میرے حال دا محرم
از قلم مریم ،علیشا
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی سڑک عبور کر رہی تھی ۔شام کے سائے گہرے ہو چلے تھے ۔پوری سڑک سنسان پڑی تھی ۔اس نے ایک نظر آسمان کو دیکھا ۔موسم کے تیور بدل رہے تھے ۔
"یا اللّه پلیز ابھی نہیں ۔۔۔!!!"
اپنی چادر درست کرتے ہوے اس نے بےاختیار کہا ۔اس وقت وہ جلد از جلد اپنے گھر پہنچنا چاہ رہی تھی ۔وہ جانتی تھی کہ اماں اس کا انتظار کر رہی ھوں گی ۔وہ کبھی بھی اس وقت باہر نہ نکلتی اگر اماں کی دوایاں ختم نہ ہوئی ہوتیں ۔وہ دوایاں دفتر سے واپس آتے ہوے لانے والی تھی مگر اسے یاد بھول گیا ۔ سب کچھ ٹھیک تھا مگر اماں کی طبیعت کسی بھی وقت بگڑ جاتی ایسے میں دوایوں کا ہونا بہت ضروری تھا ۔ انھیں ہارٹ اٹیک ایک سال پہلے ہوا تھا مگر اب بڑھتی عمر کے ساتھ مرض بڑھنے لگے تھے ۔
"یا اللّه اماں خیریت سے ھوں "
اس کے من موہنے گورے پیر اس وقت سادی سی چپل میں مقید تھے اور وہ فٹ پاتھ پر تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی چل رہی تھی ۔بارش کسی بھی وقت برس سکتی تھی ۔کہنے کو تو رات ہو رہی تھی مگر ابھی صرف پانچ ھی بجے تھے ۔
ایک دفع پھر اس نے سرکتی چادر سمبھالی ۔اس کی ہرنی جیسی آنکھیں اطراف کا جائزہ لے رہی تھی ایک دم سے اسے یوں لگا کہ کوئی گاڑی اس کے تعاقب میں ہے ۔ہاتھ میں پکڑے شاپر پر اس کی گرفت مضبوط ہوئی ۔وہ رکی اور ایک جھٹکے سے مڑی ۔اس کے پیچھے آتی ویگن بھی ایک جھٹکے سے رکی تھی ۔ خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں اس کی چھٹی حس اسے کچھ غلط ہونے کا پتا دینے لگی ۔وہ مڑی اور بھاگنے لگی ۔ اس نے ایک دفع پھر مڑ کر دیکھا اب وہاں کوئی ویگن نہیں تھی ۔وہ ایک دم سے ڈر گئی اور رکی مگر کہیں نہ کہیں کچھ غلط ضرور تھا ۔ اچانک اسے محسوس ہوا کوئی اس کے پیچھے ہے مگر اس سے پہلے کہ وہ مڑ پاتی کسی نے کلوروفوم سے بھیگا رومال اس کے ناک پر رکھا ۔ہاتھ میں پکڑا دوایوں کا شاپر اس کے ہاتھ سے چوٹتا نیچے جا گرا ۔اس کے اعصاب آہستہ آہستہ منجمند ہونے لگے ۔آخری چیز جو اس یاد تھی وہ دروازے پر انتظار کرتی اس کی ماں تھی ۔
"اماں ۔۔۔"
اس کے لب ہلے تھے اور اگلے ھی لمحے اس کا دماغ اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے نے اپنی بوجھل آنکھیں وا کیں ۔کچھ وقت لگا اسے ارد گرد کے ماحول سے مانوس ہونے میں ۔گاڑی ابھی بھی چل رہی تھی ۔وہ بہت لوگوں کی ملی جلی آوازیں سن رہی تھی ۔ اس نے آنکھیں میچ کر کھولیں ۔اب منظر صاف نظر آنے لگا تھا ۔
گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ایک عجیب سا آدمی بیٹھا تھا ۔اس کے ساتھ بھی اسی کے حلییے میں ایک آدمی بیٹھا تھا ۔اس نے دائیں اور بائیں نظر گھمائی ۔اس کے ساتھ بھی دو ویسے ھی آدمی بیٹھے تھے ۔چاروں کا حلیہ لوفروں والا تھا ۔اس کا دل آنے والے لمحوں کو سوچ کر کانپا ۔اگلی نظر اس کی اپنے حلیے پر گئی اس کا دل دھک سے رہ گیا ۔ وہ جس نے گھر میں بھی دوپٹہ ہمیشہ اوڑھ کر رکھا تھا اج تک کسی نا محرم کو اپنے بال تک نہ دکھائےتھے وہ ان چاروں کے درمیان بغیر چادر کے یوں بیٹھی تھی ۔
اس کا دل چاہا وہ دھاڑیں مار مار کر روے ۔
وہ ہمت کرتی آگے کو ہوئی مگر زور دار چکر نے اس کے دماغ کو گھما کر رکھ دیا ۔
"نا ۔۔۔نا جانیمن ۔ ابھی آرام کرو بعد میں تمہے تھکاوٹ ھی نا ہو جائے "
اس کے ساتھ بیٹھے اس شخص نے اسے کندھوں سے تھام کر خود سے لپٹانا چاہا ۔
"چھوڑو مجھے ذلیل گھٹیا آدمی ۔ ۔ ۔ "
وہ تڑپنے لگی ۔
نا ۔ ۔ ۔ نا ۔ ۔ ۔ جاں ایسے کیسے ایک رات کی بات ہے ویسے جتنی تم خوبصورت ہو دس راتیں بھی کم ہیں مگر شاید تم ایک رات سے زیادہ سہہ ھی نا سکو "
آگے ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ بیٹھے آدمی نے
خباثت سے ہنستے ہوے کہا اس کے ساتھ باقی بھی لوفرانا انداز میں ہنسنے لگے ۔
پلیز ۔۔۔۔خدا کا واسطہ ہے رحم کرو مجھ پر ۔میری ماں میرا انتظار کر رہی ہے خدا کا واسطہ مجھ پر رحم کرو "
وہ ہاتھ جوڑتے ہوے پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔
یار ببلو اور کتنا ٹائم ہے ؟؟؟ اب اور صبر نہیں ہو رہا بلبل کو دیکھو تو سہی کیسے مچل رہی ہے "
اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوے ان میں سے ایک بولا ۔ اس نے اپنے گرد بازو لپیٹے ۔خوف بڑھنے لگا تھا ۔
تو کیا اج وہ اپنا مان ،نسوانیت کھونے والی تھی؟
نہیں وہ کوشش جاری رکھے گی کیا پتا وہ اچھے ھوں؟؟؟
دو منٹ اور ""
گاڑی چلاتے آدمی نے کہا ۔
دیک۔۔۔دیکھیں ۔۔۔خدا کا واسطہ رحم کریں ۔۔خدا کے ۔۔۔۔۔"
چپ ایک دم چپ ۔۔!!!!
انہی میں سے ایک سختی سے بولا اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا ۔
چھوڑو ۔۔مجھے ذلیل !!!
وہ تڑپ کر آگے ہوئی ۔
"چل آ بلبل ترے کس بل نکالیں ۔"
جھٹکے سے اس دھان پان سی لڑکی کو کندھے پر لادے وہ اس ٹوٹے پھوٹے مکان کی طرف بڑھے ۔اس کی چادر انہی میں سے ایک کے بازو پر لپیٹی تھی ۔وہ روتے ہوے اب بھی ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی مگر وہ کمزور تھی اور وہ چاروں ؟؟؟
انہوں نے اسے ایک تختے پر لا پٹخا ۔
"نہیں ۔۔۔"
وہ سراسیمہ سی دیوار کو جا لگی ۔چاروں شیطان اس کی طرف بڑھے مگر شاید اس کی حالت پر ترس کھا کر رکے اور پھر آپس میں کچھ طے کرنے لگے ۔
نہیں ۔۔۔!!!! انھیں اس پر ترس نہیں آیا تھا ۔انہوں نے تو بس اپنا فائدہ سوچنا تھا ۔کہیں نا کہیں بیچاری کے دل میں اب بھی امید تھی کہ وہ اسے چھوڑ دیں گے ۔مگر نہیں ہوس کے آگے انسان کو کچھ یاد نہیں رہتا اور پھر اس رات بھی ایک اور بنت حوا کی سسکیاں ،آہیں ،منتیں رات کے اندھیرے میں ڈوبتی چلی گئیں ویسے ھی جیسے اس کا مقدر اور اس کے مقدر پر سیاھی ملنے والے آدم کے ھی بیٹے تھے مگر وہ جنھے ہوس نے اندھا کر دیا تھا ۔ اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ وہ
ہوش کھو چکی تو سب ایک کونے میں بیٹھ گئے اور اس پر چادر دے دی ۔زخمی روح ،زخمی دل ،زخمی جسم ۔ ۔ ۔ ۔ !!
اس نے شدت سے اپنے مر جانے کی دعا کی تھی کیوں کہ وہ اب اپنا سب کچھ کھو چکی تھی اس کی مزاحمت بھی اس کے کام نا آسکی ۔۔ ۔ ۔
اس بےجاں پڑے وجود کے سینے میں مدھم سا دھڑکتا دل دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور ان چاروں مردوں کے قہقہے وہاں ویرانے میں گونج رہے تھے ۔
۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اوہ نو اتنی رات ہو گئی ۔ "
آفس سے نکلتے نکلتے بھی اسے خاصی دیر ہو گئی تھی اس نے ایک نظر ورسٹ واچ پر ڈالی جو رات کے ایک بجا رہی تھی۔
صفوان بیٹا اج تو آپ گئے کام سے "
بالوں میں انگلیاں پھنساتے وہ سامنے تاریک سڑک کو دیکھتا ہوا بولا ۔وہ جانتا تھا بابا اب بھی اس کے انتظار میں جاگ رہے ھوں گے اور سیدا اماں وہ بھی جاگ رہی ھوں گی ۔ماں کی وفات کے بعد اس کے باپ نے اور سیدا بوا نے ھی اسے سمبھالا تھا وہ اس وقت صرف پانچ سال کا تھا ۔سیدا اماں کو اس نے ہمیشہ ماں ھی سمجھا۔سیدہ بوا اس کے بابا کی منہ بولی بہن تھیں ۔ان کی اولاد نا تھی صفوان ھی ان کی کل کائنات تھا ۔
اچانک ایک ویگن اس کی گاڑی کو اورٹیک کرتی ہوئی آگے بڑھی ۔اس نے جھٹکے سے گاڑی روکی ورنہ خدشہ تھا کہ ایکسیڈنٹ بھی ہو سکتا تھا ۔
"حد ہے گاڑی چلانی نہیں آتی تو ناجانے کہاں سے آجاتے ہیں ؟؟"
ماتھے پہ تیوریاں چڑھائے وہ غصے سے بولتا گاڑی سے اترا ۔کیوں کہ ویگن بھی آگے کیچ فاصلے پر جھاڑیوں کے پاس رکی تھی ۔
اچھا ہے خود باہر آگیا ۔۔"
بازو فولڈ کرتے ہوے وہ کچھ فاصلے پر رکی ویگن کی طرف بڑھنے لگا ۔انہوں نے ویگن سے کچھ نکال کر باہر جھاڑیوں میں پھینکا ۔اندھیرے کے باعث وہ دیکھ نا سکا البتہ ان دونوں آدمیوں نے سٹریٹ پول کی روشنی میں کھڑے ایک ہیولے کو دیکھا تو مارے گھبراہٹ کے جلدی سے ویگن میں سوار ہوے اور زن سے ویگن بھگا لے گئے ۔
"کمال ہے اتنی دہشت میری "
وہ خود کو داد دیتا اندھیرے کی طرف بڑھا ۔
وہ کوئی لڑکی تھی اسے جلد ھی معلوم ہو گیا جس کے کپڑے پھٹے ہوے تھے ۔صفوان نے افسوس سے سر ہلایا ۔اس نے نظریں چرایں البتہ اندھیرا تھا مگر پھر بھی سٹریٹ پول کی روشنی اتنی بھی کم نا تھی ۔اس نے اپنا کوٹ اتار کر اس لڑکی پر دیا اور اس کے ساتھ پڑی اس کی چادر کو بھی اس پر اچھے سے لپیٹا۔پھر اسے سیدھا کیا اس نے موبائل کی فلیش لائٹ اون کی ۔اسے لگا وہ اگلا سانس نہیں لے سکے گا ۔
رامین "
اس کے لب ہلے ۔
کرب سے آنکھیں میچیں ،ضبط کے باوجود اس کی نسیں پھولنے لگیں ۔اج وہ آفس ٹائم میں کتنی خوش تھی بہت کم وہ ایسے خوش رھتی تھی ۔اج اس کی سیلری بڑھی تھی کیوں کہ وہ سیکریٹری بن گئی تھی ۔وہ سب سے زیادہ محنتی اور اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکی تھی ۔وہ سب لڑکیوں سے مختلف تھی ۔
یہ کون سی قیامت گزر گئی تم پر "
اس کے زخموں سے بھرے سوجے چہرے پر نظر ڈالتے ہوے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا .اگر جو اس کی آفس کی اور باقی یونیورسٹی کی لڑکیاں دیکھ لیتیں (جو یونیورسٹی کے دور میں اس کے پیچھے رہتیں تھیں )تو وہ حیران و پریشان رہ جاتی کہ یہ غرور پرور ،انا پرست مرد رو رہا ہے ؟
؛۔پھر اسے بانہوں میں بھرتا وہ گاڑی کی طرف دھوڑا وہ اس کے وجود میں موجود زندگی کی رمق کو محسوس کر سکتا ہے ۔
گاڑی چلاتے ہوے بھی اس کے آنسو بہہ رہے تھے ۔اس کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے ۔جو کہانی اس کا ادھڑا وجود سنا رہا تھا وہ کہانی وہ سننا نہیں چاہتا تھا ۔کون کہتا ہے مرد نہیں روتا جن کے دل حساس ھوں وہ بات بات پر رو دیتے ہیں ۔غم رامین کا تھا اور دل صفوان کا رو رہا تھا ۔گاہے بگاہے وہ بیک سیٹ پر پڑے اس کے بیجان وجود کو بھی دیکھ رہا تھا ۔وہ کس حوصلے سے اسے سٹریچر پر ڈال کر آیا تھا یہ وہ خود جانتا تھا یا اس کا خدا ۔۔۔!!!!
"اللّه پلیز رامین کو کچھ نا ہو "
دعا دل سے نکلی تھی ۔
ڈاکٹر اسے لئے ایمرجنسی وارڈ میں چلے گئے تھے ۔وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے ایمرجنسی کی لال بتی کو دیکھ رہا تھا ۔
اس نے فون نکالا اور گھر کال کی ۔اس کی توقع
کے عین مطابق بوا اور اس کے بابا جاگ رہے تھے ۔صفوان نے کہا کہ وہ اج رات نہیں آسکتا کیوں کہ اس کی گاڑی خراب ہو گئی ہے اور وہ دوست کے گھر موجود ہے ۔لہٰذا وہ سکون سے سو جائیں ۔ان سے بات کر کے بھی اس کا دل بےچین ہو رہا تھا ۔وہ نفل پڑھنے کی نیت سے اٹھا ۔نفل ادا کر کے دعا مانگتے ہوے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور سارا وقت رامین کے لئے ہی دعا کرتا رہا ۔
"مسٹر صفوان مراد ؟؟"
کسی نے پیچھے سے پکارا تو وہ مڑا ۔
جی ؟؟؟
اس نے وارڈ بوے کو دیکھا ۔
"ڈاکٹر آپ کو کیبن میں بلا رہے ہیں "
صفوان سر ہلاتا ڈاکٹر کے کیبن کی طرف بڑھ گیا ۔
"ایئے مسٹر صفوان مراد ۔۔۔!!!!"
ڈاکٹر نے فائل رکھتے ہوے کہا ۔
"شی از ویکٹم اوف اے گینگ ریپ "(وہ گینگ ریپ کی متاثرہ ہے )
اور صفوان کو لگا کسی نے اسے جلتے انگاروں پر ڈال دیا ہے ۔وہ خود پر ضبط کرتا رہا ۔
ان کی حالت بہت نازک ہے انھے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا جارہا ہے ۔آپ دعا کریں کہ یہ حادثہ وہ اپنے دماغ پر نا لیں ورنہ وہ یاداشت کھو سکتی ہیں ۔اینڈ ایک بات اور یہ پولیس کیس ہے مگر آپ کے توسط سے ہم ایسا
کچھ نہیں کریں گے ۔
صفوان بنا کچھ کہے اٹھا اور باہر کی جانب چل دیا ۔شکستہ قدموں سے چلتا وہ آئی سی یو کی طرف آیا ۔
اس کے پٹیوں ،نالیوں میں جکڑے وجود کو دیکھ کر اس نے کرب سے آنکھیں میچیں ۔آج ھی تو اسے اتنے مسکراتے ہنستے دیکھا تھا تو کیا اسے نظر لگ گئی تھی ؟؟؟
وہ آنسو پونجتا باہر نصب بینچ پر بیٹھ گیا ۔ابھی اندھیرا ھی تھا مگر دور افق پر ابھرتا سورج اسنے پھیلتے ہوے دیکھا تھا ۔وہ کچھ دیر وہاں بیٹھا پھر اذان کی آواز نے اسے خیالوں سے نکالا ۔وہ سر جھٹکتا اٹھا اور مسجد کی طرف بڑھ گیا ۔اور رب کے ذکر میں دلوں کا سکون ہے ۔(بیشک )۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفوان مراد !!!!!
جی"
وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔وہ نماز پڑھنے کے بعد واپس ہوسپٹل آیا تب بھی اسے ہوش نا آیا تھا ۔وہ گھر واپس چلا گیا تھا اور پھر شام کو لوٹا تب بھی اسے ہوش نہیں آیا تھا ۔وہ رات کافی دیر تک انتظار میں بیٹھا رہا کہ شاید اسے ہوش آجاے مگر آخر کار وہ تھک کر واپس لوٹ گیا ۔
وہ ابھی آئی ۔سی۔یو کے باہر بیٹھا تھا کہ نرس بھاگتے ہوے ڈاکٹر کو بلا لائی تھی اور اب ڈاکٹر اس سے مخاطب تھے جو پریشان سا کھڑا تھا ۔
"پیشینٹ ہوش میں آچکی ہیں ۔مگر گہرے صدمے کے زیر اثر وہ کچھ بھی نہیں بھول رہیں ایون کہ رسپونس بھی نہیں دے رہیں انہی کی بہتری کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ رسپونس دیں نہیں تو کوما میں جانے کے بھی چانسس ہیں "
ڈاکٹر نے اپنی بات مکمل کی تو صفوان نے سمجھتے ہوے سر ہلایا اور اندر کی طرف بڑھا ۔اسے تین دن بعد ہوش آیا تھا ۔
السلام و علیکم ۔۔!!
وہ اس کے قریب کرسی کھینچتے هوئے بیٹھا ۔
مگر اس نے کوئی جواب نا دیا بس خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھا ۔اس کی خالی آنکھوں میں ناچتی وحشت دیکھ کر صفوان کو لگا کہ وہ کسی اور کو دیکھ رہا ہے ۔اس نے تو ہمیشہ ان آنکھوں کو مسکراتے دیکھا تھا ۔مقابل کی آنکھوں میں کوئی شناسائی نہیں تھی ایک بار پھر وہ خلاوں میں دیکھنے لگی ۔صفوان کا دل کٹ کر رہ گیا ۔کیا ان درندوں کو ذرا خوف خدا محسوس نہیں ہوا ۔کہاں گیا تھا ان کا ضمیر ؟
کیا انھے بلکل بھی خیال نہیں تھا کہ اگر جو ان کی بہنیں ہوئیں اور ان کے ساتھ یہ سب ہوا ہوتا تو ؟خیر اللّه حساب لے گا اور خوب لے گا ۔
صفوان نے سارا معملا اللّه پر چھوڑا تھا وہ جانتا تھا رب کی پکڑ بہت مضبوط ہوتی ہے ۔
وہ دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوا وجہ اس کا سکتہ توڑنا تھی ۔
کچھ سوچ کر اس نے اس کے پٹیوں سے جکڑے بازو پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھا ۔اس کا طریقہ کام کر گیا تھا ۔
رامین کچھ لمحے بےیقینی سے اسے دیکھتی رہی ۔صفوان نے اس کی آنکھوں میں وحشت پھر خوف اور دہشت اکھٹے ہوتے دیکھا ۔یہی وہ لمحہ تھا جب اس نے فورا اپنا ہاتھ ہٹایا تھا ۔
چھ ۔۔۔چھوڑو مجھے ۔۔دور ۔۔دور ہو جاؤ ۔۔خدا کا واسطہ ہے ۔۔دور ۔۔دور۔۔
ہذیانی انداز میں چلاتی وہ بیڈ کے کونے سے جا لگی ۔
اس کے مسلسل چیخ و پکار کرنے پر اگلے ھی لمحے ڈاکٹر اور نرسیں دھوڑتے آے ۔وہ اب بھی مسلسل چیخ رہی تھی ۔صفوان نے اگے بڑھ کر اسے روکنا چاہا مگر اس سے پہلے ھی وہ بیڈ پر ڈھ گئی تھی ۔
ڈاکٹر نے اگے بڑھ کر بی پی چیک کیا جو لو ہو رہا تھا ۔نرس کو کوئی ہدایت دیتے وہ اس کی طرف بڑھے ۔
"شکر ہے ان کا سکتہ ٹوٹا اور یہ ان کے لیے بہت ضروری تھا ۔پریشان نا ھوں بیہوش ہوئیں ہیں ۔ ہم نیند کا انجکشن دے رہے ہیں ان کے دماغ کے لئے ریسٹ بہت زیادہ ضروری ہے ۔"
صفوان نے سر ہلایا اور ایک نظر اسے دیکھ کر باہر کی طرف بڑھ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتہ گزر چکا تھا ۔رامین کے زخم اب مندمل ہونے لگے تھے ۔مگر روح پر لگے زخموں کا وہ کیا کرتی ؟
صفوان ھر شام اسے دیکھنے آتا تھا مگر تب جب وہ سو رہی ہوتی تھی ۔وہ گھنٹوں اس کے پاس بیٹھ کر اسے دیکھتا تھا ۔ وہ واپس اپنے خول میں سمٹ چکی تھی نا کسی کی طرف دیکھتی تھی نا کسی چیز کی طلب کرتی تھی وہ شاید خود سے تھک چکی تھی یا شاید ھر شے کی طلب ختم ہو گئی تھی ۔ناکردہ گناہوں کا بوجھ اٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے اور یہی کام وہ کر رہی تھی اور اسے کرنا تھا ۔ اسے یاد تھا تو بس خود پر بیتی قیامت کا وہ دن ۔۔۔۔!!!! وہ خاموش تھی اور اس کی یہی خاموشی صفوان کی جان لے رہی تھی ۔وہ کچھ تو بولتی ؟؟
اور صفوان نہیں جانتا تھا کہ وہ سارا دن بستر پر پڑی رہ کر کیا۔ سوچتی تھی ؟؟
کہ آخر وہ ھی کیوں ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفوان فریش ہو کر کمرے میں آیا تو سیدہ اماں کو اپنا انتظار کرتے پایا ۔وہ صوفے پر بیٹھی تسبیح میں مصروف تھیں ۔
اماں خیریت ؟؟
وہ ان کی طرف آیا اور ان کے قدموں میں بیٹھ کر سر ان کی گود میں رکھ لیا ۔
ہاں میرے بچے سب خیریت ہے !!
انہوں نے مسکراتے ہوے اس پر پھونک ماری اور پھر اس کے بالوں میں ہاتھ چلانے لگیں ۔صفوان کو ہمیشہ ان کے ایسا کرنے سے سکون ملتا تھا ۔
بیٹا آپ اتنی رات گئے گھر واپس آتے ہیں کتنا مصروف کر لیا ہے آپ نے خود کو بیمار ہو جاؤ گے اتنا کام کرنے سے "
وہ متفکر سی بولیں اور صفوان ان کے لہجے میں موجود ممتا کی چاشنی کو محسوس کرتا رہا ۔
"بس اماں کام زیادہ ہے لیکن آئندہ جلدی آنے کی کوشش کیا کروں گا ۔"
ان کے ہاتھ عقیدت سے چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہوے وہ بولا ۔
اسے خود بھی معلوم تھا کہ وہ اب رات گئے دیر تک باہر رہنے لگا تھا وجہ رامین تھی ۔وہ سات بجے آفس سے فارغ ہوتا تو سیدھا رامین کے پاس ہسپتال جاتا تھا وہاں سے تقریبا دس گیارہ بجے اس کی واپسی ہوتی تھی ۔ہسپتال میں رامین کی ایک ایک خبر اسے معلوم ہوتی تھی ۔مگر جب تک خود جا کر نا دیکھتا تھا اسے تسلی ھی نا ہوتی تھی ۔عجیب سی عقیدت ہو گئی تھی اسے رامین سے ۔۔۔!!!
ٹھیک ہے بیٹا اپنا خیال رکھا کرو اور کھانا کھایا میرے بیٹے نے ؟؟
انہوں نے اس کا ماتھا چومتے ہوے کہا ۔
"جی کھا لیا تھا "
وہ اب دوبارہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ چکا تھا ۔ اتنے دنوں سے مسلسل پریشانی میں رہتے ہوے اسے اپنا آپ مکمل طور پر بھول چکا تھا ۔اب ماں کی گود میں سر رکھے وہ سکون محسوس کرتا آہستہ آہستہ نیند کی وادی میں چلا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجر کی نماز پڑھ کر وہ ہسپتال اگیا تھا ۔اب پچھلے چار گھنٹوں سے وہ اسی کے پاس بیٹھا تھا ۔آفس کا ٹائم بھی ہو گیا تھا مگر وہ پھر بھی بیٹھا تھا ۔ناجانے کون سی طاقت تھی ،ایسی کون سی کشش تھی جو صفوان مراد کو اجازت ھی نہیں دے رہی تھی کہ وہ رامین عالم کے پاس سے اٹھ کر جائے ۔
ماں ۔۔۔!!!!
وہ سسکی تھی ۔
صفوان نے اسے دیکھا جس کے چہرے پر نیند میں ھی اتار چڑھاو واضع ہو رہا تھا ۔
اچانک اس کے دماغ میں کچھ کلک ہوا ۔
اھھہ ۔۔۔نہیں میں کیسے اتنی بڑی بیوقوفی کر سکتا ھوں ؟ میں نے رامین کی فیملی کو انفارم تک نہیں کیا؟ایک ہفتہ ہو گیا ہے یا اللّه !!! "
اس کا دل چاہا وہ اپنا ماتھا پیٹ لے ۔اتنی پریشانیوں میں اسے بلکل یہ بات بھول گئی تھی ۔ اگلے ھی لمحے صفوان موبائل پر ایک نمبر ملاتا باہر کو بڑھا ۔
جی"
"السلام و علیکم اشرف صاحب _"
جی میں جانتا ھوں میں آج آفس لیٹ آوں گا جی بلکل کچھ کام تھا "
وہ ماتھے پر آئے بال ایک طرف کرتا گاڑی کی چابیاں اب جیب سے برآمد کر چکا تھا ۔کندھے اور کان کو جوڑے وہ بات کرتے ہوے گاڑی کا دروازہ کھول کر گاڑی پارکنگ لاٹ سے نکال چکا تھا ۔اس کی گاڑی اب خالی سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی ۔
اگلے پانچ منٹ میں اس کے موبائل پر میسج ٹون بجی ۔اس نے ایک ہاتھ سے سٹیرنگ سمبھالتے ہوے دوسرے ہاتھ سے موبائل ڈیش بورڈ سے اٹھایا ۔اشرف صاحب اسے رامین کے گھر کا پتا بھیج چکے تھے ۔اگلے دس منٹ میں وہ اس ٹوٹے پھوٹے مکان کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا ۔
ہمت جمع کر کے اس نے دروازہ کھٹکٹایا تھا ۔
اگلے ھی سیکنڈ اسے دروازے کی طرف آتے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔دروازہ کھلا تو سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی ۔جس کی عمر لگ بھگ سولہ سال تک تھی ۔نقش اس کے رامین جیسے ھی تھے مگر رنگ رامین کی نسبت سانولا مگر دلکش تھا ۔اس نے سر سے پاؤں تک حیرانی سے دروازے میں کھڑے اس ،پچیس۔۔چھبیس سال کے مرد کو دیکھا ۔
جی فرمائیں ؟؟؟
وہ شائستگی سے بولی ۔
السلام و علیکم !!! میں صفوان مراد ھوں بیٹا ۔رامین جس کمپنی میں کام کرتی ہیں میں وہاں کا باس ھوں ۔"
صفوان نے رامین کے ذکر پر اس کی آنکھوں کو نم ہوتے دیکھا ۔
"رامین ۔۔۔!! آپی "
وہ رکی تھی اس کے حلق میں آنسوں کا گولا اٹکا تھا ۔
"میں جانتا ھوں رامین کہاں ہیں "
کہاں ؟؟ کہاں ہیں آپی بتائیں پلیز !!!
وہ اچھل اچھل کر اس کے پیچھے دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی شاید اس کی بہن پیچھے تھی ۔وہ دونوں ماں بیٹیاں لوگوں کو صفایآں دے دے کر تھک چکی تھیں مگر جتنے منہ اتنی باتیں یہ ایک ہفتہ انہوں نے جس اذیت سے گزارا تھا وہ دونوں ماں بیٹیاں بخوبی جانتی تھیں ۔اس کی بیمار ماں اور بیمار نظر آنے لگیں تھیں لوگ اب ان کے گھر ان پر جملے کسنے ھی اتے تھے ۔ھر دستک پر اس کی ماں کی آس اور امید بھری نظریں دروازے کی طرف اٹھتیں اور پھر جھک جاتیں تھی ۔
"ریلکس گڑیا ۔۔۔کیا میں اندر آسکتا ھوں ؟"
اس کے پوچھنے پر وہ جو مایوس سی باہر خالی گلی دیکھ رہی تھی ایک طرف ہو کر کھڑی ہو گئی تھی گویا اندر انے کی اجازت دی تھی ۔
وہ صفوان کو لے کر ایک بیٹھک نما کمرے میں آگئی ۔کمرہ چھوٹا تھا مگر نفاست ھر شے سے جھلک رہی تھی ۔وہ سیٹ کیے ہوے صوفوں پر بیٹھ گیا ۔
سمرین بھی اس کے سامنے ھی بیٹھ گئی وہ بیچین نظر آرہی تھی ۔
"آپی کہاں ہیں؟؟ وہ کیسی ہیں؟؟ وہ گھر کیوں نہیں آئی؟؟ وہ ٹھیک تو ہیں ؟؟"
وہ سانس لینے کو رکی ۔
وہ ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا تو وہ ہسپتال میں ہیں ۔معافی چاہتا ھوں میں آگاہ نہیں کر پایا ۔"
وہ سر جھکآئے مدھم لہجے میں بولا ۔وہ نہیں جانتا تھا کھ کیوں مگر اس نے جھوٹ بولا تھا ۔
"نہیں میری آپی آپ ہمیں لے چلیں نا "
وہ التجا کر رہی تھی ۔
"آج انھے ڈسچارج کرنا ہے ہوسپٹل والوں نے ۔۔۔۔میں انھے لے آوں گا خود شام تک "
"ابھی کیوں نہیں ؟"
وہ بضد تھی ۔
"دراصل وہ ۔۔۔
خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیری اس نے خود کو کمپوز کیا ۔
ابھی وہ دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھیں ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ دماغی سکون کے لیے ضروری ہے ان کے پاس بھی کوئی نا بیٹھے انھے سونے دینا چاہیے ۔"
اس نے ایک جواز پیش کیا تھا جو اسے خود کو کافی بھودآ لگا تھا ۔
"مگر ۔۔۔
اگر مگر نہیں گڑیا ۔۔۔"خود سوچو انٹی اسے ہسپتال میں دیکھیں گی تو کہیں ان کی طبیعت خراب نا ہو جائے "
اب کی بار اس کی دلیل پر سمرین کو خاموش ہونا پڑا ۔وہ اشرف صاحب کی زبانی رامین کی ماں کی طبیعت کے بارے میں بھی جان چکا تھا ۔اسے بہت فخر محسوس ہوا تھا اس عورت پر جس نے جوانی میں بیوہ ہونے کے بعد بھی اپنی دونوں بچیوں کو پڑھایا اور اس قابل بنایا تھا ۔
"شکریہ بھائی ۔۔میں آپ کے لیے ناشتے میں کیا لاؤں ؟"
"کچھ نہیں مجھے اب آفس جانا ہے میں نکلتا ھوں ۔"
وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتا باہر کو بڑھا تھا ۔اور سمرین دروازہ بند کرتے ھی وضو کرنے کو دھوڑی تھی ۔اسے شکرانے کے نفل پڑھنے تھے ۔
وہ اسے آگاہ کر چکا تھا کہ آج وہ اسے اس کے گھر چھوڑ آے گا ۔اس نے بس ایک لمحہ کے لیے اس بات پر صفوان کی طرف دیکھا تھا اور کچھ آنسو پھر سے بے مول ہوے تھے ۔صفوان نے خاموشی سے رخ موڑ لیا تھا ۔اور اب وہ اس کی گاڑی میں دروازے کے ساتھ چپک کر خاموشی سے بیٹھی تھی اور خود کو ایک چادر سے لپیٹا ہوا تھا ۔صفوان ونڈ سکرین سے پار نظر آتی سڑک پر نگاہیں جمائے ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔گاہے بگاہے وہ اسے بھی دیکھ رہا تھا ۔جو سر جھکاے بیٹھی کانپ رہی تھی وہ اس کی حالت کو بخوبی سمجھتا تھا ۔گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی ۔
صفوان گاڑی کا دروازہ کھولتا ہوا باہر نکلا ۔گلی میں موجود لوگوں نے اس بڑی گاڑی والے صاحب کو دیکھا تھا ۔صفوان نے دوسری طرف کا دروازہ کھولا تو رامین کچھ دیر سر جھکائے بیٹھی آنسو ضبط کرتی رہی پھر خود کو سمبھالتی گاڑی سے نکلی ۔
لوگوں میں اب باقاعدہ چہ مگویاں ہونے لگی تھیں ۔
وہ لوگوں کو نظر انداز کرتا اس کے لڑکھڑاتے قدموں کے پیچھے پیچھے چلتا آرہا تھا ۔
صفوان نے اگے بڑھ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو اگلے ھی لمحے سمرین نے دروازہ کھولا تھا ۔
آپی ۔۔۔!!!
وہ چلاتی اس کے گلے لگی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
آپی ۔۔آپی کہاں تھیں آپ ۔۔ہم ۔۔ہم نے کتنا ڈھونڈھا آپ کو ۔۔کہیں خدا ناخواستہ کچھ برا ہو جاتا تو ۔۔۔"
وہ اس کی حالت سے بےخبر کھڑی بول رہی تھی ۔اور رامین سوچ رہی تھی ۔کیا اب برا ہونے کو کچھ رہ گیا ہے ؟
گڑیا ۔۔ریلکس ۔۔اپنی آپی کو چھوڑو انھے پہلے ھی چوٹیں لگی ہیں "
صفوان کے کہنے پر وہ شرمندہ سی ہو کر علیحدہ ہوئی ۔
"آپی آپ کو کیا ہوا بول کیوں نہیں رہیں آپ ؟ ہم نے آپ کو بہت یاد کیا آپی مما بہت روئیں ۔۔آپی کچھ بولیں آپ ۔۔۔"
رامین میری بچی ۔۔"
کانپتی ضیعف آواز پر صفوان نے چونک کر سر اٹھایا تو صحن کے وسط میں ایک بوڑھی عورت چھڑی کا سہارا لیے انہی کی طرف آرہی تھیں ۔ان کی ٹانگیں اور لہجہ دونوں ھی کانپ رہے تھے اور آنسو متواتر بہہ رہے تھے ۔
"را۔ ۔رامین "
انہوں نے ہاتھ لگا کر جیسے خود کو یقین دلانا چاہا ۔رامین ابھی تک خاموش کھڑی تھی اس کی آنکھوں میں پہلے دن جیسی ھی وحشت ناچ رہی تھی ۔
سادہ کاٹن کے سوٹ میں کالی چادر خود سے اچھے طریقے سے لپیٹے وہ اپنے گردن کے زخم چھپا چکی تھی ۔چادر کے نیچے موجود بازوں پر موجود زخموں کا بھرم بھی پورے لمبے بازوں نے رکھ لیا تھا ۔
چہرے کے زخم اب مندمل ہو چکے تھے البتہ ماتھے پر پٹی بندھی تھی ۔
"میری بچی ۔"
رفیہ بیگم روتے ہوے اس کے گلے لگ گئیں تھیں ۔انھے سمرین سب بتا چکی تھی اور صبح سے ھی ان کی منتظر نگاہیں دروازے پر تھیں ۔
انہوں نے اس سے علیحدہ ہو کر اس کو دیکھا اس کی آنکھوں کو وحشت نے انھے پل بھر میں ہولاکر رکھ دیا تھا ۔
اس سے پہلے وہ کچھ کہتی داخلی دروازہ زور زور سے بجنے لگا ۔
صفوان دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھولا ۔سامنے ھی دو تین عورتیں کھڑی تھیں ۔اس سے پہلے صفوان کچھ پوچھتا وہ صفوان کو ایک طرف کرتیں اندر گھس گئیں۔
ارے ۔۔۔"
وہ حیران ھی تو رہ گیا تھا ۔
اس سے پہلے کہ اس کی حیرانی دور ہوتی چار مرد حضرات بھی اندر گھسے ۔
واہ ۔۔۔۔بھئی رفیہ کیا لچھن ہیں تمہاری بیٹی کے ہفتے بعد منہ کالا کر کے آگئی ۔اگیا نا یار چھوڑنے جب اس کا دل بھر گیا کتنی رقم دی تھی اس نے تمہے ۔۔۔اے مجھے تو پہلے ھی شک تھا اس پر کلموہی کہیں کی نا ہو تو اھہ بی بی یہ شریفوں کا محلہ ہے "
ایک عورت تو جو شروع ہوئی تو خاموش ھی نا ہوئی ۔
بس کریں انٹی خاموش ہو جائیں۔ آپ حقیقت سے نا واقف ہیں "
صفوان تحمل سے بولا ورنہ اسے غصّہ تو بہت آرہا تھا ایسے لوگوں پر جو بنا تفشیش کے دوسروں پر الزام لگا رہے تھے ۔
"ہنن رہن دے بابو حقیقت سے تو اسی ہن واقف ہوے ان "
دوسری عورت تیز لہجے میں بولی ۔
اس نے رامین کی طرف دیکھا جس کا رنگ لمحہ با لمحہ سفید تر ہوتا جا رہا تھا ۔
"انف بس کریں آپ سب الزام لگانا بند کریں کیا آپ لوگوں کو ذرا خوف خدا حاصل نہیں ؟"
وہ چلا اٹھا ۔اسے نہیں یاد اس نے کھبی زندگی میں یہ لہجہ استعمال کیا تھا ۔
"ہمیں نا سکھاؤ ۔جسے خود خوف خدا نہیں ہم اس کاکیا لیں گے ؟ ہن آیا بڑا درس دینے والا ۔"
باجی بس کریں ۔۔۔ خدا کا واسطہ میری بیٹی ہسپتال سے آئی ہے ایکسیڈنٹ ہوا ہے اس کا "
رفیہ بیگم روتے ہوے بولیں ۔سمرین کا دل کر رہا تھا کہ سب کو ٹکا ٹکا کر جواب دے مگر ان کی تربیت انھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔
دیکھ رفیہ !!! بیٹی کی بدکرداری پر چادر نا ڈال ۔یہ شریفوں کا محلہ ہے اگر تو نے یہاں رہنا ہے تو اس لڑکی کو چلتا کر ورنہ محلے کی کمیٹی خود فیصلہ لے گی اور تو جانتی ہے تب پیسے بھی کام نہیں آئیں گے ۔"
ایک صاحب تیز نظر صفوان اور رامین پر ڈال کر گویا ہوے اشارہ یہ تھا کہ صفوان کے پیسے بھی تب کسی کام کے نہیں ھوں گے ۔
"باجی یہ میرے شوہر کی آخری نشانی ہے ۔آپ جانتی ہیں میں یہ گھر نہیں چھوڑ سکتی سمجھایں اپنے بندے کو باجی ۔۔۔۔اور یہ را۔۔میری رامین میری بیٹی باجی "
وہ اس آدمی کی بیوی کے سامنے کھڑی تھیں ۔
دیکھو اتنا ھی تمہاری بیٹی کا یہ عاشق ہے تو دو لفظ پڑھا کر اسی کے ساتھ عزت سے کیوں نا رخصت کر دیا ۔"
وہی صاحب تڑخ کر بولے ۔
"بسسس ایک لفظ اور نہیں سنوں گا میں آپ کب سے بول رہی ہیں اگلے بندے سے پہلے وضاحت مانگ لیا کریں آپ لوگوں کو شرم نہیں آتی اتنے گھٹیا الزام لگاتے ہوے ۔"
صفوان مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔
او جا او جا آیا بڑا تیس مار خان !! بھر گیا دل اتنی تجھے ہمدردی ہو رہی ہے نا تو نکاح کر لے اس سے ہمارے سامنے اگر ہمت ہے تجھ میں نہیں تو خود محلے کی کمیٹی فیصلہ کر لے گی ۔"
بولو اب کیوں خاموش ہو ؟ آرے اس جیسی لڑکیاں صرف بستر ۔۔۔۔"
شٹ اپ ۔۔۔!!!!!!
سمرین بلاآخر چلا اٹھی ۔
ان کی بات پر ایک پل کو صفوان نے خاموش نظر رامین پر ڈالی جو ابھی تک یونہی کھڑی تھی ۔پھر ایک نظر باقی سب کو دیکھا اور ایک فیصلے پر پہنچ گیا ۔
"میں ابھی اور اسی وقت رامین سے نکاح کرنا چاہتا ھوں "
اس نے جتنے اطمینان سے کہا اتنی ھی حیرانی سے سب نے اسے دیکھا تھا انھے تو لگا تھا کہ وہ رامین سے شادی نہیں کرے گا اور یوں وہ کسی نا کسی طرح رامین کی شادی اپنے آوارہ بیٹے سے کروا دیتے ۔ کتنا ھی وہ اسے (رامین )کو برا بھلا کہہ لیتے مگر اس کے کردار کا گواہ تو پورا محلہ تھا ۔عام حالت ہوتے تو کبھی بھی شاید رفیہ رامین کا رشتہ ان کے گھر نا کرتی مگر ایسے حالت میں وہ ڈرا دھمکا کر کچھ تو کر ھی لیتے ۔
رفیہ اور سمرین نے مسکرا کر اسے دیکھا انھے اس خوبرو نوجوان پر فخر ہوا تھا جس نے نا صرف انھے رسوا ہونے سے بچا لیا تھا بلکہ رامین کی زندگی بھی عذاب ہونے سے بچا لی تھی ۔
صفوان سب کو ایک نظر دیکھتا مولوی کا انتظام کرنے باہر نکلا ۔
میں یہ ۔۔شادی نہیں کرنا چاہتی اماں "
نرم مگر ھر احساس سے عاری لہجہ ۔وہ پہلی بار بولی تھی شاید تب سے جب سے اسکے ساتھ حادثہ ہوا تھا ۔
"بیٹا ہماری عزت بچا لو ۔میں تمہارے ابا کا گھر چھوڑنا نہیں چاہتی ۔اور اتنا اچھا بچہ ہے صفوان تمہے خوش رکھے گا ۔انشاءلله "
رفیہ اس کا چہرہ تھام کر بولیں ۔
ایک بے نام آنسو اس کی آنکھ سے نکلا اور اس کے گالوں پر پھسلنے لگا ۔
وہ کیا کر سکتی تھی ؟ صفوان سے شادی کر لیتی اگر جو وہ ۔۔۔ان کے لائق ہوتی ۔صفوان سے شادی کر کے بھی یہ اذیت ہمیشہ ھر لمحہ اس کے ساتھ رہنی تھی اور نا کرنے کی صورت میں محلے داروں کے طعنے اور اس عابد سے شادی "
اس نے کرب سے آنکھیں میچیں ۔درد حد سے سوا تھا ۔ پھر وہ ایک فیصلے پر پہنچ چکی تھی ۔۔کوئی خواب،کوئی احساس جب بچا ھی نا تھا تو اس نئی زندگی سے بھی اسے کون س کوئی فرق پڑنا تھا ؟؟۔صفوان کو وہ کہہ دے گی کہ وہ دوسری شادی کر لیں کیوں کے اس کے پاس ٹوٹے خوابوں کی کرچیوں، زخمی روح کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
"وہ روتے ہوے وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔
"آپی اٹھیں مولوی صاحب آنے والے ھوں گے ۔"
سمرین نے سر سے سرکی اس کی شال دوبارہ اس پر دی اور اسے لیے اندر بڑھ گئی ۔اور پھر ھر جذبات ،ھر احساسات سے ،ھر خواب سے دستبردار ہو کر وہ "رامین عالم " سے "رامین صفوان مراد" بن چکی تھی ۔
کسی روبوٹ ھی کی طرح وہ نکاح نامے پر دستخط بھی کر چکی تھی ۔سمرین اور رفیہ نے اسے گلے لگایا مگر وہ پتھرآئی آنکھیں لیے خاموش بیٹھی تھی ۔
صفوان نے اس کے چہرے پر ایک سنجیدہ نظر ڈالی تھی ۔
انٹی اب اجازت دیں "
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور چلتا ہوا رامین تک آیا ۔
"چلیں "
نرمی سے اشارہ کرتے ہوے اس نے اجازت طلب کی تھی ۔
رامین جس خاموشی سے آئی تھی اسی خاموشی سے اٹھی اور گاڑی میں جا بیٹھی ۔صفوان رفیہ بیگم اور سمرین سے ملا اور ان کی دعائیں سمیٹتا وہ رامین کا مختصر سامان والا بیگ اٹھاے گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔
راستے بھر رامین سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاے آنکھیں موندے لیٹی رہی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رامین اٹھو گھر اگیا ہے ۔
صفوان کے کہنے پر رامین نے بند آنکھیں کھولیں اور اسے دیکھا ۔کچھ بولے بغیر وہ گاڑی سے باہر نکلی ۔ گھر بہت خوبصورت تھا مگر خوبصورتی کو محسوس کرنے کی حس تو وہ گنوا چکی تھی ۔
صفوان کے پیچھے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی وہ اس خوبصورت گھر میں داخل ہوئی ۔داخلی دروازہ عبور کرتے وہ ماربل کے فرش پر چلتے ہوے ایک خوبصورت ہال میں رکے ۔
شاکر !!!
اگلے ھی لمحے ایک درمیانی عمر کا لڑکا دھوڑتا آیا ۔
سلام بھائی ۔۔۔"
وعلیکم السلام ۔۔۔اماں کہاں ہیں اور بابا ؟
صفوان نے بیگ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوے پوچھا ۔
جی بیگم صاحبہ اپنے کمرے میں ہیں اور صاحب بھی اپنے کمرے میں ہیں "
اور یہ کون ہیں ۔۔۔۔؟؟؟؟
اس کا اشارہ رامین تھی ۔
"تمہاری بھابھی ۔۔سامان اوپر رکھ دینا "
صفوان مسکرایا ۔
"سلام بھابھی ۔خوش آمدید "
وہ مسکراتے ہوے بولا ۔
رامین نے محض سر ہلایا ۔شاکر بیگ اٹھاے اوپر بڑھ گیا ۔
آو رامین ۔۔پہلے اماں جان اور بابا جان سے مل لیں ۔"
رامین بھی اس کے پیچھے چلنے لگی ۔
ہال کی بائیں جانب ایک کمرے کے دروازے کے پاس آکر صفوان رکا اور دروازہ کھٹکھٹا کر ناب گھماتا اندر داخل ہوا ۔صفوان کے ساتھ وہ بھی اندر داخل ہوئی ۔
کمرے کے وسط میں ایک پلنگ بچھا تھا ۔دائیں جانب کھڑکی پر دبیز پردے پڑے تھے ۔سامنے رکھے سٹنگ صوفے پر اماں بیٹھی نماز پڑھ رہی تھیں ۔ بائیں جانب ڈریسنگ اور باتھروم تھا ۔صفوان چلتا ہوا اماں کے پاس آکر رکا اور اسے ساتھ والے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا سامنے بیٹھ گیا ۔
السلام و علیکم بیٹا ۔۔ آج پھر لیٹ ؟
کیسی شفیق سی میٹھی آواز تھی ان کی ۔
"اماں لیٹ ہونے کی وجہ آپ کے ساتھ بیٹھی ہے "
وہ ذرا شوخ ہوا ۔
اس کے کہنے پر سیدہ اماں نے ایک نظر اسے دیکھا جو سر جھکائے بیٹھی تھی ۔
صفوان یہ ؟؟
انہوں نے کچھ حیرانگی سے پوچھا ۔
بہو ہے آپ کی ۔۔حالات ایسے ہو گئے تھے کہ نکاح کرنا پڑا ۔"
سیدہ نے مزید نہیں کریدا تھا وہ جانتی تھیں صفوان خود بعد میں اس نکاح کی تفصیل بتا دے گا ۔
اچھا تو کیا نام ہے میری بیٹی کا ؟
انہوں نے مسکراتے ہوے رامین سے پوچھا ۔
"را ۔۔۔رامین "
وہ اٹکتے ہوے بولی ۔
"ماشاللہ کتنی خوبصورت جوڑی ہے تم دونوں کی "
سیدہ اماں نے دونوں کی بلائیں لیں ۔ان کی بات پر صفوان دلکشی سے مسکرایا ۔
"رامین بیٹا کبھی بھی صفوان تنگ کرے تو مجھے بتانا میں آپ کی ماں ھوں "
وہ محبت بھرے لہجے میں اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولیں تو اس نے سر ہلایا ۔
"اماں۔۔۔ بابا ؟؟"
بیٹا وہ سو گئے ہیں ابھی رات بہت ہو گئی ہے تم لوگ بھی جاؤ آرام کرو ۔صبح ناشتے کے میز پر مل لینا ۔"
۔ان کے کہنے پر صفوان سر ہلاتا ہوا ان کے سر پر بوسہ دیتے رامین کو لیے کمرے سے نکلا ۔
وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل رہی تھی ۔
ہال کے وسط میں سیڑھیاں تھیں یقیناً صفوان کا کمرہ اوپر تھا ۔اب وہ دونوں سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ۔
آجاؤ رامین ۔۔۔"
وہ سر جھکائے کھڑی تھی تب صفوان نے اسے کہا ۔
وہ خاموشی سے صفوان کے بیڈ روم میں آگئی ۔
صفوان چلتا ہوا ایک طرف بنے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔رامین نے اس خوبصورت کمرے کا جائزہ لیا ۔
دائیں جانب گلاس ونڈو سے باہر لان کا عقبی منظر نظر آتا تھا ۔گلاس ونڈو پر دبیز سنہرے پردے پڑے ہوے تھے ۔ کمرہ گولڈن اور براؤن تھیم میں تھا ۔وسط میں پڑا جہازی سائز بیڈ ۔بائیں جانب ایک طرف ڈریسنگ روم اور باتھروم تھا اور دوسری جانب ایک اسٹڈی ٹیبل تھا جس پر صفوان کا لیپ ٹاپ اور مختلف فائل پڑی تھیں ۔اور ساتھ ایک ایزی کاوچ پڑا تھا ۔
رامین ابھی اردگرد کا جائزہ لینے میں ھی مصروف تھی جب صفوان ڈریسنگ روم سے نکلا ۔وہ چینج کر چکا تھا ۔
"میں نے تمہارے لیے بائیں سائیڈ والا کبرڈ خالی کر دیا ہے نسیمہ کو بول دوں گا وہ سیٹ کر دے گی جاؤ اور فریش ہو جاؤ ۔میں کھانا لاتا ھوں"
رامین خاموشی سے ڈریسنگ کی طرف بڑھ گئی ۔ نیلے کاٹن کے سوٹ میں تازہ دم ہو کر وہ باہر نکلی ۔کالے لمبے بال پشت پر پھیلے ہوے تھے ۔وہ چلتی ہوئی سنگھار میز تک آئی اور شیشے میں اپنا عکس دیکھا ۔ لاکھ وہ سب کے سامنے حوصلہ کر لیتی مگر تنہائیوں میں وہ اپنے غم چھپا نہی سکتی تھی ۔ آج کتنے الزام لگے تھے اس پر ۔وہ اپنے دکھ کسے بتاتی ؟کس کے کندھے پر سر رکھ کر وہ روتی ؟ سب کو اپنے مقصد یاد تھے اس کا غم تو اس بیچ کسی کو دکھا ھی نہیں ۔ وہ کوئی بےجان چیز تو نا تھی جسے اس طرح سے توڑا مروڑا گیا وہ ایک انسان تھی کیا اس کے جذبات ،احساسات نہیں تھے ۔
ایک آنسو پھر سے اس کی آنکھ کی سرحد پار کرنے کو بےتاب تھا اس نے اسے روکا بھی نہی اگلے ھی لمحے وہ زمین پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔صفوان جو ابھی کھانا لیے کمرے میں داخل ہوا تھا رامین کو ایسی حالت میں دیکھ کر اس نے فورا ٹرے صوفے پر رکھی اور دھوڑتے ہوے اس تک پہنچا ۔
"رامین کیا ہوا کیوں رو رھی ہو ؟"
سب کچھ جانتے ہوے وہ اس سے سوال کر رہا تھا ۔
"کیوں ۔۔۔کیوں ؟؟؟ کیوں کی آپ نے ۔۔مجھ جیسی لڑکی سے ۔۔۔مجھ جیسی سے شادی ؟؟ کیوں برباد کر لی آپ نے اپنی زندگی ؟ یہ جانتے ہوے بھی کہ میرے پاس اب صرف ٹوٹے خواب اور بکھرا وجود ھی رہ گیا ہے ؟؟ کیوں ۔۔۔نہیں چھوڑ دیا اس رات مجھے وہیں ؟؟ مرنے کے لیے ۔؟ کیوں ؟؟؟
وہ اس کے سینے پر مکے برساتے ہوے بولی ۔
"رامین اٹھو کھانا کھاو ۔ریسٹ کرو تمہے ریسٹ کی ضرورت ہے "
مختصر کہتے ہوے صفوان اٹھا اور صوفے پر جا بیٹھا ۔وہ اس کی حالت کو جانتا تھا۔
رامین کیا میں تمہے یہاں تک کھینچ کر لاؤں ؟
صفوان کی سرد آواز پر
وہ اپنا دوپٹہ اپنے اردگرد لپیٹتے ہوے اٹھی ۔
وہ چلتی ہوئی اس تک آئی اور اس سے کچھ فاصلے پر ھی صوفے کے کنارے ٹک گئی ۔صفوان نے پہلے اس کی پلیٹ میں کھانا نکالا اور پھر اپنا کھانا نکالا ۔رامین پلیٹ میں چمچ ادھر ادھر بےدلی سے چلا رہی تھی ۔صفوان اپنا کھانا ختم کر چکا تھا ۔
رامین !!!!!کھانا کھاؤ "
صفوان کے کہنے پر رامین نے اسے دیکھا اگلے ھی لمحے وہ پلیٹ رکھتے ہوے اٹھی ۔
کھا چکی ھوں میں "
وہ کہتی باتھروم کی طرف بڑھ گئی ۔صفوان اسے دیکھ کر رہ گیا ۔
"صفوان بیٹا اب شادی ہو گئی ہے سو بیوی کے نخرے بھی برداشت کرنے ھوں گے "
مسکراتے ہوے اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔اسے کچھ دیر پہلے کا رامین کا رونا یاد آیا ۔لب بھینچے وہ اٹھا اور باہر کو چل دیا ۔ملازمہ کو برتن اٹھانے کا کہہ کر وہ باہر کی طرف چل دیا اس کا ارادہ آفس جا کر سارے دن کے معاملات چیک کرنے کا تھا ۔چونکہ وہ آج سارا دن وہ آفس کو پراپر توجہ نہی دے پایا تھا ۔
رامین وضو کرکے باہر نکلی تو ملازمہ برتن اکھٹے کر رہی تھی اور صفوان کمرے میں نہیں تھا ۔
"سنیں ۔۔!!!"
اس نے ملازمہ کو آواز دی تو وہ پلٹی ۔
جی ؟؟؟؟
تمہارے صاحب ۔۔امم میرا مطلب صفوان کہاں ہیں ؟"
اسے سمجھ نا آیا وہ کیسے پوچھے ۔
"بی بی جی وہ آفس گئے ہیں "
ٹھیک ہے آپ جائیں ۔"
اس نے کچھ حیرانی سے کلاک دیکھا اور پھر ہاتھ میں پکڑا جائے نماز بچھایا ۔اس حادثے کے بعد آج وہ دوبارہ اپنے رب کے روبرو ہونے والی تھی ۔
" اللّه اکبر "
"اللّه سب سے بڑا ہے "
اس کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا ۔
"سبحان ربی العظیم "
"پاک ہے میرا رب جو بڑائی والا ہے "
اس کی آنکھوں سے اب آنسو نکلنے لگے تھے ۔
"سبحان ربی علیٰ "
"پاک ہے میرا رب جو بہت بلند ہے"
وہ سجدے کی حالت میں رو رہی تھی ۔آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر جائے نماز میں جذب ہو رہے تھے۔
۔اسے نہیں یاد تھا کہ وہ کون ہے ؟ مگر وہ یہ جانتی تھی کہ جس کے سامنے وہ جھکی ہوئی ہے وہ اس کا رب ہے جو ھر حال میں اسکی سنے گا ۔ اللّه انسان کو اس کے ظرف سے زیادہ نہیں آزماتے ۔ ایک آزمائش اس پر بھی آئی اب اسے اس آزمائش پر پورا اترنا تھا ۔ اسے اس کے رب کا سہارا تھا اسے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں تھی جو عارضی ہوتا اسے رب کے دائمی سہارے پر بھروسہ تھا ۔سلام پھیر کر اس نے اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے ۔کچھ دیر وہ اپنے جڑے ہاتھوں کو آنسو بہاتے ہوے دیکھتی رہی ۔آہستگی سے اس کے لب پھڑپھڑآئے ۔
"یا اللّه ۔۔۔یا اللّه "
کس قدر کرب و سوز تھا اس کی اس صدا میں ۔
"یا اللّه ۔۔۔۔۔مجھے صبر دے دو ۔مجھے ہمت دے دو ۔"
پھر کتنی ھی دیر وہ یہی دعا مانگتی رہی ۔اس کے علاوہ اب اسے شاید کسی اور چیز کی طلب بھی نہیں رہی تھی ۔
نماز پڑھ کر وہ اٹھی اور ایک نظر کلاک کو دیکھا جو سوا دس کا ہندسا دکھا رہا تھا ۔
وہ سونے کے لیے لیٹی تو کروٹیں بدل بدل کر تھک گئی مگر گزشتہ راتوں کی طرح آج بھی نیند اس پر مہربان نہیں ہورہی تھی ۔تھک کر وہ اٹھی اور درازوں میں ادھر ادھر کچھ ڈھونڈنے لگی ۔ نیند کی گولی پانی کے ساتھ نگل کر وہ بیڈ پر نیم دراز ہوئی اور تھوڑی ھی دیر بعد نیند اس پر مہربان تھی ۔
صفوان سیٹی بجاتا اپنے کمرے میں داخل ہوا ۔لیمپ کی ہلکی،ہلکی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی ۔ بیڈ پر وہ خود میں سمٹے سو رہی تھی ۔صفوان نے اگے بڑھ کر اچھی طرح اس پر کمبل ڈالا اورصوفے پر جا گرا ۔
وہ خود سارا دن مصروف رہا سو لیٹتے ھی وہ نیند کی وادیوں میں کھو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رامین تیار ہو جانا میں شام کو جلدی آوں گا پھر شاپنگ پر چلیں گے ۔"
"نہیں مجھے کہیں نہیں جانا "
وہ دو ٹوک لہجے میں بولی ۔
"ضد نہی کرتے ۔ یاد نہیں اماں جی اور بابا نے صبح ناشتے کے میز پر کیا کہا تھا ۔"
آج صبح ھی ناشتے کے میز پر سیدہ اماں اور مراد صاحب نے رامین کو کھٹی میٹھی ڈانٹ سنائی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ اب وہ شادی شدہ ہے سو سج سنور کر رہا کرے ۔اس سب عرصے میں صفوان بس شرارتی نظریں اس پر جمائے ہوے تھا ۔ ان کی شادی کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔مراد صاحب اور سیدہ بوا نے رامین کو اس کی پسند سمجھ کر قبول کر لیا تھا کیوں کہ یہ زندگی صفوان کی تھی جسے اپنے من چاہے ساتھی کے ساتھ گزارنا اس کا حق تھا ۔رامین انھے بہت اچھی لگی کم گو ، اور خوبصورت ھر بات سر جھکا کر ماننے والی ۔۔رامین کے زخم اب بھر چکے تھے مگر روح ابھی بھی لہولہان تھی۔ رامین زیادہ نہیں تو بہت ریکوور ضرور کر گئی تھی ۔ کیوں کہ اب اسے صبر اس کا رب دے رہا تھا اس نے اس آزمائش میں سرخرو ہونے کے لیے یہ معملا اللّه پر چھوڑ کر صبر کا دامن تھام لیا تھا ۔اب اس نے کمرے سے باہر نکلنا بھی شروع کر دیا تھا ۔ یہ سب صفوان ھی کی توجہ کا اعزاز تھا جو ھر روز آفس سے آنے کے بعد بہانے بہانے سے اسے کمرے سے باہر نکال لیتا اور ادھر ادھر گھماتا تھا ۔اور آج صبح رامین کے ساتھ اسے بھی ڈانٹا گیا کیوں کہ وہی تھا جسے رامین کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا تھا ۔
"صفوان مجھے نہی جانا "
وہ اس شخص کی ضد کرنے کی عادت سے تنگ آچکی تھی ۔
کیا مطلب میں اماں کو بتاتا ھوں "
صفوان دروازے کی طرف مڑا ۔
نہیں ۔۔۔میں ۔۔چلوں گی ۔"
صفوان نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔
"آپ کی دھمکی سے ڈری ھوں اب یوں دانت نکال کر نا دیکھیں ورنہ ۔۔"
صفوان کو خوش گوار حیرت ہوئی وہ اس سے نارملی بات کر رہی تھی ۔
"ورنہ کیا ؟؟ "
مسکراہٹ دباتا وہ دو قدم اگے آیا ۔
"میں ۔۔۔میں آپ کے یہ دانت توڑ دوں گی "
اسے دھمکی دیتی وہ باتھروم کی طرف بھاگ گئی ۔
صفوان ہنستا ہوا باہر نکلا ۔
"یعنی کے دھمکی کے بدلے دھمکی "
اس نے دل میں سوچا ۔
صفوان اب بس کریں پچھلے دو گھنٹوں سے آپ نے اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی خوار کرنا لیا ہے پلیز گھر چلیں ۔"
وہ غصے سے اس کے ہمقدم ہوتے بولی جو پچھلے دو گھنٹوں سے کبھی ادھر کبھی ادھر یوں شاپنگ کرواتا پھر رہا تھا کہ شاید اگلے آٹھ نو سیزن انہی کپڑوں کو استعمال کرنا تھا ۔
رامین ایک منٹ پلیز ۔۔مجھے وہ ڈریس دیکھنے دو اچھا لگے گا تم پر "
کونے میں ڈسپلے کپڑوں کے ریگ میں موجود ایک بلیک سوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوے وہ بولا ۔
پلیز صفوان "
آرے ۔۔لڑکیوں کو تو کریز ہوتا ہے شاپنگ کا مگر تم میں عجیب کوئی بوڑھی روح گھسی ہوئی ہے "
وہ ہنستے ہوے اب اس بلیک ڈریس کے ساتھ مزید دو ڈریس پسند کیے کاؤنٹر کی طرف جا رہا تھا ۔
"ہاں ان کے پاس حسین خواب ہوتے ہیں جن کی تعبیر بھی وہ پا لیتی ہیں ،ان کے پاس ڈھیروں احساسات ہوتے ہیں ،مگر میرے پاس ایسا کچھ نہی ہے صرف ٹوٹے بھکرے خواب اور احساسات ہیں ۔"اب چلیں "
پلیز ۔۔۔!!!!
وہ باہر کی طرف بڑھی صفوان بھی بےچین سا اس کے پیچھے بڑھا کیوں کہ وہ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رامین سارا راستہ خاموشی سے باہر دیکھتی رہی ۔گھر پہنچ کر اس نے خاموشی سے کھانا کھایا اور اوپر چلی گئی ۔صفوان کو اس کی ناراضگی شدید محسوس ہوئی تھی ۔سیدہ بوا کمرے میں تھیں اور کھانا بھی انہوں نے وہیں کھایا تھا ۔مراد صاحب کسی دوست کے ہاں گئے تھے ۔صفوان کو رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا آخر اس نے رامین کی بات کیوں نہیں مانی تھی ۔
"رامین سوری "
نماز پڑھ کر جب وہ بیڈ پر سونے کے لیے آئی تو صفوان جو کافی دیر سے خود میں ہمت پیدا کر رہا تھا آخر کار بول اٹھا ۔
"نہیں صفوان آپ قصور وار نہیں ہیں ۔ آپ کیوں معافی مانگ رہے ہیں؟؟۔معافی تو مجھے مانگنی چاہیے کاش اس روز وہ گاڑی آپ کی نا ہوتی ۔۔۔کاش ۔۔میں ہسپتال میں مر جاتی ۔۔۔کاش میں ۔۔کاش میں زندہ ھی نا ہوتی ۔۔آپ ۔۔آپ بھی تو ایک انسان ہیں آپ کے بھی جذبات ، احساسات ہیں آپ کی ۔۔بھی خواہش ہو گی ھر دوسرے لڑکے کی طرح کہ آپ کی ہمسفر ۔ پیور ہوتی مگر ۔۔۔میں ۔۔میں ایسی نہی ھوں صفوان آپ سے ایک درخواست ہے ۔۔۔آپ بیشک مجھے ۔طلاق نا دینا مگر آپ دوسری شادی کر لینا صفوان میں اس لائق نہیں کہ آپ جیسے شخص کا ساتھ دوں میں خود کو اس لائق نہیں سمجھتی ۔آپ خود پیور ہیں مگر آپ کو بیوی کیسی ملی ؟ "
وہ سر جھکاے روتے ہوے بول رہی تھی ۔صفوان نے اسے نہیں روکا وہ چاہتا تھا کہ وہ رو لے کم از کم اس کا غم ہلکا ہو ۔ وہ جو کہنا چاہتی ہے کہہ لے اور آج دل کا غبار بھی نکال دے ۔وہ چاہتا تھا کہ عام لوگوں کی طرح وہ بھی ایک نارمل زندگی گزارایں مگر یہ صرف تب ممکن تھا جب رامین کی حالات نارمل ہوتی ۔
"صفوان آپ کو ۔۔آپ کو پتا ہے ؟ میرے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں مجھے چھبتی ہیں یہ تکلیف مجھے رات بھر سونے نہیں دیتی صفوان ۔۔۔۔!! مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ محض میری عزت بچانے کے لیے آپ نے اپنے خوابوں کو داؤ پر لگا دیا ۔صفوان مجھے درد ہوتا ہے تکلیف ہوتی ہے ۔صفوان مجھے رات بھر نیند نہیں آتی ۔زخم بھر گئے صفوان مگر ۔۔میری ۔۔روح ابھی تک لہولہان ہے ۔صفوان میں مر کیوں نہیں جاتی ؟"
اس کی آخری بات پر صفوان نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا ۔
"رامین پلیز "
اس نے اسے روکنے کی کوشش کی اور اس کے گرد اپنے بازو حمائل کیے ۔وجہ اپنی موجودگی کا احساس دلانا تھی ایک تحفظ کا احساس دلانا تھی ۔ایک رشتے ،محبت کا احساس دلانے تھی ۔
رامین تو کب سے ایک کندھے کی تلاش میں تھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی صفوان خاموش بیٹھا تھا مگر اس کے ہاتھ تھپکتے اپنی موجودگی کا احساس وہ اسے دلا رہا تھا ۔
"رامین "
جب وہ روتے روتے تھک گئی تو پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھاتے ہوے اس نے آہستگی سے اسے بلایا ۔رامین نے اس کے کندھے سے سر ہٹایا اور پانی پینے لگی ۔ پھر جھجھک کر دور ہوئی وہ کب سے اس کے کندھے پر سر رکھے رو رہی تھی ۔
"رامین ادھر آو میرے پاس "
صفوان نے اسے اس کی سابقہ جگہ پر بلایا مگر وہ مزید دوسری جانب کھسک گئی ۔ صفوان نے ہاتھ بڑھا کر اسے بازو سے پکڑ کر واپس بیٹھایا ۔
"یہ جو تم نے اپنے مرنے کی باتیں کیں ہیں رامین مجھے سن کر بہت دکھ ہوا ہے ۔ ہم دونوں کا ساتھ ایک دوسرے کی قسمت میں لکھا تھا تبھی تو قسمت نے اس روز ہم دونوں کو روبرو کیا تھا تمہے میرے ساتھ زندگی گزارنی تھی یہ تمہاری قسمت میں لکھا جا چکا تھا اور پھر ھر حال میں رامین کو صفوان مراد کے لیے زندہ رہنا تھا ۔ ہاں میرے بھی جذبات اور احساسات ہیں رامین مگر وہ سب تم سے جڑے ہیں کیوں کہ میری بیوی تم ہو رامین کوئی دوسری یا تیسری نہیں اور ایک بات جو ہوا ہے یہ سب قسمت کا چکر تھا رامین ۔میں نے تم سے بڑھ کر کسی بھی لڑکی کو پیور نہی پایا ۔ تم معاملات میں ،دوسروں کو ڈیل کرنے میں ، رشتوں میں اور محبت کرنے میں بہت پیور ہو رامین تمہاری اللّه سے محبت بہت پیور ہے رامین ۔۔۔اور اس محبت میں بھی بہت پیور ہو جو تم مجھ سے کرتی ہو ۔۔۔۔"
آخر میں صفوان کے شرارتی لہجے پر رامین نے جھٹکے سے اپنا سر اٹھایا ۔
آپ سے ؟؟؟؟ جی بلکل بھی نہی کس نے کہا آپ سے ؟
وہ ناک رگڑتے ہوے بولی ۔
"تمہاری آنکھوں نے "
صفوان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو صاف کیے ۔
وہ صفوان کی بات پر سر جھکا گئی پھر سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو آنکھوں میں اب آنسو نا تھے ۔ہاں وہ اپنے شوہر سے محبت کرتی تھی بے حد اور بےحساب ۔وہ کیسے نا اس سے محبت کرتی وہ شخص جو اس کی اتنی پروا کرتا ہو جو اس کا اتنا خیال رکھتا ہو کہ مقابل کو اپنے ہونے پر ھی فخر ہو تو کیسے نا محبت ہو ؟ وہ اس کا محرم تھا اسے حق تھا اظہار کا ۔ "جی میں آپ سے محبت کرتی ھوں صفوان آپ میرے شوہر ہیں ۔مگر صفوان میں ابھی ناکردہ گناہوں کا بوجھ اٹھاتی پھر رہی ھوں صفوان میں تھک گئی ھوں "
وہ پھر سے رو رہی تھی ۔
رامین رو مت ایک بات بولوں ۔
وہ اس کا رخ اپنی طرف کیے پوچھنے لگا ۔
جی ؟؟؟
میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ھوں ۔۔"
وہ محبت بھرے لہجے میں بولا ۔
"کس سے؟ مجھ سے ؟"
وہ حیرانی سے پوچھ رہی تھی ۔
"نہیں ہمسائے کی بیوی سے "
وہ چڑ کر بولا ۔
شرم کریں آپ کچھ "
وہ اس کے مذاق کو سمجھتی اسے خفگی سے گھورنے لگی ۔
"بندے کی پرسنل پراپرٹی ہو یار تم اب اتنا تو حق بنتا ھی ہے میرا "
وہ اس کی ناک کھینچتا ہوا بولا ۔
"صفوان نا کیا کریں آپ ۔۔۔یہ مرق ناک اتنی زور سے کھینچتے ہیں آپ "
وہ اس کے ہاتھ ہٹاتی منہ بنا کر بولی ۔
"تم اچھے خاصے رومانٹیک بندے کا موڈ تباہ کرنا جانتی ہو بیوی"
وہ خفگی سے بولا ۔
"میں نے کیا کیا ؟"
وہ کندھے اچکاتے ہوے بولی ۔
"بتاؤں ؟"
صفوان نے شرارت سے پوچھا ۔
"بتائیں ؟"
"تم نے چوری۔۔۔ اممم نہیں (وہ رک کر کچھ سوچنے لگا)ہاں تم نے ڈاکا ڈالا ہے چوری تو معمولی سی بات ہے ۔"
وہ مسکرایا ۔
"میں نے کوئی ڈاکا نہی ڈالا سچ میں۔ میں ایسی نہیں ھوں "
"ہاہاہاہا بیوی صاحبہ ڈاکا تو تم نے ڈالا ہے اور اس کی سزا بھی ملے گی "
"حد ہے آپ بولیں بھی ؟"
"مجھ یعنی صفوان مراد پورے کے پورے پر ڈاکا ڈالا ہے تم نے "
وہ پھر سے اس کی ناک دبا رہا تھا ۔ رامین نے چڑ کر اسے دیکھا یعنی حد ہے ۔ پھر ایک خوبصورت مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی ۔یہ وجیہہ مرد اللّه نے اس کی قسمت میں لکھا تھا ۔
وہ رامین کے لونگ کو چھیڑ رہا تھا جو اس کی ستواں ناک میں بہت جچ رہا تھا ۔
"رامین "
اس نے آہستہ سے اسے پکارا ۔
"جی ؟؟"
وہ منتظر تھی اسے سننے کو ۔
"کیا تم سزا کے طور پر عمر بھر کے لیے اس بندے کی ہونا پسند کرو گی ۔اور یقین دلاتا ھوں یہ سزا بہت خوبصورت ہے جسے بار بار تمہارے ہمراہ جینے کے لیے کئی زندگیاں بھی کم ہیں ۔رامین مجھے اپنا ساتھ دے دو میں تمہارے دکھ چن لوں گا "
وہ اب مسکرا رہا تھا ۔
"اممم ۔۔مجھے سزا قبول ہے "
وہ کھلکھلائی تھی ۔صفوان اب اسے تنگ کر رہا تھا صفوان کی کسی بات پر وہ اسے گھور رہی تھی توکسی بات پر وہ اس کے ہمراہ ہنس رہی تھی ۔ وہ اس کے حال کا محرم تھا ۔وہ سچے مردوں میں سے تھا ۔ اس نے محرم کے ساتھ کو چنا تھا اس ساتھ کو جو اس کا ساتھ چاہتا تھا صدق دل سے ۔ اندھیروں سے روشنیوں کا سفر دونوں نے مل کر طے کرنا تھا ۔زندگی میں اگے آنے والے ھر لمحے میں دونوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دینا تھا ۔یہ شخص اس کی قسمت تھا اور خود وہ اس شخص کی قسمت تھی ۔سہی کہتا تھا وہ شکر ادا کرنے کے لیے ایک زندگی بھی بہت کم تھی ۔آسمان پہ موجود چاند مسکراتے ہوے ان کی نوک جھوک سے لطف اٹھا رہا تھا ۔تارے ان کی رفاقت کے گواہ بن رہے تھے اور وقت ان لمحات کو خود میں قید کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
°ختم شد °♥
How was the story ?
Comment ,and vote please .
Follow us on Instagram
@___novelianz___
YOU ARE READING
میرے حال دا محرم✔
Short Storyیہ ایک شارٹ سٹوری ہے ۔جب ہم کوئی ناول سٹارٹ کرتے ہیں اور سٹارٹ پر یا بیچ میں ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہیروئن کے ساتھ ریپ ہو چکا ہے اور باقی ہیروئن کی طرح وہ ہمارے ہیرو کے لیے شفاف نہیں رہیں تو ہم میں سے اکثر صرف اسی بنیاد پر ناول پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ی...