#وِچھوڑا
(سچے واقعے پر مبنی)
افسانہ.. ( مکمل)موسم بے حد حسین تھا۔
آسمان دھل دھل کر نکھر آیا تھا...
بدلیاں ٹوٹ ٹوٹ کر آوارہ پھر رہی تھی سينۂ چرخ پر چاند ستاروں سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں...
کبھی سمٹ کر غائب ہوجاتیں تو دودھیا سی چاندنی ہر سُو پھیل جاتی...
اور کبھی امنڈ آتی تو چاند ستاروں کو روشنی کی لپیٹ میں لے لیتی...
اک نا تمام سا ملگجا سا اُجالا دودھیا چاندنی کی جگہ لے لیتا....مناہل خلا میں تیری بہتی ماضی کو یادوں میں مستغرق تھی...
صبح سے ہی دِل بڑا بے چین اور بوجھل سا تھا اک بے نام سی اُداسی تھی جو روح میں اُترتی جارہی تھی... وُہ تململ تھی...
پیلی بتی کی تیز روشنی میں اُس کا وجود ظاہری طور سے بھی اگنی کی زد میں تھا باطن دھڑا دھڑ جل کر راکھ ہو چُکا تھا اندر اندھیرا تھا اور تباہی کے سیاہ نشانات تھے نو خیز خوابوں کی راکھ چلتی سانسوں کے دوش پر وجود میں اِدھر سے اُدھر بہہ رہی تھی...وہ تئیس سال کی لڑکی چار سال پہلے اپنی "جوانی" کے دنوں کی یادوں میں کھوئی ہوئی تھی وُہ دن جب وُہ دِل سے "جوان" تھی.....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
گلی کے نکڑ پر بجلی کے کھمبے کے ساتھ کھڑے ذیشان نے پٹرول سے چلنے والے رکشے کی بے ہنگم سی آواز پر دس بارہ گھر کے فاصلے پر کھڑے رکشے سے اُترتی مناہل کو دیکھا تو چہرے پر الوہی مسکراہٹ دوڑ گئی...
وہ بجلی کی سی تیزی سے سیدھا ہوا تھا اور جھٹ چھوٹی کنگھی سے اپنی بکھری زُلفیں سنواری کونے پر بنے ہوئے گھر نے اُس پر سایہ فگن کیا ہوا تھا مگر وُہ اُسے گرمی کی حدت سے بچانے میں نا کام تھی..جیب سے رومال نکال کر چہرے پر پھیرا اور شرٹ کے بٹن بند کرتا گلی کے اندر چلنے لگا....مناہل اتوار بازار سے اپنی امی کے ساتھ گھر کا سودا سلف اور دیگر دوسری اشیاء لے کر آئی تھی شاپرز سنبھالتی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتی وُہ بہت بیزار سے دکھائی دیتی تھی...
"امّاں کیا دس بیس روپیوں کے لئے بحث کرنا دے دو مُجھ سے کھڑا نہیں ہوا جاتا گرمی میں اب..."
دوپٹے سے سایہ کرتی ہوئی سخت جھنجھلائی..."ہاں آئی بڑی حاتم طائی کی اولاد... اے بھائی بات ڈیڑھ سو کی ہوئی تھی ایک روپیہ اوپر نہ دوں گی یہ لینے ہے تو لے ورنہ چلتا بن ..."
صبیحہ نے اُسے سنا کر دوبارہ رکشے والے سے بیس روپے کے لئے مباحثہ جاری رکھا...."امّاں اسٹاپ کی بات ہوئی تھی تُم گلی میں گھر کے سامنے اُترتی ہو بیس روپے زیادہ ہوں گے.."
وُہ بھی اڑا رہا....ذیشان بظاہر انجان بنتا چلتا ہوا یکدم رکشے کے سامنے رکا اور اپنی خدمات پیش کرنے آگے بڑھا...
"خالہ لائیں سامان مُجھے دے دیں میں پہنچا دوں گا گھر تک اور اِس رکشے والے سے بھی میں ہی نپٹ لوں گا..."
اُس نے سامان لینے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا تو مناہل نے فوراً ساری تھیلیاں اُسے دے دی اور ناز سے چلتی ہوئی گلی میں نکلی گول سیڑھیاں جو پہلی منزل کو جاتی تھی اُنہیں عبور کرگئی....
اُس کے جاتے ہی صبیحہ نے ڈیڑھ سو روپے ذیشان کو تھمائیں اور خود بھی چلی گئی ذیشان نے اپنی جیب سے بیس روپے نکال کر ڈیڑھ سو روپے میں ملا کر رکشے والے کو گلی سے باہر کا راستہ دکھایا اور خود آٹے دال چاول اور لان کے سوٹوں سے بھری تھیلیاں سنبھالتا اوپر چڑھنے لگا....
YOU ARE READING
وچھوڑا
Short Storyیہ افسانہ ایک سچے واقعے پر مبنی ہے لکھی بھی حقیقت سے قریب تر گئی ہے اور یہ میری پہلی کوشش ہے افسانہ نگاری میں اُمید ہے آپ لوگوں کو پسند آئے گا....