کون دیکھے گمان سے باہر
خواب سب ہیں بیان سے باہر
اک نشاں تک ہے سوچ دنیا کی
اور ہم ہیں نشان سے باہر
راز کھولا تلاش نے میری
اک جہاں ہے جہان سے باہر
جس نے بنیاد کو تھا خون دیا
آج خود ہے مکان سے باہر
وہ پرانا سا مال ہیں اب ہم
جو بکے بس دکان سے باہر
الٹ تعبیر ہوتے جا رہے ہیں
سو بے توقیر ہوتے جا رہے ہیں
بسایا اس طرح سے اپنا آنگن
کہ خود رہگیر ہوتے جا رہے ہیں
کبھی جو جان تھے ہر داستاں کی
پسِِ تحریر ہوتے جا رہے ہیں
مری سانسوں کی تھے جو دسترس میں
وہ جوئے شِیر ہوتے جا رہے ہیں
ترے جو شعر ابرک قہقہے تھے
بڑے دلگیر ہوتے جارہے ہیں
زندگی تب تلک ہدف ہو گی
جب تلک جاں نہ یہ تلف ہو گی
جس ورق سے بھی زیست پڑھ لیجے
حرف در حرف سر بکف ہو گی
دشمنوں کو پچھاڑ بھی لوں تو
سامنے دوستوں کی صف ہو گی
ڈھونڈتا میں نہیں اجالوں کو
جب سحر ہوگی ہر طرف ہو گی
اک اشارے کی دیر ہے ابرک
زندگی ایسے بر طرف ہو گی
اتباف_ابرک
Ignore User
Both you and this user will be prevented from:
Messaging each other
Commenting on each other's stories
Dedicating stories to each other
Following and tagging each other
Note: You will still be able to view each other's stories.