زمانہِ بشر (افسانہ)

194 20 1
                                    

"ابراہیم صاحب برہان کی اب شادی بھی کرنی ہے آپ اسکی مزید اچھی نوکری کے لیے کچھ کریں..میرا بچہ خود الگ اچھی نوکری کی تلاش میں پریشان ہے۔"
وہ ایک بار پھر ابراہیم کو زچ کرنے لگیں جو سکون سے بیٹھے ٹی وی پہ خبرنامہ سن رہے تھے۔
"غنایا تم زیادہ کی لالچ کیوں کر رہی ہو؟پچیس تیس ہزار کمانا بھی کوئی عام بات نہیں۔جب وہ مزید ترقی کرتا رہے گا تو تنخواہ بڑھتی جائیگی۔ایسے ہی پہلی بار میں لاکھوں کی نوکری نہیں مل جاتی کیا یہ سب آسان ہے؟"
وہ مکمل طور پہ جھنجھلاتے ہوئے بولے اور غنایا اپنا اگلا جواز رکھتی اس سے پہلے ہی انکو خاموش کرواکے واپس ٹی وی پہ نظریں جمالی۔
برہان کا رشتہ تو پکا ہو چکا تھا مگر اب لڑکی والوں کی جانب سے اسکی کم تنخواہ پہ گفتگو چھڑنے لگی تھی۔

موسم میں خنکی موجود تھی گھر میں ہر جگہ سکوت طاری تھا اور اسکی کوئل سی سریلی آواز اس سکوت کو توڑ رہی تھی۔وہ کچن میں کھانا بناتے ہوئے مسلسل گنگنا رہی تھی۔ہانڈی چولہے پہ چڑھانے کے بعد اس نے بڑا تھال نکالا اور اس میں کنستر سے آٹا الٹ کر آٹا گوندھنے لگی۔
گھنی گھچی ہوئی لمبی چٹیا سے نکلتی کچھ چھوٹی لٹیں مسلسل اسکے چہرے کے گرد جھول رہی تھیں جن سے وہ الجھن کا شکار ہوگئی مگر آٹے میں ہاتھ ہونے کے باعث کچھ کر نہیں پارہی تھی۔
سرخ گلابی ہونٹ تھے جنھیں کسی لالی کی ضرورت تک نہ تھی وہ خوبصورتی سے گنگناتے ہوئے کھل بند ہورہے تھے۔کسی کی آہٹ پہ وہ خاموش ہوئی اور تھال سے نگاہیں اٹھا کے دروازے تک لے گئی اور حیدر کو دیکھا اور اسے اشارہ کیا یہ بالوں کی لٹیں پیچھے کردے۔۔
وہ اکلوتی بہن تھی کبھی اسکی خواہشوں پہ وہ چڑ بھی جاتا تھا مگر اسکو کبھی ناراض نہیں کرتا تھا۔اسکے بلانے کے اشارے پہ فوراً چل کے اسکے پاس آیا۔۔
"اللہ خیر کرے آج تو پتا نہیں کیسا کھانا ملے گا۔"
وہ اسکی لٹیں کانوں سے پیچھے کر کے ایک مکمل نگاہ کچن پہ ڈال کے توقف سے بولا کچن پورا پھیلا ہوا تھا اور چیخ چیخ کے کہہ رہا تھا آج ایمن نیاز کچن میں کھانا بنا رہی ہے۔
"آپکی بیوی سے بھی اچھا کھانا بنا کے کھلاؤں گی۔"
وہ ناز سے گردن تان کے بولی۔حیدر نے اسکی اکڑ پہ اسکو گھورا تو وہ ہونٹ گول کرکے واپس آٹا گوندھنے لگی۔۔
وہ بے انتہاء خوبصورت تھی۔مٹی میں ہاتھ ڈال لے تو میلی ہوجائے ایسی۔۔
پورے خاندان میں ایک وہی اکلوتی تھی جو سب سے زیادہ حسین تھی جھیل سی گہری بھوری آنکھیں چہرے پہ بیٹھتی ہوئی ناک اور سرخ ہونٹ۔۔
اپنی اس خوبصورتی پہ کافی ناز بھی تھا اور تھوڑا غرور جو اسے مغرور بناتا تھا۔
وہ آٹا گوندھ کے فارغ ہوئی تھی حیدر تب بھی موجود تھا اور ہر چیز کھول کھول کے چیک کر رہا تھا۔
پتیلے کی کالک ایمن کے ہاتھ پہ لگ گئی تھی جس پہ وہ بری طرح چڑی۔
"یار میرا ہاتھ خراب ہوگیا...بھائی چلیں آپ بھی باہر جائیں پورا راستہ روکے کھڑے ہیں۔۔"وہ اسکو دروازے کی جانب گھوماکے بولی۔۔
"ارے میری چھوٹی سی بہن کیوں اتنا پریشان ہورہی ہو۔۔صرف کالک ہی تو ہے،ہٹ جائیگی۔"
"پر ہلکا سا نشان رہ جائیگا میرا ہاتھ پہ دھبہ محسوس ہوگا۔دیکھیں یہ والا ہاتھ کتنا خوبصورت ہے۔"
وہ نخوت سے کہتے ہوئے سنک کی طرف گئی اور نل کھول کے خوب پانی بہایا اور صابن سے رگڑا۔صاف چمکتے ہوئے ہاتھوں پہ کالک برداشت کہاں ہورہی تھی۔
________
ایمن کی بھابھی نے دسترخوان لگایا ایمن کمرے میں تیار بیٹھی تھی۔آج اسکے ہونے والے سسرالی آئے ہوئے تھے۔اور اس رشتے پہ وہ بےحد خوش تھی آخر لڑکا بھی اسکی طرح ہی خوبصورت تھا۔
"گاڑی؟"سعیدہ صاحبہ کی ڈیمانڈ سن کے حیدر سکتے میں چلا گیا۔
"ہاں آپ لوگ اپنے داماد کو بیس پچیس لاکھ کی گاڑی تو تحفہ سمجھ کر دے سکتے ہیں نا۔بعد میں وہ ایمن اور ارتضی ہی کہ کام آئیگی۔"
وہ خاتون پھر اٹل انداز میں بولی۔
وہ خاتون کیسے منہ پھاڑے بیس پچیس لاکھ کا زکر کر رہی تھیں جیسے یہ کوئی عام بات ہو اور رقم حد درجہ چھوٹی۔
فل وقت تو ایمن کے گھر والوں میں سے کوئی کچھ نہیں بولا سب نے سکون سے کھانا کھایا اور ان کے جانے بعد سب امی بابا کے کمرے میں جمع ہوگئے تھے۔نیاز احمد نے اپنی بہن کو بھی بلوایا تھا۔۔
"بابا ابھی وہ گاڑی کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں بعد میں کسی اور چیز کی کریں گے۔مجھے انکی یہ بات بلکل سمجھ نہیں آئی۔اوپر سے جہیز الگ مانگ رکھا ہے۔ہاں چلو ہم اپنی بہن بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت نہیں کریں گے جتنا ہوگا اچھے سے اچھے طریقے سے رخصت کریں گے خوشی خوشی پر یہ گاڑی کا ماجرا غلط ہے۔۔"
حیدر نے اپنی بات پوری کی وہ ایک دم تپا بیٹھا تھا۔
"پر اب رشتہ کر دیا ہے تو گاڑی دینی پڑے گی۔"وردا بولیں جنکی بات بھابھی نے کاٹی۔
"امی کہاں سے دیں گے گاڑی؟ہم تو جہیز اور شادی ہال میں ہی پورے ہوگئے۔اور اپنی ایمن دے رہے ہیں اسکے علاوہ اور کیا دیں؟"لڑکی تو اپنا ہر رشتہ چھوڑ کے آتی،انکا بیٹا تو انکے پاس ہی تھا۔۔
"ہاں بھائی صاحب کنزہ سہی کہہ رہی ہے۔یہ تو ایسا لگ رہا ہے ہم رشتہ خرید رہے ہیں۔مجھے تو یہ لوگ شروع سے ہی سمجھ نہیں آرہے تھے۔۔سوچ لیں آپ ایک مرتبہ پھر۔کہیں ہماری ایمن شادی کے بعد رل نا جائے۔۔"
وہ نیاز کے گھٹنے پہ دباؤ ڈالتی سمجھارہی تھیں حیدر بھی انکی بات سے اکتفا کر رہا تھا۔۔آخر ایمن لاوارث تھوڑی تھی جو گھر والے ایسے ہی بیاہ دیتے اور حیدر جیسے بھائی جس کے پاس ہو وہ تو خوش نصیب ہوتی ہیں۔۔

زمانہِ بشرWo Geschichten leben. Entdecke jetzt