سورج ڈھلتا جا رہا تھا۔۔ وہ اب بھی بلکل ایسا ہی تھا جیسا آج سے کچھ سال پہلے اپنے کمرے کی کھڑکی پر کھڑا وہ زین شاہ تھا-
ماضی کی تلخ یادوں میں ڈوبا ہوا-کھڑکی پر کھڑا ہوا سیگریٹ کے کش لگا رہا تھا-یہ اُس کی تیسری سیگریٹ تھی-اُس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہو رہی تھی۔ خاموشی کا ایک آنسوں اُس کی آنکھ سے ٹوٹ کر نیچے گِرا تھا۔ یہ اُس کا روز کا معمول تھا-ابھی بھی وہ اپنی سوچوں میں ہی گم تھا- وہ شروع سے ہی ایک کم گو اور سنجیدہ انسان تھا مگر اب اُس کی شخصیت بہت زیادہ ہی سنجیدہ بن چکی تھی- وہ ہر چھوٹی بات پر غصہ کرتا تھا۔ اُس کے غصے سے ہر کوئی ڈرتا تھا۔۔ وہ ایک بہت ہی مشہور بسنیس مین بن چکا تھا۔۔ اُس کی زندگی میں کؤئی کمی نہیں تھی۔۔ دنیا اُس کے نام سے کانپ جاتی تھی۔۔ مگر اُس کے پاس ایک بھی رشتہ موجود نہیں تھا۔ ایسا کیا ہوا تھا جو اُس کا کوئی اپنا اُس کے ساتھ نہیں تھا۔۔آج بھی اپنی اُس ایک غلطی کو سوچ کر وہ پچھتاوے میں رہ جاتا ہے۔۔ مگر اب کیا فائدہ؟ کالی پینٹ کوٹ پہنے چہرہ بہت ہی سنجیدہ کیے ہوے ،اور چہرے پر آئے بال جو اُس کی شخصیت کو مزید نکھار رہے تھے۔ اور اُس کی آنکھیں جو اِس وقت بلکل لال تھی وہ اپنی ہی سوچوں میں گُم تھا۔۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی اُس نے ایک دم سے دروازے کی طرف دیکھا آنکھوں میں غصہ آگیا-
کیا مئسلہ ہے!! وہ چیخا تھا۔ جب پتا ہے کے میں نے منع کیا ہوا ہے رات کو میرے کمرے میں کوئی نہ آئے پھر کیا مصیبت ہے؟وہ پھر سے دھاڑا تھا-
معاف کردیں صاحب- یہ نیا آیا ہے اسے پتہ نہیں تھا-
سلیم اگر اسے پتہ نہیں تو بتا دو- اُس کا غصہ ابھی بھی کم نہیں ہوا تھا۔
جبکہ وہ نوکر سہم کر کھڑا ہوا تھا۔ سلیم اُسے لے کر باہر چلا گیا-
سلیم اُس کا بہت پرانا نوکر تھا- "تم پاگل ہو؟ کیوں گئے تھے صاحب کے کمرے میں شکر کرو بَچ گئے۔"
مَ مَ مجھے نہ نہ نہیں پہ پہ پتہ تھا۔ وہ ابھی بھی بہت ڈرا ہوا تھا۔
اچھا اچھا آئندہ احتیاط کرنا- وہ اس کا ڈر دیکھتے ہوئے بولا-
ادھر زین اب یہ سوچ رہا تھا کہ شاید کل اُس کی زندگی کوئی نیا موڑ لے آۓ- وہ روز یہی سوچتا ہے۔ مگر روزانہ صرف مایوسی ہی ملتی ہے اُسے۔ مگر ناجانے قسمت اُس پر کب مہربان ہو جاتی ہے یا اب اُس کی زندگی کیا رنگ لاتی ہے۔ ۔ ۔یہ تو قسمت ہی بتائے گی۔ ۔
ماضی:
لائبہ!لائبہ! کب سے آوازے دے رہی ہو اُٹھ جاؤ اب۔۔
آمنہ لائبہ کو کب سے آوازے دے رہی تھی مگر وہ سن ہی نہیں رہی تھی- آخر جب اُس کی آوازیں آنا بند ہو گئ تو لائبہ خود ہی اُٹھ گئ کیونکہ وہ صبح صبح اپنی ماں کی ڈانٹ نہیں سن سکتی تھی-
کالے کرتے کے ساتھ جینس پہن کر آئینے میں اپنا جائزہ لے رہی تھی سر پر ہجاب باند کر، ہلکی سی لپ سٹک لگا کر، وہ مکمل تیار تھی-
پرس اُٹھا کر وہ باہر نکلی۔ وہ بہت خوبصورت تھی اور اُس کی یہ تیاری اُسے مزید خوبصورت بنا رہی تھی خاص طور پر اُس کا حجاب۔۔۔۔
تیکھے نقوش،بڑی بڑی آنکھیں،گھنی پلکیں،اور چہرے پر بلا کی معصومیت،وہ کسی کے بھی دل میں اتر جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔
ماما جلدی کریں میں پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکی ہو۔ وہ بریڈ کا سلائس منہ میں رکھتی ہوی بولی۔۔
ارے بیٹا جی ۔ آہستہ کھائیں۔ لائبہ کے پاپا نے اُس کے جلدی کھا نے پر ٹوکا۔وہ اخبار پڑھ رہے تھے۔
سوری بابا میں پہلے ہی لیٹ ہو رہی ہو۔
ہا تو کس نے کہا ہے کے پوری رات جاگتی رہا کرو اس وجہ سے صبح آنکھ نہیں کھلتی-
اچھا ماما میں بعد میں بات کرو گی ابھی آمنہ مزید کچھ بولتی اس سے پہلے ہی لائبہ اس کے گال پر کس کرتی باہر نکل گئی۔
جبکہ پیچھے سے آمنہ کا منہ بن گیا۔ اور حسن صاحب اپنی بیٹی کی چالاکی پر مسکرا دیے۔
حسن صاحب اور آمنہ کی پسند کی شادی ہوی تھی ۔ یونیوسٹی کے زامانے سے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ حسن صاحب کے گھر والوں کو کوئی عتراض نہ تھا اس طرح ان کی شادی ہو گئ۔ حسن صاحب ایک اکیلے وارث تھے۔اور اپنے گھرکے لاڈلے بھی تھے۔ان کی کوئی خواہش کبھی رَد نہیں ہوئی تھی۔ اور آمنہ کو بھی اپنے گھر سے زیادہ پیار اور عزت حسن صاحب کے گھر سے ملا۔ آمنہ کی والدہ کا انتقال بچپن میں ہوگیا تھا۔جس کے بعد اُن کے والد نے دوسری شادی کر لی تھی۔ اور اُن کی ایک بیٹی ہوئی تھی۔ جس کا نام اُنہوں نے مریم رکھا تھا ۔ آمنہ کی سوتیلی ماں (صالحہ ) نے اسے کبھی اپنا نہیں سمجھا اور ہمیشہ اُسے نیِچا دیکھانے کی کوشش کرتی رہی۔اُن کی بیٹی بھی انھی پر گئی تھی۔ احمد صاحب (آمنہ کے والد ) سب دیکھتے تھے مگر چپ رہتے تھے تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔اور آمنہ بھی چپ کرکے سب سہتی رہی۔ ایک دن جب آمنہ نے حسن صاحب کے بارے میں اپنے والد سے بات کی وہ بہت آرام سے بات کر رہی تھی اور احمد صاحب بھی سُن رہے تھے مگر تب تک جب تک صالحہ اندر نہیں آئی تھی۔
ہائے ہائے!یہ کیا عزاب کردیا لڑکی تونے ۔۔ارے شرم نا آئی ایسی بےہودہ حرکت کرتے ہوئے ۔۔ ہاےےےے! اب کیا منہ دیکھائیں گے ہم دنیا والوں کو؟ ارے اپنی مری ہوی ماں کا ہی لحاظ کر لییتی اگر باپ کی عزت کا خیال نہ تھا ۔ تو بدکردار گری ہوی لڑکی، اپنی معصوم بہن کا خیال نا آیا کے تیری اِس حرکت کے بعد کون کرے گا اُسے شادی ۔ تیری ماں بھی ایسی ہی تھی کیا؟
بس!بس!امی آپ مجھے چاہے کچھ بھی کہے مگر میری امی کے خلاف ایک لفظ نہیں سنو گی وہ اپنی امی کے خلاف ایسے الفاظ سن کر آپے سے باہر ہوگئ تھی۔
ارے دیکھا احمد صاحب کیسی لمبی زبان ہوگئ ہے اس کی کیسے بدتمیزی کر رہی ہے ۔۔ ارے آپ بولے نہ اسے کچھ چپ کیوں ہے؟ بس اب اپنی اس بےعزتی پر اب میں اس گھر میں اور نہیں رہو گی میں جارہی ہو۔ وہ اپنے جھوٹے آنسوں صاف کرتی ہوئ جا رہی تھی جب احمد صاحب نے انہیں روکا۔
رک جاؤ صالحہ!
آمنہ! مافعی منگوں صالحہ سے ابھی اسی وقت۔۔،،
جبکہ آمنہ اپنے باپ کا یہ روپ دیکھ کر حیران تھی۔
نہیں بابا اگر بات صرف میری ہوتی تو میں معافی مانگ لیتی مگر یہاں بات میری ماما کی ہے وہ آنسوں صاف کرتے ہوئے بولی۔
آمنہ میں نے کہاں معافی مانگوں! وہ دھاڑے تھے۔ ۔
جبکہ صالحہ بی بی ابھی بھی اپنے جھوٹے آنسوں صاف کر رہی تھی۔
نہیں بابا! جواباً وہ بھی چیخی تھی۔
جس کے ساتھ ہی احمد ساحب نے ایک زور دار تھپڑ آمنہ کے منہ پرماڑا۔ بدتمیز! چھوٹے بڑے کا لحاظ بھول گئی ہو یہ تربیت کے ہے میں نے تمھاری صالحہ کہتی تھی کے تم بدتمیز ہوتی جارہی ہو مگرمیں نے یقین نہیں کیا۔
تبھی مریم اندر آتی ہے بابا میں نے بھی آپ سے کچھ کہنا تھا۔
میں نے آمنہ کو کافی بار ایک لڑکے کے ساتھ دیکھا ہے وہ بھی صبح کے وقت یہ ہم سے پڑھائئ کا کہہ کر باہر یہی کام کرتی ہے اگر آپ کو مجھ پر یقین نہی تو یہ تصویریں دیکھ لیں۔ وہ اپنے ہاتھ میں پڑی کچھ تصویریں احمد صاحب کے ہاتھ میں پکڑاتی ہے۔ جنہیں دیکھتیں ہی اُن کی آنکھیں ضبط سے لال ہوجاتی ہے۔
آمنہ ہم نے تمھیں یہ حق دیا تھا کہ اپنی زندگی کا فیصلہ کرو کیونکہ ہمیں تم پر یقین تھا مگر تم نے ہمارا یقین خاک میں ملا دیا۔ ارے اگر ہم سے کہتی تو کیا ہم نہیں کرواتے تمھاری اُسے شادی؟یہ سب بیہودگی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟وہ تصویروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔
بابا میری بات سنیں۔ ۔ ۔
بس نہیں سننی تمھاری کوئی بات نکل جاؤں ہمارے گھر سے اور کبھی اپنی شکل مت دیکھانا۔
جبکہ آمنہ ابھی تک صدمے میں تھی کیونکہ بھلے ہی اُس کے پاس اپنی زندگی کے فیصلے کا حق تھا مگر پھر بھے وہ کبھی حسن صاحب کے ساتھ اکیلے باہر کبھی نہیں گئی وہ تو صرف یونیورسٹی میں ملتے اپنی حد سے باہر کبھی نہیں گئی پھر یہ سب؟ اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔
وہ بنا کچھ کہے اپنے گھر سے نکلی اور حسن صاحب کے گھر چلی گئی۔ انہوں نے ساری بات سُن کر فوراً اُن سے نکاح کر لیا۔ اُن کے گھر والوں نے سب دیکھ کر کوئی بات نہیں اٹھائی اور پھر اُن کی شادی بہت دھوم دھام سے کی گئی حسن صاحب کے گھر والوں نے آمنہ کے مائیکے کی کمی پورے کرنے کی کوشش کی مگر پھر بھی اُن کو اپنے ابو کے یاد شدت سے آئی اُن کو دُکھ اِس بات کا زیادہ ہوا کہ اُن کے سگے والد نے اُن کا یقین نہیں کیا۔
شادی کے کچھ سالوں بعد اُن کے ہاں ایک چھوٹی سی گڑیا کی پیدائش ہوئی جس کا نام اُنہوں نے لائبہ رکھا۔ وہ سب کے آنکھوں کا تارہ تھی۔
خاص طور پر حسن صاحب کی۔ مگر لائبہ کی پیدائش کے کچھ سال بعد ہی حسن صاحب کے والد اور والدہ کا انتقال ایک کار اکسیڈینٹ میں ہوگیا۔ اُن کے جاتے ہی حسن صاحب بہت ٹوٹ گئے تھے۔
مگر آمنہ نے انہیں سنمبھالا اور اپنی بچی کے ساتھ گھل مل کروہ جلد ہی اس زخم کو بول گئے تھے۔
لائبہ یونیورسٹی پہنچی ہی تھی کہ اُسے پیچھے سے اپنی دوست کی
آوازیں آنا شروع ہو گئی جو کسی لڑکے سے لڑنے میں مصروف تھی۔
ہا تو بھائی کیا کہہ رہا تھا تو؟
ایک منٹ!یا تو آپ مجھے بھائی نا کہے۔ یا پھر" تو " نا کہے۔
اُس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کے یا تو عزت دو یا نا دو۔
ہنہ! تم جیسوں کو نا یہ لاریب اپنا نوکر نا بنائے تم بھائی کی بات کر رہے ہو!
لاریب کیا ہوا ہے اس طرح کیوں چیخ رہی ہو؟لائبہ اُس کے پاس آکر بولی۔
ارے لائبہ تمھیں نہیں پتہ یہ آوارہ لڑکا میرے سے جان بوجھ کر ٹکڑایا اور اب مجھ پر ہی چیخ رہا ہے!وہ بہت غصے میں تھی۔
ایک شریف عزت دار لڑکے کو آوارہ کہتے ہوئے زبان نہیں کانپی تمھاری؟
بلکل نہیں میں سچ بولنے سے نہیں گھبراتی۔ لاریب کہا پیچھے رہتی۔
لاریب اب بس بھی کرو آج پہلا دن ہے ہمارا تم نے آج سے ہی لڑنا شروع کر دیا ہے-
ہاں سہی کہہ رہی ہے تمھاری دوست اس سے ہی کچھ سیکھ لو۔
علی اپنا فرض سمجھ کر بولا تھا۔ لڑکیوں کی اتنی لمبی زبان اچھی نہیں لگتی میڈم لگام دو اسے تھوڑا۔
اے اے اے مسٹر! تم کون ہوتے ہو لڑکیوں کی زبان کے بارے میں بولنے والے؟لاریب کہا پیچھے رہتی ۔ابھی وہ مزید بولتی کے اُن کے پاس ایک لڑکا آکر کھڑا ہوگیا۔۔
چہرے پر بلا کی سنجیدگی لیے وہ اُن کے پاس آکھڑا ہوا۔۔ علی تو یہاں کیا کر رہا ہے کلاس کب کی۔ ۔ ۔ ابھی وہ مزید کچھ بولتا کے سامنے کھڑی لائبہ کو دیکھ کر اُس کی بولتی بند ہو چکی تھی۔ ہجاب میں لپٹا چہرہ کسی قسم کے میک اپ سے بلکل پاک، بلکل سادہ سی وہ لڑکی زین کو پہلی نظر میں بہت اچھی لگی تھی۔۔
جبکہ لائبہ اُس کی نظروں سے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگ گئی۔
یار بس کیا بتاؤ ایک " چڑیل" مل گئ تھی ۔ چڑیل پر زور دے کر کہا گیا تھا۔
جبکہ اُس کی نظروں کا تعاقب دیکھ کر زین بھی اُدھر دیکھنےلگ گیا۔۔
لاریب اُسے اس بات کا جواب ضرور دیتی اگر لائبہ اُس کا ہاتھ کھینچ کر اُسے لے کر نا جاتی۔۔
جبکہ زین مسلسل لائبہ کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
اُس کو لائبہ کو گھورتے پا کر علی نے ایک زور دار مقّہ اُس کی قمر پرجڑ دیا۔
اووو!تو پاگل ہے؟ایک تو ایک گھنٹے سے تیرا انتظار کا رہا ہو اور اوپر سے۔۔۔اچھا بس بس۔ تو چل بتاتا ہو تجھے۔ علی اُسے ساتھ لے جاتے ہوئے بولا تھا۔ کلاس پہنچنے تک ساری رام کہانی اُس نے زین کو بتا دی تھی ۔
علی اور زین بچپن کے دوست تھے۔ دونوں کی دوستی بہت گہری تھی۔ علی بہت خوش مزاج لڑکا تھا زین کی نسبت ۔۔۔ دونوں ہی دیکھنے میں بےحد ہینڈسم تھے۔ اور یہی وجہ تھی کے لڑکیاں ان پر مرتی تھی علی تو پھر بھی دل رکھ لیتا ۔۔ مگر زین کسی لڑکی سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا تھا۔ علی کے زریعے بھی بہت خوبصورت لڑکیوں نے اس سے بات کرنے کے کوشش کی ۔ مگر اس نے کسی ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔
علی کی بس ایک بہن تھی۔ اور ایک دادی کیونکہ والدین کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔
زین ایک اکیلا وارث تھا۔ اور اپنے والدین کا لاڈلا تھا۔ اُس کی کؤئی خواہش کبھی رَد نہیں ہوئی تھی اور اسی وجہ سے اُسے ایسا لگتا تھا کے اب چاہے وہ کسی بھی چیز پر ہاتھ رکھے وہ اُس کی بن جائے گی ۔ شاید وہ انسان اور چیزوں میں فرق بھی بھول گیا تھا۔ اُس کی طبیعت نہایت سنجیدہ تھی۔ صرف ایک علی تھا جو اُسے ہنسا سکتا تھا۔۔
علی اور زین ابھی کلاس میں پہنچے ہی تھے کے سامنے لاریب کو دیکھ کر اُس کی بولتی بند ہوگئی۔۔اُن کا ڈیپارٹمنٹ ایک ہی تھا۔۔ جبکہ لاریب بھی اُسے ہی گھور رہی تھی۔۔علی نے اُسے ایسے گھورتے پاکر لاریب کو آنکھ مار دی۔۔ جس پر لاریب تپ گئی۔
چھچھورا،آواراہ لاریب نے زین کو یہ نام نوازے۔
اپنے بارے میں ایسے الفاظ سُن کر علی نے کچھ کہنا چاہا۔۔ مگر زین اُسے کھینچ کر اپنے ساتھ لے گیا۔ زین بلکل لائبہ کے بیچھے جبکہ علی لاریب کے پیچھے بیٹھ گیا۔ لائبہ اور لاریب تو اُن کی اس حرکت پر حیران ہی رہ گئی۔ کلاس شروع ہو گئی سب سے پہلے سب کے نام پوچھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔۔ جب علی سے پوچھا گیا تو لاریب نے پیچھے سے آواز لگائی "چھچھورا" جس پر زین کے ساتھ پوری کلاس کا جاندار قہقہہ نکلا۔۔ اور علی اب اپنے بدلے کا سوچ رہا تھا۔۔
کلاس ختم ہوتے ہی لاریب اور لائبہ کیفے چلے گئے۔ مگر جب وہ واپس نکلے تو ایک آفت اُن کا انتظار کر رہی تھی۔۔ابھی ایک قدم ہی باہر نکالا تھا کہ اوپر سے پانی کی بالٹی ان کے اوپر گری تھی۔۔ وہ دونوں بلکل گیلی وہ چکی تھی۔۔ جب سامنے سے علی اور زین آتے ہوئے دکھاے دیے۔۔(!ooo shit) یار گرانا تو بس اس چڑیل پر تھا یہ لائبہ پر کیسے گِرگیا! جبکہ زین کو بھی علی کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا اور اب وہ اُن سے معافی مانگنے آئے تھے۔
یہ سب آپ نے کیا؟لائبہ اُن کو سوالیاں نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔۔
جبکہ وہ دونوں اور زیادہ شرمندہ ہوگئے۔ جی لائبہ ہم سے ہی ہوا مگر۔۔۔ابھی زین کچھ اور بولتا اس سے پہلے ہی لائبہ ایک کیچڑ سے بھری ہوئی بالٹی جو وہاں کا مالی رکھ کر گیا تھا وہی اُٹھا کر اُن کے منہ پر مار گئی تھی۔ وہ دونوں اُس کی اس حرکت پر ہکے بکے رہ گئے ۔۔جبکہ لاریب اپنا بدلہ پورا ہونے پر خاصی خوش تھی ۔
حیرانی کی جگہ اب زین کی آنکھوں میں غصہ اُتر آیا۔۔
یہ کیا حرکت کی ہے تم نے؟وہ دھاڑا تھا پوری یونیورسٹی کے سامنے اپنے آپ کو کیچڑ میں دیکھنا وہ بھی ایک لڑکی کے ہاتھوں زین شاہ کو گوارہ نہیں تھا۔۔
میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ بس آپ کی حرکت کا جواب دیا ہے۔۔ زین کے غصے کا اُس پر کوئی اثر نہیں تھا۔۔ کیونکہ وہ بھی لائبہ حسن تھی۔۔ جبکہ لاریب اپنی دوست کے اصل روپ باہر آنے پر بہت خوش تھی۔۔
دیکھوں لائبہ ہم نے۔۔ ابھی علی مزید کچھ بولتا جب زین نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روک دیا۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے ان کو اپنی صفائی دینی کی۔۔ وہ پھر سے دھاڑا تھا جبکہ اب اُس کا غصہ دیکھ کر لائبہ بھی ڈر گئی تھی۔۔ اُس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔۔
غلط انسان سے پنگا لے لیا ہے آپ نے لائبہ جی۔۔،،علی دل میں سوچ رہا تھا۔۔۔، تبھی لاریب نے بولنا اپنا فرض سمجھا : ارے آپ سے صفائی مانگ کون رہا ہے۔۔ ہم نے تو اپنا بدلہ لے لیا ہے۔۔ لاریب ہاتھ جھاڑتی ہوئی بولی تھی۔۔۔ جبکہ علی کو وہ اس وقت زہر لگ رہی تھی۔۔ زین مسلسل لائبہ کو گھورے جا رہا تھا۔۔ تبھی لاریب اُس کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنے لگی جب زین کی آواز سماعتوں سے ٹکڑائی ۔۔۔،
رک جاؤ! وہ لائبہ کے قریب آتا ہوا بولا جبکہ لائبہ کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس نے بہت بڑی غلطی کردی ہے۔۔۔۔۔لائبہ بی بی! یہ جو آپ نے حرکت کی ہے اس کا حساب تو آپ کو دینا پڑے گا۔۔ وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ جبکہ لائبہ کو اب لگا وہ یہاں ایک منٹ اور نہیں رُک سکتی اس لیے فوراً لاریب کے ساتھ باہر نکل گئی۔۔
گھر پہنچ کر لائبہ نے اپنے آپنے آپ کو کمرے میں قید کر لیا۔۔ اُسے سوچ سوچ کر خوف آرہا تھا کہ اب زین اُس کے ساتھ کیا کرے گا۔۔ دوپہر کو جب آمنہ اُسے بلانے آئی تب ہی وہ فریش ہو کر باہر نکلی کیونکہ اپنی وجہ سے وہ اپنے والدین کو پریشان نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ ادھر زین جب سے گھر آیا اُس کا غصہ کسی بھی طرح کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔۔ یہ اتنی بڑی بات تو نا تھی مگر زین کو اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی جس کا بدلہ وہ لےکر رہے گا اُسے بار بار وہ چہرے یاد آرہے تھے جو اُس کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔۔ احساس جو لائبہ کو دیکھ کر اُس کے اندر جاگا تھا وہ اب کہی سو چکا تھا۔۔ اُس کی جگہ اب غصے نے لے لی تھی۔۔
لائبہ بی بی! غلط انسان سے پنگا لے لیا ہے آپ نے۔۔،،،،
علی زین کو کب سے کال ملانے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ کال نہیں اُٹھا رہا تھا ۔۔ علی کو پتہ تھا زین کا کہ وہ آگے کچھ غلط کرنے کی ہی سوچ رہا ہوگا۔۔ جو علی کو روکنا تھا۔۔
علی کے لیے یہ بہت عام بات تھی کیونکہ اُس کے ساتھ اکثر ہوتا رہتا تھا۔۔۔۔مگر اُسے پتا تھا کے زین اتنی آسانی سے یہ بات جانے نہیں دےگا۔
اب دیکھنا یہ تھا کہ زین آگے کیا کرنے والا ہے۔۔
اور ان چاروں کی زندگی اب کونسا رنگ لاۓ گی۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔،،،،
،،،،،،۔۔۔۔۔۔،،،،،،G tuw readers? Kesa laga 1 ep? I know First novel hai tuw mistakes tuw hongi plz ignor kyoke urdu mai likhna bht mushkil hai😫
Prh kr apne reviews zror share kry votes ayr comment lazmi krye ga❤️✨Allah hafiz inshallah next ep soon.......,,,,,,,,,,,,,,,
YOU ARE READING
محبت یا جنگ
Mystery / ThrillerKahani hai 4 ase logo ki jin ka safr shoro ki nafrat se hota hai🧚♂️