قسط نمبر 3

145 12 32
                                    

"عین اس وقت تمہیں ایسی کیا بات کرنی تھی جس کو جانے بغیر تمہیں نیند نہیں آنی" ۔
وہ جانتی تھی کہ عین کیا پوچھنا چاہتی ہے پھر بھی اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی۔ اب تو اسے اس سوال کی عادت ہوگئی تھی پر امید کا کوئی سرا اس کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔
"یہ تو بھول ہی گئی میں نے تمہیں کال کیوں کی تھی ہاں یاد آیا کیا بنا جاب کا کیسا رہا انٹرویو"
"ویسے ہی  جیسے  ہوتے ہیں زبردست لیکن ان کو میں ان کے کام کے لیے سوٹیبل نہیں لگتی اور نہ میرے پیچھے میرا امیر باپ ہے جو باقی لوگوں کی طرح میری سفارش کرا سکے"
وشمہ نے مایوسی سے سے کہا
"خیر چھوڑو تم اس بات کو میرے پاس بہت اچھی نیوز ہے تمہارے لئے پر میں وہ ابھی نہیں بتاؤں گی کل  صبح تمہیں لینے آؤں گی  تیار رہنا"
"عین مجھ سے کیسے ہوگا اتنا انتظار بہن نہیں ہو ابھی بتادو نا"
وشمہ کے بیچارگی سے کہنے پر نورالعین کھلکھلاکر ہنسی
"سچی یار مجھے تمہارا یہ رئیکشن بڑا پسند ہے پر اب تم انتظار کرو صبح  اور کوئی اچھا سا ڈریس پہننا اور لائٹ سا میک اپ بھی کر لینا تم ویسے ہی اتنی پیاری ہو لائٹ سے میک اپ میں تو غضب ڈھاؤ گی"
"عین اتنی صبح کس کی شادی ہے جو میں دلہن بن کر جاؤں" 
عین کی گل افشانیہ سن کر وشمہ کی آنکھیں پھیلی
"اوہو کسی کی شادی نہیں بس کہا ہے نہ سرپرائز ہے بس تم میری باتوں پر عمل کر لینا"
"اچھا دیکھوں گی" وشمہ نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا
"اور بابا تمہیں یاد کر رہے تھے آج تم نے  چکر نہیں لگایا"
"ہاں آج کافی مصروف رہی انکل کو بہت سارا پیار دینا میری طرف اور سلام بھی میں کل صبح آؤں گی نہ انکل سے بھی ملوں گی"
دونوں نے تھوڑی بات  کر کے کال منقطع کردی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کل جس طرح تم دونوں نے مجھے گھر بلایا وہ انداز مجھے زرا پسند نہیں آیا اگر تم دونوں کو ایسا کچھ کرنا بھی تھا تو اور بھی بہت سے طریقے تھے"
بہرام نے سپاٹ لہجے میں بولتے دونوں کو باری باری دیکھا
"سوری بھائی آئیندہ نہیں ہوگا"
دونوں نے یک زبان ہو کر کہا
"گڈ ہونا بھی نہیں چاہئے"
یہ کہتے ہی بہرام پھر سے نیوز پیپر کی جانب متوجہ ہوگیا
"اسلم بابا اب جلدی سے لے بھی آئیں یار ناشتہ چوہے بریک ڈانس کرنے لگے ہیں اب تو میرے پیٹ میں"
جائشہ نے بھوک سے نڈھال ہوتے ہوئے دہائی دی رات بہرام دونوں کو اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا ویسے بھی یہ دونوں اپنے گھر کے بجائے یہاں زیادہ پائے جاتے تھے
"بھائی آپ کی بھوکی بہن کھاکھا کر غبارہ بنتی جارہی ہے اگر ایسا ہی حال رہا نا پھر اس کا رشتہ کسی گاؤں والے گجر کے بھینسے کا ہی آنا ہے"
آبص نے ماحول کا تناؤ کم کرتے جائشہ  کے کھانے پر مزاق اڑایا
جائشہ نے شکائتی نظروں سے بہرام  کو دیکھا اگر اسے ابھی کھانے کی نہ پڑی ہوتی تو خود ہی نمٹ لیتی
بہرام نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے تسلی دی
اسلم بابا کچن سے ناشتہ لا کر ان کے سامنے رکھنے لگے جیسے ہی آبص کا ناشتہ اس کے سامنے رکھنے لگے بہرام نے انہیں فوراً روک دیا
"اں آں اسلم بابا آبص کا ناشتہ آج رہنے دیں وہ ڈائیٹنگ پر  ہے یہ پلیٹ مجھے دے دیں"
اسلم بابا نے بھی مسکراکر پلیٹ پیچھے ہٹالی
آبص کے تو چھکے ہی چھوٹ گئے یہ سوچ کر کہ آج بھوکا یونیورسٹی جانا پڑیگا
"بھائی اب یہ ظلم تو نہ کریں میں تو بالکل بھی ڈائیٹنگ پر نہیں ہوں"
بہرام اس کی بات کا نوٹس لئے بغیر جوس پینے میں
مصروف رہا
"اب  پتا چلا موٹے اب بولو کیا بول رہے تھے "
جائشہ کو اس کی حالت مزہ دے رہی تھی جبھی آملیٹ بمشکل نگلتے اس نے اپنا بھی حصہ ڈالا۔
--------------------------
"میں لینے نہیں آسکوں گا ڈرائیور کو کال کردینا "
اس نے یونیورسٹی کے گیٹ پر اتارتے ہوئے کہا
"اوکے بھائی" جائشہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا جبکہ آبص ادھر ادھر گردن گھمائے نجانے کیا تلاش کر رہا تھا بہرام جانتا تھا یہ ناراضی کا اظہار ہے
بہرام کو اس کے تاثرات دیھ کے بیک وقت پیار اور ہنسی دونوں آئی
"اوئے روٹھی ہوئی حسینہ کیفے سے کھالینا کچھ کھائے بغیر ویسے ہی گزارا نہیں تمہارا"
آبص کے تاثرات میں کوئی کمی نہ آئی
"بھائی آپ اس کی فکر نہ کریں میں ہوں نہ"
جائشہ نے مصنوعی کالر اٹھاتے ہوئے کہا
بہرام مسکراتے ہوئے واپس مڑ گیا
وہ لوگ گراؤنڈ میں کھڑے ان دونوں کا ہی انتظار کر رہے تھے ان دونوں کو سامنے سے آتا دیکھ کر وہ لوگ وہیں گراونڈ میں لگی بینچ پر ہی بیٹھ گئے
"اس کا کیوں منہ سوجھا ہوا ہے"
حاذم نے آبص کے لٹکے ہوئے منہ کو دیکھ کر جائیشہ سے پوچھا
"اس موٹی کی وجہ سے بھائی نے میرے انڈے پراٹھے سے میری ایک دن کی طلاق کرادی میں دکھی نہ ہوں تو اور کیا کروں"
آبص نے متین کے کندھے پر اپنا سر رکھتے ہوئے انہیں دکھڑا سنایا
"پرے ہٹ ویسے ہی مجھے تل والی چھوڑ گئی اوپر سے تجھے میرا ہی کندھا ملا ہے"
متین نے آبص کا سر دھکیلتے ہوئے وہی رونا رویا جس سے یہ لوگ اب عاجز آچکے تھے
ایک تو اس بیغیرت کی زندگی میں ایک تل والی ہی رہ گئی ہے ایک بار مل جائے قصہ ہی ختم کر دینا ہے میں نے"
طحہ نے جل کر کہا
"اوئےےے اپنے ان دو بٹنوں کو کنٹرول میں رکھ نکاح میں ایک مہینہ ہے دیکھتا رہیو بعد میں جی بھر کر"
حمزہ جو امل کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے میں مصروف تھا اذہان کے ٹہکہ دینے پر سنبھلا
امل تو شرم سے لال پیلی ہی ہوگئی تھی اسے ہر جگہ حمزہ شرمندہ ہی کرادیتا تھا ۔
امل حمزہ کی کزن تھی ان کی منگنی یونی کے  فرسٹ ائیر میں ہی  کردی گئی تھی اب ایک مہینے بعد نکاح رکھا گیا تھا۔
"چلو یار کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے"
سب جانے کے لئے کھڑے ہوئے
"اوئےےےے میرا ناشتہ"
"اس کے بعد فری ہے تب ٹھونس لیو ابھی چل" متین اسے گھسیٹتے ہوئے کلاس کے لئے لے کر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عین اب بتا دو کہا جارہے ہیں ہم" وشمہ نے کار میں بیٹھتے ہوئے پوچھا
"ہم تمہارے جاب انٹرویو کے لئے جا رہے ہیں"
"ہیں ۔۔۔۔ کیا ۔۔۔میرا انٹرویو مطلب "
"ہاں تمہارا انٹرویو ایک کمپنی انٹرویوز لے رہی ہے انہیں کچھ ماڈلز کی نیڈ ہے اپنے نئے پروجیکٹ کے لئے تو میں نے سوچا کیوں نہ ٹرائے کیا جائے تمہاری خوبصورتی کو دیکھتے مجھے یقین ہے یہ جاب تو پکی ہے"
نورالعین نے گاڑی ٹرن کرتے ہوئے اسے تفصیل سے آگاہ کیا
"پر عین میں نہیں کرپاؤں گی تم جانتی ہو مجھے صرف خوبصورتی ہی سب کچھ نہیں ہوتی اس میں اور بھی بہت کچھ دیکھا جا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اس کی بات بیچ میں ہے تھی کہ زور دار بریک لگنے سے ٹائر چرچرانے سے دونوں کے منہ سے چیخ نکلی کیونکہ وشمہ کا سر ڈیش بورڈ پر جبکہ نورالعین کا اسٹیرنگ پر لگتے لگتے بچا تھا ۔
اگر یہ لوگ بریک نہ لگاتے تو مقابل کی گاڑی سے زور دار تصادم کے ساتھ اچھا خاصا ایکسیڈنٹ ہو جانا تھا ۔
"اف کون اندھا نشے میں گاڑی چلا رہا ہے" عین تن فن کرتی باہر نکلی جبکہ وشمہ نے پوری کوشش کی اسے روکنے کی
"ہیلو مسٹر باہر نکلو" 
نورالعین نے گاڑی کا شیشہ دو  انگلیوں کی پشت سے بجایا 
وہ جو سوچ رہا تھا کہ جا کر اس صاحب سے  معزرت کرلے گا  کیونکہ اسے آفس جلدی پہنچنا تھا تبھی سامنے سے آتی گاڑی کو دیکھ کر بر وقت بریک نہ لگا سکا
لیکن سامنے کھڑی اس لڑکی کو دیکھ کر چونکا جو آسمانی کلر کی کرتی پر  نارنجی رنگ کا اسٹال گلے میں ڈالے دھوپ اور غصےکی وجہ سے اس کی رنگت میں سرخ و سفید رنگ کا امتزاج اسے اور بھی حسین بنا رہا تھا 
وہ گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولے باہر نکلا
"جی محترمہ کہیئے"
"جب گاڑی چلانا نہیں آتی تو سڑکوں پر لے کر نکلتے کیوں ہو سمجھتے ہو ایسے ڈرائیونگ کرنے سے لوگ مجھے بڑا آدمی سمجھیں گے"
"دیکھیں محترمہ"
"نہیں میں نہیں تمہیں دیکھنے کی ضرورت ہے رات رات بھر آوارہ دوستوں کے ساتھ مست رہیں گے اور دن میں خود تو ٹن ہوتے ہی ہیں گاڑی کو بھی لہرا لہرا کے چلاتے ہیں ۔۔"
"دیکھیں آپ غلط سمجھ رہی ہیں مجھے آفس ۔۔۔۔"
"اوہہہہہہہ تو اب غلط بھی میں ہی سمجھ رہی ہوں
امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولادیں ایسے ہی ہوتی ہیں جہاں انہیں لگتا ہے کہ اب یہاں دال نہیں گلنی تو دوسروں پر الزام لگا دیتے ہو اور تو اور تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"شٹ اپ۔۔۔۔۔جسٹ شٹ یور ماؤتھ ۔۔۔۔"
جاذل کے ایک دم دھاڑنے پر وہ خاموش ہوئی
"کب سے بولے جا رہی ہیں سامنے والی کی تو سننی ہی نہیں ہے ۔۔"
"ابھی میرے پاس بہت کچھ ہے کہنے کو اگر مجھے آفس سے لیٹ نہ ہو رہا ہوتا نہ پھر بتاتا کہ کیا چیز ہوں میں"
"بتانے کی ضرورت نہیں ہے دکھ ہی رہا ہے بڑی کوئی توپ چیز ہو تم '
نورالعین نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا
"جو وائٹ شرٹ کے اوپر بلیک کوٹ پہنے اور بلیک ہی ٹائی لگائے کافی ہینڈسم لگ رہا تھا
وہ ابھی اس کا جائزہ لینے میں ہی مصروف تھی جبکہ جاذل منہ میں بڑبڑاتا ہوا مڑ گیا
نورالعین بھی اسے منہ چڑاتے ہوئے گاڑی تک آئی اگر آج انٹرویو نہ ہوتا تو وہ کبھی اتنی جلدی چھوڑنے والی نہیں تھی۔

                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈھونڈتے ہیں منظر خواب جیسے از قلم ازلفہ شیخWhere stories live. Discover now