شبانہ اور میں کلاس فیلوز تھیں پرائمری تک ھم ساتھ پڑتی رھیں وہ عمر میں مجھ سے بڑی تھی مجھے گیارھواں سال لگا تھا اور وھ تیرہ یا چودہ سال کی تھی اسکے گھر والوں نے اسے لیٹ ایڈمیشن کروایا تھا اور اسکا دھیان پڑھائی سے زیادہ کھیل کود میں لگتا تھا اور فیل ھوکے دوبارہ کلاس فائیو میں بیٹھی تھی وہ اور میں ایک ہی ڈیسک پر بیٹھ تی تھیں شبانہ کا بیگ ہمیشہ کیریوں سے لدا رہتا وہ اپنی پاکٹ منی سے صرف کھٹی میٹھی کیریاں خریدتی اور اسے دیکھ کے میرے منہ میں پانی آجاتا شبانہ نے محسوس کر لیا اور مجھے بھی اپنے ساتھ کھلانے لگی اسکے ردعمل میں اپنا لنچ بکس اس سے شیئر کیا پر اس نے انکار کر دیا ان دنوں اسنے صرف کھٹی کیریوں پر زور دیا ہوا تھا میں نے اسے دیکھا ک وہ کیری کی سفید گھٹلیاں جمع کرتی رھتی اور کہتی میں اسے زمیں میں لگاؤں گی پھر وہاں ایک موٹا تازہ آم کا درخت لگے گا جو صرف شبانہ کا ھوگا۔ایک دفعہ میں نے دیکھا کیری ختم ھونے پر وہ بہت خوشی بھرے لہجے میں کہنے لگی اتنی بڑی گھٹلی اور اسکے ساتھ اپنی جیب سے ساری گھٹلیاں نکال کر پھینک دیں اور بڑی والی سفید رنگ کی گھٹلی جیب میں ڈال دی۔
تھوڑی دیر بعد اسنے مس سے اجازت لی اور واشروم کو چل دی میں نے بھی اسکے دیکھا دیکھی مس سے اجازت لے کے واش روم پہنچ گئی واش روم میں اس وقت رش بالکل بھی نھیں تھا مگرپھر بھی میں نے شبانہ کو واش روم کے باھر ادھر ادھر ٹہلتے دیکھا،
مجھے دیکھ کے وہ ایک دم گھبرائی وہ شائد یہ سمجھی کے مس نے مجھے اسکے تعاقب میں بھیجا ھے کیونکہ اکثروہ وقت لگایا کرتی تھی،میں نے اسے اطمینان دلایا کہ میں تو خود بہانہ بنا کر آئی ھوں تو وہ ایک دم پھولے نہ سمائی اور کہنے لگی چل چل پیشاب کر تے ھیں جلدی جلدی ورنہ مس یہاں تک نہ آجائے
یہ سن کہ میں نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملادی یہ کہہ کے وہ باتھ روم میں جانے لگی اور مجھے کہا تو بھی آجا ایک میں ھی چلتے ھیں مجھے اکیلے اچھا نھیں لگتا ،اس وقت ہم دو دو تین تین لڑکیاں اکھٹے پیشاب کر لیا کرتی تھیں مگر شبانہ عمر اور قد کاٹھ میں بھی تھوڑی بڑی تھی اسلیئے میں نے جھجھک محسوس کی مگر اس چھنال نے مجھے ھاتھ سے کھینچ لیا، اندر جاتے ہی اس نے ڈور لاک کر دیا اور اپنی شرٹ اٹھائی اور شلوار نیچے کرکے پاٹ پر بیٹھ گئی اسکے کولھے مکمل بھرے سفید دودھ تھے، لاسٹک سخت ھونے کی وجہ سے اسکی کمر کے گرد سرخ نشان پر گیا تھا اسکے پینڈووں پہ کافی گھنے بال تھے وہ کافی دیر پاٹ پہ بیٹھ کے نیچے اپنی اندام نہانی کو اپنی انگلیوں سے سہلاتی رہی میں یہ سب بڑی حیرت سے تک رہی تھی جو میرے لیئے بالکل نئے تجربات تھے میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو میں نے کہا جلدی کرو نہ میں نے بھی کرنا ھے اور کلاس میں بھی جانا ھے،وہ کہنے لگی پیشاب نہیں نکل رہا تھوڑا صبر کرو یہ کہ کر اسنے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور وہ گھٹلی نکالی اور منہ میں ڈالی اور کلفی کی طرح چوسنے لگی وہ بہت ملائم اور لمبی سی گھٹلی تھی میں نے کہا پاگل لڑکی باتھروم میں کون چیزیں منہ میں ڈالتا ہے پر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا پھر اس نے وہ گھٹلی منہ سے نکال کے اپنی پیشاب والی جگہ رگڑنے لگی میں بہت حیران ھوئی کہ شبانہ کیا کرنے لگی ھے میرے پوچھنے پہ کہنے لگی جب میرا پیشاب رک جاتا ھے تو میں اسکو اپنی پیشاب والی جگہ ڈالتی ھوں تو پیشاب نکل جاتا ھے ،میں نے بھی نا سمجھی میں اسکی بات کا یقیں کر لیا، وہ پاٹ سے اٹھ کے باتھ روم کے کونے میں کھڑی ھو گئی اپنی شلوار کو اسنے گھٹنوں سے نیچے کر دیا اب اپنی قمیض کو سمیٹ کے پیچھے کونے میں دبا دی اور آگے سے اپنے دامن کو اٹھا کر اپنے دانتوں میں پھنسا لیا سیدھے ہاتھ سے گھٹلی کو آہستہ آہستہ اپنی چوت پہ مسلنے لگی اور پھر اچانک گھٹلی کو اپنی چوت کے اند دبا کے جھٹکے دینے لگی اوہ اوہ اوہ اہ اہ ......میں اسکے اس پر جوش جزبے کے تحت کاروائی کو دیکھتی رہی وہ بالکل ہر چیز سے لاپروہ ھو کے وقت ،جگہ ،مجھسے اور دنیا کی ھر چیز سے بے نیاز مگن لگی ہوئی تھی اسکے بال اسکے پورے چہرے پہ چھائے ھوئے تھے وہ خود کو باتھروم کی دیوار پر گھسٹتی ہوئی نیچے ہوتی جارہی تھی پسینے کی وجہ سے شرٹ اسکی گیلی ھوچکی تھی قمیض میں سے چھوٹے مگر پیارے پیارے گول گول ممے ابھرتے جارھےتھے،
میں کچھ سوچے سمجھے بغیر اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکے مموں چھوا ممے ایک دم مولٹی فوم کی طرح نرم تھے اور میں نے اپنی چھاتی پر نظر ڈالی تو اسکے ایک ممے سے بھی چھوٹے میرے دونوں سینے تھے اسنے اپنا ایک ھاتھ میری چوت پہ رکھ دیا اور ایک سے خود کو برابر گھٹلی چڑھاتی رھی مجھے بھی تھوڑا سا مزہ آیا پر میں اسکے اس سارے عمل کا جائزہ لیتی رھی،پھر وہ رکی اور میرے قریب ہو کے میرے ھونٹوں پہ اپنے ھونٹ رکھ کے چوسنے لگی اور ایک ھاتھ میری شلوار میں ڈال کے میری چوت میں انگلیاں دینے لگی میرا لطف بھی اور بھڑنے لگا پھر میری قمیض کو اوپر کر کے مجھے کھا اسے اوپر پکڑ کے رکھنا میں پکڑ لی وہ نیچے ہوئی اور میری شلوار بھی نیچے کر دی اب میری بالکل نئی اور لال سرخ ابھری ھوئی چوت اسکے منہ کے بالکل سامنے تھی بال اس وقت تک آئے نہیں تھے مگر ھلکا ھلکا رونواں آچکا تھا شبانہ نے دستی سے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے چوتڑوں کو کس لیا اور زبان سے میری نئی نویلی چوت چاٹنا شروع کی میری لزت قابو سے باھر ھونے لگی اور بے اختیار میری آوازیں نکلنے لگی شبانہ نے ایک ہاتھ میرو منہ پہ دکھ دیا اور زبان کو تہہ تک پہچانے کی کوشش کرنے لگی اسکی دانے دار زبان جب پھرتی تو دل چاھتا کہ یہ اپنے دانتوں سے نوچ کھائے میری پھدی کو اتنا مزہ آیاکہ اور کسی چیز میں نہ پایا آج تک، اور میرا سب سے فیورٹ اسٹائل بھی یہی بن چکا ھے۔
زبان کو محض سادہ سا عضلہ یا گوشت کا ٹکرا نہیں سمجھنا چاھیئے اسکی ساخت میں جو بے حد پیچیدہ ھے ذائقہ اور حرارت کی حس کے ماسوا زبان جسم کے کسی اور حصے سے زیادہ حساس ہوتی ھے شبانہ اپنی سانپ کی طرح لہراتی اور بل کھاتی زبان سے سارہ جنسی زہر میری اندام نہانی کےذریعے مجھ میں منتقل کرتی رھی اسکے بعد متعدد دفعہ میرا لڑکوں اور لڑکیوں سے جنسی میلاپ ھوا مگر میں اس نتیجے پر ھوں کے زبان کے زریعے جنسی تسکین کا عمل ناقابل بیاں ھے مرد کا عضو صرف وقتی جزبات کو ختم کرنے میں مدد تو دے سکتا ھے مگر آرام و سکون سے گھنٹوں لطف لینا ھو تو یہ عمل سدا بہار اور ھر دل عزیز ھے اس میں مردوں کے لیئے بھی لزت بہت ھے میں نے انٹرنیٹ پر اورل سیکس کے حوالے سے ایک بلاگ پڑھا جس میں اسکا کہنا تھا کہ کسی صنف نازک کی اندام کو زبان کی مدد سے چاٹنے میں وہی لطف آتا ھے جو دانت ٹوٹنے کی جگہ زبان کو بار بار لگانے میں ملتا ھے، شبانہ نے سر اٹھا کر میری آنکھوں میں مسکرا کر دیکھا ااور مجھے گھٹلی دکھانے لگی میں سمجھ گئی کہ اب یہ کیا کرنے لگی ھے اسنے گھٹلی منہ میں ڈال کے گیلی کی اور میری چوت پہ رکھی اور آھستہ آہستہ آگے پیچھے کرنے لگی بہت مزہ آرھا تھا اور میں گھٹلی کے اندر داخل کرنے کو بیتاب ھونے لگی شبانہ نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالی ھوئی تھی اور آھستہ سے گھٹلی آدھی اندر کرکے باھر نکال دی مجھے ھلکا سا میٹھا درد ھوا شبانہ نے پھر وھی عمل دہرایا اور اب کی بار پوری گھٹلی کو اندر کر دیا میں ھلکا سا آہ کیا اسنے پھر کھینچ دی میں نے کھا شبانی درد ھورہا ھے رھنے دو اس نے میری دونوں ٹانگوں کو تھوڑا کھولا اور کہا اب نہیں ھوگا اسنے گھٹلی میری چوت میں دے کے اندر باھر کرنے لگی تھوڑی ھی دیر میں درد مزہ میں بدلنے لگا میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکے سر کے بال دبوچ لیئے وہ میرا قیمتی پانی جو اس سے پہلے شاید کبھی بھی نہیں نکلا تھا پوری طاقت سے نکالنے لگی اہ اہ اہ کیا رومانس تھا میں فل انجوائے کرنے لگی اور دھیرے دھیرے میں اپنے پیروں کے پنجوں پہ آگئی اور چند ھی سیکنڈز میں میرے چند قطرے جھٹکے سے نکلے اور گھٹلی بھی بھیگ گئی شبانہ نے گھٹلی کو دیکھا اور پھر مجھے دکھائی اور ایسی ھی اپنے اندر ڈالی اور پھر نکال کے دھونے لگی۔
شبانہ اب شادی شدہ ھے اور آج بھی ھم سہیلیاں ھیں ھم دونوں نے کبھی بھی ایک دوسرے کو تنہائی میں اکیلا نہ چھوڑا اور اب بھی نہیں چھوڑیں گے