قسط نمبر 21

116 19 16
                                    

وہ کمرے میں آتے ہی اپنے بیڈ پر ڈھے گئی جن آنسوؤں پہ اتنی دیر سے قابو کر رکھا تھا اب وہ ایک دم سے بہنا شروع ہو گئے تھے اتنے عرصے سے وہ چچی کی باتیں برداشت کرتی آئی تھی مگر اب اس کی ہمت جواب دینے لگی تھی جب سے اس نے یونی جانا شروع کیا تھا ان کے طنز کے نشتروں میں بھی اضافہ ہو گیا تھا سناتی تو وہ اسے پہلے بھی تھی مگر اب تو بات اس کے کردار پر ہونے لگی تھی اسے اپنے چچا پر حیرت ہوتی تھی کہ خون کے رشتے اتنے سفید ہوتے ہیں وہ ان کے سگے بھائی کی بیٹی تھی مگر انہوں نے کبھی چچی کی غلط بات پر نہیں روکا تھا انہیں اس بات کا بھی خیال نہیں تھا کہ وہ ان کے اس بھائی کی بیٹی ہے جس کے پیسوں پر وہ عیش کررے ہیں سب کچھ تو علی صاحب کا بنایا ہوا تھا وہ تو ان کے مرنے کے بعد ان کی چھوڑی چیزوں پر عیش کررہے تھے‍۔ اپنا تو ان کا کچھ بھی نہیں تھا پوری عمر انہیں نے عیاشی کرنے میں گزاری تھی جب کبھی پیسوں کی ضرورت پڑی علی صاحب کے پاس چلے آتے تھے وہ تو تھے ہی نرم دل کبھی کسی کو منع نہیں کیا تھا یہ تو پھر ان کے بڑے بھائی تھے انہیں بھلا کیسے کرتے۔ اب تو اس کا دل کرتا تھا سب چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس چلی جائے مگر یہ ممکن نہ تھا۔
"ایشل میری بچی.....مت رو کیوں خود کو ہلکان کررہی ہے۔"
وہ ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھیں کہ ملازمہ نے آکر تھوڑی دیر پہلے والا واقعہ ان کے گوش گزر کیا جیسے سنتے ہی وہ ایشل کے پاس چلی آئی۔ انہوں نے ابھی کمرے میں قدم رکھا ہی تھا کہ ایشل کی سسکیاں ان کے کانوں میں گونجی وہ فورا سے اس کی طرف بڑھی جو بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی۔
"ایشل میرا بچہ بس کر، تجھے پتہ تو ہے اس کی عادت کا پھر کیوں دل پر لیتی ہے۔ ادھر میری طرف دیکھ‍۔"
ان کی بات پر وہ چہرہ جھکا کر ان کے سامنے بیٹھ گئی۔
انہوں نے آگے بڑھ کر اس کا چہرہ اوپر کیا تو اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہوا انہوں نے فورا سے اسے اپنے سینے سے لگایا۔ یہ ان کے سب سے فرمانبردار بیٹے کی اکلوتی اولاد تھی اسے تکلیف دینے کا مطلب اس کی روح کو تکلیف پہنچانا تھا ان کے سینے سے لگی وہ ایک بار پر رونے لگی اس کے آنسو انہیں اپنے دل پر گرتے محسوس ہورہے تھے اس کے آنسو انہیں ایک بڑا فیصلہ کر لینے پر مجبور کررہے تھے وہ دل میں بہت کچھ سوچ چکی تھی اب بس عمل کرنا باقی تھا۔
"بس اب رونا بند کر، تیری دادی ابھی زندہ ہے نہ، دوبارہ کچھ بول کر تو دیکھے وہ تجھے زبان کھنچ لو گی اس کی میں۔"
وہ اسے خود سے علیحدہ کرتے ہوئے بولی ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو پونچھے‍۔
"نہیں دادو اب میں انہیں خود پر باتیں کرنے کا موقع ہی نہیں دو گی۔"
"کیا کرے گی تو؟" اس کی بات پر وہ نہ سمجھی سے بولی۔
"دادو میں یونی جانا چھوڑ دو گی، جب میں گھر سے باہر ہی نہیں نکلو گی تو انہیں کوئی موقع ہی نہیں ملے گا۔"
وہ ان سے نگاہیں چراتے ہوئے بولی جانتی تھی اس کا فیصلہ انہیں پسند نہیں آئے گا۔ مگر باز اوقات انسان کو کچھ فیصلے نہ چاہتے ہوئے بھی لینے پڑتے ہیں۔
"ایشل تیرا دماغ تو نہیں چل گیا یہ بات کیسے سوچی تو نے۔"
اس کی بات سننے کے بعد ایک غصے کی لہر ان کے اندر دوڑی وہ اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالتے ہوئے بولی۔
"جی دادو میں سچ کہہ رہی ہوں میں اب آگے نہیں پڑھو گی۔"
"یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ تجھے پڑھانا علی کا نہ صر ف خواب بلکہ آخری خواہش بھی تھی۔"
"دادو باز اوقات کچھ خواہشات انسان کو نہ چاہتے ہوئے بھی ادھوری چھوڑنی پڑتی ہیں۔"
"ایشل میں تجھے ایسا کرنے کی کبھی اجازت نہیں دو گی۔"
"دادو آپ کیوں چاہتی ہیں میری زندگی مزید مُشکلات کا شکار ہو۔" وہ ان کی بات پر بےبسی سے بولی۔
"ایشل میں ایسا چاہتی ہو میں۔" وہ ہاتھ سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی لہجے میں واضح دکھ نظر آرہا تھا۔
ان کے لہجے پر اسے اندازہ ہوا کہ وہ کیا بول گئی ہے فورا سے آگے بڑھ کر ان کے دونوں ہاتھ تھامے انہیں اپنے لبوں سے لگایا اور بولی۔
"نہیں دادو میرا وہ مطلب نہیں تھا آپ مجھے غلط نہ سمجھے آپ کے علاوہ ہے ہی کون جو میرے بارے میں سوچے۔"
یہ سب بولتے آنسو ایک دفعہ پھر بہنا شروع ہو چکے تھے۔
اس کے آنسوؤں کو دیکھ کر وہ نرم پڑی اور بولی۔
"ایشل میرا چندا مشکلات اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں ان پر یوں دل چھوٹا نہیں کرتے تو صبر رکھ اللہ پاک ایک دن سب ٹھیک کر دیں گے۔"
"انشاءاللہ دادو آپ بس میرے لئے دعا کیا کریں۔" وہ دوبارہ ان کے سینے سے لگتے ہوئے بولی۔
"اب میں یہ سمجھو کہ تو دوبارہ پڑھائی چھوڑنے کی بات نہیں کرے گی۔" وہ اس کے گرد اپنے بازوں پھلاتے ہوئے بولی۔
"نہیں دادو میں یہ فیصلہ کر چکی ہوں آپ مجھے مجبور نہ کریں۔"
"پر ایشل......."
"پلیز دادو.... "
وہ ان کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
اس بار وہ بھی خاموش ہو گئی جانتی تھی اپنے اس فیصلے سے وہ خود بھی خوش نہیں ہے اس نے دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ لیا ہے ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنے بیٹے پر غصہ آرہا تھا جو اپنی بیوی کی حرکتوں پر خاموشی اختیار کئے ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کے دوسرے بیٹے کی آخری خواہش ادھوری رہ رہی تھی وہ دل میں ایک بڑا فیصلہ لے چکی تھی اگر ان کے بیٹے نے ان کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تو بھی اسے اس کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
✨.................................✨
"ہیلو موم!!" وہ انگلی پر گاڑی کی چابی گھومتا ہوا کچن میں داخل ہوا تو سامنے ہی رانیہ بیگم رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی اور امل کرسی پر بیٹھی پکوڑے کھانے میں مصروف تھی۔
"واہ آج تو پکوڑے بنے ہیں زبردست موم آپ نے تو دل خوش کر دیا۔"
وہ امل کو پکوڑے کھاتے دیکھ  کر بولا ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر ایک اٹھانے کی کوشش کی مگر امل نے اس کی یہ کوشش ناکام کر دی پلیٹ پیچھے کر کے۔"
" کیا ہے چھپکلی لینے دو نہ اور اب بس کرو تم ہر وقت کھاتی رہتی ہو موٹی ہو جاؤ گی پھر کوئی اچھا رشتہ بھی نہیں ملے گا اور میں پوری زندگی تمہیں برداشت نہیں کر سکتا۔"
"موم دیکھ رہی ہیں اپنے بیٹے کو آپ۔"
امل نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر تھپڑ رسید کیا ساتھ ہی رانیہ بیگم کو اس کی شکایت لگائی۔
"اگر اب تم دونوں نے کوئی تماشا کیا تو میں نے باہر بارش میں کھڑا کر دینا ہے دونوں کو۔"
اس سے پہلے کے دونوں شروع ہوتے رانیہ بیگم لہجے کو سخت کرتے ہوئے بولی۔
اس دوران میں اذان امل کی پلیٹ سے پکوڑے اچکنے میں کامیاب ہو گیا تھا کیونکہ اس کا دھیان رانیہ بیگم کی بات کی طرف تھا تو وہ اس کی حرکت کو دیکھ نہ پائی اب جب وہ دوبارہ سیدھی ہوئی تو اسے اپنی پلیٹ سے کھاتا دیکھ غصہ آیا ابھی وہ دوبارہ اس کی شکایت لگاتی کہ رانیہ بیگم کی دھمکی یاد آئی گئی اس لئے اسے گھورتے ہوئے اپنی پلیٹ لینے کو ہاتھ بڑھایا مگر اذان نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا اور ساتھ ہی ساتھ آنکھوں سے رانیہ بیگم کی طرف اشارہ کیا ان کی ڈانٹ کے ڈر سے چپ کر کے بیٹھ گئی مگر بعد میں اپنا بدلہ لینے کا فیصلہ بھی کر لیا۔
"موم ایک بات تو بتائے۔"
"ہاں پوچھو۔"
ان کی مصروف سے آواز گونجی۔
"آپ کو میری کوئی فکر بھی ہے یا نہیں۔"
"دماغ تو نہیں خراب ہو گیا تمہارا جو ایسی باتیں کررہے ہو ماں باپ کو بچوں کی فکر نہیں ہو گی تو کسے ہو گی۔"
اس کی بات پر وہ غصے سے بولی۔
جبکہ اذان کی عزت افزائی پر امل کی بتسی باہر نکل آئی جبکہ اذان کو اپنی بےوقت کی عزت کی وجہ سمجھ نہ آئی۔
"موم ڈانٹ کیوں رہی ہیں میں تو ایک سوال پوچھ رہا ہوں۔"
"یہ کوئی سوال ہے پوچھنے والا اور تمہیں کیوں لگ رہا ہے کہ مجھے تمہاری فکر نہیں ہے۔"
"دیکھے یار اب میں جوان ہو گیا ہوں آپ کو چاہئے میری شادی کردیں مگر آپ کو تو میرا کوئی خیال ہی نہیں ہے۔"
اس کی بات پر امل کا تو باقاعدہ قہقہہ گونج اٹھا جبکہ رانیہ بیگم حیرت سے اس کی طرف بڑھی۔
"کیا ہے موٹی کیوں ہنس رہی ہو۔"
اذان کو امل کا ہنسا ایک آنکھ نہ بھایا تبہی زرا غصے سے بولا۔
"کیا کہا آپ نے؟ شادی اور وہ بھی آپ کی؟ افف بھائی حد کرتے ہیں آپ کبھی شکل دیکھی ہے اپنی شیشے میں اگر دیکھی ہوتی تو یہ نا کہتے۔"
امل اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بولی۔اس سے پہلے وہ اسے کراکر جواب دیتا رانیہ بیگم بولی۔
کیا کہا تم نے کیا کردو تمہاری؟" وہ خطرناک تاثرات سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
"شا...شادی۔"
ان کے تاثرات دیکھنے کے بعد بامشکل اس کے منہ سے ادا ہوا۔
"شرم نہیں آئی تمہیں یہ بات کہتے ہوئے۔"
وہ اس کو گھورتے ہوئے بولی۔
"کیوں مام ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے؟ شادی کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اسلام میں بھی حکم ہے کہ جب اولاد جوان ہو جائے تو اس کی شادی کرنے میں دیر نہ لگاؤ۔" وہ ان کو اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے بولا۔
"شاباش میرے بیٹے تمہیں یہ یاد ہے کہ اسلام نے وقت سے اولاد کی شادی کرنے کا حکم دیا ہے مگر یہ نہیں یاد کہ اولاد کی شادی تب کرنی چاہیے جب وہ اس قابل ہو جائے۔"
"کیوں مام اتنا لائق تو ہوں میں۔" وہ ان کی بات پر برا مناتے ہوئے بولا۔
"تم کیا چاہتے ہوئے میں کسی کی بیٹی کی زندگی برباد کر دو تم جیسے نکھٹو سے بیاہ کر۔"
"موم۔"
وہ ان کی بات پر احتجاجی انداز میں بولا۔
"کیا موم پہلے اس قابل تو ہو جاوٴ کہ تمہاری شادی کی جاسکے۔"
"اتنا پیارا تو ہوں اور کیا چاہیے کسی کو۔"
"ہاں اس لڑکی نے آکر تو تمہاری خوبصورتی کو دیکھ کر اپنا پیٹ بھرنا ہے نہ۔"
"موم مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ میں آپ کا سگا بیٹا ہوں اتنی برائیاں تو کبھی کسی نے مجھ میں نہیں نکالی۔"
"میری بات سنو اذان اگر تم واقع میں چاہتے ہو کہ میں تمہاری شادی کر دو تو اسماعیل کے ساتھ آفس جانا شروع کر دو پھر سوچوں گی تمہاری اس خواہش کے بارے میں۔"
"اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔"وہ ان سے پوچھتے ہوئے بولا۔
"نو۔" وہ اسے صفائی سے منع کرتے ہوئے بولی۔
ان کی بات پر وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا یعنی اب کام کیے بنا بات نہیں بنے گی۔
"بھائی آج آپ کو شادی کا اتنا شوق کیوں چڑھا ہوا ہے سب خیر تو ہے نہ۔"
امل جو رانیہ بیگم کے انکار پر اس کا منہ اترتے دیکھ چکی تھی پوچھتے ہوئے بولی۔
"ہاں تو یار کیوں خیال نہ آئے میری عمر گزر رہی ہے انسان کی شادی وقت پر ہونی چاہیے۔"
"ہاں تو کیا ہوا آپ کون سا لڑکی ہیں جس کو بعد میں رشتہ نہیں ملنا۔"
"رشتے کی تو تم فکر نہ کرو لائن لگی ہے تمہارے بھائی کے لئے لائن۔"
"لگتا ہے وہ سب آندھی ہیں آنکھوں سے جو آپ کو پسند کر لیا انہوں نے۔"
"ہوں جلتے ہی رہنا تم دونوں میرے حسن سے۔"
"دوسرا کون۔"
"تمہاری مائرہ بہن اور کون ہو سکتا ہے بھلا۔"
"خبردار جو آپ نے مائر بھائی کو کچھ کہا تو۔"
وہ اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی۔
"اذان تم نے کوئی لڑکی تو پسند نہیں کر لی۔"
اس سے پہلے کے وہ امل کو کوئی جواب دیتا رانیہ بیگم کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تو وہ حیرت میں مبتلا ہو گیا کہ انہیں کیسے پتہ چلا مگر پھر خود پر قابو پاتے ہوئے بولا۔
"آپ کو کیسے پتہ چلا؟"
"مطلب ہاں۔" وہ اس کے سوال سے اندازہ لگاتے ہوئے بولی۔
"جی۔" ساتھ ہی اپنی نظریں جھکا گیا کہ نہ جانے وہ اس کے بارے میں کیا سوچے۔
"کون ہے وہ؟" ان کے پوچھنے پر وہ خود سوچ میں پڑ گیا کہ وہ تو ایشل کے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں ہے۔
"موم میں آپ کو بتاو گا مگر صحیح وقت آنے پر۔"   اس نے پہلے ایشل سے بات کرنے کا فیصلہ کیا پھر ہی ساری بات انہیں بتانے کا فیصلہ کیا۔
"ٹھیک ہے مجھے انتظار رہے گا۔" وہ مسکراتے ہوئے بولی اور دوبارہ کوکنگ رینج کی جانب بڑھ گئی۔ جبکہ ان کی مسکراہٹ سے اسے ڈھارس ملی۔
"چچ مجھے تو افسوس ہو رہا ہے اس لڑکی کے لئے جس نے آپ کو چنا ہے ساری زندگی کے لیے۔"
امل اس کو تپاتے ہوئے بولی۔
"تم مار نہ کھا لینا۔" وہ اس کو جواب دینے کے بعد سوچنے لگا کہ کیا ایشل مان جائے گی وہ تو سیدھے منہ اس سے بات نہیں کرتی یہ تو پھر زندگی کا معاملہ ہے۔
✨......................................✨
"کیا بات ہے کن سوچوں میں گم ہیں؟" وہ جو کافی دیر سے سمیعہ بیگم کو سوچوں میں گم دیکھ رہے تھے آخرکار جب برداشت نہ ہوا تو بول پڑے۔
ان کی بات پر وہ چونکی اور بولی۔
"جی کیا ہوا؟"
"آپ کو کیا ہوا ہے اتنی گہری سوچ، کیا سوچے جارہی ہیں۔"
احمد صاحب اپنا سوال دہراتے ہوئے بولے۔
"میں مائر کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔"
"اب کیا کر دیا صاحبزادے نے؟" ان کی بات پر وہ زرا حیران ہوتے ہوئے بولے۔
"نہیں کیا تو کچھ نہیں ہے اس نے۔"
"تو پھر؟"
"احمد مجھے لگتا کے کہ وہ ارحا کو پسند کرنے لگا ہے۔"
"ارحا کون ہے؟ وہ ارحا کے نام پر حیران ہوتے ہوئے بولے۔
"ارحا میری دوست روبینہ کی بیٹی ہے جس کے گھر میں آج گئی تھی۔"
"اچھا تو اس میں پریشانی والی کیا بات ہے آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ اسے کوئی لڑکی پسند آ گئی ہے۔"
"ہاں لیکن جب میں نے اس دن اس سے پوچھا تھا تو اس نے انکار کر دیا تھا اور بولا تھا کہ ارحا اس کے ٹائپ کی نہیں ہے تو پھر اب اچانک۔"
"ہو سکتا ہے اسے واقعی پسند نہ ہو آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔"
"نہیں احمد مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی آج روبنیہ کے گھر اس کی نظریں جس طرح بار بار ارحا پر بھٹک رہی تھی، آپ بھی ہوتے تو یہی کہتے۔"
"تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ہو سکتا ہے اسے اب اچھی لگنے لگی ہو۔"
"تو احمد اس نے تب انکار کیوں کیا۔"
ان کی سوئی اس کے انکار پر اٹکی ہوئی تھی۔
"تب اچھی نہیں لگتی ہو گی اب لگنے لگی ہو گی۔ آپ ایک کام کریں صبح اس سے پوچھ لینا مگر اب یوں پریشان نہ ہو۔"
وہ ان کو مفید مشورے سے نوازتے ہوئے بولے۔
"نہیں احمد بالکل نہیں اس دفعہ میں ارحا سے متعلق کوئی بات نہیں کرو گی مائر سے، میں دوبارہ اس کے منہ سے انکار نہیں سن سکتی۔"
"تو پھر بلاوجہ پریشان ہونا چھوڑے اگر وہ واقع ارحا کو پسند کرتا ہو گا تو آپ کو ضرور بتائے گا کیونکہ رشتہ تو ہم نے ہی لے کر جانا ہے نہ۔"
"جی یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔" وہ ان کی بات کی تائید کرتے ہوئے بولی۔
"تو اب بلاوجہ پریشان ہونا چھوڑے اور سو جائے۔"
وہ ان کو بولتے خود تو لیٹ گئے اور ساتھ انہیں بھی سونے کی تاکید کی جبکہ وہ دل ہی دل میں اپنے شک کو سچ میں بدلنے کی دعا کرنے لگی کیونکہ وہ ارحا کے علاوہ کسی اور لڑکی کو اپنی بہو نہیں بنانا چاہتی تھی پہلے دل سے ہی ان کا دل ارحا کے حق میں بول رہا تھا مگر وہ مائر کی وجہ سے خاموشی اختیار کیے ہوئے تھی۔
✨.........................................✨
وہ کب سے دروازے پر نظریں ٹکائے بیٹھا تھا مگر جس کا انتظار تھا وہ شاید انتظار کروانے میں ماہر تھا پچھلے دو ہفتوں سے وہ روز یونہی بیٹھ کر اس کا انتظار کرتا تھا مگر پھر مایوس ہو کر اٹھ جاتا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ پچھلے دو ہفتوں سے کیوں نہیں آرہی ہے پہلے تو روز آتی تھی اب جب اس کا دل اس کے دیدار کو تڑپنے لگا تھا تو اس نے نظر آنا ہی چھوڑ دیا تھا آخری دفعہ اس نے دو ہفتے قبل دیکھا تھا اور وہ دن یاد کرتے اس کے چہرے پر خودبخود مسکراہٹ بکھر گئی اب وہ بےصبری سے اس کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ تشریف لائے اور وہ اپنے دل کی حسرت پوری کرسکے وہ تقریبا ایک گھنٹے سے بیٹھا اس کا انتظار کررہا تھا پچھلے دو ہفتوں سے اس نے یہی کام پکڑا ہوا تھا کہ صبح سویرے ہی گھر سے نکل آتا  اور یونی آجاتا یونی آنے کے بعد کسی ایسی جگہ بیٹھ جاتا جہاں سے ہر آنے جانے والے کو دیکھ سکتا تھا اور تقریباً تب تک وہاں بیٹھا رہتا جب تک اسے یقین نہ ہوجاتا کہ آج وہ واقعی نہیں آئے گئ۔
ابھی بھی وہ بےزار سا گیٹ پر نظریں جمائے بیٹھا تھا مگر جس کا انتظار تھا اسے آنا ہی نہیں تھا۔ اس کی نظر سامنے سے آنے والے شخص پر ٹک گئ وہ دل میں کچھ سوچتا آنے والی کی جانب بڑھا۔
"بات سنے۔"
ارحا کے پاس پہنچنے پر وہ بولا۔
ارحا جو اپنے ہی دھیان میں چل رہی تھی اپنے کانوں میں گونجی والے آواز پر چونکی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ہی اذان کھڑا تھا۔
اس نے یاد کرنے کی کوشش کے اسے کہاں دیکھ رکھا ہے مگر زیادہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اسے جلد ہی یاد آگیا کہ یہ مائر کا دوست ہے۔"
"جی۔" وہ محض جی ہی کہہ سکی۔
"ایک بات پوچھنی تھی آپ سے اگر آپ برا نہ مانے تو۔"
"یہ تو آپ کی بات پر ڈی پینڈ کرتا ہے۔"
اذان کو اس سے اتنی صاف گوئی کی امید نہ تھی مگر وہ اپنے خیالات کو جھٹکتا اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"آپ کی دوست یونی کیونکہ نہیں آرہی دو ہفتوں سے۔"
اذان کی بات پر حیرت سے ارحا کا منہ کھل گیا یعنی اس کے علاوہ بھی کوئی تھا جو اس کی غیر موجودگی کو محسوس کر رہا تھا مگر ساتھ ہی یہ بات سمجھ نہ آئی کہ اذان کس حق سے اس کا پوچھ رہا ہے وہ ابھی تک حیرت سے منہ کھولے کھڑی تھی۔ جب اذان نے دوبارہ اسے مخاطب کیا۔
"میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے مس؟"
اس کی بات پر وہ سنبھالتے ہوئے بولی۔
"آپ کیوں پوچھ رہے ہیں اس کا؟"
"مجھے ایک کام ہے ان سے۔"
"کیسا کام؟"
"یہ تو میں انہیں ہی بتاو گا آپ کو کیوں بتاو؟"
اذان اس کی بات پر تیکھے انداز میں بولا۔
"پھر میں بھی کیوں بتاؤ آپ کو اس کے نہ آنے کی وجہ۔"
ارحا کو اس کا انکار کرنا پسند نہ آیا تبھی بولی۔
"دیکھے مجھے سچ میں ان سے ضروری کام ہے اس لئے پوچھ رہا ہوں۔"
"تو آپ مجھے بتا دیں میں آپ کا میسج ان تک پہنچا دو گی۔"
"میں وہ آپ کو نہیں بتا سکتا میری مجبوری ہے۔"
"میں بھی آپ کو نہیں بتا سکتی میری بھی مجبوری ہے۔"
"افف......... کہاں پھنس گیا۔" اذان اس کی بات پر سر پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا اور دل میں سوچا یہ لڑکی اچھے خاصے بندے کو پاگل کرسکتی ہے۔"
"دیکھے ماشاءاللہ آپ اتنی پیاری ہیں بالکل میری چھوٹی بہن کی طرح اپنے بھائی کی ایک بات نہیں مان سکتی آپ۔"
آخرکار وہ خوش آمد سے کام لیتے ہوئے بولا اس نے سن رکھا تھا کہ لڑکیاں اپنی تعریف پر خوش ہو جاتیں ہیں امل بھی تو ایسی ہی ہے۔"
"میں یہ بات پہلے سے ہی جانتی ہوں کہ میں بہت پیاری ہوں آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں اور میرے پاس اللہ کا شکر ہے بھائیوں جیسی نعمت موجود ہے اور کی ضرورت نہیں ہے۔"
"دیکھے ہم مسلمان ہے ایک مسلمان ہمیشہ اس کے مشکل وقت میں دوسرے کی مدد کرتا ہے کیا آپ چاہئے گی کہ آپ کی وجہ سے میرا کوئی بڑا نقصان ہو اور اللہ آپ سے ناراض ہوں۔"
وہ اس کو اپنی باتوں سے پوری طرح قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
"میرے نہ بتانے سے آپ کو کون سے نقصان ہو گا وہ بھی بڑا والا۔" ارحا اس کی بات پر حیرت سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے بولی۔ اس کا انداز دیکھ کر اذان کو ہنسی تو بہت آئی مگر ضبط کر گیا اور بولا۔
"دراصل میری ایک بہت قیمتی شے آپ کی دوست کے پاس رہ گئی ہے اور مجھے اس کے سلسل ان سے ملنا ہے۔"
"ایسی بھی کیا قیمتی چیز ہے کہ آپ اس کے لئے مرے جارہے ہیں۔"
"وہ چیز تو میں آپ کو نہیں بتا سکتا مگر ہاں اتنا ضرور بتا دو اگر وہ مجھے نہ ملی تو میں مرجاو گا اور یاد رکھے اپنی وصیت میں لکھ کر جاو گا کے میری موت کی ذمہ دار آپ ہیں اور پھر پولیس آپ کے گھر کے چکر لگائے گی لوگ آپ پر تھو تھو کرے گے۔"
اذان اس کو مستقبل کا خاکہ دیکھاتے ہوئے بولا۔ اس کی بات پر ارحا نے بےساختہ جھرجھری لی جیسے اگر اس نے اسے ایشل کا نہ بتایا تو وہ سب واقع سچ ثابت ہو گا۔
"دیکھے میں آپ کو اس کے بارے میں ضرور بتا دیتی مگر میں خود اس وجہ سے ناواقف ہوں کہ وہ یونی کیوں نہیں آرہی۔"
اس کی بات پر  بےچارگی سے بولی۔
ارحا کی بات سنے کے بعد اذان کا دل کیا کچھ اٹھا کر اپنے سر میں مار لے یعنی اگر وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کیوں نہیں آرہی تو اس کا اتنا وقت ضائع کرنے کا مقصد۔
"یہ بتا آپ مجھے پہلے نہیں بناسکتی تھی۔"
اب کی بار وہ زرا غصے سے بولا۔
"آپ نے پوچھا ہی کب۔"
وہ اپنی آنکھیں گھول گھومتے ہوئے بولی۔
"عجیب دوست ہیں آپ، آپ کی دوست دو ہفتوں سے لاپتہ ہے اور آپ کو کوئی فکر ہی نہیں ہے یہ کیسی دوستی ہے بھلا۔"
وہ تپے ہوئے انداز میں بولا۔
"خبردار اگر آپ نے ہماری دوستی کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا جب آپ کو کچھ پتہ نہیں ہے تو اپنے چھوٹے دماغ کو بلاوجہ نہ تھکائے۔"
وہ اسے سناتے ہوئے بولی اور سائیڈ پر ہوتی جانے لگی۔
اذان اپنی بےعزتی پر کھول کر رہ گیا اب وہ اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا ابھی تک کام جو ادھورا تھا۔ اس کو جاتا دیکھ ایک دم اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا وہ فورا اسے کے پچھے لپکا اور بولا۔
"روکے ایک منٹ۔"
"اب کیا تکلیف ہے؟" وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولی۔
اذان اس کے لہجے کو اگنور کرتے ہوئے بولا۔
"مجھے پتہ ہے آپ کو ایشل نے منع کیا ہے مجھے کچھ بھی بتانے سے تو میرے پاس ایک آئیڈیا ہے جس سے آپ کو مجھے کچھ بتانا بھی نہیں پڑے گا اور میرا کام بھی  ہو جائے گا۔"
اذان کی بات پر وہ حیران ہو گئی کہ اس نے بولا کیا ہے ایشل اسے کچھ بھی بتانے سے منع تو تب کرتی جب اس کی ایشل سے بات ہوئی ہوتی وہ دو ہفتوں سے اس کا نمبر ٹرائی کررہی تھی پہلے تو کال جاتی تھی مگر وہ اٹھاتی نہیں تھی اب پچھلے چار دنوں سے اس کا نمبر ہی نہیں مل رہا تھا وہ خود پریشان تھی کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ اس نے یونی آنا ہی چھوڑ دیا ہے اس کے پاس تو اس کے گھر کا پتہ بھی نہیں تھا بچپن سے دوست ہونے کے باوجود کبھی دونوں ایک دوسرے کے گھر نہیں گئی تھی ارحا نے جب کبھی بھی اس کے گھر کا پتہ پوچھا وہ ہمیشہ اس کو ٹال گئی ارحا کو حیرت ضرور ہوتی تھی کہ ایسی بھی کیا وجہ ہے کہ وہ اسے اپنے گھر نہیں بولانا چاہتی ایشل نے کبھی بھی اپنی زندگی کا کوئی پہلو اس پر ظاہر نہیں کیا تھا۔ وہ روز اس کا نمبر ٹرائی کرتی تھی مگر وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوتا تھا۔
ابھی اذان کی بات پر وہ اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے بولی۔
"کیسا آئیڈیا؟"
اس نے سوچا اگر وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ ایشل نے اس منع کیا ہے تو سمجھتا رہے ویسے ہی وہ تھوڑے دیر پہلے اس کی دوستی پر سوال اٹھا چکا تھا اب دوبارہ کوئی موقع نہیں کر دینا چاہتی تھی۔
"اگر آپ........"
وہ ذرا سے ہچکچایا کیونکہ بات ہی ایسی تھی۔
"میں کیا.... ؟"
"اگر آپ مجھے ایشل کا نمبر دے دیں تو....... "
"واٹ دماغ تو نہیں خراب ہو گیا آپ کا۔"
اذان کی بات پر ایک دم ہی اس کا دماغ گھوما۔
"دیکھے مجھے غلط نہ سمجھے مجھے واقع ان سے کوئی ضروری بات کرنی ہے۔"
"ایک لڑکی سے اس کی دوست کا نمبر مانگ رہے ہیں اور اوپر سے کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کو غلط نہ سمجھو۔"
"دیکھے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں میں ایسا ویسا لڑکا بالکل نہیں ہوں اگر آپ کہیں تو میں وعدہ کرنے کو تیار ہوں۔"
"بات وعدے کی نہیں ہے مگر میں ایشل کی پرمیشن کے بغیر آپ کو اس کا نمبر نہیں دے سکتی۔"
"آپ ایک بار مجھ پر یقین کر کے تو دیکھے۔"
"رشتہ کیا ہے ہمارے درمیان جو میں آپ پر یقین کرو۔"
ارحا کی بات پر اس کو چپ لگ گئی کیونکہ اس نے سچ بات جو کی تھی۔
"ہو گئی نہ بولتی بند‍۔" ارحا اس کو طنزاً دیکھتے ہوئے بولی۔
"دیکھے میری لئے ان کا نمبر ڈھونڈا کوئی مشکل کام نہیں ہے میں آپ سے مانگ رہا ہوں اس سے بڑھ کر آپ کو میری شرافت کا کوئی ثبوت چاہئے کیا۔ اور آپ پلیز مجھ پر رحم کریں یہ میری لئے زندگی اور موت کا سوال ہے۔"
"اگر ایشل کو پتہ چل گیا کہ میں نے آپ کو..... "
آگے اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
اذان فورا ہی اس کی ادھوری بات کا مطلب سمجھ گیا اور بولا‍۔
"آپ بےفکر رہے ایشل کو کانوں کان اس بات کی خبر نہیں ہو گی اور آپ مجھ پر بھروسہ رکھے میں ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں۔"
"بھروسہ کیا ہے تب ہی آپ کو نمبر دے رہی ہوں۔"
اس کے بعد اس نے اپنے موبائل سے اذان کو نمبر نوٹ کروایا اور بولی۔
"چلتی ہوں کلاس کے لئے لیٹ ہو رہا ہے۔"
"بہت شکریہ آپ کا، الله ہمیشہ آپ کو خوش رکھے آپ کے نصیب اچھے کرے۔"
وہ خوشی خوشی اسے دعائیں دیتے ہوئے بولا۔
اس کے بعد ارحا کلاس کی جانب بڑھ گئی اور اذان بھی نمبر پانے کے بعد ہواؤں میں اڑانے لگا۔ ارحا صرف اس وجہ سے نمبر دینے کو مانی تھی کیونکہ جس طرح اذان اسکی منت کررہا تھا وہ اسے بہت کچھ سمجھانے پر مجبور کررہا تھا وہ دل میں اس بات پر خوش تھی کہ کوئی ہے جو اس کی دوست کو اپنانا چاہتا ہے اور اسے اذان ایک اچھے اور سلجھے ہوئے گھر کا لگا اس نے تو صرف اس کے لئے ایک راستہ نکالا تھا باقی مرضی تو ایشل کی تھی کیونکہ اسے لگتا تھا دلوں کو جوڑنا نیکی کا کام ہے۔"
  ✨.........................................✨
وہ کب سے اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھ رہی تھی جہاں چڑیا پھڑپھڑا رہی تھی جو کبھی اِدھر جاتی تو کبھی اُدھر۔ اس چڑیا کو دیکھ کر ایشل کوایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اسے  یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ دیکھو میں کتنی آزاد ہوں اپنی مرضی سے سانس لے سکتی ہے ہر کام اپنی مرضی سے کر سکتی ہوں اور جبکہ میں.....وہ خوامخواہ اپنا اور اس چڑیا کا موازنہ کرنے لگی کہ اس چڑیا کے برعکس وہ ایک قید میں ہے جو نہ کہ اپنی مرضی سے کچھ کرسکتی ہے اور نہ ہی کہیں آجا سکتی ہے وہ گھر سے تو باہر پہلے بھی نہیں نکلتی تھی محض ایک یونی جاتی تھی مگر اب تو پچھلے دو ہفتوں سے وہاں جانا بھی چھوڑ دیا تھا وہ اب چچی کو خود پر باتیں کرنے کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتی تھی اس کے مطابق لوگ تو تب ہی باتیں کرتے ہیں جب ہم انہیں موقع میسر کرتے ہیں اور اب وہ ایسا کوئی موقع انہیں میسر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اپنے فیصلہ سے نہ تو وہ خود خوش تھی اور نہ ہی دادو وہ تو باقاعدہ ناراضگی دیکھا رہی تھی اس سے کوئی بات نہیں کرتی تھی اگر وہ کچھ پوچھ لیتی تو ہوں یا ہاں میں جواب دے دیتی وہ زیادہ اس لئے دکھی تھی کہ ایشل کو پڑھانا علی صاحب کی خواہش تھی جب زندگی ان سے سانسوں کی محلت چھین رہی تھی تو انہیں نے ان سے وعدہ لیا تھا کہ وہ ایشل کو خوب پڑھایے لکھائے گی اور اسے کبھی ماں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گی۔ غصہ تو اسے خود پر تھا بے انتہا تھا کہ وہ کیسے چچی کی باتوں کی وجہ سے اپنی زندگی برباد کر رہی تھی وہ تو یہی چاہتی تھی کہ وہ گھر بیٹھ کر ان کی اور ان کی بیٹیوں کی خدمت کریں اور وہ اب ان کی بات پر عمل پیرا ہو رہی تھی ان دو ہفتوں میں بہانے بہانے سے وہ بہت سارے کام کروا چکی تھی اور وہ کچھ کہہ بھی نہ سکتی تھی کیونکہ وہ ان کے رحم و کرم پر تھی۔  آج کل وہ اللہ سے بار بار ایک گلہ کر رہی تھی کہ ماں باپ کیوں اپنی اولاد کو اس دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں خود تو وہ چلے جاتے ہیں پھر یہ دینا انہیں اپنی انگلیوں پر نچاتی ہے۔ وہ آج کل خود سے بےزار تھی کسی کام میں اس کا دل نہیں لگتا تھا اس کا بس چلتا تؤ ایک ایسی دینا میں چلی باتی جہاں کوئی غم، پریشانی نہ ہو وہ ہو اور بس خوشیاں مگر یہ صرف اس کی خیالی دنیا تھی۔
سوچتے سوچتے اس کا دھیان ارحا کی طرف ہو گیا وہ پچھلے دو ہفتوں سے اس لاتعدار کالز کر چکی تھی مگر اس نے ایک بھی کال نہ اٹھائی ابھی چند روز قبل اس نے اس کا نمبر ہی بلاک کر دیا تھا وہ آہستہ آہستہ ہر چیز سے کنارہ کشی اختیار کررہی تھی اس نے اپنی پوری زندگی میں صرف ارحا سے ہی دوستی کی تھی مگر پھر بھی کبھی اپنا آپ اس سے نا بانٹا تھا وہ خود میں رہنے والی لڑکی تھی کسی سے اپنے دکھ درد شیئر نہ کرتی تھی اندر ہی اندر خود پر سب برداشت کرلیتی تھی ارحا نے اگر کبھی اس سے کچھ پوچھنے کی کوشش بھی کی تو ہمیشہ بات کو ہنسی میں ٹال جاتی لوگوں کو دیکھانے کو خوش رہنا تو وہ بہت عرصے سے سیکھ چکی تھی۔ ارحا نے کافی دفعہ اس کے گھر کا پتہ پوچھا تھا مگر اس نے کبھی نہیں بتایا وہ نہیں چاہتی تھی کہ چچی اس کے سامنے ایسی ویسی کوئی بات کریں اور اسے شرمندگی ہو اس وجہ سے نہ وہ کبھی اس کے گھر گئی اور نہ اس کو اپنے گھر آنے دیا۔
مسلسل بجتی موبائل کی گھنٹی نے اسے سوچوں سے باہر نکالا اس نے بیڈ پر پڑے موبائل کو اٹھایا تو کوئی ان نون نمبر تھا اس نے سوچا کون ہوسکتا ہے پھر خیال آیا کہ شاید ارحا ہو وہ اس کی کال نہیں اٹھ رہی تو اس وجہ سے دوسرے نمبر سے کررہی ہو۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے کال اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ابھی وہ اوکے کا بٹن دباتی کہ کال کٹ گئی وہ دوبارہ آنے پر اٹھانے کا فیصلہ کرتی واپس موڑی کہ کمرا ایک بار پھر موبائل پر بجنے والی ٹون سے گونج اٹھا۔ اس نے کال اٹھائی مگر بولی کچھ نہیں۔
ہیلو ایشل۔"
وہ جو سمجھ رہی تھی کہ ارحا ہے لیکن آگے سے مردانہ آواز سن کر حیرت ہوئی مگر اس سے زیادہ حیرت اسے اپنا نام سن کر ہوئی وہ سوچ میں پڑ گئی کہ کون ہے جو اس کا نام بھی جانتا ہے۔
"ہیلو ایشل آپ سن رہی ہیں میری بات۔"
"وہ جو سوچوں میں الجھ گئی تھی دوسری طرف سے آنے والی آواز پر چونکی اور بولی۔
"کون؟"
"میرے دل کی دنیا ہلا کر پوچھ رہی ہے کون۔" وہ یہ بات منہ میں بڑبڑا ہی سکا کہنے کی ہمت نہ ہوئی بولا تو محض۔
"ناچیز کو اذان اسماعیل کہتے ہیں۔"
"کون اذان اسماعیل میں آپ کو نہیں جانتی۔"
آواز سے اسے لگ رہا تھا کہ اس نے کہیں سن رکھی ہے مگر یاد نہیں آرہا تھا کہاں۔
"وہی جس نے دو ہفتے قبل آپ کی مدد کی تھی یاد ْآیا کہ نہیں۔"
وہ اسے یاد دلاتے ہوئے بولا۔ تو اس کے ذہن میں فلیش بیک چلنے لگا اسے وہ دن اچھی طرح یاد آیا جس نے اس کی زندگی بدل دی تھی۔
"کیوں کال کی ہے آپ نے اور نمبر کہاں سے ملا آپ کو میرا؟" وہ اس سے پوچھتے ہوئی بولی ساتھ ہی اس انسان پر غصہ آیا جس نے اس کو نمبر دیا تھا یعنی حد ہو گئی بنا پوچھے ہی کسی کو نمبر دے دیا۔
"ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے یہ تو پھر نمبر ہے۔"
"آپ اپنے کال کرنے کا مقصد بیان کریں گے یا میں کال کاٹو" وہ اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی۔
"نہیں کال مت کاٹے بتاتا ہوں۔" اس کی دھمکی کا اس پر اچھا خاصا اثر ہوا۔
"آپ یونی کیوں نہیں آرہی ہیں پچھلے دو ہفتوں سے۔"
وہ اس کے نہ آنے کی وجہ پوچھتے ہوئے بولا۔
"آپ سے مطلب۔ آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے یہ سوال پوچھنے والے۔"
اس کی بات اسے کے غصے کو ہوا دے گئی اسے خوامخواہ ہی اذان پر غصہ آنے لگا اس لگا اس دن جو کچھ بھی ہوا اس کی وجہ اذان ہے نہ وہ اسے چھوڑنے کی ضد کرتا، نہ ہی وہ اس کے ساتھ آتی، نہ چچی اسے دیکھ کر یوں باتیں بناتی اور نہ ہی وہ اپنی تعلیم یوں ادھوری چھوڑتی۔ دل میں ایک بدگمانی نے جگہ لے لی۔
"آپ ہر وقت اتنے غصے میں رہتی ہیں یا پھر مجھے دیکھ کر یہ غصہ عود آتا ہے۔"
"آپ کو یہی فضول بات کرنی تھی میں کال کاٹ رہی ہوں اب دوبارہ مجھے کال مت کیجئے گا مہربانی ہو گی۔"
یہ کہتے ہی وہ کال کاٹنے لگی تھی کہ دوسری طرف سے اذان کی آواز ایک بار پھر گونجی۔
"ایک منٹ ایشل میری پوری بات سن لیں۔"
کچھ سوچتے ہوئے اس نے اس کی اگلی بات سننے کا فیصلہ کر لیا۔
"بولیں۔"
"میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں کچھ ضروری بات کرنی ہے آپ سے۔"
"اور میں آپ سے ہرگز نہیں ملنا چاہتی آپ کو جو بھی بات کرنی پے یہی موبائل پر بولے۔"
"دیکھے جو بات مجھے کرنی ہے وہ یوں موبائل پر نہیں ہو سکتی اس کے لئے ملنا ضروری ہے۔"
"تو پھر ٹھیک ہے مجھے آپ کی  بات سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔"
اذان نے سوچا تھا وہ ملنے پر مان جائے گی مگر اس نے تو صاف منع کر دیا تو اس نے فون پر ہی بتانے کا فیصلہ کیا اسے ڈر تھا کہ آج تو اس نے فون اٹھا لیا ہے ہو سکتا ہے وہ اگلی دفعہ نہ اٹھائے اور وہ اسے ہمشیہ ہمیشہ کے لئے کھو دے جو کہ وہ کبھی نہیں چاہتا تھا۔
"دراصل میں اپنے ممی پاپا کو آپ کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔"
وہ جو دو منٹ سے انتظار کر رہی تھی کہ وہ کچھ بولے مگر جب وہ نہ بولا تو وہ کال کاٹنے لگی تھی کہ اس کی آواز کانوں میں گونجی۔ اس کو سمجھ نہ آئی کہ وہ انہیں اس کے گھر کیوں بھیجنا چاہتا ہے تبھی حیرت سے بولی۔
"کس لئے۔"
اسے سمجھ نہ آئی کہ کیا بولے آج سے پہلے کبھی کسی سے اس بارے میں بات نہ کی تو ابھی بلاوجہ ہی نروس ہورہا تھا۔
"دراصل ایشل میں نا...... "
ہونٹوں پر زبان پھیر کر ان کو تر کیا اور دوبارہ بات شروع کی
"ایشل میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں آپ کو اپنا نام دینا چاہتا ہوں اور اسے سلسلے میں انہیں آپ کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔" بات سن کی اس نے ایک لمبی سانس لی جیسے کوئی بھاری بوجھ دل سے اتر گیا ہو۔
دوسری طرف اذان کی بات سن کر اسے گویا سانپ سونگھ گیا اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ کوئی مرد اسے کبھی ایسی بات کہے گا اور اب اسے سمجھ نہ آئی کہ کیا ریکشن دے۔
"ایشل آپ سن رہی ہیں میری بات۔"
دوسری طرف اس کی لمبی خاموشی پر اذان کو تشویش ہوئی تبھی بولا۔
"آپ کی ہمت بھی کیسے ہوئی مجھ سے اس قسم کی بکواس کرنے کی۔"
اب جو احساس اس کے اندر جاگا تھا وہ تھا غصے کا شدید غصے کا پہلے تو اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہے مگر اب جب تھوڑا غور کیا تو سمجھ آئی کہ اس نے بولا کیا ہے۔
"ایشل آپ مجھے غلط مت سمجھے میں سچ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں میری نیت بالکل صاف ہے۔"
"آپ نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے کہ میں آپ کی اس فضول بکواس پر یقین کر لو گی اور ہنسی خوشی آپ سے شادی کے لئے مان جاو گی تو یہ آپ کی بھول ہے مجھےان لڑکیوں جیسا ہرگز نہ سمجھئے گا جو آپ کی دولت کی چکا چوند سے متاثر ہو جائیں گی اور خود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آپ کے سپرد کر دیں گی۔"
وہ بنا سوچے سمجھے جو منہ میں آیا بولتی گئی۔
ایشل کی باتیں اذان کا دماغ گھومانے کو کافی تھی وہ بولا تو لہجہ بھرپور غصے سے بھرا ہوا تھا‍۔
"شٹ اپ ایشل!! کتنا جان گئ ہیں آپ مجھے جو اس قدر فضول بکواس کر رہی ہیں میں نے کب آپ کے سامنے اپنی دولت پر گھمنڈ کیا ہے جو آپ مجھے پر اس قدر گھٹیا الزام لگا رہی ہیں۔"
"آپ کی ہمت بھی کیسے ہوئے مجھے سے اس انداز میں بات کرنے کی۔"
ایشل کو اس کا انداز اور غصہ دلا گیا۔
"اپنا انداز اور لہجہ دیکھا تھا آپ نے کسی نے سچ ہی کہا ہے دوسرے کو کہنے سے پہلے اپنے گربیان میں جھانک لینا چاہیے۔"
"اگر آپ نے مجھے دوبارہ کال کرنے کی کوشش کی تو میں آپ کا وہ حال کرو گی کہ خود کو پہچان نہ سکے گے۔"
وہ اس کی بات کو نظرانداز کرتے اپنی بولی اور کال کاٹنے لگی۔
"اذان جو اس کا ارادہ بھانپ گیا تھا فورا بولا۔
"کال کاٹنے سے پہلے میری ایک بات کان کھول کر سن لیں آپ، شادی تو میں آپ سے ہی کرو گا چاہئے اس کے لئے مجھے کسی بھی حد تک جانا پڑے جتنا چھپنا پے چھپ لیں آپ کی تمام راہیں میری طرف ہی آتی ہیں۔ رکھتا ہوں خدا حافظ۔"
یہ کہتے ساتھ ہی اس نے کال کاٹ دی جبکہ دوسری طرف اس کے انداز پر اندر تک کانپ گئی اسے امید نہیں تھی کہ وہ ایسی بات کرے گا مگر سب کچھ ہماری سوچ کے مطابق تھوڑا ہوتا ہے اس نے فورا سے جاکر اس کا نمبر بلاک کیا اور اگلی دفعہ کسی بھی ان نون نمبر سے کال نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اپنا موبائل بیڈ پر پھینکتی وہ فریش ہونے کی نیت سے واشروم کی جانب بڑھ گئی۔
  ✨..........................................✨
وہ پچھلے دو ہفتوں سے یہی سوچ رہا تھا کہ وہ اس سے بات کیسے کرے یہ بات تو ثابت ہو گئ تھی کہ وہ اس کے دل میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گئ ہے اب ہر حال میں اسے وہ چاہیے وہ سمیعہ بیگم سے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر چاہتا تھا کہ ایک دفعہ پہلے ارحا سے بات کر کے اس کی رائے جان لے اس کو پتہ نہیں کیوں یقین تھا کہ وہ اسے نہ نہیں کرے گئ مگر دل کہتا تھا کہ اگر اس نہ کر دی تو......  دل کی اس پکار پر وہ ایک پل کے لئے تو بالکل خاموش ہو جاتا تھا مگر پھر اسے کھونے کا سوچ کر ایک شور سے مچتا تھا دل میں اور اس نے خود کو یہ چیز باور کروا دی تھی کہ چاہے وہ ہاں کرے یا نہ ارحا صرف اس کی ہی ہے اگر وہ اس کے پوچھنے پر نہ مانی تو وہ اسے پانے کے لئے ہر حد تک گزر جائے گا کیونکہ اس نے ایک دفعہ جس چیز کو پانے کی چاہ کردی تو بس وہ اس کی ہی ہو گی چاہیے جو مرضی ہو جائے۔
ابھی وہ اتنے دن سے اس سے بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ تلاش کر رہا تھا مگر اسے کہنے کی ہمت نہیں ہو پاہ رہی تھی زندگی کا پہلا موقع تھا کوئی تجربہ بھی نہ تھا کہ فورا سے اسے جا کر کہہ دیتا اور بات ختم۔
کلاس سے نکلتا وہ یہی بات سوچ رہا تھا کہ اپنے دل کی داستان اسے کیسے سنائے کہ اس کی نظر سامنے سے آتی ارحا پر پڑی آج وہ اکیلی تھی ساتھ میں اس کی کوئی دوست بھی نہ تھی اسے لگا یہی مناسب موقع ہے اسے جا کر اسے سب بتا دینا چاہئے آگے جو بھی ہو گا وہ دیکھا جائے گا یہی بات سوچنے اس نے اپنے قدم ارحا کی جانب بڑھائے ابھی وہ آدھے راستے ہی پہنچا تھا کہ سامنے سے سنان ارحا کی طرف دوڑا آیا چہرے سے ہی پریشانی عیاں ہو رہی تھی ارحا بھی اسے یہاں دیکھ کر حیران تھی اور اس سے زیادہ حیرت اسے اس کے تاثرات دیکھ کر ہوئی وہ بری طرح گھبرایا ہوا تھا اس نے ارحا سے پتہ نہیں کیا بولا کہ ایک دم ہی آنسوؤں اس کی آنکھوں سے روا ہو گئے اور وہ روتے ہوئے تیزی سے سنان کے ساتھ چل پڑی۔
دور سے یہ سب دیکھتا مائر خود پریشانی مبتلا ہو گیا اور زیادہ تکلیف اسے ارحا کے رونے سے ہوئی اسے سمجھ نہیں آئی کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ ایک دم رونا شروع ہو گئ وہ جو اپنا حال دل اسے بتانے کا فیصلہ کیے اس کی طرف بڑھ رہا تھا وہ ایک بار پھر ویسے ہی ادھورا رہ گیا اور اب تو ارحا کو روتے دیکھ اسے بےچینی نے آ گھیرا تھا مگر وہ صبر کے گھونٹ بھرتا باہر کی طرف بڑھ گیا مگر دل اس کے رونے کا سبب جاننا چاہ رہا تھا۔   ✨........................................✨
"سنان جلدی چلاو نہ، مجھے جلدی سے ان کے پاس پہنچنا ہے وہ اس قدر تکلیف میں ہوں گے۔"
جب سے وہ خبر اسے ملی تھی اس کے آنسوؤں ہی نہیں تھم رہے تھے یہ جان کر ہی اس کی تکلیف میں اضافہ ہورہا تھا کہ اس کا جان سے عزیر بھائی تکلیف میں ہے۔
جب سنان نے سے یہ خبر سنائی تو اسے لگا جیسے کسی نے اس کے جسم سے روح کھنچ لی ہے وہ بھائی جس نے زندگی میں کبھی کوئی تکلیف اس تک نہیں پہنچنے نہیں دی تھی آج خود تکلیف میں تھا۔
"چلا تو رہا ہوں اب جہاز تو ہے نہیں کہ اڑانا شروع کردو۔"
وہ جو خود بھی سبحان کی وجہ سے پریشان تھا ارحا کی بات پر غصے سے بولا۔ وہ ہوسپٹل میں تھا جب روبینہ بیگم نے اسے ارحا کو لانے کو کہا تو وہ بھاگا بھاگا اسے لینے آیا ابھی وہ جتنی تیزی سے گاڑی چلا سکتا تھا چلا رہا تھا۔
"تم رونا تو بند کرو تمہارے رونے سے وہ ٹھیک تو نہیں ہو جائیں گے نہ، دعا کرو ان کے لئے۔ تمہارے آنسوؤں سے زیادہ تمہاری دعاوٴں کی ضرورت ہے انہیں۔"
سنان اس کو مسلسل روتا دیکھ کر بولا۔ اس کی بات پر وہ دل میں اپنے بھائی کی لمبی عمر کی دعا کرنے لگی البتا آنسوؤں ابھی بھی جاری تھے۔       ✨......................................✨
اس نے جیسے ہی ہوسپٹل کے آگی گاڑی روکی تو وہ فورا سے اتری اور اندر کی جانب بڑھی مگر آگے جا کر اسے رکنا پڑا کیونکہ اس راستے کا علم نہیں تھا ابھی اسے کھڑے دو منٹ گزرے تھے کہ سنان گاڑی پارک کر آیا اور اسے ساتھ لیے ایمرجنسی کی جانب بڑھا جہاں روبینہ بیگم اور رمشاء بھابھی پہلے سے ہی موجود تھی۔
وہ دوڑتی ہوئی روبینہ بیگم کے گلے لگی اور پہلے سے بہتے آنسوؤں میں مزید تیزی آگئی۔
"ماما..... بھا..... بھائی۔" وہ ہچکیوں کے درمیان محض اتنا ہی بول سکی۔
"ارحا میری جان رونا بند کر، دعا کرو بس۔"وہ خود پر قابو پاتے ہوئے بولی۔ وہ ماں تھی اس سے زیادہ تکلیف میں تھی مگر اس کی خاطر اپنی تکلیف کو قابو میں کر گئ اور اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے بولی۔
وہ اپنی کوئی فائل گھر بھول گیا تھا اور وہی لینے واپس آرہا تھا جب اس کی ٹکر ایک دوسری کار سے ہو گئی کیونکہ سبحان کی کار کی رفتار زرا تیز تھی تو اسے زیادہ چوٹیں آئیں تھی آس پاس کے لوگ ہی اسے ہوسپٹل لے کر آئے اور وہاں سے سنان کو کال کر کے بتایا تھا۔
اب وہ چاروں پچھلے تین گھنٹوں سے اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے تھے مگر اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا چاروں اس کی صحت اور لمبی عمر کے لئے دعا گو تھے۔
"مبارک ہو آپ کے مریض کو ہوش آگیا ہے اور اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔" نرس نے باہر کر انہیں اطلاع دی تو اب سب کی جان میں جان آئی۔
"ہم مل سکتے ہیں ان سے۔" سنان نے آگے بڑھ کر نرس سے پوچھا۔
"جی ہم وارڈ میں منتقل کر دیں پھر۔"
وہ پروفیشنل انداز میں جواب دیے آگے بڑھ گئی۔
"ارحا اب تو رونا بند کر دو ٹھیک ہیں وہ۔"
وہ ابھی بھی رو رہی تھی کہ سنان نے آگے بڑھ کر اسے کہا۔ تو وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آنسوؤں پونچھنے لگی۔ رمشاء بھابھی اور روبینہ بیگم سبحان کے ہوش میں آنے کا سن کر شکرانے کے نوافل ادا کرنے چلی گئی مگر وہ وہی بیٹھی رہی۔   ✨.......................................✨
"شکر ہے بھائی آپ کو ہوش آگیا ورنہ اگر آپ تھوڑی اور دیر تک نہ اٹھتے تو ہوسپٹل میں سیلاب آسکتا تھا۔"
تھوڑی دیر میں اس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا اب وہ چاروں وہاں بیٹھے اس سے باتیں کر رہے تھے روبینہ بیگم نے اس کی بےاختیاطی پر اسے خوب باتیں سنائی تھی جو وہ مسکراتے ہوئے سنتا رہا۔
اب سنان واپس اپنی ٹون میں آتے ہوئے بولا۔
وہ اس کو جواب دینے کی بجائے سبحان کی حالت کو دیکھتی رہی اور ایک بار پھر آنسوؤں بہنا شروع ہو گئے۔ اس کے ایک بازو پر پلستر لگا ہوا تھا ماتھے اور پاؤں پر پٹی بندی ہوئی تھی چہرہ بھی مرجھا چکا تھا صبح جب وہ اسے چھوڑنے جارہے تھے تو کتنے فریش تھے اور اب۔
اس کے پاس چند گنے چنے رشتے تھے اور انہیں کھونے کا وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔
اس کو ایک بار پھر روتا دیکھ کر سبحان نے اسے آنکھ کے اشارے سے اپنے قریب آنے کا کہا تو وہ قدم اٹھاتی اس کے بیڈ کے ساتھ رکھی کرسی پر آ بیٹھی جو رمشاء بھابھی نے اس کے لئے چھوڑ دی تھی۔
"اب کیوں رو رہی ہو‍۔ اب تؤ ٹھیک ہوں میں۔"
"مگر بھائی اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو................. "
آگے وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکی۔
"یار جس کے پاس اتنی پیاری بہن کی دعائیں ہوں اُسے کچھ ہو سکتا ہے بھلا۔"
وہ محبت سے اس سے پوچھتے ہوئے بولے۔
"ان کی بات پر وہ مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا گئ۔
"اب بہت رونا دھونا ڈال لیا اٹھو تم لوگوں کو گھر چھوڑ آو رات کو میں  یہاں رکو گا۔"
"میں نہیں جاؤ گی میں یہی بھائی کے پاس روکو گی۔"
وہ اس کی بات پر انکار کرتے ہوئے بولی۔
"تم یہاں رک کر کیا کرو گی۔"
"میں اپنے بھائی کے پاس رک رہی ہوں تمہیں کیا۔"وہ اپنی پرانی ٹون میں واپس آتے ہوئے بولی۔
"ارحا بیٹا سنان ٹھیک کہہ رہا ہے آپ گھر جاو۔"
"پھر بھائی....."
"بھائی کا پیارا بیٹا ضد نہیں کرتے۔"
وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولے تو وہ بھی ہاں میں سر ہلا گئ۔
"چھٹی کب تک ملے گی اسے۔" روبنیہ بیگم سنان سے پوچھتے ہوئے بولی۔
"ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے بول رہے تھے ایک دو دن میں۔"
"اچھا۔" انہوں نے آگے بڑھ کر سبحان کا ماتھا چوما اور گھر کی طرف بڑھ گئ ان کے جانے کے بعد وہ بھی آنکھیں موند گیا۔  ✨ .........................................✨
"کیا بات ہے جب سے آئے ہو پریشان نظر آرہے ہو۔"
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا جب سمیعہ بیگم اندر داخل ہوتے ہوئے بولی۔
"نہیں تو ماما۔"
وہ ان کو جواب دیتے ہوئے بولا۔
"اگر کوئی بات ہے تو بتاؤ۔"
وہ اس کے انکار سے مطمئن نہیں ہوئی تھی تب ہی دوبارہ بولی۔
ایک دفعہ تو دل نے بولا کہ بول دے کہ روبینہ بیگم سے کال کر کے پتہ کریں کہ سب ٹھیک ہے نہ مگر پھر خود ہی اپنی بات کی نفی کی کہ سمیعہ بیگم اس کے بارے میں کیا سوچے گی۔
"نہیں سچ کہہ رہا ہوں ماما بس آفس کے کام کی وجہ سے پریشان ہوں۔" وہ ان کو مطمئن کرنے کی خاطر جھوٹ بولتے ہوئے بولا۔
ورنہ تو جب سے اسے روتے دیکھا دل تو اس کا بھی اداس ہو گیا تھا اور بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کے آنسوؤں کا سبب معلوم کر کے انہیں ختم کر دے۔
"پریشان کیوں ہوتے ہو کام تو ہو جاتے ہیں ان کی وجہ سے اپنی صحت تھوڑی خراب کرتے ہیں۔"
"جی ماما۔" وہ فرمانبرداری سے بولا۔
"چلو اب سو جاؤ کافی وقت ہو گیا ہے۔"
وہ اس کو سونے کی تاکید کرتے اٹھ گئی وہ بھی ان کی بات پر لیٹ گیا مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی بار بار اس کی روتی نظریں آنکھوں کے سامنے آرہی تھی وہ دل میں اس کے ٹھیک ہونے کی دعا کرنے لگا۔
    ✨..........................................✨
"آئے ہائے میرا بچہ تین دن ہسپتال میں گزار کر آگیا اور کسی نے مجھے کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔"
سبحان کو ڈسچارج ہوئے آج دوسرا دن تھا تین دن بعد  اس چھٹی دے دی گئی تھی اب وہ گھر پر آرام کررہا تھا سب اس کی خدمت میں لگے ہوئے تھے ارحا بھی یونی نہیں جارہی تھی اس نے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ جب تک سبحان مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوجاتا و یونی نہیں جائے گی کسی کو اس کی بات پر اعتراض نہ تھا ابھی وہ چاروں لڈو کھیلنے میں مصروف تھے جب رافعہ بیگم نے گھر میں داخل ہوتے ہی شور مچانا شروع کردیا سب اٹھ کر باہر نکل آئے۔ ان کی بات پر ارحا کا تو منہ ہی بن گیا تھا۔ وہ سب کو پیچھے دکھلتے ہوئے سبحان کے پاس پہنچی جو ارحا کے سہارے باہر آیا تھا ارحا کو پیچھے کرتی اس کی پیشانی چومی۔ باقی سب سے لاکھ اختلاف ہونے کے باوجود بھی سبحان ان کی آنکھوں کا تارا تھا وہ ہمیشہ اس پر بےپناہ پیار لٹاتی تھی ابھی جیسے ہی کیسی جاننے والے سے اس کے حادثے کی خبر ملی تمام ناراضگی بھولا کر دوڑی چلی آئی۔
"پھپھو پریشان نہ ہوں اب ٹھیک ہوں میں۔"
وہ ان کا ہاتھ تھامتا صوفے پر بیٹھتا بولا۔
"خاک ٹھیک ہے رنگ دیکھ کتنا پیلا ہورہا ہے تیرا۔"
وہ ان کی محبت پر مسکرا دیا۔
"میرا بھی کچھ لگتا ہے مجھے بتاتے کیا تکلیف ہورہی تھی۔"
وہ توپوں کا رخ روبینہ بیگم کی طرف کرتے ہوئے بولی۔
"آپا پریشانی میں بتانے کا یاد نہیں رہا۔"
"ہاں سب کو پتہ ہے سوائے میرے، اتنی غیر اہم ہوں میں تم لوگوں کے لئے۔"
"پھپھو ماما سچ کہہ رہی ہیں۔" ارحا روبینہ بیگم کی صفائی دیتے ہوئے بولی۔ انہوں نے اس کی بات پر ایک گہری نظر اس پر ڈالی اور منہ موڑ گئی ان کی حرکت پر ارحا اپنا غصہ ضبط کر کے رہ گئی۔
"پھپھو آپ کیسی ہیں؟" سبحان ان سے پوچھتے ہوئے بولا۔
"تجھے دیکھ لیا نہ اب بالکل ٹھیک ہوں۔" وہ پیار سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
"اتنے دونوں سے کہاں تھیں کوئی خبر ہی نہیں آپ کی۔"
"ہاں تجھے اتنا نہیں ہوا کہ جاکر اپنی پھپھو کی خبر لے آو۔
"پھپھو کام میں مصروف ہوتا ہوں بس اس لئے نہیں آسکا جلد آو گا نہ۔"
"اللہ تجھے مزید ترقی دے۔"
ان کی بات پر سب زیر لب آمین بولے۔
"ویسے آنا تو میں بہت دنوں سے چاہ رہی تھی ایک ضروری بات کرنی تھی تم سب سے۔"
"جی بولے پھپھو۔"
انہوں نے ایک نظر ارحا کو دیکھا اور بولی۔
"یہاں کھڑی میری منہ کیا دیکھ رہی ہے جا میرے لئے چائے لے کر آ۔"
وہ جو ان کی بات پر ان کی طرف دیکھ رہی تھی ان کی اس حرکت پر غصے سے اپنی مٹھیاں بھنچی اور ایک نظر روبینہ بیگم کو دیکھا کیونکہ سب جانتے تھے کہ ارحا کو کچن کا کوئی کام نہیں آتا تو انہوں نے آنکھ کے اشارے سے اسے جانے کا بولا۔ وہ دل میں رافعہ بیگم کو کوستی آگے بڑھ گئی۔
"ہوں....ایسی بھی کیا بات ہے جو میرے سامنے نہیں کر سکتی۔ خیر مجھے کیا جو بھی ہو۔"
"میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ لیا ہے اور امید کرتی ہوں تم لوگ میرے فیصلے کی لاج رکھو گے۔"
ارحا کے جانے کے بعد وہ بولنا شروع ہوئی۔
ان کی اتنی لمبی تحمید باندھے پر سب حیران ہوئے کہ ایسی بھی کیا بات ہے جو وہ اتنا سوچ سمجھ کر بول رہی ہے ورنہ وہ تو ہمیشہ سیدھی بات کرنے کی عادی تھی پھر بھلے ہی وہ اگلے کو اچھی لگے یا بری۔
ان کی بات پر سبحان نے ایک نظر سامنے بیٹھی روبینہ بیگم کو دیکھا اور بولا۔
"جی پھپھو آپ حکم کریں ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں گے۔"
سبحان کی بات سننے کے بعد وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی۔
"میں اپنے عمر کے لئے ارحا کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں۔"
اپنی بات مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سب کی طرف دیکھا مگر ان کی بات سن کر کمرے میں بیٹھے تمام افراد کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا۔
دوسری طرف کچن میں کھڑی ارحا کے کانوں تک ان کی بات پہنچی تو اس کے ہاتھ میں موجود سیب نیچے جا گر..................... ✨......................................✨
Assalam o Alaikum!!!
Sorry for too late
Busy in exams
Hope u understand
Long epii
#comment #vote #follow
🙂🙂

راحت زِندگی Where stories live. Discover now