دل آشنا ۱

35 2 0
                                    

   ؎کرے جب تذکرہ کوئی

کرے جب تبصرہ کوئی

تمہاری زات کو سوچے

تمہاری بات کو کھوجے

مجھے اچھا نہیں لگتا

سنو!اچھا نہیں لگتا

تمہاری ایک آہٹ پر

ہزاروں لوگ مرتے ہیں

تمہاری مسکراہٹ پر

ہزاروں دل دھڑکتے ہیں

کسی کا تم پہ یوں مرنا

مجھے اچھا نہیں لگتا

سنو! اچھا نہیں لگتا

مجھے اچھا نہیں لگتا....

اُس نے اشعار کو پڑھا ایک بار... پھردو بار.... پھر تیسری بار.... پھر پھر بار.... وہ پڑھتا گیا جب تک اُسے ایک ایک لفظ ازبر نہ ہوگیا ہو.... جب تک اُس نے محسوس نہ کرلیا ہو... جب تک اُسے اچھا نہ لگ گیا ہو.... جب تک وہ حرف بہ حرف ایمان نہ لے آیا ہو.... جب تک اُس کا دل نہ بھر گیا ہو..... وہ پڑھتا گیا پڑھتاگیا۔

سبز پتوں کے پرنٹ پہ چھوٹے چھوٹے خوبصورت لیلی کے پھولوں سے مزین یہ ہینڈمیڈ کارڈ بے حد حسین تھا اور کارڈ سے زیادہ حسین اُس

پہ سیاہ روشنائی سے لکھا یہ شعرجو اپنے ایک ایک حروف سے اپنی سچائی بیان کررہا تھاہرہر لفظ سے جذبوں کا اظہار انتہائی دلکش تھا۔ اپنے آپ میں یکتا تھا۔اِس کارڈ میں سے اُٹھنے والی خوشبو اُسے شناسا سی محسوس ہورہی تھی۔ وہ لبوں پہ حسین مسکراہٹ سجائے، نرماہٹ اور آہستگی سے دھیرے دھیرے تحریر پر ہاتھ پھیر رہا تھا جیسے اِسے محسوس کررہا ہو وہ اُنگلیوں کی پوروں سے تحریر کو ایسے چھو رہا تھا جیسے کسی ان دیکھے وجود کو چھو رہا ہو۔اِن لفظوں کو عقیدت سے دیکھتا اُن میں پوشیدہ جذبوں کی تاثیر اپنے اندر اُتا ر رہا تھا۔ ایک خوبصورت مسکراہٹ اُس کے لبوں پہ ٹھہری ہوئی تھی۔ اور نظریں سامنے ٹیبل پہ پڑے بکٹ پر تھیں جس میں صرف سترہ لیلیز تھے۔ ہمیشہ کی طر ح صرف سترہ پھول۔ وہ خوش تھا بہت خوش اُس کی مسکراہٹ میں ایک عجب ہی خمار تھا آنکھوں میں شوخی نمایا ں تھی، اُس کی خوشی اُس کے چہرے پہ عیاں تھی وہ اِس وقت خود کو کسی سلطنت کا بادشاہ تصور کررہا تھا۔اُس نے ہاتھ بڑھا کے پھولوں کو اُٹھا یا وہ اُنہیں دیکھنے میں محو تھا اور نہ جانے کتنی ہی دیر یوں فرصت کے مزید گذر جاتے اگر دروازے پہ مانوس دستک نہ ہوئی ہوتی۔

اُس نے نظریں اُٹھا کے سامنے دیکھا گلاس ڈور کے پا ر وہ سفید رنگ کے دھاگوں کی کڑھائی والے کرتے پہ سفید رنگ کے ٹراؤزر میں ملبوس تھی اُس کے لمبے گھنے گولڈن براؤن بال لیئر کٹینگ کے ساتھ اسٹیریٹ ہوئے ایک سائیڈ سے کندھے پر گرے تھے کانوں میں موجود ہیرے کے ٹاپس دور سے ہی جگمگ کررہے تھے براؤن سن گلاسزبالوں میں اڑسے ہوئے تھے اور گولڈن براؤن آنکھوں میں بیزاری تھی ہاتھ میں براؤن لیدر کا شولڈر بیگ تھامے بیزار سی صورت بنائے کھڑی تھی۔اُس کی شوخ نظروں میں ناگوری اُ بھری اور ٹھنڈی آہ بھر تے ہوئے اُس نے سر کو ہلکا ساخم دے کر اندر آنے کی اجازت دی۔اُس کے ہاتھ اب بھی کارڈ اور پھولوں پر تھے۔ وہ جو بیزاری سے لیس باہر انتظار میں کھڑی تھی اجازت ملتے ہی برق رفتاری سے اندر داخل ہوئی اور اُس کی نازک سی پینسل ہیل کی کھٹ کھٹ نے سامنے کرسی پہ بیٹھے شخص کو مز ید تپا کے رکھ دیا۔

دل آشناءWhere stories live. Discover now