مکمل کہانی

2K 105 37
                                    

"چاند نظر آگیا!" وہ اپر کمرے سے بھاگتی ہوئ نیچے سیڑھیاں پھیلانگتی ارم بھابھی سے ٹکراتی ہوئ بچتی بچتی لاؤنچ میں بھیٹے بڑوں کے پاس آئ اور چلاتی ہوئ خوشی سے بولی جبکہ سب ہنسنے لگے۔
"سعودی عرب میں نظر آیا ہے آینور۔" فرح چچی نے ہنس کر کہا تو وہ منہ بنا کر رہ گئ۔اس نے صرف ہیڈلاین ہی پڑھی تھی اب ملک کا نام پڑھنا جوش میں بھول گئ تو اس کی کیا غلطی ہے؟
"یعنی ہماری عید پرسوں ہے۔" ماریہ نے جوش سے کہا تو سب نے سر ہلایا جبکہ وہ کھیسا کر واپس اپنے کمرے میں جانے لگی جب اچانک اپنے جانی دشمن طوفیل سے ٹکرا گئ۔
"دیکھ کر نہیں چل سکتے اندھے۔" اس نے غرا کر کہا۔
"ایک منٹ تم یہاں یہاں کیا کررہی ہو جلدی سے کمرے میں جاؤ۔" اس نے بوکھلا کر کہا تو اسے اچھبنا ہوا۔
"کیوں اتنے برے دن نہیں اۓ کہ میں تمھارے حکم کی تعمیل کروں۔" وہ دانت پر دانت جماۓ بولی۔
"ارے میں تو تمھاری ہی بھلائ کے لیے کہہ رہا ہوں اپنی زندگی پیاری نہیں ہے۔" وہ آنکھیں دکھاتا بولا تو وہ حیران رہ گئ۔
"کیا مطلب ہے؟"
"ارے یار کمرے میں جاؤ عید سر پر ہے کوئ تمھیں بکری سمجھ کر زباع نا کردیںم" وہ کہہ کر جاندار قہقہ لگانے لگا جبکہ اس کی کان کی لو تک سرخ ہوگئ،اس نے دانت پیستے برابر میز پر رکھا پانی کا گلاس اٹھایا اور قہقہوں میں مست اس کے اپر انڈیل دیا۔
"اور تم بھی نا اپنے کمرے میں رہو کوئ تمھیں قسائ سمجھ کر اپنے گھر قربانی کروانے کے لیے نا لے جاۓ۔" وہ گلاس اس کے ہاتھ پر رکھتی حساب پوری کرتی اس کے سایڈ سے نکل گئ جبکہ لاؤنچ سے نکلتی ماریہ طوفیل کو سن گیلا لت پت دیکھ اپنا قہقہ قابو نا کرسکی تھی۔
"آینور کی بچی۔" وہ مٹھیاں بیچتے ہوۓ غرایا۔
"ابھی نہیں ہوئ جس دن ہوگی نا اس دن خود ماموں پکارتی آجاۓ گی۔" وہ سیڑھیاں چڑھتی پیچھے سے آواز لگاتی کمرے تک پہنچ گئ جبکہ ماریہ کا ہنس ہنس کر برا حال ہوچکا تھا۔
"تم سے تو میں بدلہ لے کر رہونگا۔" وہ دانت پیستے ہوۓ بولا اور ایک کاٹ دار نظر ہنستی ہوئ اپنی اکلوتی بہن ماریہ پر ڈالتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
"یا اللہ یہ لوگ بچپن سے کزن نہیں دشمن ہے بس اس عید پر ان دونوں کو ملا دینا۔" وہ اپنی دھن میں دعا کرتی ناہلا تائ کے پاس باورچی خانے میں چلی گئ۔
طوفیل آینور ماریہ اور شہنیلا فاہد دانش ایک دوسرے کے کزن تھے۔طوفیل اور ماریہ ارم چچی اور مہتاب چچا کے بچے تھے اور آینور اکلوتی ناہلا تائ کی بیٹی تھی،اس کے ابو کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔شہنیلا فاہد اور دانش ان کی زکیہ پھوپھو کی بچے تھے جو ملتان سے خاص عید کے موقع پر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے بھائ کے گھر آئ تھیں۔
مہتاب چچا جنہوں نے اپنے بھائ کے انتقال کے بعد بھی اپنی بھابھی ناہلا اور بھتیجی آینور کو پرایا نا کیا تھا بلکہ اپنے بچوں سے زیادہ پیار کیا۔آینور ان کی لاڈلی تھی جبھی تھوڑی ضدی تھیں،ہاں کوئ مہتاب چچا سے اجازت یا بات نا کرپاتا تھا وہی وہ آرام سے ان سے ہر قسم کی بات کرلیتی تھی اور اس کا فایدہ اٹھا کر اس نے بچپن سے اب تک طوفیل کو بڑا ہی ڈپٹایا تھا جس پر اس کی اور آینور کی جنگ چڑھی رہتی ویسے بھی بچپن سے ان دونوں کی نہیں بنتی،دونوں کے مزاج کافی مختلف تھے ایک مغرب تھا تو ایک مشرق البتہ ماریہ اس کی دوست تھی۔
مہتاب ہاؤس میں ہنگامے روز کا حصہ تھے۔ایسا ایک دن بھی نا گزرتا تھا جہاں کچھ ڈرامہ دیکھنے کو نا ملے اسیلیے ماریہ نے اس گھر کا نام مہتاب ہاؤس سے ڈرامہ ہاؤس رکھ دیا تھا جس کو سن کر کئ دیر تک آینور کو قہقہ سننے کو ملتے تھے۔
اب اس عید پر ہنگامے تو ہونے تھے اور ماریہ کی دعا سے جو اصل کہانی بننے والی تھی اس کا مزہ ہی الگ تھا بلاشبہ اس سال کی عید کافی رنگ لانے والی تھی جو اپنوں کے سنگ گھلنے تھے۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Feb 26, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

عید کے حسین رنگ کچھ اپنوں کے سنگ از زینب خانWhere stories live. Discover now