عشقِ زار قسط نمبر:10

82 11 0
                                    

ناول: عشقِ زار
مصنف: زارون علی (Zaroon Ali)
قسط نمبر:10

ماضی
سلطان صاحب کی گاڑی کا ہارن سننے کے بعد وہ کچھ دیر تک اُن کا انتظار کرتی رہی کہ وہ بات کرنے کے لیے اُس کے کمرے میں آئیں گے پر آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی جب وہ اُس کے پاس نہ آئے تو حبہ نے خود ہی ہمت کرتے نیچے کا رخ کیا جہاں سارہ بیگم کچن میں موجود مہمانوں کے لیے مختلف لوازمات تیار کروانے میں مصروف تھیں۔
”شکر ہے امی اپنے کام میں مصروف ہیں“، اُن کی کچن سے آتی آواز پرحبہ نے سکون کا سانس لیا اور کمرے کی جانب بڑھی۔
”آجائیں“،سلطان صاحب جو ابھی تک صوفے پر بیٹھے سارہ بیگم کی باتوں اور ضد کو سوچ رہے تھے دروازے پر دستک کی آواز سنتے ہی اُس جانب متوجہ ہوئے جہاں جواب پاتے ہی حبہ دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئی۔
”حبہ بیٹا آؤ یہاں میرے پاس بیٹھو“،صوفے کی جانب اشارہ کرتے سلطان صاحب نے اپنے لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کی۔
”میں آپ کا کب سے کمرے میں انتظار کر رہی تھی“،حبہ نے بیٹھتے ہی بات کا آغاز کیا۔
”میں بس کپڑے تبدیل کر کے تمہارے ہی کمرے میں آنے لگا تھا“،اُس کے چہرے پر درج سوال سے نظر چُراتے سلطان صاحب نے وضاحت دی۔
”آپ کی امی سے بات ہوئی؟“حبہ نے تمہید باندھے بغیر ہی سیدھا اپنے مطلب پہ آتے سوال کیا۔
”ہاں ہو گئی ہے“،سلطان صاحب جس سوال سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے حبہ کے وہی سوال پوچھنے پر اُنہوں نے لمبی سانس لیتے خود کو پرسکون کیا۔
”تو کیا کہا امی نے؟“سوالیہ نظروں سے اُن کی جانب دیکھتے ہوئے اُس نے پوچھا۔
”کہنا کیاہے تم جانتی نہیں ہو کیا اپنی ماں کی ضد کو جو بات کہہ دیتی ہے پھر وہ کر کے ہی دم لیتی ہے“
”مطلب“،حبہ نے ناسمجھی سے اُن کی جانب دیکھا۔
”مطلب کہ وہ مہمانوں کو گھر بُلا چکی ہیں میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی پر اُن کا فیصلہ اٹل ہے اُنہیں لگتا ہے کہ اُن کا انتخاب تمہارے لیے بہت بہتر ثابت ہوگا“،سلطان صاحب نے مختصر الفاظ میں حبہ کو سارہ بیگم کے ارادوں سے آگاہ کیا۔
”مطلب امی اپنی ضد نہیں چھوڑیں گئی؟“بے بسی اور دکھ کے ملے جلے تاثرات چہرے پہ سجائے حبہ نے ایک بار پھر سے امید لیے سلطان صاحب سے پوچھا۔
”نہیں،سارہ کو اپنا مقام اور حیثیت بہت عزیز ہے وہ اُس کے لیے تمہیں تو چھوڑنے کے لیے تیار ہے پر اپنی ضد کو نہیں“،سر جھکاتے سلطان صاحب نے حبہ کو بتایا جس کی آنکھوں سے آنسوؤ رواں ہو چکے تھے۔
”حبہ میری جان،پلیز رومت دیکھو تم بھی تھوڑا ٹھنڈے دماغ سے کام لو ہمارا معاشرہ اپنی برداری میں بے شک کسی لنگڑے، ناکارہ اور ظالم انسان کو تو اپنی بیٹی سونپ سکتا ہے پر انا کی ضد میں کسی غیر برداری سے رشتہ جوڑنا اُنہیں گناہ لگتا ہے حالانکہ دیکھا جائے تو یہ ذاتوں کا نظام تو انسان کا خود کا بنایا ہوا ہے اللہ کی نظر میں تو سب مسلمان مساوی ہیں پر یہ بات صرف سمجھ بوجھ رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ رشتے نبھانے کے لیے دماغ کہ ساتھ ساتھ دل کی آمادگی بھی ضروری ہے اور تمہاری ماں کا شمار اس وقت اُنہی لوگوں میں ہو رہا ہے جو اپنی ضد اور انا کو برقرار رکھنے کے لیے تمہاری خوشیوں کا گلا گھوٹنے میں دیر نہیں لگائے گی اس لیے اب تم چاہو تو اپنا فیصلہ کر سکتی ہو،“اُس سے نظریں ملائے بغیر سلطان صاحب نے اپنی بات مکمل کی۔
”میں کیا فیصلہ کروں گی؟ میرا فیصلہ تو امی کر چکی ہیں اور ابو میں ابھی اتنی بھی نا سمجھ نہیں ہوئی کہ اپنی ایک خواہش کے لیے ماں باپ کی عزت داوؤ پہ لگا دوں،“اُن کی بات کا مطلب سمجھتے ہی حبہ نے ہاتھ کی پشت سے آٓنسو صاف کیے اور سلطان صاحب کی روکنے کے باوجود بھی مزید کوئی بات کہے بغیر اپنے کمرے میں آگئی۔
                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی

عشقِ زارDonde viven las historias. Descúbrelo ahora