"تمہارے باپ نے مجھے برباد کیا اب میں تمہیں برباد کر دو گاـ نہیں چھوڑوں گا سب کو فنا کردوں گاـ کوئی نہیں بچے گا میں نہیں چھوڑوں گاـ"
اس مغرور انسان نے تعیش میں کہا اور اپنا ہاتھ شیشیے میں مار کے شیشہ توڑ دیاـ
____________________________________
"یار آج کیا بات ہے اتنی پڑھائی کیوں ہو رہی ہے؟"
کنزہ نے اس سے پوچھاـ
"یار آج ٹیسٹ ہے نا اس لیے اور کس لیے؟"
رفاہ نے جواب دیاـ
"اچھا میں بھی کہوں آج اتنی پڑھائی کیوں ہو رہی ہےـ"
کنزہ نے رفاہ کو تنگ کرتے ہوئے کہاـ
"میری ماں اب اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا میں پڑھ سکتی ہوں_"
رفاہ نے تنگ آکر کنزہ سے اجازت طلب کی_
"پڑھ لو میں نے کہا منع کیا ہےـ"
کنزہ کہتی کینٹین کی طرف چلی گئی_
________________________
کنزہ اور رفاہ دونوں بہت اچھی دوستیں تھیـ اپنی ہر بات ایک دوسرے سے شیر کرتی تھیں ـ دونوں ہی چاکلیٹ اور ناول کی دیوانی تھیں ـ رفاہ زیادہ شیطان تھی کنزہ کے نسبت ـ ان دونوں کی دوستی خوب جمتی تھی ـ ساری یونیورسٹی ان دونوں سے پریشان تھی ـ
--------------------------------
"یار کیسا ہے؟اور اتنے دنوں سے کہاں گم ہے؟"
تمہید نے پوچھا ـ
"میں ٹھیک ٹھاک تُو بتا کیسا ہےـ بس یار آج کل میٹنگز میں پھنسا ہوا ہوں ـ"
شامیر نے تمہید کو بتایاـ
"آج فرست ملے گی تجھے تیرے ان کاموں سے اگر ہاں تو ساتھ میں ڈنر کرتے ہیں ـ"
تمہید نے شاہ میر کے آگے اوپشن رکھی ـ
"ہاں یار آج تو فرست ہی فرست ہےـ"
شاہ میر اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا اس لیے شاہ نے ہامی بھر دی
"اچھا چل پھر سات بجے میں تجھے آفس سے پک کر لو گاـ"
YOU ARE READING
وہ جو خواب تھے میرے ذہین میں
Short Storyیہ ناول ایسے شخص پر ہے جس کی زندگی میں اذیت ہی تھی جس نے کبھی خوشی دیکھی ہی نہیں لیکن وہ ہمت نہیں ہارا اور اپنی منزل فتح کرلی