قسط نمبر ایک

286 20 30
                                    

اسلام آباد کا موسم کافی خوشگوار تھا نیلا آسمان کالے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا ٹھنڈی ہوائیں، مٹی کی سوندھی خوشبو بے حد بھلی لگ رہی تھی
فری پریڈ ہونے کی وجہ سے وہ سب یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھے متین کو تسلیاں دے رہے تھے آج پھر وہ کسی لڑکی سے دل تڑوا آیا تھا
اذہان سر کے نیچے بیگ رکھے لیٹا موسم کے مزے لے رہا تھا جبکہ آبص حمزہ طحہ حاذم اس کے گرد دائرہ بنائے اسے نت نئے مشورے دے رہے تھے جائشہ امل اور دعا ان سے تھوڑا فاصلے پر ہو کر بیٹھی تھیں جانتی تھیں اس کےیہ ہر روز کے ڈرامے ہیں۔
تم لوگ جانتے ہو نہ میری آج تک کی زندگی میں وہ پہلی لڑکی تھی جس کے ہونٹوں کے تِل پہ میں فدا ہوا لیکن یہ بھی سب کی طرح دھوکے باز نکلی
اس کی رونی صورت دیکھتے ہوئے آبص کا قہقہہ گونجا ۔ وہ کسی بھی جگہ زیادہ دیر سیریس رہ ہی نہیں سکتا تھا ۔
"کمینے تجھے بڑی ہنسی آرہی ہے تیرے ساتھ ہو نہ پھر پوچھوں" متین جو پہلے ہی تپا بیٹھا تھا اس کی بات پہ اس غصے سے گھورتے ہوئے جواب دیا
"نہیں بس موقع کی مناسبت سے ایک غزل یاد آگئی"

اذہان جو آنکھے بند کیے لیٹا تھا اس کی کمر پر دھموکا جڑا

"تو گدھے اب سنانے کے لئے منّتیں کریں کیا اب چل شروع ہوجا"
"آجاؤ لڑکیوں قریب آؤ آبی صاحب غزل سنا رہے ہیں"
طحہ نے ان تینوں لڑکیوں کو متوجہ کیا تو وہ بھی بیگ اٹھا کر ان کے قریب بیٹھ گئیں
"عرض کیا ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارشاد ارشاد" سب نے یک زبان ہو کر کہا
جو تجھ سے ہوئی اس محبت پہ لعنت
تیرے کالے،میلے دل پہ لعنت
تیرے نچلے ہونٹ کے تل پہ لعنت
"واہ واہ"
"گدھوں پوری تو سن لو"
آبص بیچ میں ٹوکے جانے پر بد مزہ ہوا
"پھر سے ارشااااااد ارشاااد"
تیری کی گئی ہر اک بات پہ لعنت
تیری ہر اک کال پہ لعنت
جہاں میں ہوتے ہیں ایک جیسے سات لوگ اگر
تمہاری شکل کے باقی چھ پر بھی لعنت
تیرے اقرار پہ لعنت تیرے جھوٹے پیار پہ لعنت
تجھ پہ لعنت تیرے نئے یار پہ لعنت
جو متین کے مرنے کے بعد ہوگی
اس قدر پہ لعنت
یہ سنتے ہی آبص اٹھ کر بھاگا تھا جانتا تھا متین درغت بنائے بغیر نہیں چھوڑے گا
متین پیچھے پیچھے تھا اور آبص اس سے بچنے کے لئے آگے آگے جبکہ باقی بیٹھے واہ واہ ہی کرتے رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اےےے میرییییی میریییییی زہرہ جبیں"
مکمل زورو شور سے سر میں گانےکی کوشش کے ساتھ ٹھمکے بھی جاری تھے پر ہائے رے قسمت
آبص نے ڈونگے کو مائیک سمجھ کر اپنا شوق پورا کرنا چاہا اور وہ کر بھی لیتا اگر جائشہ اس کے اوپر انڈہ پھینک کر اسے ہوش میں نہ لاتی تو
"آؤچ۔۔۔۔۔۔۔ یخخخخ ۔۔۔۔ جائشہ کی بچی سڑی ہوئی کریلی یار سارا ٹیمپو بگاڑ دیا"۔
آبص نے منہ بسورا
آبص کو تو اپنے منہ پر سے گرتے انڈے کو دیکھ کر ہی قے آنے لگی تھی اور باقی کی کثر اس کی بدبو نے پوری کردی تھی ۔
"ٹیمپو کے بچے تم مرواو گے اور پہلی بات میرے معصوم بچوں کو کچھ نہ بولو ورنہ ان کے ابا نے تمہارا اوپر کا ٹکٹ کاٹ دینا ہے اور دوسری بات گدھے میں نے بولا تھا ڈونگا نکال کر رکھو میں فرج سے انڈے نکالنے کیا گئی تم تو شروع ہی ہو گئے گئے تیسری بات ہماری والدہ حضور اگر اٹھ گئیں تو سمجھو ہم تو گئے اور چوتھی بات۔۔۔۔۔۔"
"اوئےےے چپ ایک منٹ دماغ کی دہی کردی پہلے تو یہ بتاو تمہاری معصوم اولادیں کب ڈاؤن لوڈ ہوئی اور ان کے ابا کہا سے ٹپکے"
آبص جو منہ کھولے کب سے ہونقوں کی طرح اسے تک رہا تھا بات سمجھ آنے پر اسے ٹوکا
"ٹپک گیا ہوگا کہیں سے مجھے کیا پتا" جائشہ نے ایسے منہ بنا کر کہا کہ جیسے سرے سے اس نے ایسی بات کی ہی نہ ہو
'اوئےےےے ایک منٹ میری تو شادی ہی نہیں ہوئی کہا کے بچے کون سے ابا" جیسے ہی اسے بات سمجھ آئی تب احساس ہوا وہ کیا بول گئی اور کس کے سامنے بول گئی اب آبص اس کا ریکارڈ نہ لگاتا یہ تو پھر ناممکن بات تھی

ڈھونڈتے ہیں منظر خواب جیسے از قلم ازلفہ شیخWhere stories live. Discover now