وہ تقریبا آج ایک ہفتے کے بعد ہوٹل جارہی تھی۔ دل میں بے شمار وسوسے اور وہم ستارہے تھے اسے کہ اگر ہوٹل والوں نے اسے نوکری سے نکال دیا تو وہ کیا کرے گی۔وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اپنی چادر سر پر جما کر اپنے چھوٹے سے محلے سے نکلی تھی جہاں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ وہ تیزی سے قدم بڑھا رہی تھی ایک تو اتنی چھٹیوں کے بعد کام پر جانا دوسرا دیر سے پہنچنا اسے بے حد مشکل میں ڈال سکتا تھا اور نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ بالکل ہی ہتھل ہوکر بیٹھ جاتی اس لیے وہ تقریبا بھاگتے ہوئے جارہی تھی۔ سیرینہ ہوٹل اس کے محلے سے نکلتے ہی مین سڑک پر واقع تھا جس کی عمارت بلند و بالا تھی اور وہ بہت بڑا اور خوبصورت ہوٹل تھا جہاں امیر لوگ آتے جاتے تھے۔
گل بشرہ ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی آسائش نہیں دیکھی تھی اس لیے اس کے دل میں آسائشوں کی چاہ اور پیسوں کی ہوس بڑھتی جارہی تھی اور یہی ہوس دن بدن اس کے دل میں چاہ کے ساتھ خوف بھی پیدا کررہی تھی کہ اگر یہ پیسے نہ رہے تو وہ کیسے اپنی روز بروز بڑھتی ہوئی خواہشات دبائے گی اور روز بروز بڑھتے ہوئے نفس کا گلہ کیسے گھونٹے گی۔
وہ اپنی سوچوں کے بھنور میں ہی بہتی ہوئی ہوٹل کے دروازے پر پہنچی تو چوکیدار نے اسے دیکھ کر شیشے کا دو پنوں والا دروازہ کھول دیا وہ اندر داخل ہوئی تو اے سی کی ٹھنڈی ہوا نے اس کے پسینے سے شرابور وجود کو تقویت بخشی تھی۔
وہ قدم قدم چلتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور رسیپشن پر بیٹھی ہوئی لڑکی سے اپنے کام کے متعلق معلومات لینے لگی جہاں اسے یہ خبر ملی کہ اسے مینجر نے اپنے کمرے میں بلایا ہے۔ یہ خبر سن کر ہی اسے اپنے پیروں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ مینجر کے دفتر پہنچی تھی۔
" مس گل بشرہ! آپ کا حساب کردیا گیا ہے اپنے پیسے اکاونٹینٹ سے لیں اور جائیں یہاں سے۔"
گل بشرہ کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے مینجر نے اس کے کانوں میں کوئی پگلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو۔ اس نے بہت مشکل سے خود کو سمبھالا تھا اور پھر مینجر کے پاوں پڑ گئی تھی۔
" سر پلیز مجھے اس نوکری کی بے حد ضرورت ہے میرے ساتھ ایسے نہ کریں۔"
" دیکھیں مس گل بشرہ آپ کی چھٹیاں حد سے زیادہ ہیں اور بغیر اطلاع کے چھٹی کرنے پر ہم آپ کو مزید یہاں نہیں رکھ سکتے۔"
مینجر نے سفاکی سے اسے ہری جھنڈی دیکھائی تو اسے دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔
تقریبا آدھے گھنٹے کی منت سماجت کے بعد مینجر نے اسے واپس رکھا تھا۔ وہ خوش ہوکر اپنے کام پر لگ گئی ۔ گل بشرہ ایک انتہائی عام سی شکل و صورت کی مالک تھی ہلکی سانولی رنگت کے ساتھ تیکھے نقوش اسے تھوڑا دلکش بناتے تھے اس کے اندر اچھا کپڑا پہنے،خوبصورت لگنے اور آسائشیں اکھٹی کرنے کی طلب روز بروز بڑھتی ہی جارہی تھی۔وہ ان لوگوں میں سے تھی جو شکر کا کلمہ بہت کم پڑھتے تھے اس کا زیادہ تر وقت اللہ سے شکوئے کرنے میں ہی گزرتا تھا۔ وہ اس بات سے انجان تھی کہ شکر انسان کی زندگی کا لازمی جز ہے شکر سے اس کی زندگی سہل ہوجاتی ہے اس کا بہت کم وقت عبادت میں گزرتا تھا۔
ایک روز وہ اسی طرح اپنے کام میں مگن تھی جب ہوٹل کا دروازہ کھول کر ایک جوڑا اندر داخل ہوا ۔ اس جوڑے کی امارت اور چمک دمک سے گل بشرہ کی آنکھیں چندھیا سی گئی تھیں لیکن بظاہر وہ لاپرواہ بن کر اپنا کام کرتی رہی لیکن دھیان اس کا سارا اسی جوڑے کی جانب تھا دیکھتے ہی دیکھتے وہ دونوں اپنے کمرے کی چابی لے کر اس کی نظروں کے سامنے سے غائب ہوگئے مگر اس آدمی کے ساتھ آئی عورت کی چمک دمک نے گل بشرہ کو بے حد متاثر کیا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھی اس عورت جیسا ہی سجے۔
اگلے دن شاہد وہ جوڑا کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا جب مینجر نے آکر گل بشرہ کو ان کا کمرہ صاف کرنے کے لیے کہا۔ گل بشرہ کی تو جیسے دلی مراد بھر آئی تھی وہ انتہائی خوشی خوشی ان کے کمرے کی چابی لے کر ان کے کمرے میں چلی آئی اندر آکر اس نے دروازہ زور سے بند کرکے اندر سے لاک کرلیا تاکہ کوئی آ نہ جائے۔
وہ سب سے پہلے اس کمرے میں موجود الماری کی جانب بڑھی تھی اس نے جوں ہی الماری کھولی رنگا رنگ ملبوسات نے گل بشرہ کے اوسان خطا کردیے ۔ اچانک اس کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی تھی کہ یہ لباس اس پر کیسا لگے گا۔ اس نے یہی تجسس مٹانے کے لیے وہ لباس پہن لیا اور آئینے کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔ اسے یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت بھی لگ سکتی ہے۔ باہر سے اچانک آتے قدموں کی آواز نے اس کی تمام حسیں بیدار کردیں اور وہ جلدی سے کپڑے تبدیل کرکے الماری کی جانب بڑھی جونہی وہ کپڑے رکھنے لگی اس کی نظر ایک خوبصورت اور قیمتی انگھوٹی پر پڑی وہ انگھوٹی انتہائی چمک دار اور خوبصورت تھی۔ گل بشرہ کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اگر اس نے یہ انگھوٹی چھوڑی تو وہ اپنی زندگی میں خوبصورت دکھنے کا خواب اپنے ہاتھوں سے ہی مار دے گی۔ ضمیر کی لعنت ملامت پر دو حرف بھیج کر اس نے وہ انگھوٹی اٹھا کر اپنی مٹھی میں بند کرلی اور جلدی سے کمرے کی اوپری صفائی کرکے واپس باہر آگئی۔ باہر آکر اس نے گہرا سانس لے کر خود کو نارمل کیا تھا جیسے اس نے کچھ کیا ہی نہ ہو۔
سارا دن سکون سے گزرا تھا انگھوٹی کے غائب ہونے کا شور دونوں میاں بیوی نے نہیں مچایا تھا وہ بھی خاصی مطعمن ہوگئی کہ چلو کسی کو پتہ نہیں چلا لیکن جیسے ہی وہ رات کو اپنا سارا کام ختم کرکے جانے لگی مینجر نے اسے روک لیا اس کا دل بے اختیار دھڑکا تھا۔ صبح کا واقعہ اس کے ذہن کی سکرین پر نمودار ہوا تو اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔
دیکھتے ہی دیکھتے پورا سٹاف ہال میں جمع ہوگیا اور تب گل بشرہ کے کان میں صور پھوکا گیا تھا یہ کہہ کر کہ مہمانوں کی قیمتی ہیرے کی انگھوٹی غائب ہوگئی ہے اور تمام سٹاف کی تلاشی لی جائے گی۔ ہال میں کھڑے ہوکر وہ انگھوٹی غائب بھی نہیں کرسکتی تھی اس کا دل بے حد تیز رفتار میں دھڑک رہا تھا۔ اور پھر اس لمہے شاہد زندگی میں پہلی بار گل بشرہ نے مصیبت کے لمہے اللہ سے شکوہ کرنے کی بجائے اسے دل سے پکارا تھا اسے دل سے یاد کیا تھا۔ ہال میں پورا سٹاف ایک قطار کی صورت میں کھڑا تھا اور وہ قطار میں سب سے آخر میں کندھے پر اپنا بیگ لٹکائے کھڑی تھی اس نے آنکھیں زور سے میچی ہوئیں تھیں اور مسلسل دل میں وہ اللہ کو پکار رہی تھی۔
" میں بہت گناہ گار ہوں ہمشہ شکر کرنے کی بجائے شکوے کرنے کو ترجیح دیتی رہی لیکن یا اللہ آج ایک بار میری عزت اور نوکری محفوظ کردے میرے مالک وعدہ کرتی ہوں تجھ سے کہ کبھی شکوہ نہیں کروں گی اور یہ چوری کی ہوئی انگھوٹی بھی واپس کردوں گی پلیز ایک بار بچالے میں اس قابل تو نہیں ہوں لیکن اللہ پھر بھی تیری ہی گناہ گار بندی ہوں مجھے بچالے بے شک تو ہی سب کی عزتوں کا رکھوالا ہے نیت سے واقف ہے مجھ پر رحم فرما۔"
وہ مسلسل دل ہی دل میں اللہ سے مخاطب تھی اسے بالکل بھی اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ آنسو نکل کر اس کے گال بھگو رہے ہیں۔ مینجر اس کے قریب پہنچ چکا تھا اس نے خاموشی سے اللہ کا نام لے کر اپنا بیگ اس کی جانب بڑھا دیا اور آنسو ضبط کرتے ہوئے اللہ کو پکارتی رہی اسکی پکار میں مزید تیزی آچکی تھی مینجر نے پورا بیگ کھنگال لیا تھا لیکن اسے بیگ میں سے کچھ بھی نہیں ملا تھا۔ نجانے کیوں ایک دم اس کا دل یقین کامل سے دھڑکا تھا۔ بیگ مینجر نے اس کی جانب بڑھایا تو اس نے بے یقینی سے پہلے بیگ اور پھر مینجر کی جانب دیکھا جیسے یقین چاہ رہی ہو اس نے انگھوٹی اسی پرس میں رکھی تھی پھر وہ مینجر کو ملی کیوں نہیں وہ دل ہی دل میں حیران تھی اور تیزی سے وہاں سے باہر نکلی تھی وہ سڑک کے کنارے پر بھاگ رہی تھی آنسو تیزی سے نکل رہے تھے اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جلد سے جلد گھر پہنچ جائے اور پرس کو کھنگال کر دیکھے آنسوں کا ایک وسیع گولا گل بشرہ کے حلق میں اٹکا ہوا تھا وہ گھر پہنچی تو آندھا دھند اپنے چھوٹے سے کمرے کی جانب بھاگی اور دروازہ اندر سے بند کرلیا اس کی ماں اسے آوازیں دیتی رہ گئی مگر اس وقت اس کے کانوں میں کسی کی کوئی آواز نہیں آرہی تھی اس نے آکر اپنا پورا پرس اپنے پلنگ پر انڈیل دیا اس کی نظریں اس انگھوٹی کو تلاش کررہی تھیں ان تمام چیزوں میں سے اس کی نظر اچانک اس ہیرے کی انگھوٹی پر پڑی تو اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئی اس لمہے اسے شدت سے رونا آیا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی اور اپنی گزشتہ غلطیوں اور اللہ پر عدم اعتماد کی معافی طلب کی تھی اور اسی حالت میں روتے روتے وہ سو گئی تھی شاہد کبھی نہ اٹھنے کے لیے۔
یقین کامل ایک ایسی رسی ہے جو اللہ اپنے بندے کو اس لمہے تھماتا ہے جب اس کا یقین اللہ کی ذات پر پختہ ہوتا ہے چاہے وہ یقین ایک لمہے میں ہی کیوں نہ پیدا ہوا ہو گل بشرہ نے اپنی بائیس سالہ زندگی میں صرف ایک گھنٹہ اللہ کو پکارا تھا وہ بھی یقین کامل کے ساتھ تو ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ اس کا بندہ اسے پکارے اور وہ اس کی پکار نہ سنے اللہ نے اس کی پکار سنی بھی اور اس پکار کا انعام بھی گل بشرہ کو فوری دیا لیکن اللہ نے اس کی توبہ قبول کرکے اسے اس دنیا میں مزید رکنے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ شاہد وہ نہیں چاہتا تھا کہ دنیا کی مذید رنگینی اور ظاہری چمک سے گل بشرہ کا یقین کامل ڈگمگائے اور وہ پھر سے دنیا کی ظاہری رنگینوں میں کھو کر اس کی یاد سے غافل ہوجائے بے شک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے۔
(ختم شد)
![](https://img.wattpad.com/cover/198684898-288-k877434.jpg)
YOU ARE READING
یقین کامل
Spiritualیہ ایک آفسانہ ہے جس میں ایک لڑکی کے مسائل اور اس کے اللہ سے شکووں پر مبنی کہانی بیان کی گئی ہے جسے اللہ تعالی کے اسے نچلے طبقے پر رکھنے پر بے شمار شکوے ہوتے ہیں اور ایک دن یہ شکوے اسے کوئی بڑا قدم اٹھانے پر مجبور کردیتی ہیں اور پھر اس مصیبت سے اسے ا...