قسط:2

100 7 4
                                    

سورج کی کرنیں ہر سو پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔نیچے باورچی میں پکوان پکایے جا رہے تھے سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔۔۔
یہی رواج تھا حویلی کا صبح صبح اٹھنا،کاموں میں مشغول ہو جانا اور پھر رات میں جلدی سونا۔۔
"السلام علیکم ماما"شہیر گھر میں داخل ہوتے ہوۓ زاہدہ بیگم سے مخاطب ہوا 
"وعلیکم السلام میرا بچا! آ گئے تم"زاہدہ بیگم نے اسے چومتے ہوۓ کہا
"جی امی"
"السلام عليكم دادی"چار سالہ سعد بھاگتے ہوۓ آیا اور زاہدہ بیگم سے لپٹ گیا
"آ گیا میرا شہزادہ۔۔پتہ ہے دادی نے کتنا مس کیا اپنے بچے کو" زاہدہ بیگم نے لاڈ سے کہا سعد بھی مسکرا دیا
"کیسی ہو بیٹا؟؟"زاہدہ بیگم زینب سے مخاطب ہوئیں
"ٹھیک"اس نے خوش دلی سے جواب دیا
"عمر جاؤ شاہ کو اٹھاؤ پھر مک کھانا لگواتی ہوں سب مل کر ناشتہ کرتے اتنے عرصے بعد سب اکھٹے ہوۓ ہیں"زاہدہ بیگم ملازم سے مخاطب ہوئیں
"شاہ وہ کب آیا ہے امی جان" شہیر نے حیرانگی سے سوال کیا
"بیٹا کل ہی آیا ہے"
"اچھا۔۔۔عمر تم رہنے دو میں جاتا ہوں اوپر" شہیر نے ملازم کو منع کرتے ہوۓ کہا اور اپنے قدم اوپر کی جانب بڑھا دیۓ سعد بھی بھاگا بھاگا اس کے پیچھے چل دیا
"ارے دیھان سے سعد گر جاؤ گے" زینب نے پیچھے سے آواز لگائی زاہدہ بیگم مسکرا دیں
"دیکھیں امی کتنی جلدی ہے اپنے چاچو سے ملنے کی اسے" زینب نے مسکراتے ہوۓ کہا
"ہاہا ہاں پتہ تو ہے باپ سے زیادہ چاچو کے ساتھ دوستی ہے اس کی"زاہدہ بیگم مسکرائیں اور کچن کی جانب بڑھ گئیں زینب بھی ان کے پیچھے کچن میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ اپنے بستر پر بے خبر سو رہا تھا۔۔سوتے ہوۓ وہ قدرے معصوم لگ رہا تھا
"بابا چاچو کتنے کیوٹ لگ رہے ہیں نا" سعد دونوں ہاتھ اپنے چہرے کے نیچے ٹکایے شہیر سے مخاطب ہوا۔۔اس کی زبان ہلکی ہلکی توتلی تھی
"ہاہاہا ہاں بیٹا لیکن ابھی دیکھنا کیسے چاچو چھلانگ لگاتے" شہیر نے شرارت سے کہا اور پانی کا بھرا جگ شاہ پر انڈیل دیا
"ہا کیا ہوا۔۔۔ کیا ہوا۔۔"شاہ اچھلتے ہوۓ اٹھا اور اپنی بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے لگا تبھی سعد اور شہیر کا فلک شگاف قہقہہ فضا میں بلند ہوا شاہ نے ناسمجھی سے ان کی جانب دیکھا
"اللہ‎ بھائی بھلا ایسے کرتے ہیں ہاں میری جان نکال دی تھی آپ نے تو" شاہ نے اپنی پیشانی پر پھیلے بالوں کو پیچھے کرتے ہوۓ کہا
"تو تم بھی تو سارے گدھے گھوڑے بیچ کر سوتے ہو تو یہی طریقہ ملا تمہیں اٹھانے کا"شہیر نے کندھے اچکائے
"آپ کسی کو بھیج دیتے اٹھانے کے لئے"
"ارے رہنے دو کسی اور کو بھیج دیتے۔۔تمہاری دہشت ہی اتنی ہے کے کوئی بھی شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں ہوتا آسانی سے"
"ہاہاہا"شاہ مسکرا دیا
"چاچو آپ کتنے فنی لگ رہے تھے"سعد نے ہنستے ہوۓ کہا
"ارے چاچو کے بچے ادھر آؤ زرا" شاہ نے اسے جھپٹتے ہوۓ پکڑا سعد زور زور سے ہنسنے لگا
"کیسے ہیں برو"شاہ اب شہیر سے بگل گیر ہوا
"ٹھیک ٹھاک اپنی سناؤ اب کیسے خیال آ گیا واپس آنے کا تمہیں" شہیر نے آنکھیں سکیڑتے ہوۓ سوال کیا
"ہاہاہا برو بس دیکھ لیں" شاہ نے آنکھ دبائی
"ہاہاہا آ جاؤ اب نیچے سب انتظار کر رہے ہیں تمہارا"
"اوکے میں آتا فریش ہو کر آپ چلیں"
"ہمم سہی ہے آجاؤ بیٹا"
"نہیں بابا میں چاچو ساتھ آؤں گا"
"ارے یہ کیا بات ہوئی چاچو آ گئے تو مطلب بابا کو بھلا دیا"
"ہاہاہا برو بس دیکھ لیں"شاہ ہنستا ہوا فریش ہونے چلا گیا
"تم چچا بھتیجے کا کچھ نہیں ہو سکتا" شہیر بھی کہتا کمرے سے باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی ہماری چادر نہیں مل رہی کیا آپ کو پتا ہے کہاں ہے" مہر کب سے اپنی چادر ڈونڈھ رہی تھی لیکن اسے نہیں مل رہی تھی
"بیٹا آپ کی الماری میں ہی ہے"
"نہیں ہے امی ہم نے دیکھا ہے" مہر نے روتی شکل بنا کر کہا
"اچھا چلو میں دیکھ دیتی ہوں"انہوں نے اس کی الماری میں چادر تلاش کرنی شروع کی
"یہ رہی" سمائرہ بیگم نے اسے چادر تھمائی
"ہاۓ شکریہ امی "وہ ان کے گلے لگی "اچھا امی اب ہم جا رہے ہیں کالج سے لیٹ نہ ہو جائیں"
"ٹھیک ہے بیٹا دیھان سے جانا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے
"کتنا اچھا لگ رہا نا اتنے عرصے بعد سب مل کر بیٹھے ہیں" زاہدہ بیگم مسکراتے ہوۓ بولیں
"ہاں یہ تو سہی بات کی ہے" عارف صاحب نے بھی ہاں کہا
"لیکن امی بس اب ایک چیز کی کمی باقی ہے" شہیر نے ان دونوں کی جانب دیکھتے ہوۓ کہا
"کس چیز کی" عارف صاحب اور زاہدہ بیگم دونوں نے شہیر کی جانب دیکھا
"بس شاہ کے ساتھ والی کرسی خالی ہے اسے بھی اب بھر دینا چاہیۓ"
"ارے مجھے اس شادی وادی کے چکر سے دور ہی رکھو"
"ارے بھئی کیوں یہ کیا بات ہوئی اب تمہاری بھی عمر ہو گئی ہے شادی کی شہیر کی بھی تمہاری عمر میں ہی شادی ہوئی تھی اور دیکھو اب بال بچوں والا بھی ہو گیا ہے" زاہدہ بیگم نے اسے ٹوکا
"ماما برو کو جلدی ہی بہت تھی نا شادی کی مجھے تو بلکل بھی نہیں ہے آپ آرام سے پانچ چھ سال بعد کریے گا"
"توبہ کیسی باتیں کر رہے ہو بوڑھے ہو کر شادی کرنی ہے کیا تمہیں" زینب بھی گفتگو میں شامل ہوئی
"ارے بھابھی آپ ایسے ہی پریشان ہو رہیں اتنی جلدی بوڑھا نہیں ہوں گا میں" اس نے ہنستے ہوۓ کہا
"جو مرضی کہو میں اور زینب تو آج سے ہی تمھارے لئے لڑکی تلاش کریں گے"
"جی امی بلکل ٹھیک کہا مجھ تو سوچ سوچ کر ہی اتنی خوشی ہو رہی ہے میری دیورانی آئی گی ہم مل کر مزے کریں گے"
"ارے ارے بس کرو تم تو ایسے خوش ہو رہی جیسے ڈونڈھ کر رکھی ہوئی ہاہ لڑکی" شہیر اسے یوں خوش ہوتا دیکھ کر اس سے سوال کیا
"ارے مل جائے گی کون سا کمی ہے میرے بچے میں ابھی لائن لگ جائے گی اس کے لئے" زاہدہ بیگم نے کہا
"ارے واہ کیا بات ہے جی شاہ جی" شہیر نے اسے چھیڑا
"ارے امی اتنی بھی کیا جلدی ہے یار میں یہی ہوں اب کون سا کہیں جا رہا ہوں بعد میں کوئی ڈونڈھ لینا لیکن ابھی میں ٹینشن نہیں اٹھا سکتا۔۔نیور"
"شادی کون سی ٹینشن ہے بھئی ہاں۔۔مار کھاؤ گے مجھ سے تم" زاہدہ بیگم نے اس کا کان پکڑا
"ہاہا امی مذاق کر رہا ہوں۔۔لیکن ایک ذمہ داری تو ہے نا اور ابھی میں اس قابل نہیں کے ذمہ داری اٹھا سکوں" اب کی بار شاہ سنجیدہ تھا
"بیٹا جانتی ہوں ایک بہت بڑی زمہداری ہے لیکن مجھے اپنے بیٹے پر بھی پورا بھروسہ ہے کے وہ اس ذمہ داری کو بہت اچھے سے نبھایے گا" زاہدہ بیگم پریقین تھیں شاہ مسکرا دیا
"تو پھر تہ ہوا کے آج ہم ایک دعوت رکھتے ہیں اور سب کو انوائٹ کریں گے اسی خوشی نئی کے شاہ واپس آیا ہے اور اسی بہانے کوئی لڑکی بھی دیکھ لینا اس کے لئے" عارف صاحب نے جیسے مسلہ ہل کر دیا
"واو گریٹ آئیڈیا ڈیڈ" شہیر نے انھیں داد دی
"ہاہا شکریہ بیٹا جی" عارف صاحب نے خوشی سے داد قبول کی
"اب کیا یہی بیٹھ کر باتیں کرتے رہیں گے"
"کیا مطلب"
"کیا مطلب کیا برو جانا نہیں ہے اپنے بھائی کو گھومانے ہاں اتنے عرصے بعد واپس آیا ہوں دیکھنا چاہتا ہوں کے اب بھی گاؤں ویسا ہی ہے یا نہیں"
"ہاہاہا اچھا چلو تم بیٹھو گاڑی میں،میں آتا ہوں"
"اوکے خدا حافظ ڈیڈ موم" شاہ کہتا باہر کی جانب بڑھ گیا جبکہ زاہدہ بیگم اپنے بیٹوں کی خوشیوں اور لمبی زندگی کی دعا مانگنے لگیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Aug 11, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

تشینِ عشق🖤  از:ماہیWhere stories live. Discover now