"یہاں کیا کر رہے ہو تم؟"
تیمور نے غصیلے لہجے میں اپنے چھوٹے بھائی سے پوچھا۔
"تیمور بھائی کھلونوں سے کھیل رہا ہوں۔"
دائم نے معصوم سی شکل بناتے ہوئے تیمور کو جواب دیا۔"یار اپنی عمر دیکھو اور اپنے کام دیکھو۔یی عمر ہے تمہاری کھلونوں سے کھیلنے کی؟ اس پہر یہ کام کر رہے ہو تم؟ رات کے دو بج رہے ہیں جاکر سوتے کیوں نہیں ہو؟"
تیمور کا لہجہ الجھا ہوا تھا۔لہجے میں تیز پن کی کمی تو آئی تھی مگر تیمور بھائی کو اپنے چھوٹے بھائی کی حالت دیکھ کر تشویش لاحق ہوئی تھی مگر وہ اس وقت بے بس نظر آتے تھے۔
تیمور بھائی نے چھوٹے بھائی کا بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔
"یار تم اپنی عمر دیکھو اور اپنے کام دیکھو۔کیا ہوگیا ہے تمہیں؟"دائم 23 سال ک تھا مگر کچھ دنوں سے اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ایک گہرا صدمہ اس حالت کا باعث بنا تھا۔
اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر آئی تھیں اور ساتھ ہی مسکان نے لب کو گھیر لیا۔وہ بولا
"تیمور بھائی جو ہونا تھا ہوگیا۔اب کیا ہوگا مزید مجھے؟""دائم ہوش سے کام لو!!!"
تیمور نے دائم کو جھنجھوڑ کر کہا۔"آ تو گیا ہے ہوش بھائی۔"
مسکان لبوں کو گھیرے ہوئے تھیں اور آنسو رخسار کی جانب امڈ آئے تھے۔"دائم تم مجھے بہت پیارے ہو۔خدارا ہوش سے کام لو۔یوں اپنے ساتھ مت کرو۔"
تیمور نے دائم کے گال سہلاتے ہوئے کہا۔دائم لبوں کو بھینچے آنسو قابو میں کر رہا تھا مگر وہ بہتے جا رہا تھے اور تیمور بھائی کی آنکھیں بھی نم ہونے لگی تھیں۔
تمیور جو کہ ایک مضبوط اعصاب کا مالک مرد تھا اپنے پیارے کی اس حالت پر آنسو روکے بنا نہیں رہ سکا۔تمیور کو یوں دیکھ کر دائم پر ناگواری گزری تھیدائم نے ہاتھ میں پکڑے کھلونے کو زور سے زمین پر دے مارا۔
کھلونا ٹوٹ گیا اور بس وہ بھی وہیں زمین پر بیٹھ گیا اپنا آپ تمیور بھائی سے چھڑاتے ہوئے وہ وہیں گر کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپانے لگا۔وہ زار و زار رونے لگا۔پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔تیمور کو دائم کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری تھی مگر وہ اپنے پیارے بھائی کو اس حالت سے نکالنے کے لیے بے بس تھا۔
وہ دل ہی دل میں دعا مانگنے لگا تھا
"اوہ خدایا! میرے بھائی کو اس اذیت سے نکال دے۔"وہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا تھا اور اپنے بھائی کو سینے سے لگانے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ اسے چپ کروا سکے اسے دلاسہ دے سکے۔
مگر دائم اس کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔
"مجھے چھوڑ دیں تیمور بھائی۔مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں چلے جائیں یہاں سے۔مجھے اکیلا چھوڑ دیں تیمور بھائی۔"
وہ بس یہی راگ الاپے جا رہا تھا۔"ہوش کرو دائم ہوش کرو۔"
تیمور اب رونے لگا تھا۔دو مرد ایک ساتھ کھلے آسمان تلے رو رہے تھے۔ایک درد کی وجہ سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا تھا تو دوسرے کا دل اپنے بھائی کو اذیت میں مبتلا دیکھر کر پسیج گیا تھا۔"وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے میرے ساتھ تیمور بھائی؟ وہ تو میرا بہترین دوست تھا۔میں نے تو اسے اپنا بھائی سمجھا تھا۔پھر دشمنوں کی صف میں وہ امام بن کر کیسے کھڑا ہوگیا تیمور بھائی؟"
اس کی روتے ہوئے آواز غائب ہونے لگی تھی۔وہ آنسو پے در پے بہائے جا رہا تھا۔اذیت کتنی تھی اسے یہ وہ اور اس کا رب ہی جانتا تھا۔تیمور اسے اپنی بانہوں میں سنبھال رہا تھا۔
اب جب اس سے مزید نہیں رویا جا رہا تھا تو وہ تیمور کے گلے سے لپٹ گیا اور تیمور کی شرٹ کو بھینچنے لگا۔
"تیمور بھائی اس اذیت سے نکال دیں مجھے!!!!
پلیز تیمور بھائی!!!"
تیمور نے بھی اسے زور سے گلے لگا لیا تھا۔دائم کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔تیمور کے بھی آنسو بےقابو ہوگئے تھے۔
اب تیمور نے اس کا چہرہ اپنی جانب کیا تھا۔اس کے آنسو صاف کرنے لگا۔
"دائم میں ہوں تمہارے پاس۔تمہیں نکال لوں گا۔تم تو میرے بہادر بھائی ہو۔
You're strong my boy.
تم مضبوط ہو۔ہم نکل آئیں گے اس اذیت سے۔"دائم کے چہرے پر دیوانے سی مسکراہٹ نے آ گھیری تھی۔
"تیمور بھائی آپ کا strong boy ٹوٹ گیا۔اس کے اعتماد سے اس کا دوست کھیل گیا تمیور بھائی۔تیمور بھائی وہ جانتا تھا میں اس لڑکی سے کتنی محبت کرتا ہوں۔تیمور بھائی وہ تو سب جانتا تھا نا میری فیلنگز اس لڑکی کے بارے میں۔اس نے ہی تو مجھے روکا تھا کہ میں اسے پروپوز نہ کروں بلکہ ڈائریکٹ اس کے گھر رشتہ بھیجوں پھر آخر کار وہ یہ سب جانتے ہوئے
کیسے اپنا رشتہ اس کے گھر بھیج سکتا ہے؟ بتائیے تیمور بھائی میرا بہرتین دوست مجھے کیسے چیٹ کر سکتا ہے؟""ہم دیکھ لیں گے اسے اور تم اسے اپنا دوست تو کہنا بند کرو۔"
تیمور نے دائم کو سمجھاتے ہوئے کہا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔"تمیور بھائی اب کیا دیکھنا ہے اب تو وہ کھیل گیا میرے ساتھ۔
آپ ہی تو کہتے تھے جب میں چھوٹا تھا ایسے روتے نہیں ہیں کھلونوں کے ٹوٹ جانے پر
کہ کھیلتے ہوئے کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں۔":')
~محمد احمد حمازل

ESTÁS LEYENDO
کچھ حقیقت کچھ فسانے۔۔۔♡
Fantasíaان دوستوں سے بچ کر رہیں جو پیچھے سے چھرا گھونپ دیتے ہیں