ہم ادھورے سے

145 11 17
                                    

قسط نمبر #3

شطرنج

ازقلم: علینہ فاروق

جنید نے کچھ کہنے کے لیے لب وا کیے ہی تھے کے اس کے موبائل کی بیپ ہوئی۔۔۔۔
سکرین پہ آنے والا نام دیکھتے ہی اس نے کال کاٹی اور پھر سر اٹھا کر سجل کی طرف دیکھ کر کچھ کہنا چاہا۔
مگر وہ جیسے اس کی کچھ سننے کی قائل ہی نہیں تھی۔

"دیکھو سجل۔۔۔۔"جنید نے ایک بار پھر بنا تمہید باندھے بات شروع کی۔
"یہاں سوال صرف ان کی عزت و آبرو اور تمہاری ضد و انا کا نہیں ہے۔۔۔۔یہاں سوال تمہاری حفاظت کا ہے۔۔۔۔وہاں تمہارا اکیلا رہنا محفوظ نہیں ہے۔۔۔۔"وہ بنا ادھر ادھر کی پرواہ کیے اسے اپنی سی سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا۔

"میں اکیلی تو نہیں ہوں۔۔۔۔وہاں سعیدہ اماں(پرانی ملازمہ) اور گارڈ سمیت مالی بابا بھی تو ہیں۔۔۔"وہ ٹھہر ٹھہر کر اپنی صفائی پیش کرنے لگی۔

"بابا سے کہنا ان کی عزت پہ کوئی آنچ نہیں آئے گی۔۔۔میری ماں کا گھر بہت وسیع اور شاندار ہے۔۔۔ان سے کہہ دینا کہ ان کی نام کی بیٹی کسی جھونپڑی نہیں بلکہ محل نما گھر میں رہ رہی ہے۔۔۔جہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کے علاوہ بے پناہ سکون اور آزادی بھی میسر ہے۔"سجل نے جیسے ضبط کے کڑوے گھونٹ بھرے۔

عین سیدھ والی میز پہ کھڑا آرحان مرزا بھی جیسے اس وقت ضبط کے کئی کڑوے گھونٹ بھر رہا تھا۔

"یار۔۔۔۔یہ پولیس والا ۔۔۔۔"وہ مضبوطی سے گلاس کو تھامے غصہ سے جنید کی طرف دیکھتے ہوئے نوید سے مخاطب ہوا۔

"مجھے کیا پتا اب۔۔۔"نوید نے دانت نکوستے ہوئے لاپرواہی سے کندھے اچکائے ۔

"تو۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔اس طرح اتنی قریب ہو کر۔۔۔۔کیوں بات کررہا ہے یہ شخص۔۔۔۔پولیس والا۔۔۔۔یا جو بھی۔۔۔۔لگتا کیا ہے؟"آرحان نے ایک سلگتی نگاہ سامنے ڈالی جہاں جنید نرمی سے سجل کے کندھے پہ ہاتھ رکھے اسے سمجھا رہا تھا اور وہ جیسے ڈھیروں بوجھ اپنے اندر ہی اتار رہی تھی۔

"آخر تمہیں اس قدر جلن کیوں ہو رہی ہے؟"نوید نے الجھتے ہوئے اسے دیکھا ۔

"ابھی تو سر قاضی سے ہنس کر بات کر رہی تھی۔۔اور اچانک اس شخص کے آنے سے کیسے اداسی چھاگئی ہے اس کہ چہرہ پہ۔۔۔۔"آرحان کا تجسس کسی صورت ختم نہیں ہوپا رہا تھا۔

"وہ تو اس سے سپیچ کی بات کرنے آئے تھے ۔۔۔آج شاید کوئی ویلکم سپیچ کرنی ہے سجل نے۔"نوید نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔

"اچھا۔۔۔۔تو۔۔۔پھر۔۔۔یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟جائے نا سپیچ کرنے۔۔۔"آرحان کسی صورت بھی جنید کو سجل کے قریب کھڑا برداشت نہیں کر پارہا تھا۔

"سپیچ آخر میں ہوتی ہے پردھان منتری ۔۔۔۔"نوید نے ناک سکوڑی ۔

"شروع میں بھی تو ہو سکتی ہے۔۔۔۔"چہرے پہ معنی خیز مسکراہٹ لیے اس نے سٹیج کی طرف دیکھا جہاں کھڑا ہوسٹ اسی کا دوست تھا۔

شطرنجWhere stories live. Discover now