قسط نمبر 1:
وہ رات کے اڑھائی بجے اسلام آباد کے بلیو ایریا ایف-سیون کے ہوٹل سے نکل رہی تھی۔وہ اسکن جینز کے اوپر سلیولیس ٹائیٹ ریڈ شرٹ پہنے ہوئے تھی۔لمبے گھٹنوں تک آتے سیاہ بال پونی ٹیل میں مقید تھے۔وہ ابھی اپنی گاڑی کا دروازہ کھول ہی رہی تھی کہ پیچھے سے اسکے دوست باسل نے آواز دی۔۔
وہ دوڑتا ہوا اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ اس تک پہنچا تھا۔۔
رتاب بات سنو یار؟؟؟
کہاں جا رہی ہو؟؟
گھر جا رہی ہوں۔۔اس نے مختصر سا جواب دیا۔
سویٹ ہارٹ ابھی تو اڑھائی بجے ہیں۔چار پانچ بجے تک چلتے ہیں میں خود تمہیں ڈراپ کر دونگا۔۔کم آن تابی آو۔۔۔۔اس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے کی کوشش کی۔۔۔
نہیں باسل۔۔۔
I hv to go I'm not feeling well...
چلو اٹس اوکے۔۔۔ take care
وہ اس سے گلے ملی۔۔اور گاڑی میں بیٹھ گئ۔۔۔ اور وہ وآپس کلب میں چلا گیا۔۔۔۔
************ملک ظہیر احمد ملک کے جانے مانے بزنس مین تھے۔وہ اور انکی مسز شاہانہ ظہیر احمد اپنی اکلوتی بیٹی رتاب ظہیر احمد کے ساتھ اسلام آباد کے گلبرگ ایریا میں بے انتہا خوبصورت محل نما بارہ کنال کے بنگلے میں رہتے ہیں۔۔چونکہ ظہیر صاحب کو اپنی اولاد سے بڑھی محبت تھی۔اسلیئے اس محل کو "رتاب پیلس"کا نام دیا گیا تھا۔یہاں نوکروں کی فوج موجود ہے۔۔لیکن فیملی میمبرز کے پاس ایک دوسرے کو دینے کیلئے بلکل وقت نہیں ہے۔۔۔سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن بے سکونی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
************
حاجی امین احمد ملک کے بہت بڑے بزنس مین تھے اور انکے دو ھی بچے تھے۔ظہیر احمد اور شاخسانہ احمد۔حاجی امین احمد بزنس ٹور کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے تھے کہ وآپسی پر پلین کریش ہونے کی وجہ سے انکی وفات ہو گئ۔۔وآلد کی وفات کے بعد سارا بزنس انکے بیٹے ظہیر نے سنبھال لیا اور بیٹی شادی کے بعد پیا سنگھ امریکہ سدھار گئیں۔ملک ظہیر احمد دو ھی بہن بھائی ہیں۔ انکی بہن شاخسانہ امریکہ کے شہر نیویارک میں اپنے شوہر ملک ثاقب احمد اور اپنے دو بیٹوں محمد آہل اور زین احمد کے ساتھ مقیم ہیں۔جب بچے چھوٹے تھے۔تب ہی ثاقب احمد اور شاخسانہ نے اپنے بیٹے محمد آہل کے لئے اپنی بہت پیاری بھتیجی رتاب کا رشتہ مانگ لیا تھا۔اور ظہیر احمد اپنی پیاری بہن شاخی کو انکار نہیں کر سکے تھے۔۔۔اور یہ بات آہل تو جانتا تھا لیکن رتاب احمد نہیں جانتی تھی۔
*************ہمارے دیدہء تر کو محبت ہو گئ تم سے
کسی گہرے سمندر کو محبت ہو گئ تم سے
بھلے وہ چاندنی شب ہو یا فصل گل کی رنگینی
میرے ہر ایک منظر کو محبت ہو گئ تم سے
خدا جانے کہ اب اس شغل کا انجام کیا ہوگا
دل ناشادو مضطر کو محبت ہو گئ تم سے
کسی لمحے اگر تم کو محبت ہو گئ مجھ سے
سمجھ لینا مقدر کو محبت ہو گئ تم سے
جو صرف اور صرف اپنی ذات سے ہی پیار کرتا تھا
سنو اک ایسے پتھر کو محبت ہو گئ تم سے
کسی صورت اب یہ اشک تھم سکتے نہیں
میری آنکھوں کے ساگر کو محبت ہو گئ تم سےوہ رات کے تین بجے اپنے کمرے کی کھڑکی سے خوبصورت چودھویں کے چاند کو کھڑا تک رہا تھا۔اور اسکی سوچ تھی" رتاب ظہیر احمد " ۔
رتاب ظہیر احمد سے آہل کو بے انتہا محبت تھی بلکہ وہ اس سے عشق کرتا تھا۔اسے آج بھی وہ دن یاد تھا جب وہ میٹرک کے بعد اپنی ماماکے ساتھ پاکستان گیا تھا وہاں اس نے خوبصورت گوری رنگت،لانبےسیاہ بال،بڑی بڑی غزالی آنکھیں ستواں ناک اور خوبصورت مرمریں لب کی مالک رتاب ظہیر احمد کو دیکھا تھا۔اور اب ایم۔بی۔اے امریکن ڈگری ہولڈر اور بزنس میں بے انتہا نام کمانے کے بعد بھی رتاب ظہیر احمد کو بھلا نہیں پایا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ اسکی محبت بھی بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔
************
رتاب رات کے تین بجے گھر پہنچی تو ظہیر احمد لاوءنج میں اسکا انتظار کر رہے تھے۔۔اس نے ایک نظر باپ کو دیکھا!
ہیلو بابا۔۔۔وہ لاوءنج میں پڑے صوفے پر ڈھے گئ۔۔
رتاب یہ کیا ٹائم ہے گھر آنے کا رات کے تین بج رہے ہیں۔۔کوئی خیال ہے آپکو؟؟؟؟
آئم سوری بابا وہ بس پارٹی میں تھوڑا لیٹ ہو گئ۔
یہ تھوڑا لیٹ ھیں آپ؟؟
اوکم آن بابا پارٹیز میں تھوڑا بہت لیٹ تو ہو جاتا ہے ۔
لیکن بابا کی جان جلدی گھر آیا کریں۔انھوں نے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی۔
کس کے لئیے بابا!!گھر میں تو کوئی ہوتا نہیں ہے ماما اپنی سوشل ایکٹیویٹیز میں بزی اور آپ اپنی میٹنگزمیں۔۔میں کس کے لئیے جلدی آؤں ۔۔۔۔وہ سرد لہجے میں بولی۔۔۔
U know what Baba??
آپ نے دنیا کی ہر آسائش مجھے دی۔۔بس میرے لیےآپ دونوں کے پاس ٹائم نہیں ہے۔۔وہ آنسو پیتی ہوئی بولی۔۔۔۔Think about it plz....
وہ روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ اور اپنے باپ کو ہکابکا چھوڑ گئ۔۔۔
وہ بیڈ پر گری بے تحاشا رو رہی تھی۔۔
اسکی زندگی میں سکون نہیں ہے لوگوں کو دکھانے کے لیے وہ بلکل نارمل رہتی ہے۔لیکن اندر سے وہ بہت کھوکھلی ہے۔اسکا دل بےسکون ہے۔اسکی روح خالی ہے جیسے اندر سے کوئی چیز رخصت ہو رہی ہے۔وہ دل سے خوش نہیں ہو پاتی۔وہ اندر سے ٹوٹ گئی ہے۔۔
کہیں دور سے اذان کی آواز آرہی ہے۔اسے یاد نہیں پڑتا کہ اس اکیس سالہ زندگی میں کب اس نے نماز پڑھی تھی۔
اللہ و اکبر
اللہ و اکبر
وہ ہمت کر کے اپنے کمرے کی کھڑکی کھولتی ہے۔۔اور ادھر ہی نیچے کھڑکی کے پاس بیٹھ جاتی ہے۔۔
آنسو بے تحاشا گر رہے ہیں۔۔بہت تکلیف میں ہے۔اور دل کی یہ تکلیف بہت درد ناک ہے۔اور اسے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟؟؟۔
وہ اٹھ کر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کی ڈرار سے دو سلیپنگ پلز لیتی ہے اور بیڈ پر گر جاتی ہے۔۔۔
""اور وہ اللہ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دے اور
جسے چاہے گمراہ کرے۔۔اور بے شک وہ ہدایت
عطاء کرنے والا ہے """
*************
گڈ مارننگ!!اسلام وعلیکم ماما بابا۔۔
مارننگ بیٹا آو۔۔
بابا آج برھان اینڈ سنزکے ساتھ میٹنگ ہے۔اور بہت سے ٹینڈرز اور پراجیکٹ ہمیں اپنے نام کرنے ہیں۔۔وہ گلاس میں جوس انڈیلتے ہوئے بولا۔۔
اور میں جانتا ہوں کہ میرا بیٹا بہت اچھے سے ڈیل کرے گا۔۔۔
Thank u Baba Jan!U know u r my strength....
Yes I know my son...
ثاقب صاحب نے آہل کے کندھے پر پیار سے تھپکی دی۔۔۔۔اچھا بھئی یہ زین نہیں اٹھا ابھی تک؟؟
نہیں بابا وہ شاید سو رہا ہے ابھی۔۔۔
میں سو نہیں رہا مابدولت اٹھ چکے اور آپکے سامنے موجود ہیں۔۔۔۔وہ آہل کے ساتھ والی کرسی سنبھال چکا تھا۔۔
اور زین اسٹڈیز کیسی چل رہی ہیں؟؟۔۔آہل نے پوچھا
بہت اچھی بھیا!! ویسے آپ میری چھوڑیں آپ بتائیں؟؟
شادی کب کریں گے؟؟؟۔۔۔زین نے آنکھوں میں شرارت لئے آہل سے پوچھا۔۔۔
زین تم۔۔۔۔۔۔۔اس نے زین کو دل ہی دل میں گالیوں سے نوازا۔۔اس نے ماما بابا کی طرف دیکھا جن کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ تھی۔۔۔کیا ماما آپ بھی۔۔۔۔اس نے جھینپ کر پوچھا!!
ہاں تو ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے زین۔۔۔ماشااللہ اٹھائیس کے ہو رہے ہو اور کب کرو گے شادی؟؟؟انھوں نے چائے پیتے ہوئے کہا!!
بھیا آپ شادی کریں گے تو میری باری آےگی نہ!!!!
زین نے حسرت بھرے انداز میں کہا۔۔۔
اور سب کے چہرے مسکراہٹوں سے بھر گئے۔۔۔
بابا میں جا رہا ہوں آفس یہ تو پتہ نہیں کیا کیا بولتا رہتا ہے۔۔۔آپ آجاءیے گا۔۔۔وہ کرسی چھوڑتے ہوئے بولا!!
ارے بھیا میں غلط نہیں کہہ رہا آپکے فیوچر کا پرابلم سولو کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔بھیا میرے پیارے بھیا میری بات تو سنیں۔۔۔
آہل اسکی بات سنی ان سنی کرتا اپنی فائلز سنبھالتا ڈائننگ ہال سے باہر نکل گیا۔۔۔
ثاقب صاحب اور شاخسانہ بیگم نے اپنے دونوں بیٹوں کی تربیت بہت اچھی کی تھی۔یہ انکی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ دونوں بھائی نیو یارک میں رہتے ہوئے پانچ وقت کے نمازی ہیں۔۔۔۔
***********
رتاب بیٹی!
رتاب بیٹی!
اٹھ جائیں۔دن کے دو بج رہے ہیں اور آپ ابھی تک سو رہی ہیں۔یونیورسٹی بھی نہیں گئیں اٹھیں۔۔
بی بی جان نے رتاب کے چہرے سے کمبل ہٹایا اور دیکھا کہ رتاب سرخ چہرہ لیے بخار میں تپ رہی ہے۔۔
جی بی بی جان!
رتاب رتاب بیٹی آپکو تو بہت تیز بخار ہے۔رتاب اپنے چکراتے سر کو سنبھالتے اٹھی اور اپنے لمبے خوبصورت لمبے بالوں کو پیچھے کو کر کے جوڑا بنایا۔اور اپنے سر کو زور زور سے دبانے لگی۔۔۔
بی بی جان میرا سر او مائ گاڈ!!
Oh my God Bibi jan there is tooo much headeque...
آہ۔۔آہ۔۔بی بی جان!!وہ کراہتے ہوئے بولی۔۔
بیٹا آپ سنبھالیں خود کو میں__ میں ابھی ڈاکٹر کو فون کرتی ہوں۔۔بی بی جان دوڑتی ہوئی نیچے آئیں اور ڈاکٹر کو کال کرنے کے بعد فریج سے آئس کیوبس لیے رتاب کے کمرے میں آئیں تو دیکھا کہ رتاب باتھروم میں واش بیسن میں اوندھے منہ جھکے وامیٹینگ کر رہی تھی۔
رتاب بیٹی آپ ٹھیک تو ہیں رتاب!! اسکی رنگت صرف ایک ہی رات میں گلابی سے پیلاہہٹ میں مبتلا ہو گئ تھی۔۔
بی بی جان اسے کندھوں سے پکڑ کر روم میں لائیں اور بستر پر لٹایا۔اور اسکی پیشانی پر ٹھنڈے پانی سے پٹیاں کرنے لگیں۔۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر آیا اور چیک اپ کرنے لگا۔۔
ٹھنڈی پٹیاں کرنے سے بخار کچھ کم ہو گیا تھا لیکن طبیعت سنبھلی نہیں تھی۔
بی بی جان میں نے انجیکشن لگا دیا ہے آپ یہ میڈیسن لیں جب یہ اٹھیں تو انھیں کچھ کھلا کے میڈیسن دے دیجئے گا۔۔انجیکشن سے طبیعت کچھ بہتر ہو جائے گی۔۔
بی بی جان نے رتاب پر کمبل اوڑھایا۔۔
آئیے ڈاکٹر صاحب میں آپکو باہر تک چھوڑ آؤں۔۔
ڈاکٹر صاحب کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ہے نہ؟؟میرا مطلب رتاب بیٹی ٹھیک تو ہیں نہ؟؟؟
نہیں کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ہے بس بہت زیادہ سٹریس کی وجہ سے انکی یہ حالت ہے آپ ٹرائ کریں کہ وہ زیادہ سٹریس نہ لیں۔۔
ڈاکٹر بی بی جان کو حیران و پریشان چھوڑ گیا تھا۔۔بی بی جان پریشان کیسے نہ ہوتیں آخر انہوں نے رتاب کو ماں بن کر پالا تھا۔شاہانہ بیگم نے رتاب کو پیدا کرنے کے بعد بی بی جان کو سونپ دیا تھا اور خود وہ اپنی سوشل ایکٹیویٹیز میں مصروف ہو گئیں تھیں۔۔۔
بی بی جان کا شمار رتاب پیلس کے بہت پرانے ملازموں میں سے ہوتا تھا۔وہ بہت برگزیدہ خاتون تھیں۔۔شوہر کی وفات کے بعد سے وہ رتاب پیلس میں موجود تھیں۔انکی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔انھوں نے رتاب کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پالا تھا۔
************
بی بی جان دو گھنٹے سے رتاب کے سرہانے بیٹھیں آیات پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھیں۔بمشکل پونے پانچ بجے رتاب نے آنکھیں کھولی تھیں۔
میرا بچہ؛؛ انھوں نے رتاب کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔
بی بی جان؛؛رتاب اٹھ کر بی بی جان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئ۔
بی بی جان کیا ہوا تھا مجھے؟؟بی بی جان میرے پاس سکون نہیں ہے۔کیوں کیا میں اچھی نہیں ہوں؟؟وہ ضبط کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
نہ میرا بچہ نہ میری بیٹی تو سب سے اچھی ہے۔
پریشان نہیں ہوتے۔۔نہ میری جان۔۔۔انھوں نے اسکی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔۔
آپ آرام کرو میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں۔پھر دوا بھی لینی ہے۔۔۔۔یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ_،،
ایسا زخم تو دل پہ کھایا جا سکتا ہے__
مجھ گم نام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں_،،،
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے_؟؟وہ چت لیٹی رات کے گیارہ بجے کمرے میں لگے فانوس کو گھور رہی تھی۔اور اس کا ذہن کہیں اور موجود تھا۔۔دل اور روح کا سکون کہاں ہے۔وہ سوچ رہی تھی کہ برینڈڈ کپڑے،جوتے، پرفیومز، ہائی کلاس کی پارٹیز، کلبز، ڈانس، شراب اور بہت سارے دوستوں کے ہونے کے باوجود سکون نہیں تھا؛؛اسکی روح کھوکھلی تھی۔۔۔آنکھوں سے آنسو نکل کر تکیے کو بھگو رہے تھے۔۔۔۔۔آخر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں؟؟؟آنسو بے تحاشا گر رہے تھے۔۔۔
وہ پگلی نہیں جانتی تھی کہ اللہ جسے اپنی ہدایت اور محبت سے نوازنے کا ارادہ کرتا ہے اسے پہلے دل و روح کی ایسی ہی تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔۔
"اور بے شک وہ نوازنے والا ہے "
(جاری ہے)
پیارے قارئین اپنی بہت قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کیجئے گا۔۔۔بہت شکریہ!!!
________________________________________
YOU ARE READING
میری اداسیاں ھیں عروج پر!!!✔Completed
Spiritualیہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی جسے محبت،وفا اور نفرت کے معنی نھیں پتہ اور جسکی زندگی میں سکون نہیں ہے۔وہ اپنی زندگی میں روشنی کیسے لاتی ہے۔۔یہ کہانی حقیقی عشق کی ھے۔اور ایک ایسے شخص کی جو اسے زندگی کے بہت سارے خوبصورت احساسات سے روشناس کرواتا ہے۔۔۔