قسط:1

222 7 10
                                    

"مہر بیٹا کہاں ہیں آپ۔۔جلدی آئیے بی جان آپ کو بلا رہی ہیں" "ارے آپ یہاں بیٹھی ہیں ہم آپ کو پورے گھر میں تلاش کر چکے ہیں" سمائرہ بیگم نے اسے چھت پر بیٹھا دیکھ کر کہا
"امی یہ دیکھیں کتنا پیارا لگ رہا ہے نا ہم نے اسے بنانے میں بہت محنت کی ہے" مہر نے مٹی کا گھر سمائرہ بیگم کو دکھاتے ہوۓ کہا سمائرہ بیگم اس کے چہرے کو دیکھتے ہوۓ مسکرا دیں
"کیا ہوا آپ ہنس کیوں رہی ہیں اچّھا نہیں لگا آپ کو" اس نے معصوم شکل پر فکر کے آثار واضح تھے
"اچھا تو بہت لگا ہے لیکن ہم آپ کا چہرہ دیکھ کر مسکرا رہے ہیں" انھوں نے مسکراتے ہوۓ کہا
"کیا ہوا ہمارے چہرے کو؟"اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔۔
"آپ خود دیکھ لیجیئے"انھوں نے مسکراتے ہوۓ کہا اور اس کے چہرے کا رخ دیوار پر لگے شیشے کی جانب کیا جو کے دیوار کے ساتھ ہی اونچائی کو چھو رہا تھا
مہر نے اپنا چہرہ دیکھا اور کر مسکرا دی اس کے چہرے پر جگہ جگہ مٹی لگی ہوئی تھی۔۔۔اس نے اپنی نظریں جھکا لیں۔۔۔سورج کی تپش کی وجہ سے اس کے سفید گال لال ہو چکے تھے سمائرہ بیگم گھر کی لاڈلی کو دیکھ کر مسکرا دیں
"بیٹا آپ فریش ہو کر آ جائیں بی جان آپ کا انتظار کر رہی ہیں"
"جی امی آپ جائیے ہم آ رہے ہیں" اس نے اپنے ہاتھ صاف کرتے ہوۓ کہا سمائرہ بیگم اثبات میں سر ہلا کر نیچے کی جانب بڑھ گئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عمر جا کر دیکھو شاہ کا کمرہ سیٹ ہو گیا ہے"
"جی میں دیکھتا ہوں" وہ اثبات میں سر ہلاتا شاہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا
"ارے یہ تم کیا کر رہی ہو پتہ ہے نا کے شاہ سپائسی کھانا نہیں کھاتا ہے ہٹو پیچھے میں کرتی ہوں" زاہدہ بیگم نے خان سماں کو پیچھے کرتے ہوۓ کہا اور ہانڈی میں مصالحے ڈالنے لگیں
"اب بھونو اسے اچھی طرح اور کھیر بھی اتار لو چولہے سے اور فریج میں رکھو تاکہ ٹھنڈی ہو جائے"وہ خان ساماں کو ہدایت دیتیں کچن سے باہر نکال گئیں
"ارے زلنور آپ ابھی تک گئے نہیں شاہ پوھنچنے والا ہو گا" زاہدہ بیگم ڈرائیور سے مخاطب ہوئیں
"ارے بیگم آرام کر لیں صبح سے تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں آپ" عارف صاحب جو کے گھر میں داخل ہو رہے تھے اپنی بیگم کک مصروف دیکھ ان سے مخاطب ہوۓ
"تو کیوں نہ کروں تیاریاں آخر کو اتنے عرصے بعد آ رہا ہے میرا بیٹا واپس حویلی میں" زاہدہ بیگم سنجیدہ ہوئیں
"زلنور آپ ابھی بھی یہاں ہی کھڑے ہیں جائیں لیٹ ہو رہے ہیں آپ" زاہدہ بیگم اب کی بار پھر سے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوۓ بولیں
"جی جی میں جاتا ہوں" وہ کہتے ساتھ ہی گاڑی کی جانب لپکا اور گاڑی حویلی سے باہر نکال دی
"اب آپ بھی آجائیے اندر ہمیں بھی پوچھ لیں یا ساری تیاریاں صرف برخوردار کے لئے ہی ہیں" عارف صاحب نے شرارت سے کہا زاہدہ بیگم نے عارف صاحب کی جانب دیکھا جو کے مسکرا رہے تھے
"آپ بھی نا آنے دیں ذرا میرے بیٹے کو ایک ایک بات بتاؤں گی آپ کی اسے" زاہدہ بیگم بولیں
"ہاہاہا ضرور لگا دیجئیے گا۔۔بلکہ ایسا کریں گے کے رات میں ہی پنچائت لگا لیں گے پھر سارا مسلہ ہل ہو جائے گا"عارف صاحب باز نہ آیے
"ارے رات میں کیوں میرا بچا بیچارہ اتنا تھکا ہارا آیے گا سفر کر کے آج وہ صرف آرام کرے گا"
"ہاۓ ساری ٹینشن اپنے بیٹے کے لئے اور مجھ معصوم کا کیا قصور ہے" چلتے ہوۓ وہ دونوں اپنے کمرے میں آ چکے تھے
"دیکھیں باز آ جائیں آپ اتنے بڑے ہو گئے ہیں اور اب بھی بچوں والی حرکتیں کرتے ہیں"زاہدہ بیگم نے عارف صاحب کا کوٹ اتارتے ہوۓ کہا
"اچھا اچھا معذرت۔۔ کھانا مل سکتا ہے؟"
"جی آپ فریش ہوں میں لگواتی ہوں" زاہدہ بیگم یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئیں عارف صاحب بھی فریش ہونے کی گرز سے باتھروم کی جانب بڑھ گئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد کے قریب گوندل گاؤں میں دو قبائل آباد تھے..
ایک قبیلے کے سردار اجمل علی ہیں جن کا ایک بیٹا ہے اور دوسرے قبیلے کے سردار اکمل ہیں اور ان کا بھی ایک ہی بیٹا ہے۔۔
سردار اجمل علی کے بیٹے اکرم علی کے دو بچے ہیں ایک بیٹا ارسلان اور ایک بیٹی مہرنسا۔۔مہرنسا سب سے چھوٹے ہونے کی باعث سب کی لاڈلی ہے اور عمر اس کی اٹھارہ سال ہے اور ارسلان سے چھ سال چھوٹی ہے۔۔۔
ارسلان تعلیم کی گرز سے شہر گیا ہوا ہے جبکہ لڑکیوں کے لئے صرف دس تک ہی تعلیم کی اجازت تھی لیکن مہر کے ضد کی باعث اسے صرف بارھویں تک ہی مزید پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی اور وہ گاؤں میں ہی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔۔۔اس گاؤں میں ہسپتال،اچھے سکولز اور کالج کی سہولت موجود تھی لیکن مزید تعلیم کے لئے شہر ہی جانا پڑتا تھا۔۔۔(سردار اجمل علی کا انتقال ہو چکا تھا)
جبکہ دوسرے قبیلے کے سردار اکمل کے بیٹے اسد کے دو بیٹے شاہمیر اور شہیر۔۔۔شہیر سب سے بڑا تھا اس کی عمر چھبیس سال تھی اور اپنے باپ کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتا تھا اس کی شادی ایک اچھے گھرانے میں کی گئی تھی۔۔۔شادی کے ایک سال بعد اللہ‎ نے اسے اور زینب (شہیر کی بیوی) کو ایک پیارے سے بیٹے سے نوازہ تھا جس کا نام انھوں نے سعد رکھا۔۔شہیر سے چھوٹا شاہمیر تھا اور وہ چوبیس سال کا ہے جو کے بیرون ملک پڑھنے گیا ہوا تھا۔۔۔سردار اکمل صاحب نے بچوں کی پڑھائی پر کوئی روک ٹوک نہیں کی تھی جس کی وجہ سے سب خوب پڑھ رہے تھے۔۔۔۔
شہیر کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گیا ہوا تھا اور زینب اور سعد بھی اس کے ہمراہ تھے۔۔
شہیر اچھے طبیعت کا مالک تھا جبکہ شاہمیر سنجیدہ قسم کا انسان ہے اور غصے کا بہت تیز ہے یہی وجہ ہے کے لوگ اس کو مخاطب کرتے ہوۓ کتراتے ہیں۔۔
(سردار اجمل اور ان کی بیوی بھی انتقال کر چکی تھیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بی جان آپ نے بلایا ہمیں؟"مہر بی جان کے کمرے میں داخل ہوتے جوا گویا ہوئی
"جی میرا بیٹا آؤ بیٹھو ہمارے پاس صبح سے آپ ہمارے پاس نہیں آئیں ہیں کیا یاد نہیں آئی ہماری"
"ارے نہیں نہیں بی جان کیسی باتیں کر رہی ہیں بھلا ہم اپنی پیاری سی بی جان کو کیسے بھلا سکتے ہیں" مہر نے ان کی گود میں سر رکھتے ہوۓ کہا
"اچھا تو پھر کہاں تھیں آپ اتنی دیر سے؟"بی جان نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا
"دادی ہم گھر بنا رہے تھے"
"کوں سا گھر؟"
"دادی ہم نے سوچا کے بیچاری چونٹیاں اتنی گرمی میں پھرتی ہیں اور ان کو گرمی لگتی ہو گی تو ہم نے ان کے لئے گھر بنا دیا تاکہ وہ آرام سے اس میں رہ لیں" مہر ان کی گود سے سر اٹھا کر سامنے بیٹھے وضاحت دینے لگی بی جان اس کی وضاحت دینے پر مسکرا دیں
"ہاہا تم کبھی بڑی مت ہونا" بی جان مسکرائیں
"آپ کو پتہ ہے لالا کا فون آیا تھا کہہ رہے تھے کے کچھ دن تک آ رہے ہیں"
"اچھا آنے دو ذرا برخوردار کو بس بہت پڑھ لیا اس نے اب اپنا گھر بار بسائے اور باپ کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹائے"
"بی جان سہی کہہ رہی ہیں بھیی کوئی شادی وغیرہ آیے ہم تو ویسے ہی بہت بور ہو گئے ہیں"مہر نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی
"بی جان کھانا لگ گیا ہے آجائیں آپ دونوں" سمائرہ بیگم کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا
"میری بچی آ رہے ہیں ہم"بی جان نے جواب دیا اور تینوں باہر کی جانب بڑھ گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"السلام علیکم ماما!" شاہمیر زاہدہ بیگم کے گلے لگتے ہوۓ گویا ہوا
"وعلیکم السلام! بھلا ایسے بھی کوئی اپنی ماں کو تڑپاتا ہے" زاہدہ بیگم نے اپنے خوبرو جوان بیٹے کو چومتے ہوۓ پوچھا
"ہاہاہا ماما دیکھیں تو اب میں آ گیا ہوں نا اب کہیں نہیں جاؤں گا۔۔پکا" اس نے ان کا ہاتھ چومتے ہوۓ کہا
"اب بیٹا جی میں تمہیں جانے بھی نہیں دوں گی" زاہدہ بیگم نے آنکھیں سکیڑ کر کہا جبکہ شاہ مسکرا دیا
"بابا نظر نہیں آ رہے"
"وہ بیٹا اپنے کمرے میں ہیں"
"بھائی بھابھی اور سعد؟"
"بیٹا وہ تو شہر گئے ہیں شہیر کو کوئی کام تھا تو زینب اور سعد بھی اس کے ہمراہ ہیں کل ان شا اللہ‎ واپس آ جائیں گے" زاہدہ بیگم نے وضاحت دی
"ہمم سہی۔۔چلیں میں بابا کو مل آؤں پھر مل کر کھانا کھاتے۔۔"زاہدہ بیگم مسکرا دیں
"لالا میرا سامان روم میں رکھوا دیں"اب کی بار شاہ ڈرائیور سے مخاطب ہوا
"جی شاہ جی میں رکھوا دیتا ہوں" وہ اس کے حکم پر عمل کرتا فورا سامان نکالنے چلا گیا
"ارے برخوردار ٹائم مل گیا تمہیں واپس آنے کا مجھے تو لگا تھا کے صاحب جی وہیں ہی رہیں گے"عارف صاحب مصنوئی خفگی سے اس سہ مخاطب ہوۓ
"ہمم ڈیڈ ویسے میرا بھی یہی پلان تھا لیکن میں نے سوچا کے ایک بار تو مل آؤں پھر وہیں ہی اپنا آشیانہ بسا لیں گے" شاہ آنکھ مارتے ہوۓ عارف صاحب سے مخاطب ہوا عارف صاحب اس کی حرکت دیکھ کر مسکرا دیۓ شاہ بھی انھیں ہنستا دیکھ کر مسکرا دیا اور ان سے بگل گیر ہوا۔۔
مسکراتے وقت اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی در آتی تھی جو اس کی شخصیت کو مزید چار چاند لگاتی تھی۔۔۔۔
بھورے گھنے بال،گوری رنگت،داڑھی،چوڑا سینہ سب کچھ دیکھنے لائق تھا۔۔۔

ایک قبیلے کے سردار اجمل علی ہیں جن کا ایک بیٹا ہے اور دوسرے قبیلے کے سردار اکمل ہیں اور ان کا بھی ایک ہی بیٹا ہے۔۔سردار اجمل علی کے بیٹے اکرم علی کے دو بچے ہیں ایک بیٹا ارسلان اور ایک بیٹی مہرنسا۔۔مہرنسا سب سے چھوٹے ہونے کی باعث سب کی لاڈلی ہے اور...

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.

"چلیں ڈیڈ میں فریش ہو آؤں پھر کھانا کھاتے بہت بھوک لگی ہے"
"ہاہاہا جاؤ بیٹا شاباش پھر رات میں خوب باتیں ہوتیں ہیں" عارف صاحب بھی مسکرا دیے شاہ بھی مسکراتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
salam guyz💕hope u all are doing well😍
so guyz yh raha nera new novel😂idk kay aap ko kaisa lagay but am sure prhnay mai aap ko maza aayay ga😜
apni qeemti raii ka izhaar zroor kijeyay ga coz it means alot for me😘

تشینِ عشق🖤  از:ماہیWhere stories live. Discover now