دروازہ لاک کر کے وہ اسکی طرف بڑھنے لگا آ۔ہ۔۔ آ۔۔۔پ یہاں کیا کر رہے آفاق کو اپنی طرف آتے دیکھ کے خوف کی وجہ سے اسکی زبان لڑکھڑئ تھی آفاق کی نظریں اسی پہ تھی اور وہ اسکی نظروں کی تپش کو برداشت نہیں کر پائی تھی اسی لئے اس نے اپنا رخ موڑ دیا تھا ۔۔۔۔۔
آفاق نے بڑے ہی جارحانہ انداز میں اسکا بازو تھامے ایک جھٹکے سے اسکا رخ اپنی سمیت موڑا تھا کے اسکے بال کسی آبشار کی مانند اسکے کمر پہ بھکرتے چلے گئے تھے ۔۔۔ مرحا اسکے اس حرکت کے لئے قطعی طور پر تیار نہیں تھی اور بری طرح سے اسکے سینے سےجا لگی تھی ۔۔
مرحا کو اپنی دھڑکن روکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔
وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے اپنی سانسوں کی آواز تک سن سکتے تھے ۔۔۔۔
م ۔۔مجھے چھوڑ دے آفاق وہ لڑکھڑتی ہوئی آواز میں کہنے لگی ۔۔۔
مرحا عبّاس اب ساری زندگی تمیں چھوڑوں گا نہیں آفاق نے اسکے کان کے قریب دھیمی سرگوشی کیا تھا ۔۔۔
اسکی پلکیں جھک گئی تھی اسکے اس سرگوشی پہ ۔۔ اسکے آنکھوں میں کیا نہیں تھا جنوں تھا اس نے آج پہلی بار آفاق کا یہ پہلو دیکھا تھا ورنہ آفاق نے اسے کبھی نفرت سے بھی مخطاب نہیں کیا تھا محبّت اپنی جگہ ۔۔۔ اپنے ہونٹ اسکے کانوں کے قریب لا کے وہ اس سے کچھ کہنے لگا مرحا کل امی تمارا رشتہ مانگنی آئینگی میرے لئے امید ہے تم منع نہیں کروں گی ۔۔۔ اسکے اس سرگوشی سے مرحا کی کانوں کی لو تک سرخ ہو گئی تھی ۔
مرحا کو اپنی کانوں پہ یقین نہیں آیا تھا اللہ پاک نے اسکی دعا سن لی تھی وہ شخص جسکو اس نے تحجد میں مانگا تھا آج وہ خود آیا تھا ۔۔۔
مرحا پہ ایک نظر ڈال کے وہ مسکرایا تھا ۔اسے چھوڑ کے وہ کمرے سے نکل گیا تھا ۔۔
کام ہو گیا میرا مرحا اب اپنی بربادی پہ ماتم کرتی رہنا تم شاطیرانہ مسکراہٹ اپنے چہرے پہ سجا کے وہ اپنے کمرے میں سونے چلا گیا تھا ۔۔۔
مرحا ابھی تک اسکی سیر سے نکلی نہیں تھی ۔۔۔وہ اپنی بحال ہوتی سانسوں پہ قابو پاتی ہوئ اپنے بیڈ پہ لیٹی تھی وہ آفاق کے بارے میں سوچنے لگی وہ اسکے بارے میں سوچتی کب نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی اسے پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔۔
رات کے دو بجے زنیرہ اور زوھان گھر آئے تھے ہر طرف خاموشی کا راج تھا سب سوئے ہوئے تھے ۔۔۔
زوھان اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا اسکا کمرہ اوپر تھا ۔ جبکے عبّاس صاحب کے جانے کے بعد مرحا اور زنیرہ یہی مختار ہاؤس میں شفٹ ہو گئے تھے ۔۔۔
ان دونوں کا کمرہ نیچے ہی تھا ۔۔
وہ جیسے ہی روم میں انٹر ہوئی تو دیکھا مرحا پر سکون نیند سو رہی تھی اس نے مرحا کے اوپر کمبل اچھے سے ڈال دیا تھا اس پہ ایک نظر ڈال کے خود الماری کے پاس آ کھڑی ہو گئی تھی ۔
الماری سے اپنی ڈائری نکل کے وہ اسٹڈی ٹیبل پہ آ کے بیٹھ گئی تھی ۔
ڈائری کو اچھے سے کھول کے وہ لکھنے لگی ۔۔۔
ڈیر ڈائری ۔۔!!!
آج میں بہت خوش ہوں پتا ہے کیوں کیوں کے آج میں اسکے ساتھ تھی آج وہ میرے ساتھ خوش تھا آج میں نے اسکے چہرے پہ اپنے لئے محبّت دیکھی تھی آج مجھے اپنا آپ مکمل لگ رہا تھا۔۔۔آج پھر سے اسے پانے کی خواہش جھاگ اٹھی ہے میرے اندر ۔۔۔ زوھان میرے جینے کی وجہ ہے میرے دل کا سکون ہے میں اس سے عشق کرتی ہوں ۔میری محبّت اب آتش عشق میں مبتلہ ہوگیا ہے۔میری آنکھوں میں جو خون اترا ہے
تیرے عشق کا جنون چڑھا ہے ۔۔۔۔
اب اسے پانے کا جنوں اور بڑھ گیا ہے ۔ میری محبّت اب اسی کی امانت ہے ۔۔بس اللہ اسکے دل میں میری محبّت ڈال دے ۔۔۔میں اسے پا کے رہوں گی مجھے میرے محبّت پہ بھروسہ ہے میں اللہ اسے رو رو کے آپ سے مانگو گی اسے پانے کا جنوں ختم نہیں ہوا ابھی تک کیوں کے مجھے یقین ہے میں اسے حاصل کر لونگی میں نے اسے جنوں سے چاہا ہے میں اسکے عشق میں اب بہت آگے جا چکی ہوں اب مجھے میرا وجود اسکے بنا کچھ بھی نہیں لگتا ۔۔۔۔
عشق میں جنون کی حد تک چاہا ہے تجھے میں نے
اب تو خود کی بھی اتنی آرزو نہیں جتنی ضرورت ہے تیری ۔۔
اسے نیند آ رہی تھی اس نے ڈائری وہی پہ چھوڑ دیا تھا اور خود سونے چلی گئی تھی۔۔
صبح مرحا جلدی اٹھ گئی تھی جبکے زنیرہ سو رہی تھی مرحا نے اسے سونے دیا تھا کیوں کے رات وہ لیٹ آئ تھی ۔۔ہاتھ منہ دھو کے وہ کچن میں آ گئی تھی کلثوم بیگم بھی ابھی تک اٹھی نہیں تھیں ۔۔۔
چاہے کے لئے پانی ڈال کے وہ ناشتہ بنانے لگی سب کے لئے ۔آج وہ کافی فریش موڈ میں تھی۔۔اتنے میں کلثوم بیگم بھی آگئی تھی
سلام پھو پھو جان آپ اٹھ گئی انکو آتے دیکھ کے اس نے سلام کیا تھا ۔۔اسکی سلام کا جواب دے کے وہ وہی بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
مرحا بیٹا مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے ۔۔میں نے سوچا ابھی ہی آپ سے بات کر لو پھر ٹائم کہاں ملنا ۔۔۔
جی پھوپھو جان آپکو جو بات کرنی آپ کر لیں ۔۔۔وہ بھی وہی انکے پاس بیٹھ گئی تھی ۔۔۔ بھائ صاحب کے جانے کے بعد آپ اور زنیرہ بہت تنہا ہوگئی ہیں کوئی ہمدرد نہیں جو آپ دونوں کا اچھا سوچے جہاں تک مجھے علم ہے آپکے مامو اقبال تو آپ لوگوں سے بےخبر ہے آپ گھر کی بچی ہو میرے آنکھوں کے سامنے پلی بڑی ہو مجھے آپ پہ یقین ہے اسی لئے بیٹا میں آپکو اپنی بیٹی بنانا چاہتی ہوں اپنے آفاق کی بیوی بنا کے تمیں اس گھر میں رکھنا چاہتی ہوں امید ہے بیٹا تمیں میرے فیصلے سے اعتراض نہیں ہوگا ۔۔۔
آفاق کی بیوی پہ اسکی دھڑکن تیز ہو گئی تھی اسکی پلکیں خود با خود جھکنے لگی تھی ۔اسے رات کا منظر یاد آیا تھا ۔۔۔۔اس کی آج دعا قبول ہو گئی تھی وہ کیسے منع کر سکتی تھی انکو آج اسکی دلی خواہش پوری ہو گئی تھی ۔۔
پھو پھو آپ نے ہمیں ایک ماں سے بڑھ کے پیار دیا ہے بچپن سے لے کے آج تک آپ نے ہمیں کسی چیز کی کمی ہونے نہیں دی میں آپکی فیصلے کا احترام کرتی ہوں ۔۔۔
کلثوم بیگم اسکی بات کا مفہوم سمجھ گئی تھی انہوں نے اسے زور سے خود سے لگایا تھا ۔چلو ناشتے کی ٹیبل پہ میں سبکو بتا دونگی تمارا فیصلہ بھی ۔۔۔خوشی انکے چہرے سے جھلک رہی تھی۔۔۔ وہ کچن سے باہر چلی گئی تھیں جبکے وہ ناشتے کی تیاری کرنے لگی تھی ناشتہ بنا کے وہ ٹرالی کینچتی ہوئی باہر آئ تھی آفاق زوھان زنیرہ سب ہی اٹھ گئے تھے اور ناشتے کی ٹیبل پہ بیٹھے ہوئے تھے وہ آہستہ آہستہ چل کے آئ تھی ناشتہ ٹیبل پہ سجا کے وہ بھی وہی کلثوم بیگم کی ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گئی تھی اس پہ ایک نظر ڈال کے آفاق ناشتے میں مصروف ہو گیا تھا وہ بھی سر جھکائ ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔
چلو اچھا ہے آج سب یہی موجود ہیں تو میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اور امید کرتی ہوں میرے فیصلے سے کسی کو بھی اعترض نہیں ہوگا ۔کلثوم بیگم کی بات پہ سب انہی کی طرف متواجہ ہوگئے تھے ۔۔۔۔
رمضان سے پہلے آفاق اور مرحا کا نکاح ہوگا اور مرحا آفاق دونوں راضی ہیں باقی امید ہے زنیرہ تمیں اور زوھان کو بھی اس رشتے سے کوئی مسلہ نہیں اور بس کچھ رشتےدار ہی ہیں جنکو بلانا ضروری اور آفاق چاہتا ہے ڈائریکٹ نکاح ہو باقی رسموں کی ضرورت نہیں تو کل سے آپ سب اپنی تیاری شروع کر دینا اور پرسوں نکاح ہوگا ۔
ہائے آفاق بھائ آپ میرے جیجو بننے گے وفف ایم سو ہیپی خوشی اسکے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہی تھی ۔ جبکے اسکا یوں کہنا آفاق کو ایک آنکھ بھی نہیں بایا تھا لیکن مجبوری میں اسے ضبط کرنا پڑا۔۔
مرحا وہاں سے اٹھ کے چلی گئی تھی سبکے درمیان بیٹھ کےخجل محسوس کر رہی تھی ۔۔
جبکے زوھان اور زنیرہ بیٹھ کے آفاق کو تنگ کر رہے تھے ۔آفاق بھائ آپ نے تو سارے فیصلے پہلے سے کئے ہوئے تھے ہمیں بتایا بھی نہیں بڑے تیز نکلے آپ تو زوھان کے اس طرح کہنے پہ آفاق نے صرف مسکرانے پہ اکتفاء کیا تھا ۔
چلو بچوں اپنی اپنی تیاری کرو ٹائم کم ہے زنیرہ زوھان تم دونوں میرے ساتھ شاپنگ کرنے چلو گے اور آفاق بیٹا اپکی ذمیداری جیولری خریدنے کی ہے ۔۔
اثبات میں سر ہلا کے آفاق وہاں سے اٹھ گیا تھا ۔۔
زنیرہ بھی اٹھ گئی تھی جبکے زوھان اپنی کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔
زوھان اپنے کمرے میں جیسے ہی انٹر ہوا تو کچھ یاد آنے پہ واپس موڑ گیا ۔۔۔
تیز تیز قدم اٹھاتے وہ زنیرہ کی کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا
زونی۔۔۔ زونی زنیرہ کو آواز دیتے ہوئے اس نے کمرے کا دروازہ اندر کی طرف دکھیلا تھا کمرے میں خاموشی چھائ ہوئی تھی ۔ وہ اندر آ گیا تھا کمرے کے اس نے ارد گرد نظر ڈالی تو نظر سیدھا زنیرہ کی ڈائری پہ پڑی بلیک کلر کی ڈائری جس کے اوپر دل بنی ہوئی تھی اور اس دل کے اندر اسکے اور زنیرہ کی بچپن کی تصویر لگی ہوئی تھی ۔۔۔
افریقہ کی ملکہ یہاں نہیں موقع اچھا ہے چلو دیکھتے اس ڈائری میں کیا ہے وہ
بڑبڑاتے ہوئے ڈائری کی پاس آیا تھا ۔ڈائری اٹھا کے وہ اسے آگے پیچھے سے دیکھنے لگا اب ڈائری کھول کے وہ پڑھنے لگا وہ ڈائری جیسے جیسے پڑھتا گیا اسکے چہرے کے تاثرات بدلتے گئے ۔۔۔ڈائری اس نے پہلی والی جگہ پہ رکھ دیا تھا اور خود مسکراتے ہوئے باہر نکل آیا تھا ۔۔۔اپنے کمرے میں آ کے وہ وہی بیڈ پہ لیٹ گیا تھا ۔سو فائنلی تم پکڑی گئی میری افریقہ کی ملکہ۔۔اب تمیں میں اپنا بنا کے رہوں گا بس صبر کرو کل کا دن ہے بس اور تم میری ہو جاؤگی دیکھنا وہ خود سے ہم کلام ہوا تھا ۔۔۔۔وہ سوچوں میں گم تھا کے زنیرہ اسکے روم میں آ گئی تھی ۔۔۔
میرے ساتھ شوپنگ پہ چلو نا مجھے میرے لئے ڈریس لینی ہے ۔۔۔۔
اسے اپنے کمرے میں دیکھ کے زوھان بیڈ سے اٹھ کے اسکے قریب آ گیا تھا اسکے آنکھوں میں کچھ تھا جو زنیرہ نے محسوس کیا تھا ۔۔۔۔
ایک لڑکی جس سے میں نے پوچھا کبھی محبّت کیا ہے تو اس نے کہا محبّت اور میں کبھی نہیں لیکن آج جب میں نے اسکی ڈائری پڑھا تو اس میں تھا میں زوھان سے عشق کرتی ہوں ۔۔۔
اسکے اس طرح کہنے پہ زنیرہ کا چہرہ زرد پڑھ گیا تھا ۔۔۔اسکے لبوں نے ہرکت کرنا چھوڑ دیا تھا وہ یک ٹک زوھان کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔
اب زوھان اسکےاور قریب آ گیا تھا ۔۔
محبّت کرتی تھی بتایا کیوں نہیں اتنے سال مجھ سے یہ بات چھپائ کیوں ویسے تو بڑی شیرنی بنتی ہو۔۔۔
و۔ہ ۔۔۔۔و ۔۔ہ مجھے جانا ہے پھوپھو بلا رہی ہیں ۔۔۔۔
جی نہیں اس وقت پھوپھو کے بیٹے کو جواب چاہےء اپنے سوال کا جلدی سے بتا دو زوھان تھوڑا اور اسکے قریب ہوا تھا وہ پیچھے ہٹی تھی زوھان نے اسے بازو سے پکڑ کے اپنے قریب کیا تھا ۔۔۔
اب بتاؤ ورنہ مجھے آتا ہے باتیں نکالنے کا طریقہ زوھان کے لہجے میں کچھ تھا کے زنیرہ کی پلکیں جھک گئی تھیں ۔۔۔
مجھے چھوڑ دیں زوھان اب وہ روہانسی لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔
زوھان نے اسے چھوڑ دیا تھا ۔۔
چلو تیار رہنا پرسوں صرف آفاق بھائ اور مرحا آپی کا نکاح نہیں ہوگا ہمارا بھی ہوگا اب میری افریقہ کی ملکہ آپکو مجھ سے کوئی دور نہیں کر سکتا ۔۔۔
زنیرہ کو لگا تھا اسکے کانوں نے کچھ غلط سنا ہے ۔۔۔
اور ہاں زونی میں تمیں ترکی لے کے جاؤں گا ہم اسی جگے جایں گے جہاں حیا اور جہان گئے تھے اب کی بار وہ شرارت لہجے میں اس سے گویا ہوا تھا ۔۔۔۔
زنیرہ اب وہاں ایک سیکنڈ بھی نہیں روکی تھی وہ وہاں سے بھاگ گئی تھی جبکے زوھان اسے بھاگتی ہوئ دیکھ کے مسکرایا تھا اور خود بھی اپنے کمرے سے نکل کے کلثوم بیگم کی کمرے میں آیا تھا کلثوم بیگم الماری سے کپڑے نکال رہی تھی ۔۔۔۔۔
میری پیاری امی جان اس نے کلثوم بیگم کے گرد اپنے ایصار باندھ لئے تھے ۔۔۔
کلثوم بیگم نے مسکراہ کے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
کیا ہوا خیر ہے نا سب آج امی جان کی یاد آ گئی تمیں ۔۔۔
ہائے ایسے تو نا بولیں امی جان میں تو آپکو روز یاد کرتا ہوں ۔۔۔۔
شیطان کہی کا کام بتاؤ مکن نا لگاؤ ۔۔۔
انکی بات پہ وہ زبان نکالنے لگا ۔۔۔
اپنی لاڈلے بیٹے کی شادی کر رہے اور میرا سوچا ہی نہیں مجھ معصوم کا کیا ہوگا ایسے ہی کنورارہ مروں گا کیا ۔۔۔
اچھا تو یہ بات ہے ویسے میرے بیٹے نے اپنے لئے لڑکی خود ڈھونڈا تم بھی ڈھونڈو پھر میں کروا دوں گی شادی کونسا مشکل کام ہے ۔۔۔ارے لڑکی ڈھونڈنے کی کیا ضرورت لڑکی تو آپکے گھر میں ہی ہے نا زوھان کی اس طرح کہنے پہ وہ ذرا چونک گئی تھیں ۔۔۔
لڑکی یعنی تم زنیرہ کی بات کر رہے ہو اس نے سر ہاں میں ملایا تھا ۔۔۔ اور زنیرہ کیا چاہتی ہے ۔۔۔۔
امی وہ تو راضی ہے سمجھو دولہا دلہن دونوں راضی بس کمی ہے تو کاضی کی۔۔۔
شیطان کہی کا . تم دونوں بھی کرو اپنی تیاری رمضان آرہا ہے ۔۔۔۔۔
اسکا مطلب میری امی جان بھی راضی ہیں صدقے جاؤں کتنی پیاری امی جان ہیں میری انکو ہگ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔۔۔۔
اب چھوڑو مجھے اور جاؤ زنیرہ کے ڈریس کا آرڈر دو اسے ھدایت دے کے وہ خود کچن کی طرف چلی گئی تھی۔۔
وہ بات جو میں اپنی لبوں سے کہے نہیں پائ وہ تم نے کہے دیا میری ڈائری ۔۔آج وہ خود آیا تھا میرے پاس آج وہ خود اظہار کر رہا تھا کتنا حسین لمحہ تھا نا وہ جب اس نے مجھ سے کہا تھا میری افریقہ کی ملکہ آج مجھے اس لفظ سے اور محبّت ہو گئی تھی تمیں پتا ہے میں نے کتنی اذیت کے ساتھ گزارے یہ دن رات آج کتنا سکون ہے کیوں کے آج میں جیت گئی میں نے اپنی محبّت حاصل کر لی ۔۔۔
آخر کر وہ دن آ گیا تھا جسکا زنیرہ عبّاس کو انتظار تھا ۔۔۔
ریڈ شرارے جس کے آرگنزا دوپٹے پر ریڈ اینڈ گرین گوٹے سے بہت نفیس وعمدہ کام ہوا تھا اسکا اور مرحا کا ڈریس سیم تھا بس کلر چینجز تھے مرحا کی ڈریس کا کلر پرپل تھا ۔۔۔آفاق نے گولڈن کلر کی شیروانی پہن رکھا تھا جبکے زوھان نے وائٹ شلوار قمیض جسکے اوپر بلیک کلر کی جیکٹ پہن رکھا ہوا تھا ۔۔۔وہ دونوں شہزادوں کی طرح اپنی شیزادیوں کے پاس براجمان تھے ۔۔۔۔
آفاق اور مرحا کو جب پتا چلا زنیرہ اور زوھان کا بھی نکاح ہے جہاں مرحا کو یہ بات سن کے خوشی ہوئی وہی آفاق کا جنون بڑھ گیا تھا ۔وہ بس انتظار میں تھا کے کب مرحا سے بدلہ لے ۔۔۔۔
اتنے میں مؤلوی صاحب آ گئے تھے ۔۔۔
نکاح کا رسم شروع ہو گیا تھا ۔۔۔آفاق بڑا تھا اسی لئے پہلے اسکا نکاح پڑھا گیا تھا مرحا نے دھڑکتے دل کے ساتھ نکاح پیپرز پہ سائن کئے تھے وہ تو پہلے سے آفاق کی بیوی تھی اور عزت بھی اب انکا رشتہ اور مضبوط ہو گیا تھا ۔۔۔
اب زوھان اور زنیرہ کا نکاح پڑھا گیا تھا ۔زنیرہ نے خوشی خوشی پپیرز پہ سائن کئے تھے ۔۔۔سب ایک دوسرے کے گلے مل کے مبارک باد دے رہے تھے ۔۔۔۔کلثوم بیگم نے مرحا اور زنیرہ دونوں کے سر پہ پیار سے بوسہ دیا تھا ۔۔۔۔
علیزہ جو کے کلثوم بیگم کی دور کی رشتہ دار تھیں زنیرہ کو وہ زوھان کی کمرے میں لے کے آئ تھی ۔۔۔۔۔۔ اسے بیڈ پہ بیٹھا کے وہ خود چلی گئی تھی ۔۔۔
زنیرہ کی دھڑکنوں کی رفتار بہت تیز تھی وہ سر جھکائ بیٹھی تھی ۔۔
دروازہ کھولنے کی آواز پہ اس نے اپنا سر اوپر کیا تھا ۔۔۔زوھان نے دروازہ بند کیا تھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسکے قریب آ کے بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔
ویلکم ان مائے لائف مسز زوھان زوھان نے گمبھر لہجے میں کہا تھا ۔۔۔۔
اسکی دھڑکنوں کی رفتار اور بڑھ گئی تھی ۔۔زوھان نے اپنے جیب سے ایک باکس نکالا تھا اس میں ایک لاکیٹ تھا ہارٹ شیپ کا ۔۔۔
جسکو اوپن کرنے سے ایک طرف زوھان کی تصویر واضع ہوتی تو دوسری طرف زنیرہ کی ۔زوھان نے وہ لاکیٹ زنیرہ کے گلے میں پینا دیا تھا ۔۔اب یہ لاکیٹ اور حسین ہو گئی ہے زنیرہ نے سر اوپر کر کے اسے دیکھا تھا ۔۔
پتا ہے آج مجھے اپنا آپ اپنا وجود سب مکمل لگ رہا ہے پتا ہے کیوں کیوں کے تم میرے ساتھ ہو تمیں پتا ہے میں خود کو تم سے محبّت کرنے سے روک نہیں پایا تھا میں لمحہ لمحہ تماری طرف بڑھتا گیا مجھے خود نہیں پتا تھا ایسا کیوں ہے جب میں نے تماری ڈائری پڑھا تھا تو مجھے میرے سارے سوالوں کا جواب مل گیا تھا ۔۔۔اس نےزنیرہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے تھے اب وہ یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔۔
مرحا کب سے اسکا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ کمرے میں آیا ہی نہیں تھا وہ بیٹھے بیٹھے تھک چکی تھی وہ اپنے پیر سیدھا کر کے لیٹ گئی تھی رات کے دو بج گئے تھے لیکن وہ آیا نہیں تھا اب اسے نیند آنے لگی تھی اس نے اپنی آنکھیں موند لئے تھے ۔۔۔۔
آفاق جب کمرے میں آیا تھا تو اسے سوتی ہوئے دیکھ کے وہ باتھروم میں گھس گیا تھا وہ جب واپس آیا تھا تو وہ اسی حالت میں لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔
اسکے قریب آ کے اس نے اسے زور سے آوازیں دی تھی ۔۔۔اٹھو مرحا اٹھو وہ بہت گیری نیند میں تھی اب کی بار آفاق نے اسے اپنے بازؤں میں اٹھا لیا تھا اور صوفے پہ لیٹا دیا تھا ۔۔۔ خود اپنے بیڈ پہ لیٹ گیا تھا ۔۔۔
مرحا کی آنکھ فجر کی اذان پہ کھولی تھی خود کو صوفے پہ لیٹی ہوئی دیکھ کے اسے حیرانی ہوئی تھی ۔مجھے کون یہاں لے کے آیا وہ سوچوں میں غرک تھی کے بے اختیار نظر بیڈ پہ سوئے آفاق پہ پڑھی وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اسکے قریب آئ تھی چادر اچھے سے اسکے اوپر ڈال کے وہ خود وضو کرنے باتھروم کے اندر چلی گئی تھی ۔۔۔وضو کر کے وہ نماز پڑھنے لگی ۔۔۔نماز سے جب فارغ ہوئی تو دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے
یا اللہ میں تیری شکر گزار ہوں
میں تیرا لاکھوں بار شکر کرتی ہوں
لاکھوں بار اور کرنا چاہتی ہوں
میری دل سے امید بلکل ختم ہوکر رہ گئی تھی
مگر تیرے پاس دیر ہے اندھیر نہیں
تو میرا رب ہے
میں تیری گنہگار بندی ہوں
پر تو رب رحمٰن الرحیم ہے
تو نے میری سب خاموش دعائیں پوری کی
میں جو کہہ نہ پائی وہ بھی قبول کئے میرے رحمان مجھے نہیں پتا آفاق نے مجھ سے شادی کیوں کی مجھے اب اتنا پتا چل گیا ہے اسے مجھ سے محبّت نہیں لیکن میں آپکے ذات سے نا امید نہیں ہوں مجھے پتا ہے آپ کچھ بھی بغیر وجہ کے نہیں کرتے بس میرے اللہ اسکے دل میں میری محبّت ڈال دینا اور مجھ میں صبر اور برداشت پیدا کرنا امین کہے وہ آفاق کے قریب آئ تھی ۔
آفاق اٹھے نماز کا وقت ہو گیا ہے وہ جب نہیں اٹھا تو مرحا نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اسے اٹھانے کی کوشش کی تھی ۔۔اسکے ایسا کرنے پہ وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھا تھا ۔
YOU ARE READING
محبّت آتش عشق از قلم سمیرہ ظاہر
Short Storyدو بہنوں اور دو بھائوں کی کہانی ۔۔۔۔۔ مرحا جو معصوم سی ہے اور صبر کا دامن تھامے رکھتی ہے جبکے زنیرہ بہت بے صبری اور چلبلی سی ہے اور سبکی جان بستی ہے جس میں ۔۔۔ زوھان جو کے زنیرہ سے کم نہیں ۔۔۔۔جبکے آفاق جو سب سے ہٹ کے ہیں ۔۔۔جسکے ہر ایک ان...