ا"امی جان بھائ اب بھی نہیں آئے گے" ۔۔فاطمہ اور احد اپنی امی کو بول رہے تھے ۔۔
فاطمہ گود میں ارحم۔کو لے کر بیٹھی تھی
"جی امی عید پر بھی کہ رھے تھے آوں گا پر نہیں آئے اب تو آجائیں"
۔۔فاطمہ بولی۔ " اس دفعہ تو چودہ اگست ہے نہ۔۔""بھئ مجھے کیا ہتا تم لوگوں کی کیا بات ہوئ ہے اس سے فون جب آائے گا تو دوبارہ پوچھ لینا ۔ ابھی اٹھو کھانا کھا لو" ۔۔اماں جی نے اکتا کر کہا۔۔
"جی چلیں میں بھاَبھی کی مدد کروا دیتی ۔۔کھانا لگا کر آواذ دیتی آپ لوگوں کو" ۔فاطمہ اٹھ کر باہر چلی گئ۔۔۔
"یہ لیں اسے پکڑے"۔۔ فاطمہ نے ارحم کو پریم بیگم کو پکرایا۔۔
"ارے لاؤمجھے دو مجھے بھی پکڑا دیا کرو۔" ۔احد نے جیسے ہی ہاتھ آگے کیے ۔۔فاطمہ نے ارحم کو پیچھے کر لیا۔۔
"احد بھائ آپ کو پکرنا نہیں آئے گا ۔ابھی یہ بہت چھوٹا ہے۔۔"
"ارے واہ میں چاچوں ہو اس کا ۔۔تم سے برا ہوں۔۔ " احد چڑ کر بولا۔
"نہیں نہ آپ نہیں پکڑے گے جب بڑا ہو گا تب پکر لیجئے گا لیکن ابھی نہیں۔"۔،فاطمہ بڑی اماں بنتے ہوئے بولی۔۔
"امی یہ زیادہ شوخی نہیں ہو رہی۔۔" احد غصے میں بولا۔۔
"ہاں احد بہن ٹھیک کہ رہی ہے۔۔تم نہیں پکر پاؤ گے وہ بہت چھوٹا ہے۔"۔امی نے بھی فاطمہ کی سائیڈ لی ۔
"چلیں یہ بھی ٹھیک میری سنتا کون ہے سب اسی کی سنتے آنے دیں ہادی بھائ کو وہ تو پکرا ہی دیں گے۔۔"
احد منہ بنا کر لیٹ گیا اور فاطمہ نے ادحم مریم بیگم کو پکڑا دیا۔ اور باہر چلی گئ۔*««¤¤¤»»*
تو جناب کیا سوچا پھر ؟ علی نے ہادی سے پوچھا
کس بارے میں ؟ہادی نے پوچھا ۔۔۔
ارے یار گھر جانے کہ بارے ۔بات کی ۔۔
نہیں سوچ رہا تھا لیکن اب نہیں کیونکہ اب ایک آپریشن کے سلسلے میں کام کرنا ہے۔۔
اچھا لیکن پھر بھی کوشش کر لینا شائد مل جائے ۔۔
ھممم چل دیکھتے ابھی تو ھیں دس دن چودہ اگست میں۔۔ہادی مسکرایا
علی اسے دیکھ رہا تھا اس کہ چہرے پر ایک الگ ہی مسکراہٹ تھی۔۔ جیسے کوئ بہت بڑی کامیابی کی طرف جارہا ہو۔۔۔
«««¤¤»»»
امی جان ،احد آجائے کھانا کھا لیں۔ فاطمہ نے آواز دی۔۔۔۔
''اچھا بیٹے ارہے ھیں''
امی نے بولا اور ااحد کو آٹھانے لگی۔۔جو کہ سوچکا تھا۔احد اٹھ جاؤ بیٹے بری بات ہے بہن اور باجی نے کھانا لگایا تم دیر لگا رہے ہو۔۔
امی ۔۔امی جان ۔۔احد ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔
کیا ہوا بیٹا ۔۔مریم بیگم گھبرا گئی ۔۔
امی میں نے ہادی بھائ کے بارے میں بہت برا خواب دیکھا ۔۔امی۔۔۔۔
چلو اٹھ جاؤ ۔۔منہ ھاتھ دھو کر آو کھانا کھا لو۔۔اور پھر فون کر لینا ہادی کو انشااللہ ٹھیک ہو گا۔۔۔
جی چلیں ۔۔احد اور مریم باہرآگئے ۔۔
«««««¤¤»»»»»یار علی جارہا ہوں بات کر دعا مانگی مل جائے۔۔
انشا اللہ ہادی مل۔جائے گی۔۔میں بھی تو جارہا ہوں۔۔تجھے پتا مجھے ایک دفعہ بات کرنے ہر ہی مل گئ تھی۔
ہممم تیری تو پھر شادی ہے دوسرا تو جا بھی سال بعد رہا میں تو پانچ ماہ پہلے گیا تھا ۔۔ہادی ایک افسردہ آواز میں بولا
ن
ہاں یاد یے تو کتنا خوش تھا جب ارحم تیرے یہاں آنے کے بعد ہوا تب ابھے تجھے آئےکچھ وقت ھوا تھا اور۔ تجھے تب بھی چھٹی نہیں ملی تھی ۔۔علی خوشی سے بولا۔۔ہاں ناں یار ارحم کو میں پہلی دفعہ اٹھاؤں گا گود میں ۔۔۔ہادی نے کہا
ہادی بہت خوش تھا۔۔
ہاہا ہاں بلکل۔۔چل جا اب بات کر لے۔۔۔
ہے ایمان سینوں میں ۔چہرے پر نور
میرے فوجی جوان ہے میرا غرور۔»»»»¤««««««
بھابھی کال آرہی ہے آپ کے فون پر۔فاطمہ نے بتایا۔
اچھا میں دیکھتی ہوں ۔۔ارحم کو پکرنا۔
فاطمہ اور مریم بیگم باہر صحن میں بیٹھی تھیں ۔۔
احد باہر گیا ہوا تھا۔۔
امی جان دعا کریں بھائ آجائے ۔۔اچھا۔۔
بیٹا جیسا اس کو بہتر لگے گا وہ وہی کرے گا ۔۔میں ماں ہوں یہی چاہوں گی ۔۔
جی امی احد بھائ نے مجھے جھنڈا بھی نہیں لا کر دیا، نہ ہی میں نے ابھی جھنڈیاں لگائیں، اور میں نے کیک بھی بنانا ہی آخرمیرے پیارے وطن کی سالگرہ ہے ہاہاہا اور مجھے یاد آیا۔ ارحم کیلیے جشن آزادی کا سوٹ بھی نہیں آیا۔۔
ارے ارے لڑکی سانس تو لو۔۔آئے گا احد تو بات کر لینا۔۔
بھابھی آگئی ۔۔فاطمہ بولی۔۔کس کا فون تھا بیٹے۔مریم بیگم نے پوچھا
۔امی ہادی کا تھا ۔ علیزے افسردہ سی بولی۔۔بس یہ بتایا کہ شاید میں چودہ اگست پر آوں اور کال بند کر دی میں اتنی بار کال کی لیکن فون بند تھا۔۔۔پتا نہیں کیا ہو۔
ارےےےے۔ بھابھی چھوڈے نہ پریشان نہین ہو۔۔سب باتیں چھوڈیں بھائی آ رہے ہیں اتنا کافی۔۔
فاطمہ ارحم کو آٹھا کر جھوم اٹھی۔۔۔ارے ارے ارحم کے بابا آرہے ھہں بھئ ۔دیکھو شوخے نہیں ہو جانا بابا کے آتے ہی کہیں اکلوتی پھوپھو کو بھول جاؤ۔۔
ارے پاگل لڑکی یہ گر جائے گا۔اسے لیٹا دو۔۔امی نے بولا۔
ایک دم سارا ماحول خوشی والا ہو گیا اور فاطمہ بے صبری سے احد کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
««««¤¤¤»»»»تو جائے گا نا اب میں نے کہا تھا نہ بات کر لے۔ علی نے کہا۔
ہاں جاؤں لیکن صرف ایک صورت میں رات کو آپریشن سے فارغ ہوکر۔۔اگر بچا تو۔۔ہادی بولا۔
اوئے شب شب باتیں کر۔ ۔انشا اللہ تو ضرور جائے گا۔۔علی نے اسے ہسانے کیلیے شب کا لفظ بولا۔۔
یہ تجھے خیر ہے اپنے سسرال کی زبان بول رہا یے
ھمممم بس کر دے میرا سسرال میں تو ان کو زندہ دفن کر دوں۔۔علی کافی غصے میں آگیا۔۔۔
اوئے اوئے مسٹر جزباتی بس کر
I just kidding۔۔
چل آجا باہر تک میں جارہا ہوں ۔۔
یار ویسے تجھے پتا بھی ہی میں لیٹ آتا رات کو تو مجھے پھر اپنے ساتھ صبح چار بجے اٹھا لیتا ہے۔ ہادی نے پاس پری کتاب علی کو ماری۔
ہاے ششک۔۔۔۔۔ےےے۔ ماں واری اٹھ آجا باہر۔ علی نے زبردستی اسے کھینچا۔۔
ہادی علی کو چھوڈنے آیا تو باہر ہی بیٹھ گیا۔۔
اور گھر کے بارے میں سوچ کر خوش ہو رہا تھا ۔۔
ارحم کو پکڑوں گا ۔۔مجھے چاھیے سب کیلیے میں گفٹ لے کر جاؤں ۔۔۔
ہادی بہت خوش تھا۔۔اولاد کیلیئے باپ کی خوشی الگ ہی ہوتی۔۔
«««¤»»»»
بقیہ حصہ انشاءاللہ پرسوں تک کروں گی۔۔پڑھ کر ضرور بتائیں اگر آپ کو اچھا لگے تو بھی۔۔
اور اگر کوئی غلطی نظر آئے تو پلیز ضرور بتا دیجیئے گا۔۔تا کہ میں اصلاح کر سکوں۔۔میں ایک نئی لکھاری ہوں۔۔
مجھے آپ سب کی سپورٹ چاھیے۔۔تو اگر اچھا لگے تو حوصلہ افزائ ضرور کیجئے گا___________حیاءاکرم_________
YOU ARE READING
ھم وردی والے ھیں۔۔ از حیاء اکرم۔۔
Short Storyیہ کہانی ہے دو دوستوں کی ۔۔۔ یہ کہانی ہے ایک ایسی بہن کی جو بھائی پر جان لٹاتی ہے۔۔ یہ کہانی ہے ان عظیم ماؤں کی جو وطن عزیز کیلیے اپنے جگر کے ٹکڑے کر کو پیش کرتیں ھیں۔۔ یہ کہانی ہے دو شہزادوں کی جو وطن عزیز کیلیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کو م...