اسنے جیسے ہی شاپ کا دروازہ کھولا معمول کے مطابق کی طرح زمین پر پڑے ایک سفید کاغذ نے اسکا استقبال کیا۔
اسنے جھک کر کاغذ کو اٹھایا اور اس پر ہر بار کی طرح خوش آمدید لکھا ھوا تھا۔ جانے کون تھا جو روز اسکو اس لفظ کے ساتھ اپنے ھونے کا احساس دلاتا تھا۔ وہ سر جھٹکتا اپنی شاپ کی صفاٸ کرنے لگا ۔ گلاس ڈور کو صاف کرتے ھوۓ اسے وہ نظر آٸ۔
سفید چادر کو سر پر جماۓ ۔سفید یونیفارم میں اپنی پلکیں اور سر جھکاۓ بس اسٹاپ پر کھڑی تھی ۔
ھمیشہ کی طرح آج بھی وہ اسکے دل کی دھڑکنیں بڑھا گیٕ۔
کوٸ اسکو روزانہ خوش آمدید کہتا تھا اور کوٸ روزانہ اسکی نظروں کے حصار میں تھا۔ تسلسل دونوں طرف تھا ۔
بس آٸ اور چلی گیٕ اسکے جانے کے بعد وہ اپنے کام میں مصروف ھو گیا۔ اسکی کبھی ھمت ہی نہیں ھوٸ کہ جاکر اس سے بات کر سکے یا اسکا نام ہی جان سکا۔ایک خاموش سی محبت تھی ۔ یا شاید ایک خاموش سی عادت ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن اسنے بک شاپ کھولی تو سفید کاغذ پر خوش آمدید تو لکھا تھا۔پر اسکے ساتھ آج کچھ اور بھی تحریر تھا
"وہ ایک شخص میری عادتوں میں شمار ھوتا ھے"
یہ پڑھ کر وہ چونکا آخر کون ھو سکتا ھے ۔
یہ سوچ بار بار اسکے ذہن میں آتی ۔اسنے سر جھٹکا اور اپنی جگہ پر آ کر بیٹھا۔ آج وہ نہیں آٸ تھی ۔دل جیسے بے چین ھوا۔
کیا ھو گیا تھا اسے کیسی عادت سی ھو گیٕ تھی نظروں کو اسے دیکھنے کی ۔۔
یہ عادتیں بھی کسی قابل نہیں رہنے دیتی انسان کو ۔کسی سے محبت ھو جاۓ پر کسی کی عادت نا ھو ۔اسنے سوچا۔
ہاں محبت تو ابھی ھونی تھی ۔محبت ابھی کہاں ھوٸ تھی ۔ صرف اسے دیکھنے کی عادت ھوٸ تھی ۔روز نظرٕں اسے دیکھنے پر مجبور ھو چلی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی وہ سوچتا تھا اسکی آنکھیں کیسی ھوں گی جو ہر وقت جھکی رہتی ھیں۔
کیا گہری کالی سیاہ جیسے رات۔
یا پھر قدرت کے خوبصورت رنگ میں سے ایک رنگ۔
جھیل کی طرح یا پھر کسی شاعر کی کوٸ غزل ۔
کاش وہ ان آنکھوں کو دیکھ پاۓ۔۔اسنے سوچا۔۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ خواہش ۔اسکی آنکھوں کو دیکھنے کی طلب اتنی جلدی پوری ھو جاۓ گی ۔
اب وہ ان سفید کاغذوں کو بھی کھول کر نہیں دیکھتا تھا۔۔ جب کوٸ سرا ہی ھاتھ نہیں آرہا تھا کہ کون ھے کیا فإیدہ اس سب کا۔ سوچتا۔
۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی بک شاپ کے گلاس ڈور سے سامنے اسے دیکھ رہا تھا کہ اچانک اسنے نظریں اٹھإیں
ا
کالی گھور حسین آنکھیں کاجل سے بھرے ننیوں کےکٹورے
ہرنی کی طرح بڑی ۔کانچ کی طرح شفاف
وہ سوچ رہا تھا کہ اسکی آنکھیں دیکھنے کی خوایش اسنے کی ھی کیوں۔۔
کاش وہ یہ خواہش نا کرتا ۔کاش وہ یہ طلب نا رکھتا ۔
عادت سے بڑھ کر اب اسکے دل کے قدم محبت کی پہلی سیڑھی کی طرف بڑھے تھے ۔
پہلی سیڑھی محبت کی شروعات
پہلی سیڑھی میں کسی کے لیے جذبات ۔
اور یہ پہلی سیڑھی ھی آخری سیڑھی کی طرف جانے کے دروازے کھولتی ھے ۔
آخری سیڑھی محبت کی انتہا ۔
آخری سیڑھی محبت کی انتہا سے عشق تک کا سفر
وہ واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اسکے سامنے کتنے دنوں کے اکھٹے ھوۓ اسقبالیہ کاغذ رکھے ھوۓ تھے
یونہی دھیان اسکی طرف گیا۔
اسنے ایک کاغذ اٹھایا
دھڑکنوں کے شور سے دل گبھرانے لگا ھے
پھر ایک اور کاغذ پڑھا
میری زندگی کی خواہشوں میں پہلی اورآخری خواہش ھو تم ۔
وہ حیرانی اور تعجب سے انہیں پڑھے جا رہا تھا۔ ۔
اسکے سامنے اور کاغذ پڑے تھے ۔
اگر کسی کو سوچنا محبت ھے تو میں اس محبت کی انتہاپر ھوں
آخر کون تھی وہ ۔
میرے لفظ صرف تمھارا ذکر کرتے ھیں
کوٸ اسے چاہنے لگا تھا پر وہ نہیں جانتا تھا کون۔
اور اسے جاننا بھی نہیں تھا وہ خود جو کسی کو چاہ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اسنے دل کو سنبھالتے ھوۓ نظریں اٹھایں تھیں۔
اور اسکو دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
دل دھڑک کر رہ گیا۔
وہ کتنا بے خود اور مبہوت ھو کر اسے دیکھ رہا تھا۔
دونوں کی نظریں ملیں تھیں ۔کچھ تو ھوا تھا آنکھوں ہی آنکھوں میں ۔
یہ محبت بھی تو نگاہوں سے شروع ھو کر دل میں اترتی ھے ۔
پھر اچانک اسنے نظریں جھکاٸ تھیں ۔دل کا شوربڑھتا ھی جا رہا تھا۔
بس آٸ او وہ اس میں بیٹھ کر چلی گیٕ ۔اسے آج بھی یاد تھا جب اسنے پہلی بار اسے دیکھا تھا۔
وہ بس اسٹاپ پر کھڑی تھی جب اچانک اسکی نظر سامنے اٹھی ۔ وہ جو کوٸ بھی تھا سرمیٕ رنگ کی شلوار قمیض میں اپنے ہاتھوں سے بالوں کو سیٹ کرتا اسنے بک شاپ کا دروازہ کھولا ۔خوبصورت خدوخال اس پر دراز قد اسکواور حسین بنا رہا تھا۔
بس اک نظر کا ہی اثر ھوا تھا
پھر وہ چور نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی ۔ اب کچھ عرصے سے وہ اسکی نظریں خود پر محسوس کرنے لگی تھی۔اسکی نظروں کے حصار سے دل کی حالت غیر ھوجاتی
پر وہ اسکو خود کو دیکھنے سے روک نہیں سکتی تھی ۔
اور نا ہی خود کو اسے دیکھنے سے ۔خاموش محبت تھی جو ھو چلی تھی ۔
خاموش عادت تھی جو پڑ گیٕ تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں اچانک اسکی شادی کا شور اٹھا تھا ۔دل نے تو جیسے اداسی کا چولا اوڑھ لیا تھا۔
کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی ۔اور نہ ہی اسے کچھ بتا سکتی تھی ۔اسنے بھی تو کبھی کوٸ امید کا سرا نہیں پکڑایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
۔آج اسکے کالج کا آخری دن تھااور آج ہی اسکی مہند ی تھی
وہ مایوں بیٹھنے والی تھی ۔وہ دلہن بننے جا رہی تھی ۔اسکی نہیں جسے اسنے سوچا اور چاہ تھا۔۔
پر کسی اور کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی شاپ کے گلاس ڈور کے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا
وہ بھی تو اسکی نظروں کو خود پرمحسوس کر رہی تھی ۔
کہ اچانک اسنے اپنی نظریں اٹھاٸ اور اسے دیکھا وہ جو اسے دیکھ رہا تھا اسکے دیکھنے پر اسکا دل دھک کر رہ گیا۔ان آنکھوں میں اداسی وہ دورسے بھی دیکھ سکتا تھا۔وہ اسے دیکھ رہی تھی اور وہ اسے دیکھے جا رہا تھا۔
اسکی آنکھوں میں کچھ تھا۔۔۔۔۔
وہ جانتی تھی وہ اسے آخری بار دیکھ رہی ھے
پر وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ آخری بار ھے ۔
اسکی بس آ گیٕ تھی وہ جانے لگی تھی جب پھر اسنے مڑ کر دہکھا تھا۔ اور گلاس ڈور کے سامنے کھڑے اسکا دل ڈوب کر ابھرا تھا۔کچھ انہونی کا احساس ھوا ۔اور پھر وہ چلی گیٕ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دن ھے اور آج کا دن ھے اسنے وہاں کھڑے اسے نہیں دیکھا وہ روز ہی گلاس ڈور سے اس جگہ کو تکتا رہتا ھے ۔
جہاں وہ کھڑی ھوتی تھی ۔اسنے اس بات پر بھی غور نہیں کیا تھا۔کہ وہ اسقبالیہ کاغذ اب اسکا استقبال نہیں کرتے تھے ۔کوٸ کاغذ نہیں تھا جس پر خوش آمدید لکھا ھوتا۔
جس دن وہ گیٕ اس دن وہ آخری کاغذ تھا جو اسے ملا تھا ۔ جسے اسنے پڑھا ہی نہیں تھا اگر وہ پڑھ لیتا تو جان جاتا کہ وہ کون تھی ۔
شیلف پر پڑا وہ آخری کاغذ پھڑ پھڑایا تھا۔
جس میں لکھا وہ آخری خوش آمدید ۔
اور اس پر لکھا ایک آخری جملہ ۔
تم میری یادوں کے حصار میں رہو گے ۔
اور وہ آج بھی اس کی یادوں ک حصار میں تھا۔
یہ خاموش محبتیں آنکھوں سے شروع ھو کر دل میں دفنا دی جاتی ھیں۔۔۔۔۔۔