وہ احساس جن کو لفظوں میں ڈھالنے کا سلیقہ نہیں ہے مجھے. اس کا نام ماریہ ہے جو رشتے میں میری چھوٹی بہن ہے لیکن مجهے جینے کا ڈهنگ اس نے سکھایا دو سال پهلے
ہم جامع کراچی میں پڑهتے تهے اور دونوں اکٹھے یونیورسٹی جاتے تهے اور اکهٹے ہی واپس آتے. وہ نفسیات میں فلاسفی کی کلاسز لے رہی تهی اور میں انگریزی ڈپارٹمنٹ میں تها.
قصہ کچھ یوں ہے کہ ماریا کی ایک ہم جماعت لڑکی علینہ کو میں پسند کرتا تها اور وہ بهی مجھ میں دلچسپی رکھتی تھی اور جب کبهی ہماری کلاسز فری ہوتی تو ہم اکثر اوقات کیفے پے بیٹھ کر گپ شپ کرتے اور چائے پینے کے لیے اکٹھے ہوتے. اور اس دوران دینا جہاں کے ہر موضوع پر ہماری بحث ہوتی. ویسے تو علینہ اور ماریہ نفسیات کی طالب علم تهیں لکین انگریزی ادب پر ان کی کافی گرفت تهی.گفتگو کے دوران وہ دونوں کافی بولڈ تهیں. اور اکثر ہم انگلش موویز پے بات کرتے تو ان کی سکس کے مطلق نفسیات پر بهی بات پوتی کہ وە لوگ ہم سے کس قدر مختلف ہیں. مجهے اکثر محسوس ہوتا کہ ماریہ بہن ہم جنس پرست کو برا خیال نہیں سمجهتی اور ہمیشہ آزادی رائے اور آزاد زندگی گزارنے پر کهل کے بات کرتی. اس نے کهبی بهی محسوس نہیں کیا تها کہ اس کا بھائی اس کے ساتھ بیٹھا ہوا. مرد ہونے کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں
اسی جبلت کے تحت علینہ اور ماریہ مجهے یکساں اچھی لگتی مگر اس بات کا اظہار ان دونوں پے کبهی نہ کیا. ایک دن گهر میں مہمان آنے کی وجہ سے ماریہ یونیورسٹی نہ آئی. میں بهی ان کے ڈپارٹمنٹ نہ گیا. اور فری ہو کے لائبریری میں چلا گیا اور آسکروایلڈ کا مطالعے میں مشغول ہو گیا کے اتنے میں ایک کلاس فیلو نے بتایا کے علینا مجهے ڈھونڈنے میرے ڈپارٹمنٹ آئی تهی. کیوں کے اس کے پاس میرا فون نمبر نیں تها. نہ کبهی مجهے یونیورسٹی ٹائم کے بعد ضرورت پڑی اس لیے کبھی نمبر لیے کی کوشش ہی نہ کی. خیر میں اٹها اور کیفے کی طرف چلا کیونکہ مجهے پتہ تها کہ وہ مجهے دیکهنے وہاں ہی جائے گی. اور میں ٹھیک تها علینہ وہاں میرا ہی پوچھ رہی تھی مجهے دیکھ کر وہ اور میں ہماری مخصوص ٹیبل کی طرف بڑهنے لگے. اور میری حیرت کی انتہا اس وقت حد تجاوز کر گئی جب آتے ہی اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے نازک ہاتھ میں میں لے لیا جس کے لمس سے میری روح تک تازگی اتر گئی. اور اور میرا دل چاہا کے میں اس کو گلے لگا لوں لکین فورا ہی خیال ایا کہ کیفے میں ہم اکیلے نہیں لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں. اس نے چند ثانیے بعد میرا ہاتھ چهوڑا اور ہم آمنے سامنے بیٹھ گئے اور بیٹھتےہی سوال داغا کہ ایک دن بہن نیں آئی تو آج کیفے بهی نیں آئے اتنی دل لگی ہے ماریہ سے کہ اس کے بغیر ملانا بهی گوارہ نہیں کیا فراز!
معاف کیجئے گا میرا نام فراز ہے. اور میں 26 سال کا ایک مضبوط کثرتی جسم کا نوجوان ہوں اور ماریہ 24 سال کی دبلی پتلی مگر قدرے لمبے قد کی ذہین لڑکی ہے. علینہ بهی لگ بهگ ماریہ کی ہی ہم عمر ہے مگر قد میں قدرے چهوٹی مگر جسمانی طور پر بڑے دل کش اور چوڑے جسم کی مالک تهی. علینہ کے جسم پر سب سے نماں چیز اس کی چھاتی تهی جو بعض اوقات اس کے لباس سے چھلکتی ہوئی محسوس ہوتی اور دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے جبکہ ماریہ کی جاذب نظر واحد چیز اسے گندمی چہرے پےاس کی جھیل سی گہری آنکھیں ہیں. ماریہ کی سینہ سپاٹ اور کمر اور گانڈ تقریبا برابر تهیں.یہ مجهے بعد میں معلوم پڑا کہ ایسے جسم والی لڑکی بهی اس قدر گرم ہو سکتی هے.مگر علینہ کے بارے میں وثوق سے کہہ سکتا تها کہ یہ بہت سکسیی اور ہوٹ ہے.
پسندیدگی کی نظر سے تو علینہ کو میں پہلے بهی دیکهتا تھا لیکن آج تو میری نظر علینہ کے انگ انگ کو چوم رہی تھی اور اس کا انداز علینہ کو بهی ہو چکا تها کہتے ہیں نہ کے مرد کی صرف دو آنکھیں ہوتی مگر عورت کے جسم کا انگ انگ اس کی آنکھ پوتا اگر یہ بات سچ تهی تو آج علینہ کی ٹانگوں کے بیچ اسکی گرم چوت سے نکنے والا گرم گرم پانی اس بات کی تصدیق کر رہا ہو گا کہ فراز کی نظریں اس کو کس طرح چودنے میں مصروف ہیں. مجهے نہیں پتہ تها کہ چائے کی میز پے میں ہم نے کیا گفتگو کی مگر خیالات کی دنیا میں میں علینہ کے جسم میں اس قدر کھویا ہوا تها کہ اچانک مجھے احساس ہوا کے میرا اپنا لوڑا مزے سے ہلکے ہلکے پانی کے قطرے چهوڑ رہا اور میرا نیم کهڑا هتیار علینہ کی پهدی کو سلامی دینے کے لیے بے چین ہوا جا رہا. لوگو کی ماجودگی کا خیال کرتے ہوئے میں جلد ہی حقیقت کی دنیا میں واپس آیا اور تو دیکھا کے علینہ میز پہ اپنے دونوں ہاتھ ٹکا کر اس پر اپنا گول ٹماٹر جیسا چہرہ لے کر مجهے ایسے دیکھ رہی جیسے میری کوئی چوری پکڑی گئی ہو. او مسٹر کہاں کهو گے کبهی کوئی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی علینہ نے مسکراتے ہوئے کہا .میں جهمپ سا گیا اور کہا نہیں نہیں ایسی بات نہیں. تو کیا میں خوبصورت نہیں ہوں علینہ نے چہرے کو ایک دم سپاٹ کرتے ہوئے قدرے سخت لہجے میں لکین آئیستہ آواز میں مجھ سے پوچھا! ارے نیں بابا میں نے کب کہا کہ آپ خوبصورت نیں ہو؟
تو پهر ایسے کیوں دیکھ رہے ہو فراز؟
بہن کے سامنے تو کبهی ایسے نہیں دکھتے ہو تم اج کیوں ایسی نظروں سے دیکھا؟
کیسی نظریں؟ میں نے گھبرا کر جواب دیا!
علینہ نے کرسی سے اٹھتے ہوئے میرا بازو پکڑ کر مجهے بهی اٹھایا اور کہا چلو باہر چلو بتاتی ہوں. میں علینہ کے پچھے چلتا ہوا کیفے سے باہر نکلا تو علینہ نے پچهے مڑ کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگی چلو گرین بیلٹ کی طرف چلتے ہیں.... میں نے گھبرا کر کہا نہیں میری کلاس شروع ہونے والی. علینہ نے بڑے دل لبھانے والے انداز سے کہا میرے لیے ایک کلاس نہیں چھوڑ سکتے؟
میں خاموشی سے سے علینہ کے ساتھ گرین بیلٹ کی طرف چل پڑا. جہاں زیادہ تر من چلے جوڑے دل لگی کرنے جاتے. یہ علاقہ یونیورسٹی میں ہی تها مگر الگ تھلگ ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ سے منسلک مختلف قسم کے باغات اور فارم پر مشتمل تها جس کے درمیان سے گزرتی ہوئی نہر اس کی خوبصورتی اور رومانس میں اضافہ کرتی. یونی کی خوبصورت تتلیوں اور بھنوروں کی سب سے من پسند جگہ تهی.
یوں تو ہم گروپ کی شکل میں کئی بار یہاں آتے تهے مگر یہ پہلا موقع تھا جب میں اکیلا ایک لڑکی کے ساتھ وہاں تها. اور لڑکی بهی وہ جس پر میں دل وجان سے مرتا تها. مگر بہن کی وجہ سے کبهی کھول کے بات نہ ہو سکی تھی. مگر آج تو سب کچھ الگ ہی لگ رہا تھا.
پر آج موقع ملا تھا کچھ کہنے کا اور شاید کچھ کرنے کا بهی ورنہ علینہ مجهے سب سے دور گرین بیلٹ نہ لے کہ آتی. ہم چلتے چلتے کافی دور آ گئے. راستے میں ہمیں بہت زیادہ سٹوڈنٹس نہ ملے صرف 3 یا 4 جوڑے سڑک سے ہٹ کر دور درختوں کے نچے رکھے بنچوں پہ بیٹھے ہوئے دنیا و مافیا سے غافل اپنی باتوں میں مگن تهے شاید ہمارے گزرنے کا بهی احساس نہیں ہوا تھا ان کو یا شاید روز یہاں آنے والے اس بات کے عادی تهے. ممکن تھا کہ ہم چار پانچ کلومیٹر دور نکل آئے ہوں