گھر میں ہر طرف خوشی کا ماحول تھا. آج اس گھر کی بیٹی کا رشتہ طے ہوا تھا ماں باپ بھائ بہن سبھی خوشی کے عالم میں اپنوں کو فون کرکے یہ خوش خبری سنا رہے تھے.ان سب سے دور وہ اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑی سب کو اس طرح خوش ہوتے دیکھ رہی تھی اس نے اپنے ایک ہاتھ سے کمرے کی لائٹ بند کی اور پلٹتے ہوئے دروازہ بھی بند کردیا.کمرے میں اب کافی اندھیرا ہوچکا تھا وہ اپنے دل کی کیفیت سمجھ نہیں پارہی تھی ہر شئے سے منہ موڑتی ہوئ وہ چل کر کھڑکی کی جانب آئ. آج اس کا رشتہ اس کی بھابی کے بھائ معاذ سے طے کیا گیا تھا. معاذ سے ہونے والی ایک ملاقات اس کے ذہن میں معاذ کا چہرہ نمایاں ہوا جو اس نے بس ایک نظر ہی دیکھا تھا.
وہ سر پہ دوپٹہ لئے اپنے گرد چادر اوڑھے نظریں نیچے کئے بھابی کے مایکے میں ہونے والے فنکشن میں شریک تھی. اس کا نام پکارے جانے پر جب اس نے آواز کی سمت دیکھا تو وہاں مہمانوں کے ساتھ معاذ کھڑا تھا قد لمبا چہرے پر ہلکی داڑھی بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے گلے میں ہیڈ فون لٹکاے بلیک جنس اور نیلے شرٹ پر بلیک جیکٹ پہنے باتوں میں مصروف تھا.حفیظہ نے آنکھیں بند کرلیں.
دروازہ کھولنے کی آواز سے حفیظہ نے آنکھیں کھولی لیکن موڑ کر نہیں دیکھا. وہ جانتی تھی اس وقت کون آیا ہوگا. ماں چلتی ہوئی اس کے پاس آکر بیٹھ گئ. حفیظہ کو دیکھا وہ اب بھی کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھی، " آپ ایک ہی ہیں جو میرا چہرا دیکھ کر میرے دل کا حال جان لیتی ہے، اور میں جانتی ہوں اب بھی مجھے کہنے کی ضرورت نہیں" حفیظہ کی نظریں اب بھی سامنے ہی تھی. " لیکن میں آج کچھ کہنا چاہتی ہوں امی کہ آپ سب میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ میرا اور معاذ کا کوئ جوڈ نہیں وہ اوپن مائنڈیڈ لڑکا ہے اور آپ مجھے جانتی ہے میں نے ایسے ہمسفر کی دعا تو نہیں کیں تھی نہ امی." اس نے اب کی بار ماں کی جانب دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ماں کے چہرے پہ کوئ حیرانگی نہیں تھی بس وہ حفیظہ کو خاموشی سے سن رہی تھی.
"تمہیں پتا ہے حفیظہ اس دنیا میں ایک چھوٹا سا پتہ بھی اللّٰہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا تو پھر تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ تمہاری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ صرف ہم نے کیا ہے،اس میں اللّٰہ کی مرضی شامل ہے ہم انسان تو بس ذریعے ہوتے ہیں اور جب ہم اس کی رضا سے زیادہ اپنی سوچ تہ ترجیح دیتے ہے نا تو سکون ہمارے دل سے چلا جاتا ہے،بیشک تم بہت بااخلاق ہو میری بیٹی، جانتی ہو نیکی کیا ہوتی ہے؟" ماں نے اب حفیظہ سے نظریں ہٹاتے ہوئے باہر دیکھنے لگی، "نیکی صرف اچھے عمل کرنے کو نہیں بلکہ برائ سے دور رہنے کو بھی کہتے ہیں، بات ایک ہے لیکن دونوں میں بڑا فرق ہے. بیٹی جب تک گھر میں رہے اس کے لئے اچھے اعمال کرنا آسان ہے ضروری یہ ہے کہ نکاح کے بعد ہمارے کیا اعمال ہوتے ہیں، جانتی ہو تمہاری نانی کیا کہتے ہیں" اس بار ماں کے چہرے پر مسکراہٹ آئ جو حفیظہ کو بہت اچھی لگی تھی "نانی کہتے ہے لڑکی کی اصل آزمائش نکاح کے بعد ہوتی ہے ہم چاہے بہت نیک ہو لیکن اس بات کی پرکھ آزمائش کے دوران ہوتی ہے یعنی نکاح کے بعد" ماں کہہ کر اٹھ کے جانے لگی دروازہ کھولا پلٹ کر حفیظہ کو دیکھا جس کی نظریں ان ہی پر مرکوز تھی، "جانتی ہو سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ اپنے اعمال سے متاثر ہوکر کسی اور کو اپنے سے حقیر سمجھنا کیونکہ اللّٰہ کے ہر بندے میں خوبی ہوتی ہے" ماں یہ کہہ کر چلی گئی اور حفیظہ کی آنکھوں میں نمی در آئ. اس نے نادانی میں اللّٰہ کی رضا پہ کیوں کا سوال کیا تھا. وہ معاذ کو اپنے سے کمتر سمجھ رہی تھی جبکہ اس کا انتخاب اس کے ماں باپ نے نہیں اس کے رب نے کیا تھا. حفیظہ نے اپنا سر تکیہ پر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں ایک آنسوں بہہ کر اس کے تکیہ میں جذب ہوگیا، " یا اللّٰہ میں تیری رضا میں راضی ہوں تیرا ہر فیصلہ مجھے منظور ہے". حفیظہ اٹھ کر بیٹھی اپنے آنسوؤں کو صاف کئے اب وہ دل میں کوئ بوجھ محسوس نہیں کررہی تھی کیونکہ وہ بوجھ معاذ کے انتخاب کئے جانے سے نہیں تھا وہ بوجھ اللّٰہ کی رضا میں راضی نا ہونے کا تھا.(مومن کی یہ شان ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا میں ہی اپنے دل کو بھی راضی کرلیں. اور جب بندہ وہی راضی دل کے ساتھ اللّٰہ کے آگے سجدہ کررہا ہوتا ہے تو رب اس سے کہتا ہے، "اے میرے بندے تو مجھ سے راضی ہے تو میں بھی تجھ سے راضی ہوگیا
ہوں)