معیار

474 36 9
                                    


یہ کہانی ایک لڑکی کی ہے جو لاہور شہر میں اپنی والدہ کے ساتھ ایک کرائے کے مکان میں رہائش پزیر تھ
باپ کا سایہ سَر سے چھنتے ہی جیسے
وہ زندگی جینا بھول چکی تھی
ادھوری پڑھائی کے باعث اسے کسی دفتر میں کام ملنا ناممکن تھا تبھی وہ ایک پرائیویٹ ادارے میں معمولی تنخواہ پر نرسری کلاس کو پڑھا رہی تھی
اسکی والدہ لوگوں کے کپڑے سیا کرتی تھیں


ایک دن اس کے گھر اسکے سُسرال والوں کی آمد ہوئی جنہیں دیکھتے ہی وہ کمرے میں قید ہو گئی اسکی والدہ کو اس کے اِس غیر اَخْلاقی رویئے نے ان کے سامنے خاصا شرمندہ کروایا تھا

ہر مہینے کی 10 تاریخ کو وہ اُنہیں ان کے کیے وعدے یاد دلانے اور اپنی مہمان نوازی کا شرف بخشنے چلے آتے

انکی بے شرمی اور اپنی ماں کی بےبسی ہمیشہ اُسکا دل جلایا کرتی تھس یہ رشتہ اسکی والدہ کو اپنی ایک عزیزہ کے توست سے ملا تھا اور اسے آخری سہارا سمجھتے ہوئے انہوں نے قبول کر لیا رشتہ تہہ ہوتے ہی انہوں نے ٹھیک ٹھاک جہیز کی ڈیمانڈ کی تھی اور اس کے منع کرنے پر بھی اسکی والدہ راضی ہو گئیں

" حور میرے پاس اِس کے سوا کوئی راستہ نہیں میں تمہارے بابا جس طرح اچانک ہمیں چھوڑ کے چلے گئے میں ڈرتی ہوں کہیں کسی دن میں بھی تمہیں یونہی تنہا نا کر دوں خدا کے لیے میری بات کا مان رکھ لو " اپنی والدہ کی مجبوری بےبسی تو وہ ہمیشہ سے دیکھتی آئی تھی
اِس وقت میں اسے اپنی نانو یاد آئی تھیں مگر وہ تو شاید ان سے بھی زیادہ رشتوں کی زنجیروں میں قید تھیں

" میرے پاس آپکی بات ماننے کے سوا کوئی راستہ نہیں امی . . . . . . . . . . پر مجھے ہمیشہ اِس بات کا افسوس رہے گا کے جنہیں بابا ہمارا سائبان بنا کر تنہا چھوڑ گئے وہ تو ہم سے پہلے ہی ہر ناطہ توڑ چکے تھے " اسکی امی کے رونے میں تیزی آئی تھی وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی
اِس مشکل کے وقت میں وہ نا تو اپنے بھائی کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتی تھیں جنہوں نے بچپن میں ہی انکی بیٹی کا ہاتھ مانگ لیا تھا اور نا ہی اپنی والدہ سے شکایت کر سکتی تھیں جو اپنے پوتے اور نواسی کے رشتے کی گواہ تھیں جسے ان کے پوتے نے پیروں تلے روندتے ہوئے انکار کیا تھا اور اب وہ کہیں اور منگنی کر چکا تھا
اسے اُس شخص کے نام کا سہارا دینے والے آج منہ موڑ چکے تھے

" ہو سکے تو مجھے اور اپنی نانو کو معاف کر دینا حور ہم مجبور ہیں ان رشتوں کی بیڑیاں ہمارے پیروں میں ایسی پڑی ہیں کے ہم چاہ کر بھی انکی قید سے آزاد نہیں ہو سکتے " اسکی امی اس سے یونہی معافی مانگا کرتی تھیں اور وہ چُپ چاپ وہاں سے چلی جاتی اِس سے زیادہ اپنی ماں کے آنسوؤں کا بوجھ اٹھانا مشکل تھا

اسکی شادی کے دن قریب آ رہے تھےاور ان کے گزر بسر میں تنگی بڑھتی جا رہی تھی اسکول کے معیار کو بہتر کرنے کی خاطر اسکی عمارت سے لے کر اسٹاف تک کو بدلہ گیا تھا اور ہر غیر ضروری
شہہ اور شخص کو فارغ کر دیا گیا تھا یونہی حور اپنی نوکری کھو چکی تھی امتحانات ختم ہوتے ہی بچے ٹیوشن چھوڑ گئے
شادی کی تیاریوں کے باعث اسکی امی لوگوں کے آرڈر وقت پہ نا پہنچا سکیں اور یوں اُنہیں کافی نقصان اٹھانا پڑا

" میں کل ہی امی کی طرف جاتی ہوں . . . . . . . . . شاید وہی کچھ مدد کر دیں " حالات نے ان ماں بیٹی کو خود سے نظریں چُرانے پہ مجبور کر دیا تھا
گھر میں موجود کھانا صرف دو دن کا تھا اس کے بعد کیا ہو گا وہ سوچ کر ہی ڈر جاتی تھی

" نانی کا فون آیا تھا ؟ " وہ سمجھ گئی تھی

" تمہارا پوچھ رہی تھیں تب تمہاری نوکری کا ذکر ہوا تھا . . . . . . . . . . . . . میں نے بہت منع کیا پر وہ اصرار کرنے لگیں کے ہم ان سے ملنے جائیں "

" میں اس گھر میں کبھی قدم نہیں رکھوں گی امی " وہ کیسے اس گھر کا رخ کر سکتی تھی جہاں اسکی والدہ تو کیا نانی کو بھی کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی


" ہم نانی سے ملیں گے اوربنا کھائے پئیے ان کے کمرے سے ہی پلٹ آئیں گے

" آپ ان سے ملنا چاہتی ہیں تو یہاں بلا لیں آپکی بھابی اور بھتیجی سے سامنا کرنا میرے لیے ناممکن ہے ان کے معیار کے لوگ نہیں ہیں ہم انکی نظروں میں خود کے لیے گھِن نظر آتی ہے مجھے "



" کیا تم نانی کے لیے اتنا نہیں کر سکتی حور . . . . . . . . . اس قید خانے میں ہم ماں بیٹی ہی انکا سہارا ہیں . . . . . . . . . . ہم بھی ان سے نہیں ملیں گے تو وہ تنہا ہو جائیں گی "

" یہ انکی کمزوریاں ہیں امی جنہوں نے اُنہیں یوں بیووُقت کر دیا کے اپنے ہی گھر میں قید ہو گئیں . . . . . . . . . . . . . . اپنی بہو جیسی بن جاتیں تو آج اس گھر میں ہماری بھی کوئی عزت ہوتی "

" حور عزت روپے پیسے سے نہیں اخلاق سے بنتی ہے . . . . . . . . . . "

" یہ معیار کی دُنیا ہے امی جو اخلاق سے خالی ہو چکی ہے " وہ مزید بحث کیے بنا ہی کمرے میں جا گھُسی

اگلے دن وہ صبح اپنی نانی کے گھر آئی تھی یہ مرحلہ ہر دو چار ماہ بعد اسے تہہ کرنا ہوتا تھا
مامی اور انکی بیٹی کی نظریں انکی کڑوی باتیں طنز نانی کی خاموشی امی کی بیقدری سب اسکی نظروں کے سامنے تھا لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی
وہ بولتی بھی تو کس کے سہارے کونسا آسرا تھا اُس کے پاس جسکی بنا پہ وہ ان کے سوالوں کے جواب میں انکا منہ توڑ دیتی

نانی ہمیشہ کی طرح اس سے بہت پیار سے ملی تھیں

" مہمانوں کے لیے پانی لے آؤ بی بی اور عزرہ کو بھی بلا لاؤ " وہ اپنی ملازمہ سے مخاطب تھیں


" میں صفائی میں مصروف ہوں بیگم صاحبہ فارغ ہو کے لا دو گی " وہ تیکھا سا جواب دیتی چلی گئی
حور سر جھٹک کے رہ گئی
کیوں کے یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا
نانی شرمندہ سی خاموش ہو گئیں

" رہنے دیں امی . . . . . . . . . . . ہم آپ سے ملنے آئے ہیں ابھی چلے جائیں گے "

" آنے سے پہلے اطلاع کر دیتی رُقیا . . . . . . . . . . . . مجھے تو ملازمہ نے بتایا کے تم لوگ آئی ہو " مامی آنکھیں مسلتی آئیں اور ہمیشہ کی طرح سلام دعا کے بنا ہی طنز کے تیر چلا دیئے

Standard(معیار)Where stories live. Discover now