ان کے دل کو تسلی ہوئی کے وہ ان کو اپنے ہی ہسپتال میں رکھے گے۔ جب ناصر صاحب نے بتایا کے عصبہ بھی میڈیکل میں آگے جانا چاہتی ہے ۔ تو دونوں نے انھیں باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔