عشقِ زار قسط نمبر:39

96 13 1
                                    

ناول: عشقِ زار
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:39

”کچھ دیر کے لیے اسے سنبھالو اور اگر اس کی آواز بابا سائیں کے کانوں میں پڑی تو میں تمہاری آواز ہمیشہ کے لیے بند کردوں گا“،سائرہ کو چوکیدار کی جانب پھینکتے مراد شاہ نے اُسے تنبیہ کی جو اُسے دیکھتے ہی جلدی سے کھڑا ہوگیا تھا۔
”جی سائیں، آپ بے فکر ہو کر جائیں“،سائرہ کو اپنی گرفت میں لیتے خان نے اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھا جو بار بار چیخ رہی تھی۔
”خان بابا خدا کے لیے مجھے جانے دو۔ میری بہن کی عزت خطرے میں ہے“مراد شاہ کے اندربڑھتے ہی خان نے سائرہ کے منہ سے ہاتھ ہٹایا تو اُس نے چوکیدار کے قدموں میں گرتے مدد کی فریاد کی۔
”میں نے تمہیں جانے دیا تو مراد سائیں مجھے مارنے میں ایک سکنڈ نہیں لگائے گا اس لیے اب جو ہو رہا ہے اُسے ہونے دو“،اُسے اندر کی جانب بھاگتا دیکھ خان نے پھر سے دبوچا اور اپنے ساتھ لیے کواٹرکی جانب بڑھا تاکہ وہاں لے جا کر کچھ دیر کے لیے اُس کی زبان بند کروا سکے جو بار بار اُسے واسطے دیتے اپنی بہن کو بچانے کی التجاء کر رہی تھی۔
"میں نے کہا نا کہ چپ ہو جاؤ تو خدا کے لیے اپنی زبان بند کر لو“،کوارٹر میں لاتے ہی اُس چار پائی پہ دھکا دیتے خان نے اب کی بار تھوڑا غصہ دکھایا تو سائرہ کی آواز بند ہوئی۔
”خان بابا آپ کو آپ کے بچوں کا واسطہ میری بہن کو اُس درندے کی درندگی کی نظر ہونے سے بچا لیں“،سائرہ جو کافی وقت سے حویلی میں کام کر رہی تھی اُس نے چوکیدار کے آگے پھر سے فریاد کی جو نیا ہونے کی وجہ سے اُس سے کوئی بھی لحاظ کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔
”ہاہاہ ماڑا ہمارا کوئی بیوی بچہ نہیں اس لیے ایسی فضول قسم کی باتیں کر کہ ہمارا دماغ خراب مت کرو اور چپ کر یہاں بیٹھ جاؤ ورنہ مراد سائیں کی اجازت کے بغیر ہی میں تمہارا حشر بگاڑ دوں گا“،اُسے اپنے قدموں میں بیٹھا دیکھ کر خان نے اُسے ٹھوکر مارتے پیچھے کیا اور کسی چیز کے گرنے کی آواز پہ اُسے وہیں چھوڑے جلدی سے باہر نکالا۔
”یہ کیا گرا ہے؟“خان کے باہر جاتے ہی سائرہ بھی موقع ملتے باہر نکلی تو دوسرے ملازمین بھی وہاں اکٹھے ہوتے سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
”کیا ہوا ہے؟ یہ کس چیز کا شور ہے؟“شور کی آواز پر حیدرشاہ کی آنکھ کھلی تو وہ اپنی چادر لیے باہر آئے جہاں ملازمین پہلے ہی لان کا جائزہ لیتے معاملے کو جانجنے کی کوشش میں لگے تھے۔
”عالیہ...“سائرہ جو سب کی نظروں سے بچ کر بیرونی حصے سے ہو کر مراد شاہ کے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی اُس نے ایک دم چیختے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ منہ پہ رکھے۔
”عالیہ آنکھیں کھولو“،دور تک جاتی لکیر کی صورت میں بہتے خون کو دیکھتے جہاں سائرہ کے حواس کام کرنا چھوڑے وہیں اُس کی آواز پر ملازمین کے ساتھ ساتھ حیدر شاہ نے بھی وہاں کا رخ کیا۔
”عالیہ میری جان میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی“،اپنا دوپٹہ جلدی سے اُس کے سر کے نیچے رکھتے سائرہ نے خود کلامی کرتے سامنے سے آتے مرادشاہ کو نفرت سے دیکھا جس کے کمرے میں پہنچتے ہی عالیہ نے موت کو ذلت بھری زندگی پر ترجیج دیتے دوسری منزل پر موجود بالکونی سے نیچے چھلانگ لگا دی تھی۔
”کیا ہوا؟ اور سائرہ تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟“اُن کے قریب پہنچتے ہی آنکھ سے خان کو چپ رہنے کا اشارہ کرتے مراد شاہ نے ایسے انجان بنتے پوچھا جیسے اس معاملے سے اُس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔
”پتا نہیں، یہ سائرہ کی بہن ہے اس نے کہیں اوپر سے چھلانگ لگائی ہے شاید“،حیدر شاہ نے اُس کے پوچھنے پر بتایا تو افسوس سے سر ہلاتے مراد شاہ نے سیلمان کو اُسے چیک کرنے کا کہا۔
”دیکھ زرا زندہ ہے یا مر کھپ گئی“،سائرہ کی نظروں کی پروا کیے بناء اُس نے حکم دیا تو سیلمان نے آگے بڑھتے عالیہ کی نبض کو دیکھا جو بہت آہستہ رفتار میں چل رہی تھی۔
”سائیں ابھی زندہ ہے“،ہاتھ چھوڑتے اُس نے بتایا تو حیدر شاہ نے اپنے خاص ملازم کو روکتے باقی سب ملازمین کو جانے کا کہا۔
”رات کا اندھیرا ختم ہونے سے پہلے کہیں باہر آبادی میں لے جا کر دفن کر آؤ اسے“،آہستہ آواز میں کہتے حیدر شاہ نے مراد شاہ کو بھی اندر جانے کا کہا جو اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے سائرہ کو روتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
”پر سائیں یہ تو ابھی زندہ ہے“،اُن کی بات سنتے ملازم نے سلیمان کی بات دہرائی۔
”جیسا کہا ہے ویسا کرو“،اُس کے اعتراض پر آنکھیں دکھاتے حیدرشاہ نے غصے سے دھاڑتے ہوئے حکم دیا تو اُس ملازم نے جلدی سے اثبات میں سر ہلاتے سائرہ کو پیچھے کیا جو بہن کو اس حالت میں دیکھ کر اب اونچی آواز میں مراد شاہ کو بددعائیں دے رہی تھی۔
”کہاں لے کہ جا رہے ہو تم میری بہن کو؟“چلاتے ہوئے اُس نے اُس ملازم کو پیچھے کی جانب دھکا دیتے عالیہ کو اُٹھانے سے روکا تو حیدر شاہ نے غصے سے سائرہ کا بازؤ پکڑتے اُسے اپنے ساتھ حویلی کے اندر گھسیٹا جو بار بار اپنی بہن کے زندہ ہونے کا کہتے حیدر شاہ سے اُسے بچانے کی فریاد کر رہی تھی۔
                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشقِ زارWhere stories live. Discover now