کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انہیں بس ایک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے
شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے
منیرؔ دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئنے کو تمنا کی آب کیا دیتے
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انہیں بس ایک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے
شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے
منیرؔ دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئنے کو تمنا کی آب کیا دیتے
ہوائے ترک تعلق چلی ہے دھیان رہے
مگر یہ بات ہمارے ہی درمیان رہے
گلہ تجھی سے نہیں بام و در کی ویرانی
کھلی فضا میں بھی ہم لوگ بے امان رہے
شکست جاں پہ ہے تجدید اعتبار کی مُہر
جو ڈوب کر بھی تیرے ساحلوں کا مان رہے
وہ برگ جن پہ رُتوں کے عذاب اُترے تھے
شجر سے کٹ کے بھی موسم کے ترجمان رہے
تو اپنے حق میں گواہی کہاں سے لائے گا
تیری طرف سے اگر ہم بھی بدگمان رہے