(Part 2)
گاڑی کی آواز آئی گیٹ کھولا اور گاڑی اندر داخل ہوئی۔ اور کسی نے آواز دی اشزاہ۔ اشزاہ جو ٹیبل پر منہ رکھ کر آج کے دن کو کوس رہی تھی۔ اوپر دیکھا تو فوراً سے بھولی ضامن بھائی ۔ ضامن جو کہ ابھی ہاسپٹل سے ڈیوٹی کر کے آیا تھا۔ اشزاہ بھائی کا نام لے کر ساتھ ہی رونے لگی کیا ہوا بچے رو کیوں رہی ہو بھائی میں گِری ہوں۔ کیسے؟ بھائی آپ کو سب پتا آپ جان بوجھ کر مجھ سے پوچھ رہے ہیں نا آپ کو امی نے بتا دیا نا پتا مجھ ساتھ ہی رونے میں اضافہ کر دیا۔ پیچھے سے اشزاہ کا چھوٹا بھائی فارس بولا بھائی آپ کو پتا آپی سائیکل پر کالج گی تھی ۔ آپ کو تو پتا ہے نہ آپی کو ٹھیک سے سائیکل چلانی نہیں آتی تو آپی نا۔۔۔۔۔ تم چپ کرو بھائی نہیں میں کالج گئی تھی سائیکل پر پر مجھے سائیکل چلانی آتی ہے یہ جھوٹ بول رہا۔ تو مطلب تم سچ میں سائیکل پر گئی تھی۔ او شٹ یہ کیا کر دیا میں نے اب کیا کرو۔ سب نے کہا کہ اشزاہ سائیکل لے کر کالج گئی ہے میں نہیں مانا میں نے کہا میری اشی ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ اُس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں سائیکل لے دوں وہ صرف گھر میں اور پارک میں چلیے گی۔ سب نے تمہاری شکایت کی مگر میں نے تم سے پوچھا تو تم نے کہا نہیں بھائی میں نہیں لے کر گئی مگر اب میں نے فیصلہ کیا کہ سائیکل فارس کو دے دوں ۔ فارس یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ کیوں کہ مجھے لگتا وہ سائیکل گھر پر چلیے گا۔ جب ضامن نے اشزاہ کو سائیکل لے کر دی تھی تب ہی اس نے کہا تھا کہ بھائی مجھے سائیکل لے کر دینی تھی۔پر میں نے تمہیں لے کر دی کیونکہ تم نے کہا تھا میں صرف گھر میں اور پارک میں چلاؤں گی وعدہ۔ بھائی لادیں نا پلیز اچھا ٹھیک ہے۔ اور پھر کچھ دنوں بعد ضامن سائیکل لے آیا۔ سائیکل دیکھ کر فارس بہت خوش ہوا ۔ منہ تو تب بنا جب ضامن نے بتایا کہ یہ وہ اشزاہ کے لیے لایا ہے بھائی آپ نے مجھے سائیکل لے کر دینی تھی اور آپ نے آپی کو لے دی یہ تو غلط ہے۔ فارس کو یاد آیا اور اب جب اُسے وہی بہت پیاری سی سائیکل مل رہی تھی جو اُسے تب بہت پسند آئی تھی۔ تو وہ بہت خوش تھا ویسے تو ضامن نے سوچا ہوا تھا کہ اس بار وہ آٹھویں جماعت پاس کر لے تو وہ اُسے سائیکل لے دے گا۔ اب جبکہ اشزاہ کی بہت بار کمپلینٹ آ چکی تھی اور لاسٹ ٹائم ورنگ دے کر چھوڑا تھا تو پھر یہی سوچا کہ یہی دے کیونکہ اشزاہ کو سزا بھی تو دینی تھی۔
______________
اسفندیار اشر کے گھر سے غصے سے نکلا رہا تھا راستے میں آتی ہوئی اشر کی امی سے ٹکرایا ۔ سو سوری آنٹی جی وہ میرا دھیان نہیں تھا۔ اسفیی جو ہر وقت ہسی مذاق کے موڈ میں رہنے والا انسان ہے آج وہ کچھ اُلجھا ہوا لگ رہا تھا۔ کیا بات ہے بیٹا پریشان لگ رہے ہو نہیں آنٹی ایسا نہیں ہے۔ اچھا آنٹی جی میں چلتا ہوں یہ کہہ کر باہر نکل گیا ۔ پتا نہیں کیا ہوا ضرور اشر نے ڈانٹا ہو گا پتا نہیں اشر اتنا سریس کیوں ہے خیر خود ہی منا لے گا رہتا بھی نہیں ہے اس کے بغیر۔
_________________
اشزاہ کی امی باہر آئیں آ کر دیکھا کہ ضامن آگیا تو بھولیں ضامن بیٹا بہن کا پاؤں دیکھ لو ۔ جی امی جی۔ لاؤ ادھر کرو اشزاہ جو ابھی تک اپنے سائیکل کو فارس کو دینے پر منہ بنائے ہوئے تھے۔ غصے سے بولی میں ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہوا مجھے ساتھ ہی اُٹھنے لگی اور چیخ پڑی میرا پاؤں اور ساتھ ہی پھر بیٹھ گئ۔ وہی دیکھ رہا تھا اب بیٹھ جاؤ یہاں فارس اندر سے میرا فرسٹ ایڈ بکس لاؤ ۔ جی بھائی۔ فارس جلدی سے اندر گیا فرسٹ ایڈ بکس لے آیا ضامن نے اشزاہ کا پاؤں پکڑا اور اُس کو موڑا ۔اور یہ اشزاہ کی چیخ نے سارا گھر ہلا دیا۔
_______________اشر بھاگ کر سڑیاں اتر رہا تھا اپنی امی سے بولا امی اسفیی ۔ ہاں ابھی نکلا ہے۔ کچھ الجھا ہوا لگ رہا تھا۔ جی امی آ کر بتاتا ہوں۔اور پھر اشر جلدی سے باہر کی طرف بھاگا اسفیی جو گاڑی سٹارٹ کرنے کے لیے چابی لگا رہا تھا مگر چابی نیچے گر گئی۔ اس سے پہلے کہ اسفیی اُٹھتا اشر نے اٹھا لی اور دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔ شیشہ نیچے کرکے بولا آ جا آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔ اشر کو پتا تھا چاہے اسفیی کا موڈ کتنا ہی خراب کیوں نہ ہو آئس کریم کے نام پر وہ فوراً گاڑی میں بیٹھ جائے گا۔ دیکھ میں بیٹھ رہا ہوں پر میرا موڈ خراب ہے ابھی بھی۔ ہاں ہاں پتا ہے ۔ بیٹھ۔ ہاں بیٹھ رہا ہوں ساتھ ہی بیٹھ بھی گیا۔ اور بولا میں چکلٹ فلیور کھاؤں گا۔ اچھا۔ اور اشر نے گاڑی سٹارٹ کر دی اور وہ نکل پڑے۔
________________
اشزاہ کے پاؤں کی موچ تو نکل گئی تھی ضامن نے گرم پٹی بھی کر دی تھی۔اور پین کلر بھی دے دی تھی۔ اسکا چھوٹا بھائی باہر سائیکل چلا رہا تھا اور وہ کمرے میں بیٹھ کر کھرکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔ اور سوچ رہی تھی ۔ بھائی نے اچھا نہیں کیا بھائی ایسا نہیں کر سکتے تھے اور پھر ساتھ ہی بیڈ سے اٹھی اور غصے میں باہر نکلی ابھی سڑھیوں سے اتر ہی رہی تھی کے گر گئی اور اشزاہ کی چیخ گھر میں گونجی۔ اشزاہ کی امی جو کچن میں کام کرنے میں مصروف تھیں آواز سن کر باہر نکلی اور سامنے اشزاہ کو گِرے ہوئے دیکھا ۔ اللہ کیا ہوا میری بچی ۔ اوپر سے ضامن بھی آگیا کیا ہوا ۔ سامنے اشزاہ کو بہوش دیکھ کر فوراً بھاگا اور اشزاہ کو اٹھایا اور ہال میں پڑے سوفے پر لٹایا اور امی سے پانی کا کہا فارس بھی اشزاہ کی آواز سن کر آیا تھا دیکھ کر پریشان ہو گیا ضامن نے فارس کو بولا کے وہ فرسٹ ایڈ بکس لائے فارس جلدی سے گیا ۔ امی پانی لے آئیں لا رہی ہوں۔ یہ لو پانی۔ جی ضامن نے پانی کے چھینٹیں اشزاہ کے منہ پر مارے ۔ پانی کی چھینٹیں پڑنے سے اشزاہ کے وجود میں جنبشِ ہوئی۔ اشزاہ اشزاہ ضامن بولا۔ اشزاہ نے آنکھیں کھولیں تو شازیہ بیگم نےفوراً اشزاہ کو ساتھ لگیا میری بچی اور پیار کرنے لگیں۔ فارس فرسٹ ایڈ بکس لے آیا ضامن نے بی پی چیک کیا تو بی پی بہت لو تھا ۔ ضامن نے امی سے پوچھا اس نے کچھ کھایا ہے ۔ ہاں کھایا تھا جب کالج سے آئی تھی تو میں نے بنا کر دیا تھا۔ صبح ناشتہ نہیں کر کے گئی تھی تبھی یہ حال ہے۔ ضامن نے اپنا میڈیسن بکس کھولا اور بی پی کی میڈیسن دی۔ بھائی مجھے نہیں کھانی۔ ایسے ہی نہیں کھانی۔ دودھ بھی لایں۔ اشزاہ منہ کے زاویے بنانے لگی ۔ اچھا نہیں کھانی تو انجکشن لگا دیتا ہوں۔ نہیں میں کھا لیتی ہوں یہی۔ ٹھیک ہے پھر کھاؤ اور اشزاہ کو میڈیسن کھانی پڑی۔ کھا کر منہ بنانے لگی۔ امی دودھ لیں بھی آئیں۔ یہ لو پیو۔ بھائی! کچھ نہیں ہوتا پیو پیو شاباش ساتھ ہی ہاتھ اشزاہ کے کندھے پر رکھا ۔ جلدی کرو۔ اشزاہ نے بھائی کو دیکھا اور دودھ پینے لگی۔ دروازے کی آواز آئی ۔ تو اشزاہ کی امی نے کہا آپ لوگوں کے بابا بھی آگئے۔ میں کھانا لگا دیتی ہوں۔ اور ساتھ ہی کچن میں چلیں گئیں۔
_______________Agla part subo mila ga readers hope so ap log enjoy kar raha ho
YOU ARE READING
Zindagi ajeeb si
Romanceآنکھیں دو ھیں مگر، نظر ایک ہی آتا ھے...!!🥀 آنکھوں سے سیکھ لیجئیے توحیدِ دلبرانہ🔥